نسخ بمقابلہ نستعلیق ----از:ابوشامل

ہمارا اکبری مزاج
ابوشامل
چند روز قبل محترم ریاض شاہد کے بلاگ پر مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا وہ مشہور قصہ پڑھا، جس میں انہوں نے دو یورپی باشندوں کی ہندوستان میں چھاپہ خانہ لگانے کی درخواست نامنظور کردی تھی۔ وجہ؟ اس کی چھپائی میں وہ نفاست اور خوبصورتی نہ تھی، جو ہاتھ سے لکھی خطاطی میں ہوتی تھی۔گو اکبر کو خود پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا، لیکن پھر بھی شاہی مزاج چھاپہ خانے کی ایسی بھدی چھپائی کو کہاں برداشت کرتا؟ اسے تو اپنے دربار میں موجود دنیا کے بہترین خطاطوں پر ناز تھا۔ یورپی وفد کی پیشکش رد کردی گئی اور یوں ہندوستان علم کی دوڑ میں پیچھے ہی رہ گیا، بلکہ آج تک پيچھے ہی ہے۔



کہنے کو تو یہ صرف یہ ایک واقعہ ہے لیکن یہ دور جدید کے ایک اہم مسئلے کے حوالے سے ہماری بہترین رہنمائی بھی کرتا ہے۔ تقریباً یہی کہانی گزشتہ صدی میں اس وقت بھی دہرائی گئی جب اردو کو مشینی لکھائی میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئی لیکن ہم "اکبر بادشاہ" بنے۔ ہر اس طریقے کو رد کرتے رہے جو ہمیں نستعلیق جیسا خوبصورت دکھائی نہ دیتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج 'انفارمیشن ایج' میں دنیا نجانے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہماری اردو اب بھی انٹرنیٹ پر عہد طفلی میں ہے، یا یوں کہیے کہ گھٹنوں گھٹنوں چل رہی ہے۔

ہم نے اکبر کی طرح کا ان پڑھ رویہ اپنایا، جسے خوبصورتی عزیز تھی، علم کی ترویج میں آنے والی آسانی نہیں۔ اگر ہماری بنیادی ترجیح علم کی ترسیل و ترویج ہوتی تو ہم کبھی 'نستعلیقی چکروں' میں نہ پڑتے۔ "مجبوری کانام شکریہ" کہہ کر تاہوما ہی سے کام چلا لیتے، تاج نستعلیق کا انتظار نہ کرتے۔

درحقیقت ہمارا قومی مزاج بھی کراچی میں چلنے والی منی بسوں جیسا ہے۔ اندر چاہے سیٹیں پھٹی اور ٹوٹی ہوئی ہوں، انجن میں چلنے کا دم نہ ہو، 28 مسافروں کی جگہ 56 سوار ہوں، لیکن ۔۔۔۔ بس کو چمک پٹی کے ذریعے دلہن کی طرح سجایا ضرور جائے گا۔ لاکھوں روپے آرائش کے بجائے اگر اس کے انجن پر لگا دیے جاتے تو شاید کہیں بہتر ہوتا۔ بس ۔۔۔۔ اردو کا معاملہ بھی کچھ یہی ہے، نستعلیق کی 'چمک پٹیوں' کے انتظار میں ہم نے اس کی ترقی کو سالوں کے لیے روک دیا اور اب جبکہ اردو سے کئی گنا چھوٹی زبانیں اس سے کئی 'نوری سال' آگے نکل چکی ہیں، ہم قافلے سے بچھڑ جانے کے بعد صحرا میں سرابوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں حالات کا درست ادراک ہی نہ ہوسکا۔ نستعلیق پر پیشرفت ضرور ہوتی، اس کی اہمیت سے بالکل انکار نہیں، لیکن ایک مشکل منصوبے کی تکمیل تک انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا بھی تو کوئی عقلمندی نہیں۔ جب 2006ء کے انہی ایام میں اردو وکی پیڈیا پر پہنچا تھا تو اس وقت تاہوما کے علاوہ کوئی ایسا موزوں فونٹ میسر نہ تھا جو اردو میں کام کرنے کے لیے میسر ہوتا۔ نفیس ویب نسخ ضرور موجود تھا، کسی حد تک اس سے استفادہ بھی حاصل کیا لیکن جبر کرتے ہوئے خود کو تاہوما کا عادی بنایا۔ یہاں تک کہ ڈیڑھ سے دو ہزار چھوٹے موٹے مضامین اسی فونٹ کی مدد سے لکھ کر اردو وکی پیڈیا کی نظر کیے۔ میرے تمام ساتھی نے بھی، جن کی مدد سے اردو وکی پیڈیا نے 10 ہزار مضامین کا تاریخی سنگ میل عبور کیا، اس انتظار میں نہیں بیٹھے رہے تھے کہ ایک اچھا نستعلیق فونٹ آئے، جو آنکھوں کو بھلا لگے، نظروں کو خیرہ کرے، دل کو لبھائے اور من کو گدگدائے، تب ہم یہ کام کریں گے۔ اردو کا اصل مسئلہ نستعلیق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اور جو لوگ نستعلیق بمقابلہ نسخ کی جنگ کو اردو کی بقاء کا معاملہ سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ اسے تجاہل عارفانہ کہہ لیں یا بہانہ!

