نام وَر موسیقار، نیاز احمد کی کتھا

34215-SingerNiazAhmed-1349710395-448-640x480.jpg

سنہری یادوں سے بھرا کمرہ، جہاں کھڑکی سے جھانکتی دھوپ میں ماضی دمکتا ہے، جہاں اعزازات اور تمغوں سے سجا ایک شیلف ہے۔ اور ایک دیوار، جو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کی صورت ایک سُریلی کہانی بیان کرتی ہے، ماحول کی سحرانگیزی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اور وہیں اُس انوکھے سنگیت کار سے ملاقات ہوتی ہے، جس نے چار عشرے قبل اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایسا سفر، جس کے طفیل دلوں کو چُھو لینے والے سدابہار نغمے سامنے آئے۔ پر جب وقت بدلا، حالات بدل گئے۔ اور یوں اِس کہانی میں بے قیمتی کا المیہ در آیا!

یہ نام وَر موسیقار، نیاز احمد کی داستان ہے، جن کے کارناموں کی فہرست طویل ہے، جنھوں نے نصرت فتح علی خان کی منفرد آواز کے لیے ’’میرا انعام پاکستان‘‘ جیسا ملی نغمہ ترتیب دیا۔ میڈم نورجہاں کے لیے ’’نیناں تم چپ رہنا‘‘ جیسا گیت کمپوز کیا۔ جب مہدی حسن کی آواز اور نیاز احمد کے سنگیت کا ملن ہوا، ناقابل فراموش گیتوں نے جنم لیا۔ خان صاحب کے مشہور زمانہ البم ’’کہنا اُسے‘‘ کی موسیقی اُنھوں نے ہی ترتیب دی۔ عابدہ پروین کے لیے بھی دھنیں بنائیں۔ ’’اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘ جیسا ملی نغمہ کمپوز کیا، جسے الن فقیر نے اپنی آواز دی۔ دیگر مقبول ملی نغموں میں ’’ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘ (گلوکار: خالد وحید)، ’’خوش بو بن کر مہک رہا ہے میرا پاکستان‘‘ (گلوکار: لبنیٰ ندیم) اور ’’ہم مائیں، ہم بہنیں‘‘ (گلوکار: ناہید اختر) شامل ہیں۔

محمد علی شہکی کے گائے ہوئے مقبول گیت ’’میری آنکھوں سے اِس دنیا کو دیکھو‘‘، ’’نظارے ہمیں دیکھیں‘‘ اور ’’تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘ نیاز صاحب ہی کے کمپوزکردہ تھے۔ ’’دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا‘‘، ’’یہ شام اور تیرا نام‘‘ اور ’’پاس آکر کوئی دیکھے‘‘ جیسے مشہور نغموں کی دھنیں بھی اُن ہی کی تخلیقی اپج کا نتیجہ ہیں، جنھیں عالم گیر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ نیرنور، گل بہار بانو اور محمد یوسف سمیت پاکستان کے کئی معروف گلوکاروں نے اُن کے کمپوز کردہ گیت گائے۔ مختلف گلوکاروں کے سولو البم بھی تیار کیے۔ کئی ڈراما کے ٹائٹل سونگ تخلیق کیے۔ فلمی موسیقی بھی دی۔ فن، گیتوں ہی تک محدود نہیں رہا۔ ’’نیلام گھر‘‘، ’’خبرنامہ‘‘ اور ڈراما سیریل ’’عجائب کہانی‘‘ کے علاوہ پی ٹی وی کے لوک داستانوں پر مشتمل پروگرام کی موسیقی دی۔

نیاز صاحب نے اپنے کام کی کوئی گنتی، کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔ قطعی اندازہ نہیں کہ کتنے گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں، اور اسے ضروری بھی خیال نہیں کرتے کہ اُن کے بہ قول، سیکھنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ ماضی کے اِس مصروف ترین موسیقار کو آج وقت میسر ہے، جسے وہ بہتر سے بہتر ڈھنگ سے گزارنے کے آرزومند ہیں۔ آج بھی دھنیں ذہن کے دریچوں سے چلی آتی ہیں، کچھ نیا کرنے کو اُکساتی ہیں۔

