عرفان صدیقی نرم جھونکے سے یہ اک زخم سا کیا لگتا ہے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نرم جھونکے سے یہ اک زخم سا کیا لگتا ہے
اے ہوا ! کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے

ہٹ کے دیکھیں گے اسے رونقِ محفل سے کبھی
سبز موسم میں تو ہر پیڑ ہرا لگتا ہے

وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری
ابر پھیلا ہوا دامانِ دعا لگتا ہے

اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

ایسی بے رنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دنیا
پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے

دیکھنے والو ، مجھے اس سے الگ مت جانو
یوں تو ہر سایہ ہی پیکر سے جدا لگتا ہے

زرد دھرتی سے ہری گھاس کی کونپل پھوٹی
جیسے اک خیمہ سرِ دشت بلا لگتا ہے​
 
Top