اسکین دستیاب میلہ میں بیلہ یا غدر کی شہزادیاں

بیلہ میں میلہ یا غدر کی ماری شہزادیاں1857 غدر دلی میں لٹی ہوئی مغل شہزادیوں کی درد انگیز داستان ہے جسے علامہ راشد الخیری نے اپنے مخصوص انداز میں تحریر کیا ہے۔


گفتگو دھاگہ
بیلہ میں میلہ: غدر کی ماری شہزادیاں گفتگو دھاگہ

ریختہ ربط
بیلہ میں میلہ: غدر کی ماری شہزادیاں - ریختہ لنک


گوگل ڈاکس ربط
بیلہ میں میلہ: غدر کی ماری شہزادیاں (گوگل ڈاکس)


صفحات کی تقسیم ریختہ کے صفحات کے حساب سے ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 14
ہےمگر یہ تقدیر کی خوبی ہے کہ جب عالی جاہ پر وقت پڑا اور دلی کی آوازکو ترس گئے تو ہم کسی خدمت کے قابل نہ رہے۔
مظفر سلطان کے منہ سے سرکار کا نام سنتے ہی سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بادشاہ کی مغفرت کے لیے ہزاروں ہاتھ بلند ہوگئے ۔
جب یہ ہو چکا تو مظفر سلطان نے کہا
شہر کی حالت اتنی ابتر ہوگئی تھی کہ ہر طرف کہرام مچ رہے تھے اور کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں سے رات بھر رونے پیٹنے کی آواز نہ آتی ہو بھاگنے والے بھاگ چکے تھے اور اب بھی جدھر جس کا منہ اٹھا جا رہا تھا۔ افراتفری ایسی تھی کہ بھائی کو بھائی کی خبر نہ تھی ۔ زندوں کی خیر صلاح تھی نہ مردوں کی خبر ۔اپنوں کا ہوش نہ غیروں کا خیال۔ مغرب کے بعد منشی، وزیر ،مخبر آکر بتا دیتے تھے کہ کل اس کو پھانسی ہوگی۔ ست ہی سات پر جان تھی ۔ ایک قدم اٹھاؤ دوسرے کی خبر نہیں ۔بھاگنے کا راستہ تھا نہ چھپنے کی جگہ۔ دھڑکے میں جان اور کھٹکے میں دل۔ جو پکڑا گیا پھر پلٹ کر نہ آیا۔ میرے شوہر خسرو مرزا کو دن دہاڑے کوتوالی چبوترے پر کالے مخبر نے پھانسی دلوائی ۔میں بہتیرا ہی تڑپی اور تڑپی کہ صاحب عالم کی لاش اپنے ہاتھوں سے دفن کرو ں مگر کسی نے نہ سنی اور یہ ہی کہا کہ جب بادشاہ ہی کے لالوں کو کفن نصیب نہ ہوا تو ہم کس گنتی میں ہیں۔ مرزا کے بعد جینے کا مزا نہ تھا اور مجھے سب سے بڑا کھٹکا سلیم کا تھا جس کی مسیں بھیگ رہی تھیں کہ دیکھئے اس کا کیا ہوتا ہے ۔میں نے کالے مخبراور اس کی بیوی بچوں کی رات رات بھر خدمت کی کہ کہیں ظالم میرے بچے کا نام نہ

ریختہ صفحہ 15

لے دے اور مرزا کے ساتھ اس کا داغ بھی نہ اٹھانا پڑے۔ کالا اصل میں لوہار تھا مگر اس وقت شہر بھر مختار تھا اس کی مخبری پر چٹکی بجاتے پھانسی ہوتی تھی۔ پوچھ نہ گچھ، مسل نہ مقدمہ۔ جس دن بھائی فراست کو پھانسی ہوئی ہے وہ رات خدا دشمن کو نہ دکھائے ۔اور میرے واسطے تو قیامت سے کم نہ تھی جب کالے نے کہا کہ تمہارے بچے کا بھی نام آیا ہے ۔میں اتنا سنتے ہی چکرا کر بیٹھ گئی ۔کالا میری حالت پر ہنسا اور کہا کہ شہر میں بارہ مخبر ہیں اس وقت تو میں نے بچا لیا مگر ان بے ایمانوں کے منہ کو تو خون لگا ہوا ہے اور مسجد میں قسم کھا لی ہے کہ بے لیے اپنے باپ کو نہ چھوڑیں گے۔ تمہارے پاس جو جمع جتھا ہو، لے آؤ، میں لے دےکر پاپ کاٹوں۔ خبر نہیں دوڑ کس وقت آجائے ۔ میرے پاس نقد تو ایک کوڑی نہ تھی جو گہنا پاتا تھا وہ اوپلوں کی کوٹھڑی میں دبا رکھا تھا۔ مجھے زیور بچہ سے زیادہ نہ تھا۔ دوڑی دوڑی گئی اور جو کچھ تھا کھود کھاد اس کے حوالے کیا۔ مگر دل کا یہ حال تھا کہ گزوں اچھل رہا تھا اور سب سے بڑا دھڑکا یہ تھا کہ تیزی کی بارہ چھوڑ ستائیس ہوگئی تھی مگر مردوں کی سلامتی کی گھنگھنیاں اب تک نہ ابلیں۔ کس کی نیند اور کس کی بھوک۔ آدھی رات اسی چکر میں بیت گئی۔ مجھے ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ آدھی تھی یا پچھلا۔ میں نے سلیم اور فرخ دونوں بچوں کو ساتھ لیا۔ سلیم ماشاءاللہ پندرھویں اور فرخ اللہ رکھے چھٹے برس میں تھی یہ دونوں نیند میں کسمساتے اٹھے مگر ان کو لے کر کسی نہ کسی طرح دلی دروازے تک پہنچی اور کالو کی راوٹیاں کھڑی ہوئ

ریختہ صفحہ 16
تھیں اور لالٹینوں میں ان کی تلواریں اور کرچیں دور سے جگمگا رہی تھیں۔قدم بڑھانےکی ہمت نہ پڑی اور دونوں بچوں کو کلیجوں سے لگا ،وہیں بیٹھ گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ پہرےوالے تک بے خبرپڑے ہیں تو بچوں کے منہ پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی اور دبے پاؤں چوروں کی طرح آگے چلی۔ کیا بتاؤں دل کا کیا حال تھا سر پر موت تھی اور سامنے وہ برقنداز۔ مگر اللہ کی کچھ ایسی مہربانی ہوئی کہ میں پرانے قلعہ تک پہنچ گئی اور سانس تک کی آواز میرے کانوں میں نہ آئی۔ یہاں میں ٹھٹکی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ چاند کی آخری تاریخیں ہر طرف اندھیرا گھپ۔ اس پر یہ خوف کہ صبح کو جو دیکھے گا وہ مار ڈالے گا۔ رستے کا پتہ نہیں کہ کدھر جاؤں۔ غرض بچوں کو لے ،اسی سڑک پر سیدھی ہولی۔ سلطان جی پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ ہم نظام الدین میں ہیں۔ فرخ نے پانی مانگا مگر میرے پاس پانی کہاں ۔اس کو بہلاتی پھسلاتی لیے جا رہی تھی کہ دو آدمیوں کی آواز سنائی دی۔ جان نکل گئی اور سمجھی کہ ظالم آگئے ۔سڑک چھوڑ پکھ ڈنڈی پر ہولی۔دل دھکڑ دھکڑ کر رہا تھا اور جان کا اللہ ہی وارث تھا کہ پوپھٹی اور ایک گاؤں کی سی صورت نظر آئی۔ اب میں نے اپنا بھیس بدلا۔ دوپٹہ سر سے باندھا اور سلیم کی اچکن پہن کرخاصا اچھا لڑکا بن گئی۔ گاؤں کے پاس ایک ٹوٹی سی مسجد تھی ہم تینوں وہاں پہنچے ۔ایک بڈھے سے گنوار نے غلط سلط اذان دی۔ اور ہم کو غورسے دیکھ کر چھوٹتے ہی کہنے لگا ِشہر سے بھاگے ہو ۔ میں نے بھی نماز پڑھی مگر کیا خاک پڑھی۔ دل کا اللہ ہی وارث تھا۔ سلام پھیر چکی تو بڑے میاں سے کہا اس لڑکی کو پیاس لگ رہی ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 17
انہوں نے ایک میلے کچیلے مٹکے کی طرف اشارہ کیا جو کوٹھڑی میں رکھا تھا ٹوٹے ہوئے کلڑے سے پانی بھرا اور اوک سے پلایا تو بڑے میاں نے اتنی مہربانی کی کہ ہم سے کہا تم لوگ بھوک سے ہوں گے چلو میں کھانا کھلا دوں۔ ہم ان کے ساتھ ہو گئے بھوک کے مارے پتلا حال تھا ۔ان کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا بڑے میاں بڑھئی ہیں۔ انہوں نے غور سے ہماری صورتیں دیکھیں اور کہنے لگے، مال مسالہ تو بہت سا لائے ہو گے ہمارا حصہ تو دلواؤ۔ میں نے کہا تلاشی لے لیجئے پھوٹا بادام بھی پلے نہیں ۔بھوکےمر رہے ہیں ہمارے پیٹ بھر دیجئے ۔تھا بڑھئی خاموش تھا۔ اس کی بڑھیا بیوی اندر سے جا کر تین باسی روٹیاں اور پیاز کے گھٹے لائی۔ ہم کو وہی غنیمت ہوگئے ہیں۔ اس عورت کا دل ہی میں شکریہ ادا کر رہی تھی ۔ کہ اس نے فرخ کو دیکھ کر کہا ،
تم کو روٹی نصیب نہیں اس بچی کو کہاں لئے لئے پھرو گے۔ یہاں چھوڑ جاؤ ٹہل کرے گی پیٹ پالے گی۔
میری تو یہ سن کر جان نکل گئی ۔بڑھیا میری بچی کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئی اور مجھ سے کہنے لگی یہ تو دلی کی انگنائی ہے ۔دن بھر گورے کالے آتے رہتے ہیں۔ تم کو بھاگنا ہے تو جلدی بھاگ جاؤ۔ دونوں کمیلے چلے جاؤ ۔وہ گاؤں یہی اچھا ہے اور بچا ہوا بھی ہے۔
میں اس کا منہ تکنے لگی فر خ روئی تو بڑھیا نے اس بری طرح سے ڈانٹا کہ توبہ بھلی۔ بڑھئی اپنے کام پر چلا گیا ہم دونوں کھڑے اپنی تقدیر کو رو رہے تھے ۔بڑھیا اپنی لٹیا لے کر جنگل کو گئی اور میں اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لے ایک طرف ہو لی۔ تھوڑی دور جا کر ایک ٹوٹا سا مقبرہ دکھائی دیا ۔گورو ں اور کالوں سے زیادہ

ریختہ صفحہ 18
اب بڈھے بڑھیا کا ڈر تھا کہ کب آئیں اور کدھر سے آئیں۔ تینوں اس مقبرے میں گھسے اور دن وہیں گزارا۔ بھوکے پیاسے لق لق کرتے رات کو نکلے تو سڑک پر ایک کوٹھڑی میں دو مٹکے سے دکھائی دیے۔ یہ پیاؤ تھی۔ پیٹ بھر کر پانی پیا۔ لٹیا بھر ساتھ لیا اور آگے بڑھے ۔صبح ہوتے ہوتے فرید آباد پہنچے۔ ہم تھک کر چور ہو گئے تھے اور پاؤں میں موٹے موٹے چھالے پڑ گئے تھے۔ فرید آباد کے ایک قاضی صاحب نے ہم کو مہمان بھی رکھا اور خاطر تواضع بھی کی مگر یہ کہہ دیا کہ یہاں زیادہ رہنا ٹھیک نہیں۔ مخبر ادھر بھی آ جاتے ہیں تم لوگ جلدی کو چ کرو۔
میں اتنا سنتے ہی پریشان ہو گئی اور شام ہی کو وہاں سے چلتی ہوئی۔ دوسرے دن گیارہ بجے کے قریب ہمیمیا پہنچے۔ یہ ہندوؤں کا گاؤں تھا جہاں ہر طرف سے ہم پر لعنت برسنے لگی۔ بھنگیوں اور چماروں کی طرح ہم کو جھوٹی روٹی کے ٹکڑے ملے اور الگ سے پانی پلایا۔ بھوک میں کواڑ بھی پاپڑ ہوتے ہیں کسی نہ کسی طرح پیٹ بھرا۔ کہیں میرا دوپٹہ سر سے سرک گیا تو ایک موٹے جگادری ہندو نے دوپٹہ یہ کہہ کر اتار لیا۔
ارے یہ تو عورت ہے
میں چور بنی کھڑی تھی کہ دو تین ہندو میرے دونو بچوں کو پکڑ لے گئے اور مجھ سے کہا، تو مخبر ہے ۔نکل یہاں سے نہیں تو ابھی سر پھاڑ ڈالیں گے۔
ایک شخص میرا ہاتھ پکڑ مجھ کو سڑک پر چھوڑ گیا اور کہا گیا کہ اب گاؤں میں قدم رکھا تو جان کی خیر نہیں۔

ریختہ صفحہ 19
اب میں کس طرح بتاؤں کہ بچوں سے چھوٹ کر میری کیا کیفیت ہوئی دن بھر بڑکے نیچے بیٹھی روتی رہی اور خدا خدا کرکے شام ہوئی ۔
ابھی رات کی سیاہی پوری طرح چھائی نہ تھی کہ ممتا بڑ کے نیچے سے اٹھا کر گاؤں میں لے آئی۔ جھٹ پٹا وقت تھا گوالنیں اپنی گائے بھینسوں کا دودھ دوہ رہی تھیں اور آنے جانے والے ادھر اُدھر آ جا رہے تھے۔میرا دل ہوا ہو رہا تھا اور دم پر بنی ہوئی تھی کہ اب کسی نے پکڑا مارا اور نکالا ۔تھوڑی دور ایک ٹیلے کے پیچھے چھپی لیکن یہاں بھی چین نہ پڑا ۔نکلی ، منہ گاؤں کی طرف کیا۔ مگر ہمت نہ پڑی اور ایک طرف ٹھٹک کر کھڑی ہو گئی۔ ابھی جھٹ پٹاہی تھا کہ عورتوں اور مردوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں گھی کے چراغ ہاتھ میں لیے مندر کی طرف جانے لگیں۔ شاید کوئی میلہ ہوگا جس کا پورا حال مجھے معلوم نہیں۔ جب مندر کھچا کھچ بھر گیا تو میں اسی گھر پہنچی جہاں میں نے اپنے بچے چھوڑ ےتھے ۔جھانک کر دیکھا تو ایک بڈھا پڑاحقہ پی رہا تھا اور دونوں بچے سامنے بیٹھے تھے۔ سوچتی تھی کہ کیا کروں بچوں کو کیونکر بلاؤں۔ مگر کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی۔ دل کڑا کیا ۔جان پر کھیل کر اندر قدم رکھا تو بڈھا اونگھ رہا تھا۔ میں نے بچوں کو اٹھایا ، بڈھا اونگھتا ہی رہا اور میں بچوں کو ساتھ لے کر باہر آ گئی ۔اب چاروں طرف اندھیراگھپ تھا البتہ مندر سے بھجنوں کی اور جنگل سے گیدڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ آگےآگے میں پیچھے پیچھے میرے دونوں بچے بھاگے چلے جا رہے تھے۔ مجھ کو اپنی جان کی پروا نہ تھی۔ بچوں کے دھڑکے نے نیم جان کر دیا تھا جسم کی تمام قوت جمع ہو کر ٹانگوں میں آگئی تھی اور شفقت