نیاز احمد 3 دسمبر 1946 کو ضلع مظفر نگر، یوپی میں پیدا ہوئے، البتہ شعور کی آنکھ کراچی کے علاقے نانک واڑا میں کھولی، جہاں خود کہ شفقتِ پدری سے محروم پایا کہ والد، فیاض احمد ہجرت کے سمے جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے، جس کے بعد چچا، ریاض احمد نے کفالت کی ذمے داری سنبھالی۔ وہ ہی اُن کے خاندان کو پاکستان لائے، جہاں ایک تین منزلہ عمارت کے اوپری فلیٹ میں ڈیرا ڈالا گیا۔

بچپن میں وہ کرکٹ کے دل دادہ تھے۔ بتاتے ہیں، اُس زمانے میں کسی کسی کے پاس ہی کرکٹ بیٹ ہوا کرتا تھا، جو پورے دن محلے میں گھومتا رہتا۔ چار بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ غلطیوں پر ٹھیک ٹھاک سزا ملا کرتی، مرغا بنا دیا جاتا۔ کچھ سہولیات کا فقدان، کچھ موسیقی کی جانب بڑھتا رجحان، کبھی پڑھائی میں دل نہیں لگا، جس کی وجہ سے میٹرک کا مرحلہ طے نہیں کرسکے۔ اپنی والدہ کی بابت کہتے ہیں، اُن کی خواہش تھی، اولاد باادب ہو، تہذیب کے دائرے میں رہے، خاندان کا نام روشن کرے۔

جس عمارت میں مقیم تھے، اُس کی دوسری منزل پر استاد بندوخان کا گھرانا آباد تھا، جن کے ہاں سُروں کی محفل جمتی، تو کم سن نیاز کے من میں جل ترنگ سی بجنے لگتی۔ سماعتوں کو نچلی منزل سے اٹھتے سُروں سے محظوظ ہونے کی تو اجازت تھی البتہ یہ فن سیکھنے کے لیے، جس کی شدید خواہش محسوس کرتے، نچلی منزل ممنوعہ علاقہ تھی۔
موسیقی کی چاہت اُنھیں وراثت میں ملی کہ ننھیال کی جڑیں کیرانا گھرانے سے ملتی ہیں، جس میں استاد عبدالکریم خان، استاد بہرے وحید خان جیسے فن کار گزرے، پھر یہ وراثت مولانا عبدالشکور جیسے نابغۂ روزگار شخص کو منتقل ہوئی۔ اِسے نیاز احمد کی خوش نصیبی کہا جاسکتا ہے کہ جب وہ سیکھنے کی خواہش میں سُلگ رہے تھے، مولانا عبدالشکور، نانک واڑا ہی میں مقیم تھے، اُسی عمارت میں، اُسی فلیٹ میں۔ مولانا، نیاز احمد کے ماموں تھے!

مولانا ایک ہمہ جہت انسان تھے۔ موسیقی کے اسرار ورموز پر گرفت کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے اساتذہ اُن سے رجوع کرتے۔ طبیعت میں درویشی تھی، دینی و دنیاوی علوم، دونوں ہی پر دست رس رکھتے۔ مصور بھی عالیٰ پائے کے تھے۔ بس، جب اُس دانا نے عشق موسیقی میں مبتلا کم سن نیاز پر توجہ کی، اُن کی دنیا بن گئی۔ نیاز احمد، گھر والوں کی مخالفت کے باوجود، چالیس روپے میں باجا (ہارمونیم) خرید لائے، جس کے ساتھ تربیت کا سفر شروع ہوا۔ نہ صرف ساز بجانے کا ڈھنگ سیکھا، بلکہ گائیکی کے قاعدے بھی سمجھے۔
مستقبل میں ہارمونیم نوازی کے میدان انفرادی مقام حاصل کرنے والے حبیب الدین خان بھی مولانا کے شاگرد تھے۔ نیاز صاحب اُن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ اُن سے بھی اکتسابِ علم کیا۔ کہتے ہیں، جس طرز پر ماسٹر صادق اور حبیب الدین خان ہارمونیم بجایا کرتے تھے، اُس کی مثال برصغیر میں خال خال ہی ملتی ہے۔

