الوداعی تقریب میں بھول جاؤں تمہیں ، اب یہی مناسب ہے !

سیما علی

لائبریرین
بہت خوبصورت شئیرنگ ظفری ۔

بھلا نہ سکا یہ سلسلہ جو تھا ہی نہیں
وہ اک خیال جو آواز تک گیا ہی نہیں

وہ ایک بات جو کہہ نہ سکا میں تم سے
وہ اک رابط جو ہم میں کبھی رہا ہی نہیں

مجھے ہے وہ یاد سب جو کبھی ہوا نہیں
اگر یہ حال ہے دل کا تو کوئی سمجھائے

تمہیں بھلانا بھی چاہوں تو کس طرح بھولوں
کہ تم پھر بھی حقیقت ہو کوئی خواب نہیں
 

ظفری

لائبریرین
مکرمی و محترمی جناب ظفری صاحب، اس غزل کے لیے الگ لڑی کا آغاز کرنے کی کیا ضرورت تھی، نوحے والی لڑی میں ہی پرو لیتے اسے. :-P
مکرمی و محترمی محترمہ لاریب مرزا صاحبہ ، آپ کی طرف سے "نوحے والی لڑی" کی طرف اشارے نے ایسے باور کیا ہو کہ جیسے ماتم کے بیچ کوئی پرانا دوست چپکے سے کندھے پر ہاتھ رکھ دے اور کہے کہ "چلو بھئی، اب اتنا بھی سنجیدہ مت ہو!"۔ لیکن جس نظم کا تذکرہ ہے وہ کوئی عام سی نہیں،یہ جگجیت کی سوز میں ڈوبی وہ صدا ہے جو الگ لڑی کا تقاضا خود اپنے لہجے میں کر رہی تھی یعنی ،
"میں بھول جاؤں تمہیں ، اب یہی مناسب ہے"
سوچئے، اگر میں یہ اشعار نوحوں کی بھیڑ میں رکھ دیتا تو کہیں یہ نظم خود کہنے نہ لگتی کہ ،اب مجھے لوگ محفل میں نوحہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔ اس لیے، علیحدہ لڑی تخلیق کی جیسے پرانی یادوں کا البم ہو یعنی سب کچھ موجود ہو، لیکن الگ صفحے پر۔ :D
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوبصورت شئیرنگ ظفری ۔

بھلا نہ سکا یہ سلسلہ جو تھا ہی نہیں
وہ اک خیال جو آواز تک گیا ہی نہیں

وہ ایک بات جو کہہ نہ سکا میں تم سے
وہ اک رابط جو ہم میں کبھی رہا ہی نہیں

مجھے ہے وہ یاد سب جو کبھی ہوا نہیں
اگر یہ حال ہے دل کا تو کوئی سمجھائے

تمہیں بھلانا بھی چاہوں تو کس طرح بھولوں
کہ تم پھر بھی حقیقت ہو کوئی خواب نہیں
بہت شکریہ آپا کہ آپ کو یہ نظم پسند آئی ۔ جاوید اختر نے لکھی ہے ۔
 
Top