ریختہ صفحہ 20
مادری اس تسوسن کو مہمیز کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ رات کی سیاہی نے کائنات کا ساتھ چھوڑا اور ہم ایسے پہاڑ کے دامن میں پہنچے جہاں مرغ کی آواز انسانی آبادی کا پتہ دے رہی تھی۔ بچے بھوک کے مارے بلا رہے تھے۔ میں تو خیر دن بھر کی بھوکی پیاسی اعمال کو بھگت اور تقدیر کو رو رہی تھی ۔معصوم بچے نہ معلوم کس گناہ میں پکڑے گئے تھے کہ تن کو چیتھڑا تھا نہ پیٹ کو ٹکڑا ۔پاؤں کے چھالوں میں سے پانی اور ہاتھ کی کھڑیچوں سے خون بہہ رہا تھا مگر دھجی تک میسر نہ تھی کہ پٹی باندھ دیتی۔ رات، جس نے اپنی زندگی میرے بچوں کی راہنمائی کو وقف کر دی تھی، دم توڑ چکی اور دن ہم خانماں بربادوں کے استقبال کو آگے بڑھا ۔مگر رات کی دیوی کا سایہ ہمارے واسطے نعمت تھا جس نے اپنا سیاہ لباس دن کو اوڑھا کر کرہءدنیا پر دھکیلا ۔اس کے خوفناک چہرے میں آفتاب کا کچھ ایسا ذخیرہ چُھپا ہوا تھا کہ ننھے مُنے دل دہل گئے اور سلیم بہار میں لوتھ ہوا اور فرخ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔گاؤں کچھ فاصلے پر تھا مگر نہر قریب ہی جاری تھی۔ اب اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ میں نے اپنی پھٹی ہوئی رضائیاملی کے نیچے پانی کے قریب بچھائی اور دونوں بچوں کو وہاں لٹا کر فرخ کا سر دبانے بیٹھ گئی ۔
چہرہ ءآفتاب کی ترقی کے ساتھ میرے بچوں کے مکھڑے تمتمانے شروع ہوئے اور ابھی پہلا پہر ختم نہ ہوا تھا کہ سلیم بالکل ہی بے سُرت ہو گیا۔ رات بھر کا خمار اور پانچ چھ کو س کی تکان، اس پر بھوک اور پیاس ! در نہیں گھر نہیں !مجھ پر جو گزری بیان نہیں کر سکتی
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 8

ہندو لٹکے ہوئے تن زیب کے مہین مہین انگرکھے، کندھوں پر بسنتی دوشالے، صورتیں، سرخ و سفید چہرے، جو تھا وہ ہنستا بولتا اچھلتا کودتا مگن چلا جا رہا تھا۔
آج ان صورتوں کا خیال آتے ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ سستا سماں، بے فکری کے دن، من بھر کے گیہوں، چار پیسے سیر دودھ اور دودھ بھی کیا ملائی کے گھونٹ، دن بھر کا اونٹا ہوا، آدھ سیر دودھ میں آدھ پا سے زیادہ روٹی کی روٹی ملائی دو گھونٹوں میں جی خوش ہو گیا۔ یہ تھیں غذائیں جو آدمی کو آدمی بنائی تھیں۔ آج کے دلّی والوں کو دیکھتا ہوں سوکھے چہپٹی دھان پان، آنکھوں میں حلقے، کلوں میں گڑھے، رزق کے مارے خوراک کو محتاج، دودھ کو ترستے، گھی کو پھڑکتے۔
میں اس کو بھی بسا غنیمت سمجھتا ہوں کہ شہر کے صاحبِ کمال اپنے ساتھ ہی اپنے قدرداں بھی ختم کر گئے اور آج کا بیان داستانِ شب سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ جس وقت کا یہ ذکر ہے ان دنوں آدھی رات کے وقت شہر میں ایک صدا گونجی تھی۔
”شیدی کنور کے باغ کا دانہ“
یہ ایک خوش الحان کنجڑا تھا جو نو بجے رات کو شیدی قنبر کے باغ سے کھجوروں کا چھیبا لے کر اُٹھتا تھا۔ رات کے سنّاطے میں جب اس کی آواز بھنبیری کی طرح جھومتی تھی تو لوگ پروانوں کی طرح گرتے تھے۔ اسی طرح نوچندی جمعرات کو بڑیوں کے کڑہ میں عشا کے وقت حسنا کی اس آواز میں ایک خاص امتیاز کھا۔
”لپٹیں آ رہی ہیں موتیا کی“

ریختہ صفحہ
9
ہم آگے بڑھے تو شہزادہ مرزا محمد اشرف گورگانی بی، اے آئے۔ ان سے باتیں ہو رہی تھیں کہ پھولوں کی آواز کان میں آئی اور مرزا نے کہا۔
”شہزادی گونج رہی ہے۔“
ادھر پہنچے تو بیگم ایک عجیب انداز سے پھول بیچ رہی تھی۔ پٹا پٹی کے گئے۔ ترپی ہوئی کیکری کٹاؤ کی جھالریں چھیبوں پر پڑی ہوئی، توے کا حقہ منہ سے لگا ہوا نیچے پھول مہک رہے ہیں اوپر پنجرے میں اگن لہک رہا ہے اور پھولوں کی خوشبو ہے۔ ادھر تمباکو کی سامنے قلعی دار پاندان ہے۔ برابر میں کوری صراحی الغرض نفاست اس کی حالت پر اور شرافت اس کی صورت پر قربان ہو رہی ہے۔ بڑھاپے کی حدود میں سرخ و سپید رخساروں کی جھریاں بآوازِ بلند قصرِ شباب کی بہار سنا رہی تھیں۔ میں بیگم کے نام سے تو واقف تھا مگر خبر نہ تھی کہ بڑھیا گلفروش کے منہ سے بھی پھول جھڑتے ہیں۔ میر محفوظ علی جو ہمارے ساتھ تھے اور ہم میں شاید سب سے بڑے تھے ٹھٹک گئے اور کہنے لگے۔
”بیگم! آواز کا کڑاکا اب بھی غضب ڈھا رہا ہے۔“
بیگم کے خاموش چہرے پر مسکراسٹ کھلنے لگی۔ اس نے مونڈھوں کو ٹھیک کیا اور کہا۔ آؤ سید بیٹھو۔“ جب ہم بیٹھ گئے تو بیگم نے جواب دیا۔
”سید بادشاہ! اب کڑاکا کہاں، جوانی اپنے ساتھ سارا کس بل لے گئی۔ رہا سہا غدر نے مچور کر دیا۔ ہاتھ پاؤں میں سکت نہیں۔ بدن میں جان نہیں۔ ڈاڑھیں نکل گئیں۔ دانت جھول آئے۔ بدن کا سکھ، جوانی نے توڑا، ڈھانچ رہ گیا ہے۔ چاروں طرف لئے پھرتی ہوں۔ پرسوں چچا کالے

ریختہ صفحہ
10
ملے تھے۔ مرزا کا طنطنہ یاد ہے؟ محلے والوں کی روح فنا ہوتی تھی۔ جدھر نکل گئے قیامت آ گئی۔ تھانے دار اور کوتوال تک پناہ مانگتے تھے۔ اب دیکھو کیا رنگ ہے۔ کمر جھک گئی، طباق سا چہرہ، سیپی اور چھاج سا سینہ تنکارہ گیا۔ وہ چونچالی اور خوشحالی سب ہوا ہوئی جس نے نو من کی گمدر کی جوڑی پھول کی طرح اٹھا لی آج پان سیر وزن اٹھانے میں ہانپ رہا ہے! بادشاہ یہ سب طاقت اور جوانی کے کھیل ہیں۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔“
”آج کہرام ہے یہ سامنے والا تبنو دیکھا شہزادیوں کا ہے۔ بادشاہ کی بھتیجی گوہر آرا بیگم آئی ہیں اور سہیلیوں کو جمع کیا ہے۔ سب اپنی اپنی غدر کی داستانیں سنائیں گی۔ بڑی سرکار ربیعہ بیگم جہاں پناہ کی صاحبزادی بھی آئی ہیں۔ اذنِ عام ہے جو چاہے شریک ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
گوہری تنبو کے سامنے والا میدان آدمیوں سے پٹا پڑا ہے۔ بسنتی قمقمے ڈال ڈال اور پات پات جگمگا رہے ہیں۔ قندیلیں روشن ہیں۔ چراغ جل رہے ہیں اور کافی شمعیں ان حضرت نصیب گھڑیوں پر آنسو بہا رہی ہیں۔
گوہر آرا بیگم کی بچھڑی ہوئی سہیلیاں جو کبھی پھولوں میں تلتی تھیں اور اب بپیوندوں میں ڈھکی ہوئی ہیں اس غرض سے جمع ہوئی ہیں کہ ان باتوں پر فاتحہ پڑھیں جن کو وقت نے بھوکا یہاں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب شمع ان مہمانوں بیویوں کی ترستی ہوئی آنکھوں کو زندہ صورتیں دکھا چکی اور ایثار مصائب کی یاد نے جو قیامت برپا کی تھی وہ ختم ہوئی تو دل ان مکھڑوں کو ڈھونڈنے لگا جو جیتے جاگتے خاک و خون میں نہائے

ریختہ صفحہ
11
آنکھیں ڈھاڑیں مار مار کر روئیں اور دماغوں نے نام لے لے کر پکارا مگر زندگی کی گھڑیاں اس تماشے کو روندتی ہوئی آگے بڑھیں۔ آنے والوں کی مسرت نے جانے والوں کی یاد دل سے بھلا دی۔ فانوس بزم احباب کو منور کر رہے تھے۔ محبت کا دور جاری تھا اور پھولوں کی خوشبو ہوا کو معطّر کر رہی تھی کہ مہماں نواز خاتون نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا!
آج بیلا اور بیلے کے مہمان دونوں اُجڑ چکے، شہزادیوں کی بزم اور اس کے دور ختم ہوئے۔ وہ رات فجر ہوئی اور اس کے بعد لاتعداد راتیں سر پر آئیں اور گئیں مگر اس رات کا سماں آج تک آنکھوں میں سمایا ہوا ہے اور اب موت کے سوا اس جلسے کو بھلانے والی دوسری چیز نظر نہیں آتی۔
شاہجہاں آباد اگر تاراج نہ ہو چکا ہوتا تو بیلے کی یہ رات حق رکھتی تھی کہ اس کا ایک ایک لمحہ دلّی والوں کے سر آنکھوں پر ہوتا۔ تاریخ ان قیامت خیز واقعات کی پرستش کرتی اور انسانیت کی آنکھیں مصیبت ماروں پر جن کی داستان نے سننے والوں کے کلیجے دہلا دیے محبت کے آنسو گرائیں، مگر وقت نے شہر کو اور شہر کے ساتھ شہر والوں کو اس طرح تباہ کیا تھا کہ عقل و ہوش سب رخصت ہو چکے تھے۔ یہ بھی چند زندہ دلوں کا طفیل تھا کہ زندے مردے کے ذکر سے مٹی ہوئی زندگیوں کو تازہ کر رہے تھے۔ میں نے بھولو شاہ کی اس بسنت میں جو صورتیں دیکھی تھیں اب ان میں سے ایک بھی نظر نہیں آتی اور جو چہرے گوہری تمبو میں نظر آئے وہ سب رخصت ہو چکے اور ایک آدھ باقی بھی ہے تو مردے

ریختہ صفحہ
12
سے بدتر، کھٹیا پر پڑا پاپڑ بیل رہا ہے۔
شہزادہ مرزا محمد اشرف گورگانی بی اے جو اس صحبت میں ہمارے شریک تھے اور جنہوں نے یہ رات رو رو کر صبح کی تھی اگر زندہ ہوتے تو یقیناً شاہزادیوں کا یہ نالہ جو بیلے کی سرزمین پر بلند ہوا مرنے نہ پاتا اور فضا ادب میں ایسا گونجتا کہ سننے والے بھی بلبلا جاتے۔ لیکن بدبختوں کی تقدیر پر کوئی رونے والا بھی نہ رہا اور لاتعداد راتوں کی طرح وہ رات بھی آئی گئی ہوئی جس نے خاندانِ تمیوریہ کی اِن لُٹی کٹی بیگمات کے آنسو اپنے آغوش میں لیے۔ گہری تمبو خلیفہ اکن کے دنگل میں گاڑا گیا تھا۔ چاروں طرف قنائیں کھڑی ہوئی تھیں اور رات کا تاریک حصّہ بجائے دیبا و حریر کے ان محذرات کے نازک جسم کی پردہ پوشی کر رہا تھا جو قلعۂ معلیٰ سے نکل کر اس وقت بیلے کی مہمان تھیں۔ آسمان کے تارے ان کی تیرہ بختی کے شاہد تھے اور زمین بتا رہی تھی کہ یہ شہر پر راج کرنے والیاں آج دو دو دانوں کو محتاج ہیں۔ شہزادیوں میں پردہ برائے نام تھا اس لیے تمبو میں داخلہ کی عام اجازت تھی۔ جگہ چونکہ کافی اور میدان وسیع تھا اس لیے چپقلش نہ تھی۔
گوہر آرا بیگم شکریہ ادا کر چکیں تو مہمانوں کے سامنے پانوں کی کشتی آئی۔ کاغذی حقّے جو بادشاہ کے ساتھ ہی شہر سے کوچ کر گئے چاروں طرف سلگ رہے تھے کہ ایک بیوی سنبھل کر بیٹھیں اور گوہر آرا بیگم نے فرمایا۔
سی ظلِّ سلطانی کی خالہ زاد بہن مظفر بیگم ہیں۔ ان کی صورت اب پہچانی نہیں جاتی مگر جنہوں نے قلعہ کی چہل پہل اور اس مظفّر کی رنگ