جب تھوڑا بہت سیکھ لیا، تو چھوٹی چھوٹی محفلوں میں ہارمونیم بجانے لگے۔ مختلف گلوکار اُنھیں تقریبات میں ساتھ لے جاتے۔ یوں کچھ پیسے ہاتھ آنے لگے۔ اُسی زمانے میں معروف گلوکار، ایس بی جون سے سامنا ہوا۔ پھر لطافت حسین خان سے رابطہ ہوگیا۔ اُن کی سنگت کی۔ اُن ہی کی توسط سے، پی ٹی وی کے باقاعدہ آغاز سے قبل، کراچی میں ہونے والی ٹی وی کی ایک نمایش میں پرفارم کرنے کا موقع ہاتھ آیا۔ یوں پہلی بار پندرہ سالہ نیاز احمد نے کیمرے کا سامنا کیا۔ وہ انوکھا تجربہ رہا۔ بتاتے ہیں، بجانے سے زیادہ اُن کی دل چسپی، کیمرے سے نتھی اس ٹی وی اسکرین میں تھی، جس میں خود کو پرفارم کرتا دیکھ سکتے تھے۔ ’’بس، نظریں ٹی وی اسکرین پر ٹکی رہیں۔ خیر، اِس تجربے کے بعد شوق مزید بڑھا۔‘‘

وقت باجے سے ’’اکارڈین‘‘ کی جانب لے گیا۔ ’’میں نے سوچا، باجا تو سب ہی بجا رہے ہیں، کچھ نیا کرنا چاہیے!‘‘ اکارڈین اُنھوں نے سہیل رعنا سے نو سو روپے میں خریدا تھا، جس پر خاصی محنت کی۔ فریئر روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں ملازم ہوگئے، وہیں جم کر ریاض کیا۔ پہلی بار موسیقار، غلام علی کے ایک فلمی گانے میں اکارڈین بجایا، جو ایسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا۔ یوں دیگر موسیقاروں کی نظروں میں آئے۔ کام ملنے لگا۔ نثار بزمی کی دھنوں کو اپنے ساز سے ہم آہنگ کیا۔ عاشق علی خان اور دیبو بھٹا چاریہ کے ساتھ کام کیا، جنھوں نے اِس اکارڈین نواز کی بہت حوصلہ افزائی کی۔

اُس زمانے میں ریڈیو اسٹیشن میں داخلہ نوجوان فن کاروں کا خواب ہوا کرتا تھا، جس کے لیے نیاز صاحب نے بھی دھکے کھائے۔ نہال عبداﷲ کے توسط سے یہ سپنا سچ ہوا۔ وہاں بھی اکارڈین بجایا۔ پانچ برس تک اس ساز سے جُڑے رہے۔ پھر سوچا، اب موسیقار بننا چاہیے! اُن کی مرتب کردہ پہلی دھن کو مہناز کی سُریلی آواز نے مہمیز کیا، جس نے ریڈیو سے نشر ہوتے ہی سامعین کے دلوں میں گھر کر لیا۔ گیت ’’یہ کیسا بندھن ہے ساجن‘‘ حشمت جعفری نے پروڈیوس کیا تھا۔ یوں وہ ’’موسیقار نیاز احمد‘‘ ہوگئے۔ اِس کام یاب تجربے کے بعد تاج ملتانی، عشرت جہاں، نگہت سیما کو گوایا۔ آنے والے دنوں میں کئی بڑے گویوں نے اُن کی دھنوں کے ساتھ آواز ملائی۔ مہدی حسن خان کے ساتھ بھی اُن ہی برس میں کام کرنے کا موقع ملا۔ چھے برس ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد جب پی ٹی وی کی جانب گئے، تو اُن کے اپنے الفاظ میں: ’’بیٹھنے کے لیے بڑی اچھی کرسی ملی!‘‘ کام کرنے کی بھی آزادی تھی۔ وہاں بڑے بڑے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہاتھ آیا۔ کئی سدابہار گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں۔