نستعلیق بلاشبہ عربی خطاطی کے ماتھے کا جھومر ہے لیکن 'مذہبِ اردو' کا پہلا کلمہ ہرگز نہیں ہے کہ اس کو پڑھے بغیر دائرۂ اردو میں داخل ہی نہیں ہوا جا سکتا۔ ہمیں خود کو 'بے نستعلیق' زندگی کا عادی بنانے کی ضرورت تھی، ہم نہ بنا سکے، لیکن اب جبکہ اس کی کمی پوری ہو چکی ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں ترویج اردو پر لگانی چاہئیں۔

یہ بات یاد رکھیے کہ ہماری اس 'تکنیکی کمزوری' کو دور کرنے کے لیے نہ مائیکروسافٹ میدان میں آئے گا اور نہ ٹوئٹر اور فیس بک۔ کیونکہ ہم منافع بخش مارکیٹ نہیں ہیں، ہمیں اس حقیقت کو بھی سمجھنا ہوگا۔ جس مارکیٹ سے کاروباری ادارے کو منافع نہ ہو، وہ اس کے لیے کبھی اتنے پیچیدہ مسئلے حل نہیں کرتے۔ البتہ بنیاد پڑ چکی ہے، ایسے نستعلیق فونٹس میدان میں آ چکے ہیں، جو کم از کم اس پروپیگنڈے کا تو خاتمہ کر ہی سکتے ہیں کہ اردو میں نستعلیق فونٹ سرے سے ہے ہی نہیں ۔ اب اگلا مرحلہ ہے، جس قدر ہوسکے، قومی زبان کو ذریعہ اظہار بنائیں۔ بلاگ ہو یا فیس بک اور ٹوئٹر، اردو میں لکھی اور جس موضوع پر آپ مہارت رکھتے ہوں اسے اپنے قلم کی زد میں لائیں۔

ایک ہزار سال قبل کئی سیاحوں نے دنیا کی سیر کی ہوگی لیکن دنیا آج صرف ابن بطوطہ کو جانتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس نے جو دیکھا، وہ لکھا۔ آپ بھی لکھیے اوراردو کے ساتھ خود کو بھی امر کرلیجیے۔
بشکریہ :http://urdusource.com/dareecha/urdu-nastliq-vs-naskh-debate/
 

آصف اثر

معطل
ابو شامل بھائی اور دیگر محبان اردو نے تاہوما اور ونڈوز میں بلٹ ان نسخ استعمال کرکے جو ہزاروں مضامین تحریر کیے ہیں وہ لائق تحسین اور لائق تقلید ہیں ۔ مگر مضمون کا فونٹ اور مرکزی خیال دونوں پڑھنے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔جب تک نستعلیق نہ تھا اس وقت تک تو ٹھیک لیکن جب سے نستعلیق آیا ہے ہمیں نستعلیق اور کسی حد تک بہترین اور خوبصورت نسخ ہی میں لکھنا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ونڈوز میں پہلے سے موجودمائکروسافٹ کا نسخ دیکھ کر ہی میں مطالعہ روک دیتا ہوں۔
0*9Cxd8PX0UX1WiU8b.jpeg

آخر یہ درجہ بالا نسخ بھی کوئی فونٹ ہے جس میں کچھ پڑھا جاسکے۔۔۔اصل میں یہ نسخ ہے ہی نہیں۔ بس سیدھے سادے لکیر کھیچ لیے اور جاں خلاص۔کچھ کرننگ ہوتی تب کوئی بات ہوتی۔کوئی ذرا اسے ہاتھ کے نسخ یا اکبری دور کے نسخ سے ہی موازنہ کرے انہیں یہ مذاق آسانی سے نظر آجائے گا۔
بات اگر عوام کی کی جائے تو وہ اس میں کچھ پڑھتے ہی نہیں۔ ہاں جب نستعلیق میں وہی کچھ پیش کیا جائے تو وہ خوشی سے پڑھ لیتے ہیں۔ خوب صورت فونٹ کی اہمیت سے کسی بھی طور صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
اچھا مرکزی خیال+بُھدافونٹ=بُھدا مرکزی خیال+ اچھا فونٹ=ثقیل اور بورنگ
لہذا جب تک دونوں لائق اعتنا نہ ہوں کوئی کچھ نہیں پڑھے گا یا کم از کم دلچسپی نہیں لےگا۔
 

ابن عادل

محفلین
ظاہر بات ہے کہ محبوب اگر خوبصورت جامے میں ہو تو کیا ہی بات ہے لیکن ایسا نہ ہوتو کیا ہم محبوب سے نظریں چرا لیں ۔ ابوشامل کی بات میں وزن بھی ہے اور ''اخلاص کی مٹھاس''بھی ۔ اور پھر جب برصغیر میں چھاپہ خانہ آگیا تو پھر کیا ہم تستعلیق کے چکر میں پڑے ؟؟؟ مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر کے مشہور رسائل جرائد دیکھیے اسی نسخ میں ہیں ۔ لہذا یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں شروع ہی سے فروغ اردو کے حقیقی پہلو پر توجہ دینی چاہیے تھی ۔
 
Top