ریختہ صفحہ 13

رلیاں دیکھی ہیں وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ غدر نے جن کو زندہ چھوڑا ہے ان کو بھی اس طرح نچوڑا کہ حال سے بے حال اور صورت سے بے صورت کر کے یہ انار کا سرخ و سپید دانہ آج پھیکا شلجم ہے۔ حق یہ ہے کہ ہم کو اس صورت ہی کے لالے تھے۔ قربان جائیے اس خدا کے جس نے بچھڑی ہوئی مظفر کو ہم سے ملوا دیا اور یہ صورت پھر دکھا دی۔ مظفر پر شہر سے نکل کر کیا بیتی ہے خود سنائے گی مگر اتنا میں بھی جانتی ہوں کہ ہماری عیش کی گھڑیاں حضور کے دم تک تھیں۔ ہمارا سہاگ بادشاہ کے ساتھ ختم ہوا۔ جتنا ہنسنا تھا سرکار کے ساتھ ہنس لیے۔ اب روئیں گے اور اس وقت تک روئیں گے جب تک بدن میں سانس باقی ہے۔
رات خاصی ڈیڑھ پہر کے قریب گذر چکی تھی اور گو تمام میلہ میں کچریاں پک رہی تھیں مگر گوہری تمبو والوں کو سانپ سونگھ گیا تھا گویا نماز ہو رہی ہے کہ کھانسنے کھونسنے کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ مظفر سلطان بیگم اب آگے کھسکیں۔ انہوں نے چاروں طرف دیکھ کر کہا۔
شہزادی مظفر سلطان بیگم کی سرگذشت
ظلِّ سلطانی جن کے سایہ میں ہمارا بچپن کٹا اور جوانی گذری ہم سے ہزاروں کوس دور زندگی کے باقی دن پورے کر کے دنیا سے رُخصت ہو چکے۔ سرکار کے مبارک ہاتھوں کے نوالے بار ہا میرے منہ میں گئے ہیں، اور حصور نے سینکڑوں ہزاروں مرتبہ میرے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 21
ہوا ہماری غذا تھی اور املی کی پتیاں ہماری مہماں نواز ۔فرخ نے پانی مانگا میں چلو بھر کر لائی کہ دو جاٹ موٹے موٹے لٹھ کندھوں پر رکھےسر پر آ دھمکے اور پوچھا تم کون ہو اور یہاں کیوں ٹہرے ہو ؟ میں نے منت سے کہا ہم مسافر ہیں تھک کر چور ہو گئے ۔بچوں کو بخار ہو گیا، دم لے رہے ہیں ۔دوپہر ڈھلے آگے بڑھ جائیں گے۔ایک جاٹ جس کی مونچھیں بڑی بڑی تھیں، بگڑ کر بولا تم لوگ شہر سے بھاگے ہو ہم کو بھی پکڑواؤ گے ۔جاؤ یہاں سے آگے بڑھو۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا بچے بیمار ہیں دیکھ لو بخار چڑھ رہا ہے تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے ۔لو چل رہی ہے۔ گرمی تیز ہے۔ اب چلے تو بن آئی مر جائیں گے ۔اس نے لٹھ زمین پر پٹخا اور کڑک کر اٹھا بچوں کو آگے بڑھ۔ میری روح فنا ہو گئی کہ اگر اس نے میرے لٹھ مار دیا تو پھٹکابھی نہ کھاؤں گی اور کسی بچے کے پڑ گیا توسی بھی نہ کر سکے گا۔ فرخ کو گود میں لیا۔ سلیم کو اٹھایا تو کھڑا نہ ہو سکا۔ دوسرے جاٹ کو مجھ پر رحم آگیا اور کہا اچھا بیٹھ جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ دونوں چلے گئے اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہی بیچارا تین موٹی موٹی روٹیاں اور مٹھا لے کر آیا۔ میں نے اس کو ہزاروں دعائیں دیں۔ بچے تو کیا کھاتے میں نے ایک روٹی کھائی اور دو رکھ لیں کہ اگر ان میں سے کسی نے ٹکرا مانگا تو دے دوں گی دوپہر سے پہلے ہی لوگوں کے جھکڑوں نے میرے لالوں کو جھلسانا شروع کیا ۔ہوا کے تھپیڑے منہ پر طمانچے مار رہے تھے اور بخار زدہ معصوموں کے چہروں پر پپڑیاں بندھ رہی تھیں۔ آسمان انگارے برسانے لگا اور زمین شعلے اگلنے لگی۔

ریختہ صفحہ22
مامتا کی ڈوبی ہوئی آنکھیں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی ایک نگاہ سلیم پر تھی اور دوسری فرخ پر ۔اٹکل سے دو کا وقت سمجھ کر میں نہر پر وضو کرنے بیٹھی کہ وہی رحمدل جاٹ آ پہنچا اور اس کی اس آواز نے مجھے چونکا دیاارے تو عورت ہے۔ میں تھر تھر کانپنے لگی کہ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔ہزاروں قسم کے خوف تھے مگر خدا اس کا بھلا کرے میں تو کہتی ہوں سینکڑوں مسلمان اس ہندو پر قربان۔مجھ سے کہنے لگا بہن چل میرے گھر چل۔ میں اس کا منہ تکنے لگی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ڈر نہیں تو بہن اور میں بھائی۔ فرخ کو میں نے گود میں لیا اور سلیم کو اس نے پیٹھ پر ۔ میں ڈرتی ڈرتی اس کے گھر پہنچی تو اس کی بیوی شوہر سے زیادہ ملنسار تھی بچوں کی طبیعت دوسرے دن ٹھیک ہوگی اور ان دونوں میاں بیوی نے ایسی محبت سے رکھا کہ اب بھی خیال آتا ہے تو بے ساختہ دعا نکلتی ہے۔ میں ڈیڑھ مہینہ تک اس گھر میں رہی۔ چجاٹ جاٹنی نے پردیس کو دیس بنا دیا ۔جب میں نے سن لیا کہ شہر میں امی جمی ہوگئی تو ادھر کا رخ کیا۔ بھائی جاٹ خود ہم کو یہاں تک پہنچانے آیا اور میرا رونگٹارونگٹا اس کو ہر وقت دعائیں دیتا ہے ۔
مظفر سلطان کی اس قدر دلچسپ اور درد انگیز تھی کہ بیلہ کا میلہ ، سیلانیوں کی سیر اور دکانداروں کا کاروبار سب خاک میں مل گیا۔ جو تھا وہ گوہری تمبو میں آٹھ آنسو رو رہا تھا کچھ ایسا سناٹا چھایا کہ جو تھا وہ دم بخود۔ مظفر کا بیان ختم ہوا۔

ریختہ صفحہ23
اور شہزادیوں کے نالے دلی کے آسمان کا کلیجہ توڑ چکے تو گوہر آرا بیگم نے میزبان کی حیثیت میں یہ الفاظ کہے،
مظفر سلطان نے بتا دیا کہ قلعہ معلٰی کی بسنے والیاں جنھوں نے گرمی کے دن خس کی ٹٹیوں اور پنکھوں میں گزارے۔ لُو کے تھپیڑوں اور املی کے پتوں میں بھی زندہ رہ سکتی ہیں ۔مگر کون کہہ سکتا تھا کہ خود حضور عالی پر کیا کچھ نہ گزر جائے گی۔
حضور کا نام زبان پر آتے ہی دلی والے تڑپ اٹھے اور ہائے بادشاہ کے نعرے چاروں طرف سے بلند ہوئے۔ آدھ گھنٹہ سے زیادہ یہ کہرام مچا رہا تو شمع زہرہ بیگم کے سامنے آئی۔ زہرہ بیگم جہاں پناہ کی بھانجی تھیں۔ وہ ابھی کچھ نہ کہنے پائی تھی کہ گوہری تمبو میں یہ آواز گونجی
لپٹیں آ رہی ہیں موتیا کی
گوہر آرا بیگم بولیں، خالہ جیتی رہو ۔غنیمت ہے تمہارا دم کہ روتی صورتوں کو ہنسا دیتی ہو ۔
(2) شہزادی زہرہ بیگم کی داستان
بیلے کے بازار جہاں تھوڑے دیر پہلے ایسی چہل پہل اور گہماگہمی تھی کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے اس وقت سناٹے میں تھے۔اور تمام میلہ سمٹ سمٹا کر گوہری بیگم تمبو میں آ گیا تھا گوہر آرا بیگم کا

ریختہ صفحہ 24
فقرہ ختم ہوتے ہیں ایک دفعہ بیگم پھر مہکی اور وہی سزا دوبارہ گونجی،
لپٹی آرہی ہیں موتیا کی
بیگم کے دونوں چھیبے موتیوں سےچوٹی دار بھرے ہوئے تھے ایک میں گجراتی دوسرے میں دیسی ۔ہوا ان کی خوشبو سے مست ہو رہی تھی اور انسانی دماغ جو بادشاہ کا نام سنتے ہی اپنی بدبخت آنکھوں سے آنسو گرا چکے تھے حاموشی سے جھوم رہے تھے ۔ شاہی تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ قلعہ معلٰی کا سماں یاد آگیا۔ گزرے ہوئے دن اور بیتی ہوئی راتیں کلیجے پر چھریاں چلا نے لگیں ۔لمحہ بھر ہو کا عالم رہا ۔آخر گوہر آرا بیگم نے پہلے پانوں کی کشتی مظفر سلطان کے سامنے رکھی اور پھر زہرہ بیگم سے کہا ہاں بیگم اب تم اپنی بپتا سناؤ۔ خدا نے دوبارہ ملوایا ہے۔ ہم کو تو امید تھی نہیں۔
زہرا بیگم نے ہنس کر گوہر آرا بیگم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جس خدا نے بچھڑوایا آیا تھا اسی نے ملوایا ۔میں اپنی داستان کیا سناؤں دل میں زخم ہیں۔ زخموں میں ٹیسیں ہیں۔شہر جہاں پناہ کے ساتھاجڑ گیا ۔اب ہر طرف اللہ ہی اللہ ہے۔ خدا کی شان ہے۔ ہمارا قلعہ جس کی دھوپ میں ہمارا بچپن جوانی سے بدلا اور جس کی چھاؤں میں ہمارے نال گڑے تھے ہماری آنکھوں کے سامنے ہم سے دیدے بدل چکا اور ہم اس کی صورت کو ترس رہے ہیں۔ نیم کی پتیاں اور پیپل کی کونپلیں جس وقت ہوا میں سرسراتی ہیں اور یہ ہری بھری شاخیں اور سر سبز ٹہنیاں جب ہوا میں تیرنے والے پرندوں کو اپنی گود میں لیتی ہیں اور آزادی کے

ریختہ صفحہ 25
گیت گانے والی چڑیاں جس وقت تھرک تھرک کر درختوں پر بیٹھتی اور چہچہاتی ہیں ۔ اس وقت دل ہوا ہوتا ہے۔کلیجہ کے ٹکڑے اڑتے ہیں۔ شہر آبادی کا سماں وہ دن یاد دلاتا ہے جن کی شام اب صبح کی صورت نہ دیکھے گی۔ زندگی اسی کا نام ہے تقدیر کا لکھا بھگتا اور بھگتیں گے ۔
شہر سے ہم تیرہ عورتیں اور دو مرد نکلے تھے ست ہی ست پر جان تھی۔ دونوں وقت کی پھانسیوں نے ہوش اڑا دیے تھے ۔روز ارادہ ہوتا تھا کہ بھاگیں اور جان بچائیں لیکن بڑی چچی کا بخار دم بھر کو نہ اترتا تھا۔ ایک تو ہر وقت چڑھا ہی رہتا تھا اس پر دوسرا اور چڑھتا بڑھاپا اور یہ بخار ڈھانچ رہ گیا تھا ۔سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں۔ ان میں خود ہمت نہ رہی تھی کہ اٹھ کر پانی پی لیں۔ چھوڑ سکتے تھے نہ لے سکتے تھے ۔گورے خالو جان نے آخر یہ فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو نکلو مخبر پیچھے لگ گئے ہیں اور کالا تو جان کا دشمن ہے۔ کیا خبر کس کس کو پھانسیاں دلوائے۔ آج چچا جان کو بھی پکڑوادیا ۔بلاسے آپا جان کو کندھے پر ڈھوئیں گے مگر موت کے منہ سے تو نکلیں گے اور اگر آہی گئی ہے تو خدا کی مرضی۔
بارہ بج چکے تھے جب ہم گھر سے نکلے ۔گہنا پاتا پہلے ہی ختم ہو چکا تھا برتن بھانڈا اور کپڑا لتا زمین کھود کر دبا دیا اور بھرا ہوا گھر خدا کے سپرد کر ،جدھر منہ اٹھا، چل کھڑے ہوئے ۔خالو جان نے اپنی پیٹھ پر چچی جان کو لیا وہ بخار میں ہل ہلا رہی تھیں ان کی ہائے ہائے نے اور بھی دم ناک میں کر رکھا تھا ۔آکا مرزا بھی ساتھ تھے وہ کہتے تھے کہ ہوں کی آواز نہ ہو۔ چچی جان کی کھانسی لمحہ بھر کو چین نہ لیتی تھی۔ راج گھاٹ پر پہنچ کر ہم سب ٹھٹکے۔ پار جانا تھا اور بیچ میں جمنا لہریں لے رہی تھی۔ کیسی مصیبت کا سامنا تھا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 31
بچوں نے پھر رونا شروع کیا اور بھوک سے بلکنے لگے مگر ہو ہی کیا سکتا تھا آخر ماموں جان گاؤں کی طرف گئے اور خدا جانے بھیک مانگ کر یا اپنی داستان سنا کر چار روٹیاں اور دوگھٹیاں پیاز کی لے کر آئے اور ٹکڑا ٹکڑا سب کو دیا۔
بریانی متنجن میں بھی یہ مزا نہ آیا جو اس وقت کے ٹکڑے میں آیا۔ کھا پی آگے بڑھے۔ بچوں کے پاؤں سوج گئے تھے اورلہو نکل رہا تھا۔ مگر کیا کر سکتے تھے اسی طرح چلے گئے۔ شام کے قریب گوہانہ کے پاس ایک گاؤں میں پہنچے۔ یہ مسلمانوں کا تھا اور یہاں کا جو مکھیا تھا وہ سانس کے مرض میں بیمار تھا ۔دنیا بھر کے علاج کر ڈالے مگر کسی طرح آرام نہ ہوا۔ اتفاق سے اس کا ایک نوکر کنوئیں پر پانی بھرنے آیا ۔ہم لوگ بھی وہیں ٹھہرے تھے۔ خدا کی قدرت عجیب ہے۔ وہ ایسے تماشے دکھاتا ہے کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے۔
نوکر نے کسی آدمی سے اپنے مالک کی حالت بیان کی۔ گورے خالو جنہوں نے عمر بھر شکار کھیلا اور کچھ نہ کیا ۔دمہ کی دوا جانتے تھے۔ انہوں نے کہا تین دن میں روئی کی طرح نہ اڑ جائے تو توپ کے منہ اڑادینا۔ اس نے جا کر گھرمیں ذکر کیا ۔ وہاں سے دو آدمی ہم کو لینے آ گئے اور خوب آؤ بھگت ہوئی۔ دونوں وقت گھی اور دودھ کی نہریں بہتی تھیں۔ گورے خالو توحکیم جی بن گئے اور سارا گاؤں ان کے قدم لینے لگا۔ دو مہینے تک ہم وہاں رہے جب ہم چلنے کا نام لیتے گاؤں والے روک لیتے تھے۔ آخر خدا خدا کر کے وہاں سے رخصت ہوئے ۔دو بڑی بڑی بیل گاڑیاں انہوں نے ہم کو دیں اور ایک آدمی یہاں تک

ریختہ صفحہ 32
ساتھ آیا۔ کھا نا اس قدر ساتھ تھا کہ دس اور ہوتے تو کافی ہو جاتا۔
ہم یہاں پہنچے تو امی جمی ہو چکی تھی مگر گھرکے گھر سنسان ہو چکے تھے اور بعض محلے تو ایسے اجڑے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ گدھے کے ہل پھر گئے ۔قلعہ کو دیکھ کر کلیجہ پر سانپ لوٹتا تھا۔ باہر کی دیواریں دیکھ کر اندر کی عمارتوں پر فاتحہ پڑھی اور صبر شکر سے رہنے سہنے لگے۔ مگر دل پر جو گزری اور گزر رہی ہے وہ دل ہی جانتا ہے ۔کیسے کیسے جوان، برابر کی سہیلیاں اور ہمجولیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں کہ دل ڈھونڈ رہا ہے۔لیکن حضور ہی نہ رہے تو کس کے عزیز اور کہاں کی بھنیلیاں۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔
زہرہ بیگم ٹھٹھکیں تو گو ہر آرا بیگم کے اشارے سے شمع قمر زمانی بیگم کے سامنے آئی۔ یہ صاحب عالم کی بھانج بہوتھیں۔ ان کے شوہر محمد شاہ اور ایک جوان لڑکا غدر میں مارے گئے ۔جب کالامخبر قسم کھا گیا کہ دم میں دم ہے تو باقی کے دونوں لڑکوں کو پھانسی دلواؤں گا تو شہر سے بھاگیں۔
گوہر بیگم نے کہا قمر بوا اب اپنی بپتا سناؤ کہ یہ سب مشتاق ہیں۔ تو انہوں نے آنسو پونچھے اور کہنے لگیں۔
(3)شہزادی قمر آرا بیگم کی آپ بیتی
جب مرزا صاحب اور بچہ اللہ کو پیارے ہوئے تو میری حالت دیوانوں کی سی تھی کالے نے میرے بے گناہ بچے پر ستم توڑا اس کا بدلہ اس کو