بہ طور موسیقار اُن کی پہلی فلم ’’شمع پروانہ‘‘ تھی جس کا رونا لیلیٰ کی آواز میں ریکارڈ ہونے والا گیت ’’مکھ موڑ چلا‘‘ بہت مقبول ہوا۔ مجموعی طور پر پانچ اردو فلموں کی موسیقی دی۔ تین پنجابی فلموں اور تین پشتو فلموں کے لیے بھی دھنیں بنائیں۔ یاد ہے، جب پہلی بار پشتو فلم کی موسیقی دینے کا ذمہ سنبھالا، تو پشتو زبان ہی میں سوچنے لگے۔ ریکارڈنگ سے ایک روز پہلے ہوٹل میں کمرہ کرایے پر لیا، اور ڈھولک اور باجے والے کو لے کر بیٹھ گئے۔ وہ رات اکارت گئی۔ کوشش کے باوجود کوئی دھن نہیں سُوجھی، لیکن صبح جب اسٹوڈیو کی جانب پیش قدمی شروع کی، ذہن میں دھن بننے لگی۔ فلموں سے کنارہ کش ہونے کا سبب یوں بیان کرتے ہیں۔ ’’پی ٹی وی واحد ادارہ ہے، جہاں فن کاروں کو پیسے کے ساتھ عزت بھی ملتی ہے۔ فلموں میں ایسا معاملہ نہیں۔ وہاں تو لوگوں کو موسیقی کا کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ ہمارا تو یہ معاملہ ہے کہ پیسے کو کم دیکھتے ہیں، معیار اور عزت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘‘

شہرت بیرون ملک بھی لے گئی۔ احمد رشدی کے ساتھ کئی ممالک کا دورہ کیا۔ جنوبی افریقا کے سفر کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ تین ماہ وہاں قیام کیا۔ کئی بڑی تقریبات میں پُرفارم کیا۔ وہاں اکارڈین بجانے کے علاوہ بہ طور گائیک بھی فن کا جادو جگایا۔ بتاتے ہیں، طبیعت کی خرابی کے باعث ایک روز احمد رشدی پروگرام میں نہیں پہنچ سکے، سو اُنھوں نے مائک سنبھال لیا۔ ’’پھر تو یہ ہوا کہ احمد رشدی کا آئٹم آتا، تو میں اکارڈین اٹھا لیتا۔ ورنہ میں ہی گاتا۔‘‘

پی ٹی وی کے زمانے میں بھی چند غزلیں گائیں، لیکن پھر یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ سبب یوں بیان کرتے ہیں،’’اچھا نہیں لگتا کہ انسان ہر کام کرے۔ میں نے باجا بجایا، اکارڈین بجایا، پھر موسیقی دی، اﷲ نے تینوں ہی شعبوں میں عزت دی۔ بس میں نے مناسب یہی سمجھا کہ خود کو گانے سے دُور رکھوں۔‘‘

