نئی سیاست اور نئی ریاست۔۔۔ غزالی فاروق

RoJqAVr.jpg


گزشتہ چند سالوں میں معاشی ابتری کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کی مشکلات ومصائب میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی افراتفری ،عدم استحکام اور گورننس کی ناکامی بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے عوام کو درپیش مسائل سےلاتعلق نظر آتے ہیں ، مسائل کے حل میں ان کی عدم دلچسپی واضح ہے بلکہ ریاست تو گویا غائب ہے یا اس کا وجود ہی موجود نہیں، جس کے نتیجے میں عوام کی مشکلات شدید تر ہو چکی ہیں۔

آج پاکستان کا سیاسی طور پر مفلوج ہونااورعدم استحکام اُس ناکام طرزِسیاست کا براہ راست نتیجہ ہے، جو حکمران طبقہ کا خاصہ ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنی طرزِ سیاست میں سیاست کے متعلق مغرب کے تصور سے متاثر ہیں،نتیجتاً ان کی سیاسی کوششوں کا تمام تر محور ہر قیمت پر اقتدار کا حصول اور حکومتی سیاستدانوں، جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ سویلین بالادستی، قانون کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی جیسے نعروں کے نام پر کی جانے والی یہ سیاست،جرنیلوں ، سیاست دانوں اور ججوں کے مفادات کو پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے جو طاقت کے حصول اور ملکی وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔یہ سیاسی سودے بازی کرنے، مغربی مفادات اور بین الاقوامی اداروں کی خدمت کرنے اور ایسے قوانین منظور کرانے کی سیاست ہے، جس کے نتیجے میں جرنیلوں، سیاست دانوں اور ججوں کی مدتِ ملازمت یا اقتدارمیں توسیع ہویا ان کو ملنے والی مراعات میں اضافہ ہو، اور سیاسی جماعتوں کے وفاداروں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کو نوازا جائے۔ پاکستان کے مسلمانوں کی بدحالی کو ختم کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ موجودہ سیاست، جوطاقت و اقتدار کی ہوس کی بنیاد پر کھڑی ہے، کو مکمل طور پر مسترد کردیا جائے اور اسلام پر مبنی نئی سیاست کو اپنایا جائے۔

پاکستان کو ایک نئی سیاست کی ضرورت ہے جس کا محور و مرکز عوام کے امور کی دیکھ بھال ہو۔ ایک ایسی سیاست جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر مبنی ہو ، جس میں حکمران قرآن اور سنت نبویﷺ سے اخذ کردہ احکامات کو نافذ کریں، اور امت اسلام کے نفاذ میں کوتاہی پر حکمران کا کڑا احتساب کرے۔ ایسی سیاست جو امت کے مفادات کو اسلامی شریعت کی روشنی میں دیکھے اور جو امت کو کافر استعمار کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔ ایک ایسی سیاست جس کا محور امت کے معاشی وسائل کو یکجا کرکے تمام مسلمانوں پر خرچ کرنا ہو۔ایک نئی سیاست جو مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے امت کی فوجی قوت کو یکجا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرے۔ ایک ایسی سیاست جو پوری دنیا تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور جو ایسے حکمران پیدا کرے جو امت کے محافظ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ،وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ جس پر وہ نگہبان تھا۔ حکمران نگہبان ہے، مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر نگہبان ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ جس پر وہ نگہبان تھا"۔(بخاری)