ریختہ صفحہ 33
مل گیا۔چالیس دن کے اندر ہی اندر ایسا تاراج ہوا اور ایسی پڑی کہ خدا دشمن پر بھی نہ ڈالے ۔جب وہ میرے بچوں کی فکر میں تھا تو میں ایک دن دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑ باہر نکلی بھرا گھر تھا مگر کیا کیا لیتی۔ برتن بھانڈا کپڑا اللہ زمین میں گاڑا۔ جدھر منہ اٹھا، چلتی ہوئی ۔بڑی خرابی یہ تھی کہ رات کو نکلتی تو رستہ کا پتہ نہ تھا اور دن کو جاتی تو پکڑا دھکڑی ہو رہی تھی۔ جھٹ پٹا ہو رہا تھا کہ میں نے دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑا ۔مجھے یہ بھی خبر نہیں کہ یہ لاہوری دروازہ ہے یاکابلی۔ بڑے لڑکے نے جو اللہ رکھے اب گیارہویں میں ہے۔بتایا کہ یہ اجمیری دروازہ ہے۔ گوروں کا پہرہ اور ان کی کرچکیں اور تلواریں دیکھ کر جان نکل گئی۔ چھوٹے نے کہا اما بیوی کھائی کھائی چلو کھڑکی میں سے نکل جائیں گے۔ مجھ کمبخت کو کیا خبر کہ کھائی کہاں ہے اور کھڑکی کدہر۔ اس کے پیچھے ہو لی ۔وہ تھا تو بچہ مگر سچا تھا۔ چلتے چلتے ایک ٹوٹا دروازہ ملا، اسی کو کھڑکی کہتے تھے۔ یہاں بالکل سناٹا تھا ہم باہر نکلے تو خاصی دو ڈیڑھ گھڑی رات گزر چکی تھی اور چاندنی اچھی طرح نکل رہی تھی ۔بڑے نے کہا یہ ادھر تو نظام الدین ہے اور ادھر گوڑ گانوہ۔ ہم نے نظام الدین کی سڑک چھوڑ دی اور گاؤں کی طرف ہو لیے۔ ابھی تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ ادھر سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آنی شروع ہوئی۔ بس دم نکل گیا ۔بچوں کو لے کر ایک پیپل کے درخت کے پیچھے جا چھپی۔ تو تین گورے سرپٹ گھوڑے دوڑائے جارہے تھے۔ کاٹھیو ں میں کبوتر اور فاختہ تھے اور خبر نہیں کیا کیا پرندے بندھے ہوئے تھے ۔یہ شکاری لوگ تھے ۔وہ نکل گئے تو جان میں جان آئی۔ آگے بڑھی تو چھوٹا ننھا کہنے لگا ہم تو تھک گئے اور بھوک لگ رہی ہے میں اپنی

ریختہ صفحہ 34
افراتفری میں روٹی لینے بھول گئی ۔نہیں تو دو روٹیوں میں گھی لگا لون ڈال لیتی۔ اس کو بہلاتی پھسلاتی چلی جارہی تھی اور دل ہوا ہو رہا تھا کہ موئے گیدڑوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔چاند کی شروع تاریخیں گھنٹہ دو گھنٹہ کی بہار دکھا کر چنداماموں نے بھی ساتھ چھوڑا۔ اب ہم تین دم ،جنگل کا سناٹا اور ہوا کا فراٹا۔ برقع میں جو ہوا بھری تو کُپاہو گیا ۔بہتیرا ٹھیک کرتی ہوں مگر وہ ایک قدم آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ خدا خدا کرکے اتارا ۔تہہ کیا اور چلی۔ اب جو دیکھتی ہوں تو چھوٹا سڑک پر بیٹھا بسوررہا ہے کہ روٹی دو۔ میں نے بہتیرا ہی سمجھایا۔ بڑے ننھےنے چمکارا مگر وہ قبضہ میں نہ آیا۔ مچل گیا چلانے لگا۔ یہی خدا کا شکر تھا کہ سننے والا نہ تھا ۔آخر تڑپ تڑپ کر بچہ سو گیا تو بڑے نے پیٹھ پر لادا اور پھر آگے بڑھے۔ صبح ہوتے ہم شہر سے چار کوس دور نکل گئے ۔یہاں کسی زمانہ کا ٹوٹا ہوا ایک مدرسہ تھا اور اس کے پاس ہی گاؤں بھی تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک تالاب بھی نظر آیا ۔میں نے وضو کیا اور مدرسہ میں آکر نماز پڑھی بڑے کا انگر کھا اتار کر ایک گوشہ میں بچھایا تو نیچے کنکر تھے۔ ہاتھوں سے ان کو صاف کیا اور جھاڑو دے دلا انگرکھا بچھا ، دونوں کو اس پر لٹا دیا ۔ وہ دونوں رات بھر کے تھکے ہوئے اور جاگے ہوئے سو گئے اب مجھ کو یہ خیال آیا کہ چھوٹا اٹھتے ہی روٹی مانگے گا۔ برقع اوڑھ باہر نکلی اور سامنے ایک گھر میں جاکر سوال کیا تو ایک بڑھیا باہر نکلی اور مجھ سے پوچھا کہ تو کون ہے اور کہاں سے آئی ہے ۔میں اس سے کھڑی باتیں کر رہی تھی کہ ایک جوان سا آدمی میرے قریب آ کر کھڑا ہوااور ڈانٹ کر کہا تو شہر سے بھاگی ہے ہم تجھ کو پکڑ کر شہر پہنچائیں گے۔ خدا معلوم وہ کمبخت کیا کرتا کہ اور دو چار آدمیوں

ریختہ صفحہ 35
نے آ کر اس کو دھمکایا اور میری پوری کیفیت معلوم کرکے مجھ کو چار روٹیاں اور مٹھا دیا ۔میں مٹھا اور روٹی لے کر مدرسہ آئی تو چھوٹا بچہ بے خبر اور بڑا بیٹھا میری راہ دیکھ رہا تھا۔ ایک روٹی تو میں نے بڑے کو دی اور ایک آپ کھائی۔ اتنے میں چھوٹا بھی اٹھ بیٹھا اس کے آگے رکھ دی ۔ہم کھانا کھا رہے تھے دیکھتے کیا ہیں کہ خالہ سردار کی بیٹی بی خوبن لڑھکتی پڑتی چلی آرہی ہیں ۔میری تو جان میں جان آگئی کہ پردیس میں خدا نے فرشتہ بھیج دیا۔خوبن عورت کیا آفت کا پرکالہ تھی۔ آتے ہیں مارے ہنسی کے پیٹ میں بل ڈال دیئے۔ میں بھی ساری بپتا بھول گئی ۔ایک روٹی اس کو دی۔روٹیاں موٹی موٹی تھیں اور ایک بہت تھی۔ دونوں بچوں نے تو اس میں سے بھی ٹکرا چھوڑ دیا ۔ کھا پی چکے تو بھلا خو بن کیا نچلی بیٹھنے والی تھی۔ میں نے بہتیرا کہا کہ چپ بیٹھ مگر وہ کیا ماننے والی تھی کہنے لگی میں تو سارے رستے ہی اچھلتی کودتی آئی ہوں۔ میرے ساتھ تو چار اور ہوتے تو پیٹ بھر دیتی۔چل تو کھڑی ہو میرے ساتھ چل۔وہ ایک ایک گھر میں سنگنیاں لیتی تھی ۔ ایک گھر میں سے کسی بیمار کے کراہنے کی آواز آئی ۔ وہاں کان لگا کر دیر تک سنتی رہی اور پھر اس زور سے کنڈی بجائی کہ میں ڈر گئی۔ایک بڈھا اندر سے نکلا تو کڑک کر کہنے لگی بیمار کا کیا حال ہے اب تک آرام نہیں ہوا ۔وہ آدمی ہکا بکا ہو کر رہ گیا اور کہنے لگا جی تم کون ہو گھرمسلمان کاتھا۔ بی خو بن نے زور سے کلمہ پڑھا اور کہا ہم کو کیوں پوچھتا ہے فقیر ہیں۔ حکم
 

محمد عمر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 26
اندھیری رات اور بچے ساتھ! گورے خالو مچھلی کے شکار کے دھنیا تھے۔ دریا کا چپّہ چپّہ اُن کا دیکھا بھالا تھا۔ وہ دور تک اپنے ساتھ لے گئے اور نگمبود کے پاس جا کر کہا لو اترو یہاں۔ پانی ٹخنے ٹخنے ہے۔ کیا بتاؤں دریا کیوں کر پار کیا۔ پوری منزل طے کی اور پھر قلعہ ہی کے پاس تھے۔ بچوں کو گود میں لیا مردوں کا ہاتھ پکڑا اور ایک ایک کر کے ادھر پہنچے۔
منجھلی نانی اماں سب سے زیادہ ہنکار رہی تھیں۔ ان ہی کا پاؤںن رپٹا اور دھڑام سے گریں۔ مختصر یہ کہ خدا خدا کر کے پار پہنچے۔ بچے کپکپا رہے تھے۔ چچی جان کی کھانسی نے اور بھی غضب ڈھا رکھا تھا کہ کتے بھونکتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ خالو جان نے لکڑیاں پٹخائیں اور ہم سب ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ گھڑی گھنٹہ تو ہمارے پاس تھا نہیں تین ضرور بجے ہوں گے۔ آکا مرزا نے کہا چلو جلدی کرو ابھی شہر میں ہی ہیں۔ صبح ہو رہی ہے۔ کسی نے دیکھ لیا تو یہیں ڈھیر ہوں گے۔ ایک اور مصیبت یہ ہوئی کہ مجھ کمبخت کے پاؤں میں ڈھلایا پائجانہ تھا۔ بھاگی تو بھاگا نہ گیا۔ سب سے پیچھے رہ گئی اور جب سب نکل گئے تو چلّائی کہ خدا کے لئے ٹھہرو میں بھی آ رہی ہوں۔ ہم لوگ مشکل سے دو کوس گئے ہوں گے کہ صبح ہو گئی اور ایک گاؤں میں پہنچے۔ یہ ٹھاکر گڑھ تھا۔ ہندو مسلمان دونوں آباد تھے۔ ان لوگوں کو ہم تماشہ ہو گئے۔ جو آتا دو چار باتیں بناتا اور ہنسی اڑاتا۔ بھوکے بھی تھے پیاسے بھی۔ ایک گوجر نے لٹھ پھرا کر کہا یہ بھگوڑے ہیں۔ ان کو شہر لے چلو انعام ملے گا۔ ہماری تو یہ سُن کر جان نکل گئی مگر

ریختہ صفحہ 27
وہ اصل میں مذاقیہ آدمی تھا کیونکہ اسی شخص نے سب سے زیادہ ہمدردی کی اور دوپہر کا کھانا اسی نے کھلایا۔ دن پہاڑ ہو گیا کہ کسی طرح گھٹتا ہی نہیں تھا اور ہم اس فکر میں تھے کہ ذرا جھٹ پٹا ہو اور آگے بڑھیں۔ گاؤں والوں نے ہم کو پریشان نہیں کیا اور ہم نے جس طرح ممکن ہوا دن بسر کیا۔ جی تو یہ چاہتا تھا کہ اس کا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھیں مگر مصلحت یہ نہ تھی شام ہوتے ہی چل پڑے۔ بچے نیند جھونٹوں میں جھوم رہے تھے اور بڑوں کی بھی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ دس بجے ہوں گے کہ چچی جان کو بخار چڑھا۔ گرمی کے دن تھے۔ لحاف رضائیاں ساتھ نہ تھیں۔ بخار سردی سے آیا سب ان کو لپٹ گئے مگر کپکپی کسی طرح نہ تھمی۔ اس پر طرّہ ان کی پیاس بھی۔ وہاں پانی کہاں۔ ایک لٹیا میں توتلی پھوپی جان نے بچے کے واسطے دو گھونٹ ساتھ لے لئے تھے وہی کام آئے۔ مگر اس سے کیا ہوتا تھا۔ آخر ایک درخت کے نیچے بچھونے بچھائے اور سوچا کہ یہاں دم لیں۔ رات بھر کے جاگے ہوئے تھے تندرست کی خبر نہ رہی نہ بیمار کی۔ آنکھ کھلی تو سورج سر پر تھا مگر سامنے ہی ایک ٹوٹا ہوا گنبد تھا۔ بھاگ کر وہاں جا چھپے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ آکا اور خالو باہر نکلے۔ گاؤں بہت دور تھا ہم نے ان کو نہ جانے دیا۔ بچے بھوک کے مارے بلوں بلوں کر رہے تھے اور خود ہماری انتڑیاں بھی قل ہو اللہ پڑھ رہی تھی۔ مگر نہ کچھ کر سکتے تھے نہ ہو سکتا تھا۔ رات سر پر آ گئی اور گیڈروں کے غل غپاڑے کے ساتھ بچوں کی چیخم دہاڑے نے اور بھی قیامت بپا کی۔ آگے بڑھے مگر بدن میں سکت نہ تھی۔ بچوں کو گودوں میں لیا۔ خدا کی قدرت یاد

ریختہ صفحہ 28
آتی ہے کہ وہ کس طرح تماشے دکھاتا ہے۔ دور فاصلہ پر ایک دھندلی سی روشنی نظر آئی۔ ہم ایک کونے میں بیٹھ گئے اور دونوں مرد وہاں پہنچے تو وہ چنے کی دکان تھی۔ وہ چنے پلاؤ بن گئے۔ چنے والا بھی بھلا مانس تھا۔ چنے بھی کھلائے پانی بھی پلایا۔ ذرا پیٹ میں پڑی تو آگے بڑھنے کی سوچی مگر ادھر دیکھتے ہیں تو چچی جان ٹھنڈی برف پڑی ہوئی ہیں۔
آکا نے دیکھ کر کہا ان کی نبضیں بھی جا چکیں۔ بہترا جھنجوڑا آوازیں دیں لیکن ان کو ہوش نہ تھا۔ حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہو رہی تھی۔ اندھیرا گھپ۔ صورت بھی نہ دکھائی دیتی تھی۔ سانس سنا تو وہ یہی کچھ ٹھیک نہ تھا۔ مختصر یہ کہ گھبرا بولنے لگا۔
میں سمجھتی ہوں دنیا میں اس سے زیادہ درد انگیز موتیں کم ہوں گی۔ شہد اور دوا تو درکنار پانی تک نصیب نہ تھا۔ یہ بھی نہ معلوم ہوا کہ کب گزریں اور کیونکر گزریں۔ خالہ سکندر نے کہا ہو چکیں میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ مر بھی گئیں یا نہیں۔ راتوں رات گڑھا کھود کر وہ کبھی کس طرح کتلوں سے الٹا سیدھا ان ہی کے کپڑوں میں جو بدن پر تھے دبا دیا اور روانہ ہو گئے۔
صبح ہم کو دکیانی میں ہوئی۔ یہ مسلمانوں کا گاؤں تھا اور یہاں آکا میاں کے ایک دوست رہتے تھے۔ وہ ہم سب کو اپنے گھر لے گئے۔ اپنی ذات سے بہت نیک آدمی تھا۔ لیکن ان کی بیوی ایسی دماغ چوٹی تھی کہ خدا کی پناہ۔ سیدھے منہ بات کرنی ہی قسم تھی۔ نیک بخت نے بیسنی روٹی پکائی گھی کی ہنڈیا پاس تھی۔ آپ بھی کھایا بچوں کے ہاں بھی

