نثری نظم : شب کو ڈھالنا ہے

ابھی کچھ ہی دیر میں
سورج کی زرد آنکھ سے سراسیمہ
شبنم کے سارے قطرے
پر لگائے اُڑ جائیں گے
گل و گلزار سب
تنہا ہی رہ جائیں گے
اور مزدور سارے
اپنے جسموں کی آبیاری کےلئے
پسینے کا لباس اوڑھے
کاموں میں جُت جائیں گے
کہ شام کو انہیں
بچوں کو پالنا ہے
ایک بار پھر سے شب کو ڈھالنا ہے ۔۔۔!


خرم
 
Top