یوں تو کئی قدآور فن کاروں کے ساتھ کام کیا، لیکن نصرت فتح علی خان کے ساتھ کام کرنا یادگار تجربہ رہا۔ بتاتے ہیں’’وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ موسیقار تھے، کسی کی دھن نہیں گاتے تھے، لیکن اُنھوں نے مجھے بہت عزت دی۔ ’میرا انعام پاکستان‘ کی ریکارڈنگ کے وقت میں نے اُنھیں تین بار گوایا، لیکن اُن کے ماتھے پر شکن بھی نہیں آئی۔‘‘

کچھ عرصے وہ ’’ناپا‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ وہ تجربہ، اُن کے بہ قول، خاصا تلخ رہا، البتہ اُس کی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ موجودہ موسیقاروں سے بے زار نظر آتے ہیں۔ اِس شعبے میں بہتری کے خواہاں ہیں۔ شکایت ہے، اب انگریزی بولنے والے گلوکاروں، موسیقاروں کو حقیقی فن کاروں پر ترجیح دی جانے لگی ہے۔ کہتے ہیں، ہندوستان میں فن اور فن کاروں کی قدر ہے، لیکن یہاں حالات یک سر مختلف ہیں۔ اکثر سوچتے ہیں، موسیقی کے اسرار و رموز سمجھنے کے بجائے انگریزی سیکھ لیتے تو بہتر تھا کہ اب انگریزی بولنے والے ہی کو بڑا موسیقار سمجھا جاتا ہے۔

اُن گلوکاروں سے شکایت ہے، جنھوں نے اُن سے اکتسابِ علم کیا، اُن کی دھنیں گا گا کر مقبولیت حاصل کی، مگر آج فون کرکے خریت پوچھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اُن کے مطابق وقت کے ساتھ پی ٹی وی کے مزاج میں بھی تبدیلی آئی ہے، لیکن آج بھی وہاں پروفیشنل لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اِس ضمن میں پی ٹی وی پروڈیوس، امجد شاہ کو سراہتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں نیاز احمد کہتے ہیں، موسیقار اور درزی میں کوئی فرق نہیں ہوتا کہ دونوں ہی پہلے گلا دیکھتے ہیں، بعد میں دیگر چیزوں پر توجہ دیتے ہیں۔ اُن کی خوش گوار یادیں نیک ارادوں کی تکمیل سے نتھی ہیں۔ جو کام نہ کیا ہو، کوئی اُس کا ذمے دار ٹھہرائے، جھوٹا الزام لگائے، تو تکلیف ہوتی ہے۔ آدھی دنیا گھوم چکے ہیں، بس ایک بات کا دُکھ ہے کہ جہاں پیدا ہوئے، یعنی ہندوستان، وہاں جانا نہیں ہوا۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے جنوبی افریقا کو بہترین پاتے ہیں۔ کینیڈا کا سفر بھی یادگار رہا۔

کسی زمانے میں اُن کی خوش لباسی کا چرچا تھا، تاہم آج سادہ اور آرام دہ لباس بنیادی ترجیح ہے۔ کھانے میں بھی کوئی خاص پسند نہیں۔ موسم کا بدلائو مزاج پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ موسیقی کے میدان میں ماسٹر عبداﷲ اور سہیل رعنا کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ اُنھوں نے دو شادیاں کیں۔ خدا نے چار بیٹوں، چار بیٹیوں سے نوازا۔ یوں تو شفیق والد ہیں، لیکن تربیت کی غرض سے سختی بھی برتتے ہیں۔ بچوں میں بھی موسیقی کا شوق منتقل ہوا۔ موجودہ مصروفیات کے تعلق سے کہتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اُن کی اولاد کو رزق دے رکھا ہے، گزر بسر ہوجاتا ہے۔

جب فیض صاحب کے سامنے پرفارم کیا
اشعار کو نغموں کی صورت دینے والے نیاز احمد شاعری سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ یوں تو کئی شعرا کا کلام مطالعے میں رہا، لیکن فیض احمد فیض کے عاشق ہیں۔ ویسے تو ریڈیو میں بھی اُن سے آمنا سامنا ہوا، مگر ایک نجی محفل میں جب پہلی بار فیض صاحب کو قریب سے دیکھا، تو خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اُس شام فیض صاحب کے سامنے ایک غزل بھی پیش کی۔ بہ قول اُن کے، وہ ایک یادگار لمحہ تھا!