ریختہ صفحہ 29
لگایا۔ مگر ہم کو روکھی دی۔ میں نے کہا اچار ہوتا تو اچھا تھا۔ اٹھی اور لہسن کی چٹنی سامنے لا رکھ دی۔
ہم دو دن دو رات وہاں ٹھہرے مگر اس کی بد مزاجی سے بہت پریشان ہوئے اور تیسرے دن آگے روانہ ہو گئے۔“
یہاں تک پہنچ کر زہرہ بیگم خاموش ہوئیں پانوں کی تھالی اپنے آگے گھسیٹی اور مسکرا کر گوہر آرا بیگم سے کہا۔ ”آپ کے آج کے میلے نے تو اچھے اچھے مشاعروں کو مات کیا کہ جہاں تک نظر جاتی ہے آدمی ہی آدمی دکھائی دے رہے ہیں۔“
گوہر آرا بیگم بولیں۔ ”بیوی یہ بھی کوئی دن کی بات ہے۔ چند روز بعد شہر اور شہر والے ان رنگوں کو بھول بسر جائیں گے۔ نئے نئے لوگ ہوں گے۔ نئی نئی باتیں ہوں گی۔ دیکھ لو، بادشاہ کے کیسے کیسے جاں نثار جو پسینے پر خون بہانے کو تیار تھے خون کے پیاسے ہو گئے اور نمک حراموں نے جھوٹی گواہیاں دیں۔ ابھی اعلیٰ حضرت کا نام زندہ ہے کہ ہم جیسی لونڈیاں موجود ہیں۔ ہمارے بعد کوئی نام بھی نہ لے گا۔ جس کے قدموں سے دلّی اور دلّی والوں نے آنکھیں ملیں اس کی روح فاتحہ کو ترسے گی اور دو روٹیاں بھی نصیب نہ ہوں گی۔ سچ پوچھو تو ببیلہ میں میلا اور جنگل میں منگل تمہارے دموں سے ہوا ورنہ اس کمبو میں کون آتا اور یہ چہل پہل ہوتی۔“
ہائے تقدیر چچی جان کو کفن نصیب ہوا نہ قبر ملی۔ ان ہی کپڑوں میں خدا کے سامنے بھی گئیں۔ دیکھو خدا اپنی قدرت کے تماشے کس طرح دکھاتا ہے۔ کیسی نازک مزاج ہوی تھیں۔ بچھونے پر سلوٹ ہوتی تھی تو

ریختہ صفحہ 30
ناک بھوں چڑھا لیتی تھیں۔ یہ خبر نہ تھی میّت کو غسل بھی نصیب نہ ہو گا۔“
زہرہ: اجی حضرت غدر نے جو مصیبت زدوں اور مردوں پر ڈالی ہے خدا دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ خیر وہ تو مر کر سب بلاؤں سے چھوٹ گئیں زندوں کو فرمائیے کہ ان پہ کیا گزری ہو گی اور یہ پھلروا سے لال جب بلوں بلوں کرتے ہوں گے تو مامتا کیا کہتی ہو گی۔
گوہر آرا: ہاں بیوی سے کہتی ہو۔ مگر جب صاحبِ عالم جہاں پناہ ہی پر ایسی گذری کہ آسمان اور زمین کانپ گئے اور بھوکے پیاسے گھر سے رخصت ہوئے تو ہم لونڈی غلام کس گنتی میں ہیں۔
ابھی گوہر آرا بیگم کی گفتگو ختم نہ ہوئی تھی کہ ایک متفقہ آواز بلند ہوئی اور لوگوں نے تقاضا کیا کہ آگے فرمائیے۔
زہرہ بیگم نے ہنس کر کہا۔ ”بہت اچھا۔“ پھر وہ سنبھلیں اور کہنے لگیں۔
”تیرہ آدمیوں میں سے ایک تو اللہ کو پیاری ہوئیں اب ہم بارہ آدمی تھے دوپہر کے وقت ایک بڑ کے درخت کے نیچے ہم ذرا سستائے۔ گاؤں یہاں سے قریب تو نہ تھا مگر دکھائی دے رہا تھا۔ پیاس کے مارے پھیپھڑیاں بندھ رہی تھیں کہ ایک طرف سے گانے کی آواز آئی۔ یہ لاؤ والوں کی صدا میں تھیں۔ کیا بتاؤں عید کے چاند کی بھی اتنی خوشی نہ ہو گی جتنی اس وقت اس روز کی ہوئی۔ ہم سب لپکے مگر مردوں نے ہم کو روکا اور خود گئے۔ لاؤ والا بے چارہ کوئی شریف آدمی تھا۔ اس نے ایک گھڑا پانی بھر دیا اور اکا نے آ کر ہم سب کو پلایا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 36
ہوا آگئے ۔صبح آگے بڑھ جائیں گے ۔جلدی بتا کیا حال ہے ۔" بڈھے نے غور سے صورت دیکھی تو بی خوبن نے زور زور سے الحمد پڑھنی شروع کی اور کہا "دیکھتا کیا ہے دوا بھی لے، دعا بھی لے۔ دور دور بیماری دور ۔بول کیا حال ہے اور دیکھ سات دن میں تیرے گھر پر بلا نازل ہونے والی ہے۔آگ لگے،مردہ نکلے، ڈھور مرے، سناونی آئے، بیمار کو دم کا پانی دے۔ جا جا دور دور بلا دور۔ "
بڈھا سوچتا ہی رہا کہ کیا کرے اتنے میں اندر سے ایک ادھیڑ عمر کی عورت دروازہ میں آئی اور کہنے لگی کیا ہے۔ بڈھے نے جواب دیا ۔" ہے کون ۔اللہ نے اپنے مہمان بھیجے ہیں ۔آجا کوئی مرد نہیں ہے" میں اب تک تو سہم رہی تھی مگر اب مجھے بھی ہنسی آنے لگی ۔خوبن نےعورت کی صورت دیکھتے ہی کہا "بیمار کا یہ حال کر دیا۔ اچھا اب بھی ہوشیار ہو ۔مسجد میں چراغ جلا۔ دور بلا دور۔"
خوبن نے اتنا ہی کہا تھا کہ عورت قدموں میں گر پڑی اور کہنے لگی" میرا لڑکا بخار میں لوتھ پڑا ہے اندر چل کر دیکھ لو" مرد بولا "مائی جی کہتی ہیں بلا نازل ہونے والی ہے۔" عورت تو اتنا سنتے ہی خوبن کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی کہ "رحم کرو۔"
میرے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے اورخوبن اکڑ رہی تھی۔" دور دور دور" کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ عورت اور مرد دونوں سامنے آ کھڑے ہوئے۔ ایک نے ہاتھ جوڑے ایک نے پاؤں پکڑے۔ ان کے کہنے سننے اور منت خوشامد سے خوبن کلمہ درود پڑھتی ہوی لوٹیں۔مجھے انھوں نے ہدایت کر دی تھی کہ پیچھے پیچھے رہوں اور ہاتھ جوڑے رہوں وہ دونوں

ریختہ صفحہ 37
میاں بیوی ان سے دو قدم پیچھے میرے ساتھ تھے ۔خوبن گھر میں داخل ہوئی تو عورت لپک کر آگے بڑھی اور چراغ دکھایا ۔باہر کے چبوترے پر بیمار پڑا ہائے ہائے کر رہا تھا۔ یہ ایک جوان لڑکا تھا اور بخار چڑھا ہوا تھا ۔خو بن نے جھوٹ موٹ نبض دیکھی اور زور سے قہقہہ لگا کر کہا
" ڈھائی سیر خشکہ ، ڈھائی سیر گھی، ڈھائی سیر دہی، ڈھائی سیر کھانڈ ابھی تیار کرو اس کا بخار میں لے لیتی ہوں" اتنا سنتے ہی دونوں ماں باپ کی جان میں جان آ گئی ۔یہ ترکیب خوبن نےاس وقت کی جب دیکھ لیا کہ پنڈا پسیج رہا ہے اور بخار اترنے والا ہے۔ گاؤں میں کیا کمی تھی سب چیزیں گھر میں موجود تھیں ۔گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں خشکہ اور سب سامان آ گیا۔ خوبن نے اس میں سے دو نوالہ کھاتے آواز لگائی۔
" دور دور بلا دور بخار دور چل چل اس کے پاس سے چل اٹھ میرے پاس آ "
مریض کا بخار اتر ہی رہا تھا۔ بی خوبن خشکہ لے وہیں مدرسہ میں آئی اور ہم سب نے مل کر کھایا اور پڑ رہے ۔صبح ہوتے ہی عورتیں اور مرد ٹھٹ کا ٹھٹ موجود تھے کہ پیرانی جی کہاں ہیں۔ میرے فرشتوں نے بھی یہ سوانگ نہ دیکھے تھے۔ میں نے تو کہہ دیا ہوا خوبن میرے بس کا روگ نہیں ہے مگر بڑا ننھا اس کے ڈھب پر چڑھ گیا۔ ایک لکڑی لے کر باہر بیٹھ جاتا اور جہاں لوگ آئے آواز سے کہہ دیا" ٹھہر جاؤ کہ پیرانی جی نماز پڑھ رہی ہیں" چار پانچ دن میں تو سارا گاؤں بی خوبن کے قدموں میں تھا۔ مجھ کو تو ایسے کھانے ملے کہ میں قلعہ بھی بھول گئی۔ روز مرغ پکتے تھے کیونکہ خوبن جو تعویذ لکھتی تھیں وہ مرغ کے خون سے، دور دور

ریختہ صفحہ 38
کےلوگ آنے لگے اور بی خوبن کی وہ پوجا ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ مدرسہ میں تو ہم کوئی آٹھ دس ہی دن رہے اس کے بعد ایک بہت بڑا مکان جو بارہ دری کے نام سے مشہور تھا ہم کو مل گیا۔ کھانا تو ہم کو کبھی پکانا پڑا نہیں اور چاروں طرف سے اتنا آتا تھا کہ ہم جیسے بیس آدمیوں کو کافی ہوتا۔ دونوں وقت دو مٹکے دودھ کے آتے تھے۔ خوبن کے صدقہ میں ہماری بھی عزت ہو گئی۔ پیرانی جی تو ایسی پجیں کہ آس پاس کے گاؤں بھی ان کے قدموں میں آ گرے۔ ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا تھا۔ میرا بڑا ننھا اب مگن تھا، جو کچھ آتا تھا اسی کے ہاتھ میں اور جس کا کام اٹکتا تھا وہ اسی کی خوشامد کرتا تھا کہ پیرانی جی دعا کریں تو کام ہو جائے۔
ہم کو یہاں رہتے ہوئے خاصےدو ڈھائی مہینے ہو گئے۔ کوئی دن ایسا نہ جاتا تھا کہ خوبن کے پاس دو ڈھائی روپیہ کے پیسے نقد نہ آجاتے ہوں۔ بڑا ننھا تیسرے چوتھے روز روپیہ بندھوا لیتا تھا مگر اب میرا دل اکھڑ گیا اور میں نے اس سے کہا کہ اب گھر چلنا چاہیے۔ وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئی ۔اس خبر سے لوگ اور بھی زیادہ اس کے گرویدہ ہوئے۔ غرض خدا خدا کر کے بڑی مشکل سے تین مہینے کے اقرار پر اجازت ملی۔ عورتیں اور مرد اس طرح رو رہے تھے جیسے کوئی اپنا عزیز جاتا ہے۔ صبح کی نماز کے وقت ہم گاڑی میں بیٹھے اور شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ دوپہر کو ایک گاؤں میں جس کا نام گرت تھا، ہم لوگ ٹھہرے کھانا بہت کافی تھا اچھی طرح پیٹ بھر کر کھایا۔ کنوئیں کا ٹھنڈا پانی پیا اور درختوں کی چھاؤں میں تھوڑی دیر لیٹے۔ گاڑی بان نے بیلوں

ریختہ صفحہ 39
کے کٹی ڈالی، پانی پلایا ۔وہ بھی سستا لئے تو کوئی تین بجے کے قریب ہم آگے بڑھے۔ مگر ایک بات سے میں کھٹک رہی تھی کہ گوجر گاڑیبان راستے بھر اکڑ اکڑ کر اور اکھڑ اکھڑ کر باتیں کر رہا تھا۔ ننھے نے کہا بھی کہ" ذرا آہستہ بول پیرانی جی سو گئی ہیں" تو اس نے جواب دیا کہ "ایسی ایسی پیرانیاں بہت سی دیکھی ہیں" ہم سمجھ رہے تھے کہ پانچ چھ روز میں شہر پہنچ جائیں گے اور چلتے وقت بھی یہ ہی سب نے کہا تھا کہ بیل موٹے اور جوان ہیں۔ یہ بچھڑے دوہری منزل طے کریں گے۔ دلی چھٹے روز داخل ہوگی۔ مگر اب اس کمبخت نے کہا کہ "پورے پندرہ روز لگیں گے۔ دلی یہاں رکھی ہے اسی کوس جگہ کیا منہ کا نوالہ ہے" میں نے دیکھا کہ اس کے تیور بگڑ رہے ہیں اور وہ رستہ میں دغا دے تو اچنبھا نہیں۔ اس لیے رات تو ہم نے خیر جوں توں کر کے ایک گاؤں میں گزار لی ۔خوبن اور بچے پڑے سوتے رہے اور میں رات بھر جاگتی رہی۔ گوجر کمبخت بھی رات بھر جاگتا رہا اور جب وہ اٹھا میں کھنکاری آخر اس نے کہہ دیا "تجھے نیند نہیں آتی" صبح اٹھتے ہی میں نے خوبن سے کہا "الٹی لوٹ چل، ایک آدمی ساتھ لے یا گاڑی والا بدل۔" مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا اور ہم سب پھر شہر کی طرف چلے۔ دوپہر کو کنویں کے پاس دم لیا اور دو گھنٹے سستا کر آگے بڑھے۔ رات ہم کو مینا پورے میں ہوئی۔ یہ مینوں کا گاؤں تھا۔ میرا ماتھا نام سنتے ہی ٹھنکا مگر خوبن کا دل شیر تھا وہ نہ ڈری اور ہم سب چوپال کے پاس اترے۔ گوجر ہم کو چھوڑ کر غائب ہو گیا اور دس بجے رات کے آیا تو بی خوبن اور دونوں بچے کھا پی کر سو گئے تھے۔ گوجر نے مجھ سے کہا" تیری نیند کون لے گیا کل بھی تو رات بھر جاگی اور آج بھی نہیں

