نظر میں بس گئے جس کی اسے غرور نہ ہو

عظیم

محفلین


نظر میں بس گئے جس کی اسے غرور نہ ہو
یہ بات یُوں ہے کہ دنیا ہو تیری، نور نہ ہو

تُو چاہے لاکھ ستا لے مجھے رلا لے مگر
یہ التجا ہے کہ آنکھوں سے میری دور نہ ہو

کچھ اس طرح سے مجھے پاک صاف کر اے عشق !
کہ دشمنوں کو بھی دل میں کوئی فتور نہ ہو

یہ چاہتی ہے حقیقت میں وقت کی رفتار
کوئی بھی شخص زمانے میں ذی شعور نہ ہو

تُو خاکِ پا کے برابر نہیں ہے نیکوں کی
عظیم رہ کہ تُو حضرت نہ ہو حضور نہ ہو



*****​
 
Top