پاکستان کو نئی سیاست کے ساتھ ساتھ ایک نئی ریاست کی ضرورت ہے۔ جمہوریت، جو کہ مغرب کا سیاسی نظام حکومت ہے اور پاکستان میں بھی نافذ ہے،موجودہ سیاست دانوں کو اپنے اور اپنےمغربی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ جمہوریت میں اثرورسوخ رکھنے والے کاروبار،ذاتی مفاد کے حصول کے لیے قانون سازی کے عمل اور سرکاری محکموں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اورایسے قوانین اور پالیسیاں بنواتے ہیں جن سے سرمایہ دارکو رعایتیں اور چھوٹ حاصل ہوتی ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں پر مشتمل تہہ دار فیڈرل ریاستی ڈھانچہ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ صوبائی اور مقامی حکومتیں مختلف سیاسی جماعتوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کواور وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ طاقت کی یہ تہہ دارتقسیم، حکومت کے تمام ڈھانچوں میں موجود حکمران طبقے کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ کوتاہی و غفلت کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کراپنے آپ کوامت کے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے بری الذمہ بنا لیں۔ پنجاب کے وسائل سندھ کے سیلاب زدہ مہاجرین کے لیے دستیاب نہیں، جبکہ وفاقی حکومت سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ مہاجرین کی مدد نہیں کر رہی کیونکہ حکمران مسلم لیگ(ن) ان سیلاب زدہ مہاجرین کو اپنے ووٹرز کے طور پر نہیں دیکھتی۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات، اور حکومتوں اور قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے حق نے پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا کررکھاہے، جو ریاست کو مفلوج کر رہا ہے۔ خارجہ امورمیں پاکستانی ریاست مسلسل غیر ملکی طاقتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے، جو پاکستان کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی کو غیر ملکی طاقتوں کے تابع بنانے کے لیے سخت معاشی اور سیاسی شرائط عائد کرتے ہیں۔

نئی ریاست،یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ میں امت، تاحیات خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے اور اسے اس شرط پربیعت دیتی ہے، کہ وہ امت کی اطاعت کے بدلے میں اسلامی شریعت کو نافذ کرے گا ۔ خلیفہ کواس صورت میں ہٹایا جا تا ہے اگر وہ صریح کفر یہ قوانین کا نفاذ شروع کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت میں سیاسی استحکام رہتا ہے اور خلیفہ کو امت کی بہتری کے لیے طویل مدتی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ خلیفہ ہی صوبوں کے والی(گورنروں) اور شہروں کےعامل مقرر کرتا ہے۔ والی اور عامل خلیفہ کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ خلیفہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے امت کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ خلافت ریاست کے تمام شہریوں کو ان کی نسل، رنگ یا سیاسی طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ خلیفہ قانون نہیں بنا سکتا، وہ محض اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ قرآن اور سنت نبویﷺ سے اخذ کردہ قوانین کو ہی نافذ کرے۔ یہ نئی ریاست، یعنی دوسری خلافتِ راشدہ، وحی کی بنیادپر حکومت کرتی ہے، اور قرآن و سنت میں دیے گئےاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَاَنِ احۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ وَاحۡذَرۡهُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنُوۡكَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌ؕ "اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو(حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں"(المائدہ، 5:49)

خلافت اسلام کا سیاسی ڈھانچہ ہے ۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خلیفہ کومقرر کریں، اس کی اطاعت کی بیعت کریں اور اسلامی شریعت کے نفاذ اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کےلیے اس کی مدد کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ‏.‏ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ " بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیاکرتے تھے۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتاجبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ کثیر تعداد میں خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تم اس کی اطاعت کرو جسے سب سے پہلے بیعت دی جائے اور انہیں اُن کا حق اداکرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن سے اُن کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی"۔(بخاری)

اللہ کے رسولﷺ نے انسانیت کے سامنے ایک نیا نظریہ پیش کیا، جس کی بنیاد رب العالمین کی جانب سے نازل کی گئی وحی تھی۔ آپ ﷺ نے ایک نئی سیاست، ایک نئی ریاست اور ایک نیا معاشرہ قائم کیا جو پوری دنیا کے لیے روشنی کا مینار بن کر چمکا۔ اس مشن میں انصار کے مبارک لوگوں نے آپﷺ کی مدد کی جو فوجی طاقت اور قوت کے حامل تھے، جنہوں نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مدددی اور اپنی طاقت کو اسلام کے نفاذ کے لیے پیش کیا۔ آج بھی اس نئی ریاست کے قیام کے لیے ایسی ہی مدد کی ضرورت ہے۔

بلاگ: ghazalifarooq.blogspot.com
 

راشد احمد

محفلین
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ہمارے حلفائے راشدین نے ہمیں حکومت کرنے کا ماڈل بناکر دیا ہے لیکن ہم اس بحث میں پڑے ہیں کہ جمہوری نظام میں پارلیمانی نظام بہتر ہے یا صدارتی نظام
 
