نظام تعلیم پر جنگ آزادی کے اثرات

زلفی شاہ

لائبریرین
1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے ہندوستان میں جو نظام تعلیم تھا۔ اس میں مدرسے ہی کلیدی ادارے تھے۔ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی تھی اور صدیوں سے مسلمانوں میں ایسا ہی نظام چلا آیا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے گورے اپنے تئیں اس زعم میں مبتلا ہو چلےتھے کہ انہوں نے ہندوستان پر مکمل اجارہ داری قائم کر لی ہے اور اب کسی میں دم خم نہیں کہ وہ بدیسی مضبوط حکومت کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا کر سکے۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد گورے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لئے مجبور ہو گئے۔ ہندوستان کے لوگوں کو مستقل محکوم بنانے کے لئے بہت سارے اقدامات کے ساتھ ساتھ انہوں نے سابقہ تعلیمی ڈھانچے کو تبدیل کر دیا۔ یقینا گورے طاقت کےبل بوتے پر مسلمانوں کو زیادہ دیر تک زیر نہ رکھ سکے لیکن اپنی پالیسی کے زرو پر انہوں نے مسلمانوں کو ایسا زیر کیا ہے کہ آزادی کی 63 بہاریں دیکھنے کے باوجود ہم ذہنی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ گوروں نے تمام وسائل کو انگریزی تعلیم کے واسطےمخصوص کر دیا۔ انگریزی تعلیم کو لازمی قرار دیا ۔ ہر سہولت انہیں اداروں کے لئے مخصوص کردی اور انہی اداروں کے تعلیم یافتہ لوگوں پر نوازشات کے دروازے کھولے۔ ایسے حالات میں دین کا درد رکھنے والے حضرات نے اپنے تئیں دین کی تعلیم کا مشکل کام سنبھالا، بڑی جانفشانی اور ذاتی لگن سے دینی تعلیم والے سلسلے کو برقرار رکھا۔ 1857ء سے پہلے برصغیر میں ایک نظام تعلیم تھا یعنی مدرسہ میں پہلے قرآن کی تعلیم اور اس کے بعد مختلف شعبوں کی تعلیم۔ جبکہ 1857ء کے بعد دو نظام تعلیم رائج ہوئے۔ ایک انگریزی نظام تعلیم اور دوسرا اسلامی نظام تعلیم۔ یہی دو نظام تعلیم آج تک ہمارے ملک میں چل رہے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہےکہ انگلش سکولوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والا اور پھر بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا بابو جب اسلام کو دیکھتا ہے تو اسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے جوا سے مغربی اساتذہ نے اسلام کے متعلق زہر پڑھایا ہوتا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ مناصب زیادہ تر انہی لوگوں کے پاس ہیں جنہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہوتا انکو آیۃ الکرسی سنانے کا کہا جائے تو قل ھو شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ جو دینی مدارس سےسند یافتہ ہوتے ہیں ان کی اکثریت مساجد اور مدارس تک محدود رہتی ہے۔ عصری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اعلیٰ مناصب حاصل نہیں کر سکتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا جائے اور وہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے اور گورنمنٹ سکولوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ منتخب دینی کتب کی تعلیم کو ضروری قرار دیا جائے تاکہ مسلمانوں کا ہر بچہ دین کے متعلق ابتدائی معلومات رکھتا ہو اور وہ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے‘‘ کے منصب سے سبکدوش ہو سکے۔
 
Top