ریختہ صفحہ 40
مرتی ۔ہمارے یہاں سے بہت کچھ کما کر لائی ہے وہ سب اگلنا پڑے گا" میں نے جلدی سے خوبن کو جگایا اور اب جو دیکھتی ہوں تو چار آدمی موٹے موٹے لٹھ لیے سر پر کھڑے ہیں ان میں سے ایک نے کہا، " اگر آواز نکالی تو ابھی مغز پھاڑ ڈالیں گے جو کچھ پاس ہو سب رکھ دو۔" پیرانی جی ذرا پھیلی تھیں اور اتنا ہی کہنے پائی تھیں کہ" ہم فقیروں کے پاس کیا خاک رکھا ہے" کہ ایک شخص نے اس کے منہ پر زور سے تھپڑ دیا اور کہا "اب اور بول" ۔ اس کے بعد تلاشی ہوئی جو کچھ پاس تھا سب چھین لیا۔یہ خدا کا شکر ہے کہ موسم گرم تھا ورنہ اور مصیبت آتی۔ اس میلے کچیلےجوڑے کے سوا جو بدن پر تھا دانت کریدنے کو تنکا تک نہ رہا ۔ہمارے ساتھ آٹا اور گھی بہت تھا اور ہم سمجھتے تھے گھر پہنچ کر بھی کھائیں گے مگر وہ بھی چھین لیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے دیا سلائیاں جلاکر میری اور خوبن کی صورتیں دیکھیں۔ ہماری بھی تقسیم ہوئی اور اسی طرح دونوں بچوں کی بھی باری آئی وہ بھی بٹے۔ میں نے کہا کہ چھوٹا بچہ میرے ساتھ رہے تو اچھا ہے نہیں تو مر جائے گا لیکن کسی نے نہ مانا اور ہم جس جس کے حصے میں آئے تھے اس کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوئے۔
میں نے ایک ایک کے اگے منت خوشامد کی، قدموں پر سر رکھا لیکن وہ ظالم کیا مانتے۔ خدا کا یہ بھی شکر ہے کہ میں جس کے پلے پڑی وہ بدمعاش نہ تھا اس کی گھر والی نے مجھے لونڈیوں کی طرح رکھا۔ میری اصل مصیبت کا آغاز اسی جگہ سے ہوتا ہے۔
میں صبح چار بجے سے اٹھا دی جاتی تھی اور ڈھوروں کا گوبر جمع کر کے اُپلےتھاپتی تھی۔ اس کے بعد ان ڈنگروں کی سانی اور کٹی کرتی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 51
عصر کے بعد بے قصوروں کا ٹانڈا آیا ۔مرزا کو دیکھ کر اباجان نے ایک چیخ ماری اور چاروں طرف کہرام مچ گیا۔ ایک فرنگی نے آکر سب کو قطار میں کھڑا کیا اور سپاہیوں نے بندوقیں چھوڑ دیں۔ بیچارے اللہ مارے تڑپ تڑپ کر چلتے ہوئے اور جہاں پناہ کا فرمانا صحیح ہوگیا۔
" نا کفن ملا نہ دفن ہوئے نہ فاتحہ ہے نہ مزار ہے"
اماں جان مرزا کے گرتے ہی لپکیں۔ وہ ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ گولی کنپٹی میں لگی تھی اور خون بہ رہا تھا۔ انہوں نے سر اٹھا کر گود میں لیا اور پیار کرنے لگیں کہ اسی مردے نیازو نے لاش چھین لی اور دھکا دے کر کہا "بڑھیا آگے بڑھ" ۔ لاشیں بھنگیوں اور چماروں نے اٹھا کر دریا میں پھینک دیں اور ہم سب جدھرجس کا منھ اٹھا روتے پیٹتے چلے گئے۔ اماں جان بارہ مہینے کی بیمار تھیں اور جب سے بڑے مرزا کو گھٹیا ہوئی تھی دن دن بھر اور رات رات بھر وہاں روتی تھیں۔ عمر بھر کی کمائی یہ ہی ایک دم تھا۔ سنبھل نہ سکیں۔ میں ان کو لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی کہ ان کو زور کی کھانسی اٹھی اور کھانسی کے ساتھ ہی سانس اکھڑ گیا اور انہوں نے پانی مانگا وہاں پانی کہاں۔ میں دریا کی طرف دوڑی چلو میں پانی لائی مگر وہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں۔
میرا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا اور اکیلی بیٹھی ان کی صورت دیکھ رہی تھی کہ نیازو مردےنے پیچھے سے آ کر کہا" ارے بڑھیا بھی لڑھک گئی" اس کے ساتھ ایک سپاہی تھا۔ دونوں نے مردے کو لے جا کر دریا میں پھینک دیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ نمک حرام نیازو جو نانا جان کا غلام تھا طوطے کی طرح دیدے بدل اپنی ہستی بھول جائے گا۔ رو رہی تھی کہ وہ ہنستا ہوا آیا اور کہا" اب تم مجھ سے نکاح کر لو" میرے سر سے جو لگی تو تلوؤں سے نکل گئی ۔ بدن بیری کی طرح تھر تھر کانپنے لگا۔ آگے

ریختہ صفحہ 52
بڑھ کر میں نے اس کے پٹھے پکڑ لئے اور کہا "موئے پاجی تیری یہ ہستی کہ اس منہ سے نکاح کا نام لے" مگر کجا میں عورت اور کجا وہ مرد۔ جھٹکا دے ہنستا ہوا سامنے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا "اسی میں خیر ہے نہیں تو دو دو دانوں کو ترسو گی۔ ادب کو پھونک دو اور آج ہی نکاح کر لو" میرے بدن میں آگ لگ رہی تھی اور وہ ناشاد ہنس جا رہا تھا ایک کی ہزار سنائیں مگر اللہ رے بے غیرتی۔ نو سو مکی بندی کے ڈنر پر لکھی۔ جوان مرگ پر اثر ہی نہ ہوتا تھا شام ہو چلی تھی۔ کہنے لگا "اس جنگل میں کوئی شیر بھیڑیا یا دیو کھا جائے گا۔ کب تک بیٹھو گی۔ کیا کھاؤ گی اور کہاں سوؤ گی۔" میں کیا بتاؤں کہ کیا گزر رہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ موئے کو کچا کھا جاؤں۔ آگے بڑھ کر پھر پکڑا اور ایک دو ہتڑ پورے زور سے مارا مگر اس ناشاد پر کیا اثر ہوتا۔ میں اس کو کوس رہی تھی کہ پیچھے سے آ کر کسی نے کولی بھر لی۔ ہاتھ اس نے پکڑے اور پاؤں کمبخت نیازو نے اور مجھ کو ڈنڈا ڈولی کر لے چلے۔ خدا ہی جانتا ہے آدھی تھی یا پچھلا یہ دونوں ملعون مجھ کو ایک ٹوٹے ہوئے برج میں لائے اور نیازو نے چاقو نکال کر کہا "اگر آواز نکالی تو جان سے مار ڈالوں گا"
اب اور مصیبت یہ آئی کہ سپاہی موا قاضی بنا اور نیازو مردا دولہا۔ قاضی جی ہندو تھے جن کو ایک حرف خطبہ نہ آتا تھا انہوں نے نکاح پڑھایا۔ مجھ پر جو بپتا پڑی خدا دشمن پر نہ ڈالے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ جی چاہتا تھا کہ ان نابکاروں کو ایسی جگہ ماروں جہاں پانی تک نصیب نہ ہو۔ مگر اب تو میں خود ہی مر رہی تھیں مجھے اس وقت وہ سماں یاد آ رہا تھا جب بڑے ننھے کے پیدا ہونے پر یہ جہاں پناہ نے خود عقیقہ کیا تھا۔ چھٹی کے روز گجر دم تام جہام رکھا اور میں ہوائی محل میں جہاں پناہ کے ہاں پہنچ گئی۔ دن بھر کی چہل پہل مردوں اور عورتوں کا غل غپاڑہ۔ کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔ شام کو حضور عالم نے آکر فرمایا
" زچہ کو تارے دکھاؤ"

ریختہ صفحہ 53
میرے اور ننھے کے ماتھے پر کارچوبی پٹیاں جو اباجان نے بھیجی تھی باندھی گئیں۔ یہ پٹیاں میری بڑی نند نے، خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، باندھی تھیں۔ انکو سات اشرفیاں نیگ کی ملیں۔ دولہا میاں کو بلاکر چھپر کھٹ میں بٹھایا اور تیر کمان ان کے ہاتھ میں دی کہ "لو میاں مرگ مارو" مرزا صاحب نے ایک خالی تیر چھپرکھٹ کی چھتری پر چھوڑ دیا اور میں سب کے کہنے سے تین لاتیں چھپرکھٹ کے مار کر کھڑی ہوئی اور باہر آکر آسمان کو دیکھا۔ دائی نے اس وقت آٹے کی چار چومکیں بنائیں۔ ایک بڑی سی تھالی پر گندھا ہوا آٹا رکھ کر اس میں چار جگہ موم بتی رکھی اور بچہ کو میری گود میں دیا۔ دو عورتوں نے شمع لی ایک نے قرآن مجید کا سایہ کیا اور دو نے تلواروں کا کہ بچہ جن بھوت ہر بلا سے محفوظ رہے۔ میں تارے دیکھ رہی تھی۔ بیوی رال اڑا رہی تھیں اور میراثنیں لہک لہک کر گا رہی تھیں۔ اتفاق سے اس روز ایک انگریز قلعہ میں آیا تھا وہ بھی جہاں پناہ کا مہمان ہوا۔ اور سرکار کی اجازت سے اس نے اس وقت کی ایک تصویر اتاری۔ ایک تصویر سرکار نے مجھ کو بھی دی تھی اور وہ اب تک میرے پاس موجود ہے۔ میری نظروں میں اس وقت وہ سماں پھر رہا تھا اور جی چاہتا تھا کہ دونوں بدمعاشوں کو زندہ گاڑ دوں۔ ہیر یہ بات سمجھ میں آئی کہ نرمی اور دھوکہ دہی سے کام لوں۔ تقدیر سے سپاہی بھاگوان ایسا بے خبر ہوا کہ خراٹوں کی آواز برج سے باہر جانے لگی۔ میں نے نیازو سے کہا کہ" جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب خدا انجام با خیر کرے۔ پیاس کے مارے مر رہی ہوں ۔دو گھونٹ پانی تو لاؤ۔" اتنا سنتے ہی اس نا شدنی کی تو جان میں جان آ گئی۔ وہ پانی کو گیا اور میں برج سے باہر نکل ایک طرف کو ہو لیں مجھے خبر نہیں کہ کہاں ہوں اور کدھر جا رہی ہوں۔ صبح ہوئی تو ایک

ریختہ صفحہ 54
پُلیا کے اندر گھسی اور دن وہیں بسر کیا۔ کربلا کا مزہ آگیا۔ دانہ نہ پانی۔ دن بھی قیامت کا تھا کہ ختم ہی نہ ہوا۔ خدا خدا کرکے شام ہوئی تو پھر جنگل کا رستہ لیا اور رات بھر بھاگتی رہی۔ صبح ہوتے دکھنی پورے میں پہنچی۔ اب مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ خدا کی قدرت کے قربان جائیے۔ ایک بڈھا مسلمان روٹیاں اور گڑ بانٹ رہا تھا ۔اس نے مجھ کو دو روٹیاں اور گڑ کی ڈلی دی۔ مجھے تو وہ امرت تھی۔ ہاتھوں ہاتھ لی اور ایسی گری کہ دم بھر میں دونوں روٹیاں چٹ کیں۔ اس کا بچہ بیمار تھا مجھ کو بھوکا دیکھ کر دو اور دیں وہ کھا کر خدا کا شکر کیا اور اس سے کہا،" بابا تھوڑا سا پانی بھی پلوا دو۔" وہ اپنے ساتھ لے گیا اور پانی پلوا کر کہا "یہ بچہ بیمار ہے اس کے واسطے دعا کر۔" اے مولا نثار جاؤں ۔مجھ ناچیز بندی کی دعا کیا۔ مگر اس نے ایسی سنی کہ بچہ رات ہی کو اٹھ بیٹھا۔ اب تو میری وہ آؤ بھگت ہوئی کہ کیا کہوں۔ سارا گھرپوجنے لگا ۔جانے کا نام لیتی جب ہی بڈھا اور اس کی بیوی روتے، بچے بھی مجھ سے ایسے ہلے کہ دم بھر کو پیچھا نہ چھوڑتے۔ اور ایمان کی بات تو یہ ہے کہ میرا بھی دل لگ گیا۔ جب حضور کے رنگون جانے کی خبر سنی تو میری ہچکی بندھ گئی اور آنے کا ارادہ کیا۔ بڈھے نے مجھے خود یہاں تک پہنچایا۔ یہاں آ کر سنا کہ اس نامراد نیازو کی کٹھیا کٹ رہی ہے اور پیٹھ میں اڈٹ نکلا ہے۔ میں بھی اس کے ہاں گئی۔ ناہنجار کی ایک چیخ آسمان تھی اور ایک زمین۔ شاید دس گیارہ روز اس طرح تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
وہ وقت گزر گیا اور یہ وقت بھی گزر جائے گا مگر اب بھی جب کبھی اس برج والے نکاح کا خیال آتا ہے تو جی چاہتا ہے نیازو مردے کی بوٹیاں نوچ لوں۔

ریختہ صفحہ 55
قیصر جہاں بیگم کی داستان ختم ہوئی تو آدھی رات ختم ہو چکی تھی۔ نیازو مخبر پر چاروں طرف سے لعنت کے نعرے پڑنے لگے ۔آخر گوہر آرا بیگم نے کہا،
" بیویوں وہ مر گیا اب اس کو برا کہنے سے کیا فائدہ اس نے جیسی کی بھگت رہا ہوگا"۔
جب مجمع خاموش ہوگیا تو پھر وہی صدا گونجی "لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی" بیگم کی سریلی آواز نے دلوں کی کلفت زائل کردی۔ ادھر پھولوں کی مہک ادھر تیموری بلبل کا نغمہ، آدھی رات کا وقت، سناٹے کے عالم میں دلوں کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ صاحب بزم یعنی گوہر آرا بیگم نے اپنی چچا زاد بہن برجیس دلہن کے سامنے شمع رکھی اور کہا :-
" بیگم اب مجلس آپ کی داستان سننے کی مشتاق ہے۔ آپ جہاں پناہ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں اور حضور اپنی آنکھ سے دم بھر کو اوجھل نہ فرماتے تھے۔ آپ اپنی بپتا سنائیے۔"
(5) شہزادی برجیس دلہن کی آپ بیتی
برجیس دلہن نے ادھر ادھر دیکھ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا "بیویوں حضور ہم سے جدا ہوگئے اور سات سمندر پار دنیا سے رخصت ہوئے۔ ہم کو ان کا آخری دیدار نصیب نہ ہوا۔ زندگی کے جو تھوڑے دن باقی ہیں وہ اسی حسرت میں کٹ جائیں گے ۔سب سے پہلے حضور کی مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھاؤ۔"
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 56
برجیس دلہن کی زبان سے ادھر حضور کا نام نکلا ادھر آنکھ سے آنسو نکلے اور ان کے ساتھ ہی مجمع پر رقت طاری ہو گئی عورتیں اور مرد سب اپنے بادشاہ کی یاد میں رو رہے تھے۔
جب دعا ختم ہو چکی تو گوہر آرا بیگم کے تقاضے پر برجیس دولہن نے کہا۔
" جب گولیوں کی بوچھاڑ اور پھانسیوں کی قطار کا زور ہو رہا تھا تو میں بدنصیب شہر ہی میں تھی۔ ننھے دولہا کوموتیا جھرا نکل رہا تھا۔ گھر میں ہم صرف دو میاں بیوی ہی تھے اور کوئی اتنا نہ تھا کہ دوائی ٹھنڈائی تودرکنار دو گھونٹ پانی ہی لا دے۔ پکڑا دھکڑی کا یہ عالم کہ جو باہر نکلا پھر نہ پلٹا۔ صبح کو گیا تو دوپہر کو اور دوپہر کو نکلا تو شام کو پھانسی کی خبر آگئی۔ ہماری گلی میں کھاری پانی کا کنواں تھا۔ رات کو چپکے سے جاگی اور دو لوٹے بھر لائی۔ خدا بھلا کرے بیچارے احمد عطار کا کہ اس نے مجھ کو خاکسیر اور عناب کے شربت کی ایک بوتل دے دی تھی۔ دونوں وقت بیمار کو وہی پلا دیتی۔ دوسرے تیسرے وقت خالہ کبریٰ کچھ چنے دے دیتیں، وہی کھا کر پانی پی لیتی۔ مہینہ سوا مہینہ اسی طرح کیا مگر ننھے دولہا کا بخار نہ اترا ۔صبح کو ہلکا ہو جاتا مگر دوپہر سے پہلے اور چڑھتا۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ گئی تھیں مزاج ایسا چڑچڑا ہو گیا تھا کہ بات بات پر بگڑتے تھے۔ میرا محلہ خانم کے بازار سے ملا ہوا تھا اور ابھی تک اللہ کا فضل تھا کہ حکیم باولے کے داماد نے ایک نشہ میں کسی گورے کی ٹوپی اچھالی اور اس میم کو پکڑ لیا۔ اب کیا تھا شام تک تو