RoJqAVr.jpg


گزشتہ چند سالوں میں معاشی ابتری کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کی مشکلات ومصائب میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی افراتفری ،عدم استحکام اور گورننس کی ناکامی بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے عوام کو درپیش مسائل سےلاتعلق نظر آتے ہیں ، مسائل کے حل میں ان کی عدم دلچسپی واضح ہے بلکہ ریاست تو گویا غائب ہے یا اس کا وجود ہی موجود نہیں، جس کے نتیجے میں عوام کی مشکلات شدید تر ہو چکی ہیں۔

آج پاکستان کا سیاسی طور پر مفلوج ہونااورعدم استحکام اُس ناکام طرزِسیاست کا براہ راست نتیجہ ہے، جو حکمران طبقہ کا خاصہ ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنی طرزِ سیاست میں سیاست کے متعلق مغرب کے تصور سے متاثر ہیں،نتیجتاً ان کی سیاسی کوششوں کا تمام تر محور ہر قیمت پر اقتدار کا حصول اور حکومتی سیاستدانوں، جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ سویلین بالادستی، قانون کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی جیسے نعروں کے نام پر کی جانے والی یہ سیاست،جرنیلوں ، سیاست دانوں اور ججوں کے مفادات کو پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے جو طاقت کے حصول اور ملکی وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔یہ سیاسی سودے بازی کرنے، مغربی مفادات اور بین الاقوامی اداروں کی خدمت کرنے اور ایسے قوانین منظور کرانے کی سیاست ہے، جس کے نتیجے میں جرنیلوں، سیاست دانوں اور ججوں کی مدتِ ملازمت یا اقتدارمیں توسیع ہویا ان کو ملنے والی مراعات میں اضافہ ہو، اور سیاسی جماعتوں کے وفاداروں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کو نوازا جائے۔ پاکستان کے مسلمانوں کی بدحالی کو ختم کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ موجودہ سیاست، جوطاقت و اقتدار کی ہوس کی بنیاد پر کھڑی ہے، کو مکمل طور پر مسترد کردیا جائے اور اسلام پر مبنی نئی سیاست کو اپنایا جائے۔

پاکستان کو ایک نئی سیاست کی ضرورت ہے جس کا محور و مرکز عوام کے امور کی دیکھ بھال ہو۔ ایک ایسی سیاست جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر مبنی ہو ، جس میں حکمران قرآن اور سنت نبویﷺ سے اخذ کردہ احکامات کو نافذ کریں، اور امت اسلام کے نفاذ میں کوتاہی پر حکمران کا کڑا احتساب کرے۔ ایسی سیاست جو امت کے مفادات کو اسلامی شریعت کی روشنی میں دیکھے اور جو امت کو کافر استعمار کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔ ایک ایسی سیاست جس کا محور امت کے معاشی وسائل کو یکجا کرکے تمام مسلمانوں پر خرچ کرنا ہو۔ایک نئی سیاست جو مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے امت کی فوجی قوت کو یکجا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرے۔ ایک ایسی سیاست جو پوری دنیا تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور جو ایسے حکمران پیدا کرے جو امت کے محافظ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ،وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ جس پر وہ نگہبان تھا۔ حکمران نگہبان ہے، مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر نگہبان ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ جس پر وہ نگہبان تھا"۔(بخاری)

پاکستان کو نئی سیاست کے ساتھ ساتھ ایک نئی ریاست کی ضرورت ہے۔ جمہوریت، جو کہ مغرب کا سیاسی نظام حکومت ہے اور پاکستان میں بھی نافذ ہے،موجودہ سیاست دانوں کو اپنے اور اپنےمغربی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ جمہوریت میں اثرورسوخ رکھنے والے کاروبار،ذاتی مفاد کے حصول کے لیے قانون سازی کے عمل اور سرکاری محکموں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اورایسے قوانین اور پالیسیاں بنواتے ہیں جن سے سرمایہ دارکو رعایتیں اور چھوٹ حاصل ہوتی ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں پر مشتمل تہہ دار فیڈرل ریاستی ڈھانچہ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ صوبائی اور مقامی حکومتیں مختلف سیاسی جماعتوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کواور وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ طاقت کی یہ تہہ دارتقسیم، حکومت کے تمام ڈھانچوں میں موجود حکمران طبقے کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ کوتاہی و غفلت کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کراپنے آپ کوامت کے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے بری الذمہ بنا لیں۔ پنجاب کے وسائل سندھ کے سیلاب زدہ مہاجرین کے لیے دستیاب نہیں، جبکہ وفاقی حکومت سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ مہاجرین کی مدد نہیں کر رہی کیونکہ حکمران مسلم لیگ(ن) ان سیلاب زدہ مہاجرین کو اپنے ووٹرز کے طور پر نہیں دیکھتی۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات، اور حکومتوں اور قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے حق نے پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا کررکھاہے، جو ریاست کو مفلوج کر رہا ہے۔ خارجہ امورمیں پاکستانی ریاست مسلسل غیر ملکی طاقتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے، جو پاکستان کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی کو غیر ملکی طاقتوں کے تابع بنانے کے لیے سخت معاشی اور سیاسی شرائط عائد کرتے ہیں۔

