جوش میں حیدری ہوں حیدری

حسان خان

لائبریرین
ہاں میں ہوں، میرِ زندگی، دارائے ملکِ شاعری
غلطیدہ چرخِ دین پر میرا سحابِ کافری
میری حریمِ طبع میں رقصاں بتانِ آذری
لیکن بہ ایں عز و شرف دل ہے رہینِ قنبری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
مجھ سے دو عالم ضو فشاں، مجھ پر دو عالم منجلی
ظاہر میں رندِ بادہ کش، باطن میں درویش و ولی
میری ردائے فقر میں بوئے حسین ابنِ علی
گفتار میں کافر گری، افکار میں پیغمبری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
پرتو ہے ابرِ قبلہ کا مجھ رندِ صہبا نوش پر
زلفِ عروسِ رنگ و بو، غلطاں ہے میری دوش پر
قربان میری دلق کے، صدقے مری پاپوش پر
چینِ قبائے گل رخاں، طرفِ کلاہِ قیصری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
کاندھے پہ لہرائے لوا انسان کے اقبال کا
بے خوف و بے بیم و رجا، بے پیش و پس، بے دغدغا
جب بامِ گردوں پر گیا میں یا علی کہتا ہوا
ذوقِ تواضع بن گیا، ناز و غرورِ داوری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
ہاں زندگی کی منقبت میری روش، میرا چلن
فرشِ مبیں کی 'نعت' سے گوہر فشاں میرا دہن
انسانیت کی 'حمد' میں ڈوبا ہوا میرا سخن
شبیریت کی مدح ہے انسانیت کی برتری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں محرمِ نازِ بتاں، میں خلوتیِ مہ رخاں
میں واضعِ قانونِ گل، میں ناسخِ شرعِ خزاں
میں ناظمِ شہرِ طرب، میں نائبِ پیرِ مغاں
میری طریقت ہاؤ ہو، میری شریعت کوثری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
عالم تھا یہ جنگاہ میں شبیر کی للکار سے
آتی تھی شیروں کی صدا اس گنبدِ دوار سے
اب تک حسینی وار سے، چلتی ہوئی تلوار سے
تلوار کی جھنکار سے لرزاں ہے چرخِ چنبری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
اے مہرِ اوجِ کربلا، اے ماہِ چرخِ درد و غم
اے قبلۂ اربابِ حق، اے کعبۂ اہلِ ہمم
اے شاہدِ رنگیں قبا، اے کشتۂ رسمِ ستم
بسیار خوباں دیدہ ام، لیکن تو چیزے دیگری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری
(جوش ملیح آبادی)
"بظاہر ان دونوں آخری بندوں کو پوری نظم کے موڈ سے کوئی علاقہ معلوم نہیں ہوتا لیکن بباطن کیا علاقہ ہے اسے میرا ہی دل جانتا ہے۔" (جوش)
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ
اے مہرِ اوجِ کربلا، اے ماہِ چرخِ درد و غم
اے قبلۂ اربابِ حق، اے کعبۂ اہلِ ہمم
اے شاہدِ رنگیں قبا، اے کشتۂ رسمِ ستم
بسیار خوباں دیدہ ام، لیکن تو چیزے دیگری
میں حیدری ہوں، حیدری
میں حیدری ہوں، حیدری

جزاک اللہ
 
Top