ریختہ صفحہ 57
چاروں طرف گورے گورے تھے۔ گھروں میں گھس گھس کر مردوں کو پکڑا اور مارا لیکن آدھی رات کو جاکر امی جمی ہوئی۔ میں کنڈی لگائے جا نماز پر بیٹھی اللہ اللہ کر رہی تھی اور ست ہی ست پر جان تھی۔ پچھلا پہر ہوگا کہ خالہ کبریٰ نے آواز دی۔ میں نے دروازہ کھولا وہ اندر آئیں اور کہا، " جس طرح ہو ابھی یہاں سے بھاگو۔ صبح کو سارا محلہ توپ سے اڑے گا۔"
میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور کہا " بھلا خالہ میں کس طرح بھاگ سکتی ہوں۔ ننھے دولہا کو کیونکر لوں۔ یہ نہ چل سکتے ہیں نہ اٹھ سکتے ہیں۔ ان میں رکھا ہی کیا ہے۔ ہڈیاں ہی رہ گئی ہیں۔" وہ بولیں " دیر کا موقع نہیں جس طرح ہو اٹھاؤ۔ سب پکڑ کر لے چلیں گے۔" میں تو جانوں تین بجے ہوں گے کہ ہم سب بھرا گھر چھوڑ چھاڑ شہر سے نکلے، بیمار کو ڈنڈا ڈولی کیا اور ایک طرف چلے۔ صبح ہم کو نظام الدین میں ہوئی مگر ہم آگے بڑھ گئے۔ دن بھر کیا گزری رستہ کس طرح کٹا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ِکھیل کا دانہ بھی اڑ کر منہ میں نہیں گیا۔ پیاس کے مارے جان نکلی جاتی تھی مگر پانی کا پتہ نہ تھا۔ کنوئیں تھے مگر رسی تھی نہ ڈول۔ شام کو خواجہ صاحب کے قریب ہم کاکا گایوں میں پہنچے۔ پنہاریاں ایک کنوئیں میں پانی بھر رہی تھی وہاں ٹھہر کر پانی پیا اور بیمار کو بھی پلایا۔ چاند نکل آیا تھا اور ہم بڑ کے نیچے پڑے تھے کہ جاٹ آئے اور دونوں مردوں کو پکڑ کر لے گئے میں اور خالہ کبریٰ رہ گئے۔ سوچ رہے تھے کہ کیا کریں۔ اتنے میں دونوں مرد خالہ کے میاں اور لڑکا خوش خوش آئے۔ خشکے کا بھرا ہوا تھال، شکر اور دی پڑا ہوا ان کے پاس تھا۔ دیکھ کر جان میں جان آگئی اور اس بری طرح ٹوٹے کہ کنگلوں کو بھی مات کیا۔ رات ہم نے وہیں گزاری اور صبح ہم پانچوں آگے بڑھے۔

ریختہ صفحہ 58
دوپہر تک تو ہم راستہ پر چلے۔ بیمار کی وجہ سے آگے نہ چلا گیا۔ باری باری کرکے تھوڑی دور سب لے جارہے تھے۔ دھوپ تیز ہوگئی تو ہمارے تھکنے سے پہلے ہی بیمار کی حالت ردی ہوگئی۔ آنکھیں بند ہو گئیں اور سانس نام کو رہ گیا۔ خالہ کبریٰ نے دیکھ کر کہا،" ارے خدا کے لئے ٹھہرو ۔ذرا ننھے دولہا کو تو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔" میں آگے تھی ایسا معلوم ہوا کہ کلیجہ میں کسی نے گھونسا مارا۔ جان نکل گئی۔ٹھٹکی تو کیا دیکھتی ہوں کہ منکا تک ڈھل گیا ہے۔ کیکر کے کمبخت درخت کے نیچے جہاں کانٹے ہی کانٹے پڑے تھے ٹہرے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے زمین صاف کی۔ ان کو لٹایا۔ دوپٹوں سے پنکھے جھلے تو خالہ نے کہا کہ پپڑیاں بندھی ہوئی ہیں۔ دو گھونٹ پانی کے ہوں تو حلق تر ہو جائے۔ شاید آنکھیں کھولیں۔ مگر وہاں پانی کہاں۔ میں تو خدا کی قدرت کی اس دن ایسی قائل ہوئی کہ عمر بھر یاد رکھوں گی۔ رو رو کر چاروں طرف دیکھ رہی تھی کہ سامنے سے دو گورے کندھوں پر بندوق رکھے آتے دکھائی دئیے۔ ہم سب کی روح فنا ہو گئی۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا۔ ہم نے آنکھیں بند کر لیں اور کلمہ درود پڑھنے لگے کہ اب یہ گولی مار دیں گے۔ وضو بھی نصیب نہیں ہوا۔ چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ۔بچنے کا موقعہ نہیں۔ کھڑے کھڑے کانپ رہے تھے کہ گورے سر پر آ پہنچے اور پوچھا۔ ہرن ہرن ہرن آیا ہرن آیا۔ خالہ کبری نے ہمت کی اور کہا " نہیں صاحب ہم نے نہیں دیکھا" یہ سن کر انہوں نے بیمار کو دیکھا اور پانی کی چھاگل دے کر کہا پانی پانی پانی۔۔۔۔ ہم لرزتے رہے اور دونوں گورے پانی دے چلتے ہوئے۔ ہم نے جس طرح ہوا چلو میں پانی لے کر بیمار کے حلق میں ٹپکایا اور اس نے ذرا آنکھ کھولی تو جان میں جان آگئی۔ خدا اپنی قدرت کے کیا تماشے دکھاتا ہے۔

ریختہ صفحہ 59
ملک الموت کو رحمت کا فرشتہ بنا دیا۔ بھوک کے مارے ہم بلبلا رہے تھے کہ ہمارے سامنے ایک زخمی ہرن لنگڑاتا ہوا آیا اور گر پڑا۔ خالہ نے اسے پکڑ لیا تو سامنے سے ایک گڈریا بکریاں چراتا آیا اور کہنے لگا "یہ زخمی ہے مر جائے گا۔ لاؤ ذبح کر دوں۔" ہم نے کہا "تو مسلمان ہے" ۔ اس نے کلمہ پڑھا۔ ہم نے کہا "بسم اللہ" ۔ اس نے چاقو نکال کر ذبح کیا۔ ہم کو خبر تھی نہیں سامنے ہی گاؤں تھا۔ بھاگا ہوا گیا اور سب چیزیں لے آیا۔ اسی نے کھال اتاری، اسی نے آگ جلائی، اسی نے ہنڈیا دی۔ وہ ہمارا مہمان ہوا اور ہم اس کے مہمان ہوئے۔ سب نے مل کر خوب کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ گڈریےکا یہ لڑکا اٹھارہ بیس برس کا ہوگا گاؤں کے رہنے والا جس کو شہر کی آب و ہوا چھو تک نہ گئی۔ کیسا نیک اور شریف کہ قلعہ کے ایک لڑکے کو یہ بات نصیب نہ تھی۔ ہم کھا چکے تو چار گھڑی دن باقی تھا ۔ارادہ کیا کہ آگے بڑھیں مگر اس نے نہ جانے دیا۔ مجھے اس کے بھولپن پر بہت ہنسی آئی۔ کہنے لگا "میرا چھوٹا سا گھر ہے۔ ہم دو ماں بیٹے اس میں رہتے ہیں۔ تم لوگ رات کو مزے سے سوؤ۔میں بھی رہوں گا۔" شام کو وہ اپنی ماں کو بھی لے آیا اور دو گھڑے پانی بھی بھر دیے۔ ایسی محبت کے لوگ میں نے تو عمر بھر نہیں دیکھے۔جب ہم جانے کا نام لیتے وہ لڑکا منہ بنا کر کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ مکئی اور باجرا خدا کا دیا بہت ہے۔ یہیں رہو اور کھاؤ ۔اللہ سب مشکل آسان کرے گا۔
میرے میاں ننھے دولہا کی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ بچنے کی امید کیا گھڑی ساعت پر تھے۔ بغیر دوائی ٹھنڈائی کے ایسے اچھے ہوگئےکہ اچنبھاہوگیا۔ بخار اتر گیا اور جنگل کے ہوا اور پانی نے وہ طاقت دی کہ سب دنگ رہ گئے۔

ریختہ صفحہ 60
بیچارے امرو نے ہمارے واسطے نہر کے کنارے ایک جھونپڑی ڈال دی۔ وہ دونوں ماں بیٹے بھی وہیں آ گئے۔ یہاں چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ کوئی سات آٹھ نیم کے درخت تھے اور دو تین املی اور جامن کے۔ ہم یہاں خوش تھے۔ مگر ایک بات کا مجھ پر بڑا بوجھ تھا کہ اس غریب سے رشتہ نہ ناتا۔ مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ خالہ نے ایک دن اس سے کہا کہ تم مجھ کو تھوڑا ریشم اور ایک کرتا کی ململ لا دو۔ وہ جا کر لے آیا تو انھوں نے تین چار ہی دن میں ایسا کاڑھا کہ وہ تو جس نے دیکھا وہی تعریف کرنے لگا۔ اب تو یہ کیفیت ہوئی کہ چاروں طرف سے لوگ آنے لگے اور ہماری کڑھائی کی دور دور خبر پہنچ گئی۔ امرد نے ہر چیز لینے سے انکار کر دیا تو ہم نے یہ ترکیب کی کہ اس کا کپڑا مفت کاڑھ دیتے تھے اور وہ اس کو بیچ کر لاتا تو دام نہ لیتے۔ اس طرح اس کا خرچ بھی پورا ہوتا اور ہمارا بھی۔
اب ہماری گزران خوب ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ شہر یہاں سے بیس اکیس کوس ہے اور امی جمی بھی ہو گئی ہے مگر دل کچھ ایسے مر گئے تھے کہ جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ دم دم کی خبریں آتے جاتوں سے معلوم ہوتی رہتی تھیں۔ جس کو پوچھا یہ ہی پتہ چلا کہ پھانسی ہوگی یا بھاگ گیا۔ چچا حشمت میں جان پڑی تھی کئی آدمیوں سے کہا کہ ان کی خبر لاؤ مگر کسی کو گھر ہی نہیں ملا۔ آخر ایک دن ننھے دولہا ہی دل کڑا کر کے پہنچے۔ اپلوں کی گاڑیاں شہر جا رہی تھیں اور ان کا چودھری امرد کا پھوپھا تھا ۔ وہ بھی ساتھ ہو لیا اور دو بجے سے یہ لوگ روانہ ہوگئے کہ نو دس بجے تک ڈنڈی پر پہنچ جائیں گے۔ اور سویرے ہی سویرے بیچ کھوج بارہ ایک بجے چل کھڑے ہوں گے۔ رات کو کہیں گیارہ بجے گاڑیوں لوٹی تو نہنھے دولہانے کہا کہ شہر تو آدھے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 61
سے زیادہ کھدگیا۔ گھروں کا پتا ہے نہ گھر والوں کا۔ چچا حشمت کا گھر تو باقی ہے مگر ان کا پتا نہیں۔ برابر میں ایک روٹی والا رہتا ہے اس سے اتنا معلوم ہوا کہ بال بچوں کو لے کر کہیں نکل گئے۔ اب تک کوئی خبر نہیں کہ جیتے ہیں یا مر گئے۔ ہاں ایک مخبر نے یہ بھی کہا کہ ان کے چھوٹے لڑکے کو تو پھانسی ہوگئی۔ حسنو تو میری گودیوں کا کھیلا ہواتھا ۔سنتے ہی جان نکل گئی ۔روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ شہر جانے کا اول تو ارادہ ہی نہ تھا اور اگر تھوڑا بہت خیال کبھی بھولے بسرے آ بھی جاتا تھا تو اب بالکل ہی نفرت ہوگئی۔
برجیس دلہن اپنی داستان یہاں تک پہنچا کر پان کھانے کے واسطے اٹھیں تو گوہری تمبو میں بیگم کی وہی صدا پھر گونجی۔
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
اتنا کہہ کر بیگم نے چھیبوں سے کپڑے اٹھائے تو تمبو خوشبو سے مہک اٹھا۔ گوہر آرا بیگم نے کہا پہلے درود پڑھو اور پھر حضور کی مغفرت کے واسطے دعا کرو۔
اس وقت تین بج چکے تھے اور چاند خواتین مغلیہ کی بربادی ناموس پر ماتم کرتا ہوا بساط فلک سے لپٹ لپٹ کر وداع ہو رہا تھا۔ میری آنکھوں نے اس کے بعد بڑی بڑی مجلسیں دیکھیں اور کانوں نے اچھی اچھی تقریریں سنیں مگر برجیس دولہن کا نالہء سرزمین شاہجہاں آباد اس درد سے گونجاکہ اس کی کسک اب تک دل میں موجود ہے۔ زندگی کی بہت سی بہاریں دیکھیں اور ماتم کئے مگر بیلہ میں جو میلہ دیکھ لیا تھا اب وہ سماں نظر نہ آئے گا۔ بد بخت شہزادیوں کی صدا سفید داڑھیوں پر آنسوؤں کے موتی لٹا اور خانماں برباد بیبیوں کی داستان جوانوں کے کلیجے توڑ

ریختہ صفحہ 62
رہی تھی ۔جس طرح موسم برسات میں پوروا ہوا کے ساتھ جسم کی پرانی چوٹیں ابھرتی ہیں اسی طرح جب کبھی بیلے میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو وہ رات اور وہ صورتیں آنکھ کے سامنے آجاتی ہیں مگر بیلے والے خوش نصیب تھے کہ اپنے ساتھ بیلے کو بھی لے گئے اور آج اس کے گھندار درختوں اور جھاڑیوں کا جن کے دامن شہر آبادی کی تاریخ سے مالامال تھے ایک ذرہ بھی موجود نہیں جو صحبت شب کا نشان دے اور حق یہ ہے کہ مکین و مکان سب فنا ہو گئے اور مجھے تو اب کوئی صورت بھی ایسی نظر نہیں آتی جس نے اس بزم کی شمع جھلملاتی دیکھی ہو۔
بیلے میں میلے کی آخری یادگار پھول والی بیگم اس کے بعد بیس سال کے قریب زندہ رہی۔ کمر جھک گئی تھی اور دانت بھی ٹوٹ چکے تھے۔ مگر بڑیوں کے کٹرہ میں جن دوکانوں کے پاس شاید اب ڈاکخانہ ہے اس کی آواز نے رات کے سناٹے میں مدتوں کہرام مچایا ہے۔ میں اور میرے عزیز دوست شہزادہ مرزا محمد اشرف صاحب بی اے گورگانی بیگم کے مرض الموت میں عیادت کو گئے تھے کہ شاہان مغلیہ کی اس جیتی جاگتی تصویر کو آخری مرتبہ جی بھر کر دیکھ لیں۔ اس رات کے ذکر پر بیگم کے آنسو نکل پڑے۔ آج بیگم اور مرزا دونوں شاہجہاں آباد سے کیا اس دنیا سے رخصت ہو چکے مگر بیگم کی زندگی اب بھی جب بیلے میں جاتا ہوں وہ اجڑا ہوا سماں سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔
پھولوں کی مہک نے اور بیگم کی لہکار نے کہ
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"