نئی ریاست،یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ میں امت، تاحیات خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے اور اسے اس شرط پربیعت دیتی ہے، کہ وہ امت کی اطاعت کے بدلے میں اسلامی شریعت کو نافذ کرے گا ۔ خلیفہ کواس صورت میں ہٹایا جا تا ہے اگر وہ صریح کفر یہ قوانین کا نفاذ شروع کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت میں سیاسی استحکام رہتا ہے اور خلیفہ کو امت کی بہتری کے لیے طویل مدتی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ خلیفہ ہی صوبوں کے والی(گورنروں) اور شہروں کےعامل مقرر کرتا ہے۔ والی اور عامل خلیفہ کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ خلیفہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے امت کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ خلافت ریاست کے تمام شہریوں کو ان کی نسل، رنگ یا سیاسی طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ خلیفہ قانون نہیں بنا سکتا، وہ محض اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ قرآن اور سنت نبویﷺ سے اخذ کردہ قوانین کو ہی نافذ کرے۔ یہ نئی ریاست، یعنی دوسری خلافتِ راشدہ، وحی کی بنیادپر حکومت کرتی ہے، اور قرآن و سنت میں دیے گئےاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَاَنِ احۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ وَاحۡذَرۡهُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنُوۡكَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌ؕ "اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو(حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں"(المائدہ، 5:49)

خلافت اسلام کا سیاسی ڈھانچہ ہے ۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خلیفہ کومقرر کریں، اس کی اطاعت کی بیعت کریں اور اسلامی شریعت کے نفاذ اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کےلیے اس کی مدد کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ‏.‏ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ " بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیاکرتے تھے۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتاجبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ کثیر تعداد میں خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تم اس کی اطاعت کرو جسے سب سے پہلے بیعت دی جائے اور انہیں اُن کا حق اداکرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن سے اُن کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی"۔(بخاری)

اللہ کے رسولﷺ نے انسانیت کے سامنے ایک نیا نظریہ پیش کیا، جس کی بنیاد رب العالمین کی جانب سے نازل کی گئی وحی تھی۔ آپ ﷺ نے ایک نئی سیاست، ایک نئی ریاست اور ایک نیا معاشرہ قائم کیا جو پوری دنیا کے لیے روشنی کا مینار بن کر چمکا۔ اس مشن میں انصار کے مبارک لوگوں نے آپﷺ کی مدد کی جو فوجی طاقت اور قوت کے حامل تھے، جنہوں نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مدددی اور اپنی طاقت کو اسلام کے نفاذ کے لیے پیش کیا۔ آج بھی اس نئی ریاست کے قیام کے لیے ایسی ہی مدد کی ضرورت ہے۔

بلاگ: ghazalifarooq.blogspot.com
1۔ اس مجوزہ سیاست کا کیا فریم ورک ہوگا؟
2۔ اس مجوزہ خلافت کے خلیفہ کے انتخاب کا کیا طریقہ کار ہوگا؟
3۔ پاکستان کی عوام کیوں آپ کے اس نظریے کو قابل اعتناء سمجھے جبکہ وہ تو اس وقت گہرائی تک شیعہ ، سنی ، دیوبندی ، وہابی مکاتب فکر کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے جہاں سے اسے قرآن و سنت کا وہی ورژن نظر آتا ہے جو ان کا فرقہ یا اس کے بابے انہیں بتاتے ہیں ۔
4۔ اگر آج ہی آپ کو یہ موقع دیا جائے کہ آپ اپنا یہ مجوزہ نظام قائم کر لیں تو آپ کے پاس اس کا کیا لائحہ عمل ہے؟؟
 
Top