27 ایوارڈز، مگر کس کام کے؟
2004 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازے جانے والے نیاز احمد تین پی ٹی وی ایوارڈز (برائے، بہترین موسیقار) حاصل کر چکے ہیں۔ ریڈیو پاکستان نے بھی اُنھیں بہترین موسیقار ٹھہرایا۔ دیگر تمغے اِس کے علاوہ ہیں۔
اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ بے قیمتی کے المیے کا بھی ذکر کرتے ہیں،’’آج میرے پاس 27 ایوارڈز ہیں، مگر یہ میرے کس کام کے؟ میں نے اتنا کام کیا، لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ بزمی صاحب اور دیگر موسیقار کے ساتھ کیا ہوا؟ ہمیں ایوارڈ دے دیا، کچھ پیسے دے دیے، بس! بھلا ان پیسوں سے گھر چل سکتا ہے۔ پرائیڈ آف پرفارمینس کے ساتھ مجھے ساٹھ ہزار روپے ملے تھے۔ کیا اُن سے میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکتا ہوں؟‘‘

جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے!
اپنے عہد کے اِس معروف موسیقار کو ’’استاد‘‘ کہلانا پسند نہیں۔ اُن کے بہ قول، وہ فن کار جنھوں نے اپنی زندگی فن کے لیے وقف کر دی، اُنھوں نے بھی خود کو ہمیشہ طالب علم گردانا، ایسے میں اپنے نام کے ساتھ استاد کا سابقہ لگانا، یا خاں کا لاحقہ لگانا جچتا نہیں۔

نیاز صاحب کے مطابق موسیقی دنیا کا پہلا علم ہے، جس میں پریکٹیکل پہلے، تھیوری بعد میں ہے۔ ’’موسیقی ایک وسیع سمندر ہے۔ جب بڑے بڑے لوگوں سے پوچھا گیا، آپ نے اِن برسوں میں کتنا سیکھا؟ تو اُنھوں نے یہی جواب دیا، ابھی کہاں سیکھا ہے! ایسے میں ہماری کیا اوقات؟ سچ تو یہ ہے کہ

جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
یوں تو ہر موڑ پر منزل کا گماں ہوتا ہے

دیکھیں، اگر میں نیاز احمد ’خاں‘ ہوجائوں، تو کیا فرق پڑے گا۔ ویسے بھی یہ ماضی کا معاملہ تھا، جب عالموں کو ’خاں صاحب‘ کہا جاتا۔‘‘

مہدی حسن خان کا آخری البم میرے پاس ہے!
غزلوں کی دھنیں ترتیب دینے کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،’’شاید ہی پاکستان کا کوئی ایسا غزل گائیک ہو، جس نے میری کمپوزیشنز نہ گائی ہوں۔ سب سے زیادہ مہدی حسن صاحب کے ساتھ کام کیا۔ یا تو خان صاحب نے اپنی کمپوزیشنز گائیں، یا میری کمپوزیشنز۔ اور میں یہ واضح کر دوں، اُن کا آخری البم میرے پاس ہے، جو یہیں، کراچی میں ریکارڈ ہوا۔ دیکھیں، وہ کب ریلیز ہوتا ہے۔‘‘ دوران گفت گو اُن دھنوں کا بھی ذکر آتا ہے، جو اُنھوں نے آشابھوسلے کے لیے ترتیب دے رکھی ہیں کہ وہ اُن کے مداح ہیں، اور اُس موقعے کے منتظر ہیں، جب وہ آشا جی کی آواز کے ساتھ اپنے ساز ملائیں۔
 
Top