ریختہ صفحہ 63
برجیس دولہن کی بپتا کو فراموش کردیا۔ جب دعا ہوچکی تو چار بج رہے تھے ۔بادشاہ کا نام آتے ہی کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جس سے آنسو نہ نکل رہے ہوں۔ برجیس دلہن کی داستان ابھی ختم نہ ہوئی تھی اور خیال تھا کہ وہ نماز سے پہلے اپنی مصیبت سنا دیں گی لیکن گوہر آرا بیگم نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ دلّی والوں کو یہ راتیں پھرنصیب نہ ہوں گی اور ان کا جی نہ چاہتا ہوگا کہ جلسہ ختم ہو مگر زیادہ سے زیادہ گھنٹہ بھر رات اور سمجھ لو۔ برجیس دولہن تھک گئی ہیں اس لئے باقی کتھا رات کو۔

ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حجن صاحب کے احاطہ والے خلیفہ رحیم بخش تیراک جن کے بیٹے شبی اب بھی زندہ ہیں اسی صبح کو جمنا میں ڈوب کر مر ے۔ان کی بابت سناہے کہ وہ پالتی لگا کر اس پار سے اس پار حقہ پیتے نکل جاتے تھے ۔ان کے ڈوبنے کی بہت سی روایات مشہور ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ مگر نے ان کا خاتمہ کیا۔ بسنت کا اصلی میلہ تو ایک دن کا تھا دلی والوں نے اپنی دھینگا دھینگی دن بڑھا لیے تھے۔ خلیفہ جی کی موت سے میلہ کچھ اکھڑ سا گیا۔ قاضی کے حوض سے لے کر ادھر نئے بانس تک اور ادھر پھاٹک نہر اور موری دروازہ تک بھوری والوں نے دکانیں نہیں کھولیں۔ ہاں خوجی والے، چرخی والے اور شیخو والے میلہ مناتے رہے۔ مگر آج روز کی سی گہما گہمی نہ تھی۔ لیکن شام ہوتے ہی خلقت ٹوٹ پڑی۔ گوہری تمبو اور میدان آدمیوں سے پٹ گیا۔
شہزادیاں قلعہ میں تو پہلے ہی پردہ نہ کرتی تھیں اب غدرنے پردے کا بالکل ہی صفایا کر دیا تھا۔ عشاء کی نماز نگمبود دروازے ہوئی اور دس بجے ہوں گے کہ بیگم

ریختہ صفحہ64
کی آواز گونجی
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
ٹھیک تعداد تو یاد نہیں مگر پھولوں کے چھیبے پندرہ بیس سے کم نہ ہوں گے۔ وہ آج کل دن نہ تھے کہ ہر چیز پر آگ پڑ رہی ہے۔پیسے پیسے کی ڈھیریاں الگ لگی ہوئی تھیں۔ دو گھنٹہ میں دو کے سوا سب چھیبے خالی ہو گئے۔ تو پھر بیگم کی آواز گونجی
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
گوہر آرا بیگم نے مسکرا کر کہا بس بیگم اب بیان شروع کرو اور یہ تبرک رکھ لو۔ اتنا سنتے ہی بیگم نے چھیبے ڈھانک دئیے۔برجیس دولہن آ کر بیٹھیں۔ اور کہا۔
"میں کل تو یہ کہہ چکی ہوں کہ حسنو میاں کی پھانسی کی خبر سے میرا دل زندگی سے بیزار ہو گیا۔ اس بچہ کو میں نے اپنے ہاتھ سے پالا تھا۔ بہتیرا دل بہلاتی تھی مگر دل کسی طرح سے ٹھیک نہ ہوتا تھا۔ آخر میں نے ننھے دولہا سے کہا کہ میرا جی یہاں سے گھبراتا ہے۔ اب یا تو شہر چلو یا جدھر منہ اٹھے۔ وہ راضی ہو گئے اور ہم نے جانے کا ارادہ کیا تو امرد اور اس کا سارا گھر منتیں کرنے لگا۔ مگر میرا دل اکھڑ گیا تھا ۔ آخر یہ صلاح ٹہری کہ میرٹھ یہاں سے تیس کوس ہے وہاں چلیں۔ میری ایک رشتہ کی پھوپھی وہاں تھیں اور مجھ سے محبت بھی بہت کرتی تھیں۔ ٹہرنے کا ٹھکانہ موجود تھا۔ چالیس پچاس روپے بھی پاس ہو گئے تھے۔ گاؤں والوں کو روتا چھوڑ آخر میں اور ننھے دولہا میرٹھ روانہ ہو گئے۔ گاڑی والا تھا تو بڈھا مگر مزاج کا بہت ہی کڑوا۔ ہم صبح ہی چلے تھے۔ شام کو بیگم آباد میں قیام کیا۔ ایک ٹوٹی ہوئی سرا میں ٹھیرے۔رات گذری۔ کھانا ہمارے ساتھ تھا۔ صبح اٹھ کر آگے بڑھے اور چار بجے میرٹھ پہنچ گئے۔

ریختہ صفحہ 65
پھوپھی جان کو بہتیرا ڈھونڈا مگر خاک پتا نہ چلا۔ہاں اتنا ضرور معلوم ہوا کہ غدر میں دونوں میاں بیوی دلی جا کر مر گئے۔ اب اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ یہاں بھی سرائے میں گئے۔ بھٹیاری کمبخت ایسی خر دماغ کہ خدا کی پناہ۔ بات کرو تو کاٹنے کو دوڑے۔ ہر وقت تو یہ کہتی تھی کہ تم مخبر ہو۔ ہم کو وہاں ٹھہرے چوتھا روز تھا کہ ننھے دولہا بخار میں لوتھ ہوگئے۔ میرٹھ میں خاصی امی جمی ہو گئی تھی۔ حکیم کا نسخہ تھا۔ اس نے کہا موتی جھرا ہے ۔آٹھواں یا نواں دن تھا کہ ان کی حالت بگڑنی شروع ہوگئی۔ گھیس لگانے کو آدمی نہیں۔ آخر میں ہی باہر نکلی اور برقع اوڑھ حکیم کے ہاں پہنچی۔ انہوں نے انسانیت برتی کہ میرے ساتھ آ گئے اور نبض دیکھ کر نسخہ بدلا ۔مجھ سے تو یہ کہا کہ گھبراؤ نہیں اللہ مالک ہے۔ اور بھٹیاری سے کہہ دیا کہ یہ مر جائیں گے ہوشیار رہنا۔ وہ نامراد آئے تو جائے کہاں۔ نتھنے پھلا سامنے آ کھڑی ہوئی کہ کوٹھڑی ابھی خالی کرو۔ بیمار کی حالت بگڑ رہی تھی میں نے بہتیرا سمجھایا منت خوشامد کی لیکن وہ کمبخت کیا ماننے والی تھی۔ اپنے دو بھٹیاروں کو اور لے آئی کہ ہماری سرا بد نام ہو گئی نوج اس میں سے مردہ نکلے۔ میں روتی ہوئی سڑک پر جا بیٹھی۔ دو تین مرد میرے ساتھ آئے اور ان بے ایمانوں کو ڈانٹا۔ بیمار کو دیکھا تو سانس اکھڑ رہا تھا۔ وہ اتنے بھلے مانس تھے کہ وہیں بیٹھ گئے۔ شہد لائے یٰسین سنائی۔ رات کے تین بجے ہوں گے کہ ننھے دولہا رخصت ہوئے۔
میرٹھ کے یہ تینوں آدمی فرشتے تھے جن کو خدا نے بھیجا تھا۔ میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی نہ تھی ۔انہوں نے ہی اول منزل کیا اور ہمارا کرایہ بھی ادا کیا۔ میں ٹھیک دوپہر کو باہر نکلی۔ تین پیسے میرے پاس تھے کہاں جاتی اور کہاں
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 66
پڑتی ایک پیسے کے چنے چبائے اور رات کو دار دروازہ کی سڑک پر بیٹھ کر صبح کردی۔ یہ دن اور یہ رات بھی یونہی گزری اور وہ دو پیسے بھی ختم ہو گئے۔ مجھ پر دو وقت کا فاقہ تھا۔ مگر بھیک مانگنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ ایک پختہ حویلی دکھائی دی بسم اللہ کہہ کر اندر گھسی اور گھر والی بیوی سے کہا کہ آپ کو ماما کی ضرورت ہے؟ وہ تو ایسی نکتوڑی تھی کہ جواب بھی نہ دیا۔ ہاں میاں نے کہا کہ " اندر آؤ بی کون ہو کہاں کی رہنے والی ہو کیا تنخواہ لو گی۔" میں نے کہا جو آپ دیں گے اس پر میاں بیوی میں کچھ صلاح ہوئی اور مجھ کو ایک روپیہ مہینہ کھانے پر نو کر رکھ لیا۔
میاں جس قدر شریف تھے بیوی اسی قدر کمینی۔ کمبخت کی سمجھ میں کوئی کام ہی نہ آتا تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے تین چار مہینے کاٹے۔ ایک دن مرچوں پر جھگڑا ہوا۔ کہنے لگی تم نے مرچیں زیادہ کر دیں۔ میں نے کہا "اے نیکبخت! نوکری طے کر رکھ۔ ہاتھ بیچے ہیں ذات نہیں بیچی۔" میں اتنا کہہ برقع اوڑھ باہر نکلی۔ پیچھے پیچھے میاں آئے۔بہتیری منت خوشامد کی۔ مگر میرا دل اکھڑ گیا تھا میں نہ ٹھہری۔ دو روپے میرے پاس تھے۔ ایک روپیہ چڑھا ہوا تھا وہ نہ ملا۔ نو آنہ اونٹ گاڑی کا کرایہ دے گھر آئی۔
اب وہ زندگی کا مزہ نہیں ہے۔ ہر نماز کے بعد دعا کرتی ہوں کہ جہاں سب گئے خدا مجھے بھی وہیں پہنچا دے اور میرا پردہ ڈھانک لے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
میری وہ راتیں جو بیلے میں بسر ہوئیں، زندگی کی بہترین راتیں تھیں۔ شہزادیاں بھی قلعے اور شاہ کو اتنا نہ روئی ہوں گی جتنا میں دلی اور دلی والوں کو رو رہا ہوں۔ عمر گزشتہ کی یاد بڑھاپےمیں سوہان روح ہوتی ہے کلیجہ

ریختہ صفحہ 67
پر سانپ لوٹ جاتا ہے اور جب جوانی کی بہاریں سامنے آتی ہیں تو گزرے ہوئے دن اور بیتی ہوئی راتیں تیر بن کر دل میں گھستی ہیں۔ مگر جس شخص کی جوانی بھی بڑھاپے سے بدتر ہو جو پیدا ہوا تو روتا ہوا اور زندہ رہا تو روتا ہوا۔ قیقہے بھی آنسو ؤں میں شرابور ہوں۔ اور جس کی مسرت بھی افکار سے لبریز ،وہ روئے گا تو اپنے آنسوؤں پر اور بلبلائے گا تو اپنے آلام پر۔ زندگی کا وہ فانی دور جو جوانی کے نام سے تعبیر ہوتا ہے مجھ پر بھی گزرا ہے۔ فطرت انسانی کے اس اصول سے میں بھی مستثنی نہیں ہوں۔ مگر جوانی جب یاد آئی ہے اس کے پہلو میں ہمیشہ بچھڑی ہوئی صورتیں دیکھی ہیں۔ دلی اور دلی والے بیلے کے میلے میں جن گھروں کو رو رہے تھے وہ تو خیر رخصت ہو ہی چکے تھے ستم پر ستم یہ ہے کہ وہ رونے والے بھی نہ رہےاور میری آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکے سب اٹھ گئے۔ میں ان راتوں میں رونے والوں کا ہمنوا تھا آج تنہا ہوں اور کوئی اتنا بھی نہیں جو میرے آنسوؤں کی ہاں میں ہاں ملا دے۔
جی تو یہی چاہتا ہے کہ پھول والی بیگم کی لہکار اور مہکار پر جو کانوں میں گونج رہی اور دماغ میں بس رہی ہے جب تک زندہ ہو ں ،عقیدت کے پھول چڑھاتا رہوں۔ مگر سننے والے اکتا جائیں گے اس لئے چھوڑتا ہوں۔ دراصل مقصد پر رجوع کرتا ہوں۔
برجیس دلہن کی داستان ختم ہو چکی تو پھر وہی صدا گونجی " لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
خلقت پھر لوٹی اور جو ڈھیریاں رہ گئی تھیں وہ ختم ہو گئیں تو گوہر آرا بیگم نے کہا۔

ریختہ صفحہ 68
برجیس دلہن کی داستان ادھوری رہ گئی تھی اسلئے پہلے وہ ختم ہوگئی ۔بادشاہ کی سلامتی کی دعا ہوچکی مگر دلی والوں بادشاہ کہاں! بلبل اڑ گئی خالی پنجرے کو پیٹ لو روح نکل گئی جسم باقی ہے۔ تم نے صاحب عالم کا بگڑا ہوا وقت دیکھا جن باتوں کو رو رہی ہوں یہ زوال کے دن تھے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے اچھے رنگ دیکھ لئے۔ قلعہ میں مینا بازار کی سیر ایسی دیکھی کہ اب تم کو نظر نہ آئے گی۔
چھتلیے کال کی وجہ یہ ہے کہ جب آٹا ڈیڑھ من سے چھتیس سیر کا رہ گیا مخلوق چیخ اٹھی اور کہہ دیا کال پڑ گیا۔ حضور نے حکم دیا کہ مینا بازار کی ساری آمدنی کنگلوں کو دے دو۔ بات فقط اتنی تھی کہ ساون کے تیرہ دن نکل گئے اور مینہ نہ برسا۔ آدھا اساڑھ خاصا برسا تھا مگر بنیوں نے تیرہ ہی دن کو تیرہ برس بنا آٹا گھٹا دیا۔ بادشاہ اور رعیت کے راز و نیاز ہیں۔ چھتیس سیر کا آٹا ہوتے ہی رعیت نے چھتیساسال اس سال کا نام رکھ دیا۔ اور حضور نے مینا بازار کی پوری آمدنی کنگلوں کی نذر کر دی۔ کوئی انگریز ولیم صاحب بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے جگہ جگہ کی تصویریں اتار لیں۔ مینا بازار کی تصویر مجھے بھی صبح کو کوٹھڑی میں پڑی مل گئی۔ سنتی ہوں کہ اب ولایت میں اس کی بڑی قدر ہو رہی ہے۔
تصویر کا نام سنتے ہی لوگ گرنے شروع ہوگئے لیکن جب گھنٹہ بھر سے زیادہ ہوگیا تو گوہر آرا بیگم نے ایک ہاتھ میں شمع لی اور دوسرے ہاتھ میں تصویر لے کر کہا لیجئے دور سے نیت بھر کر دیکھئے۔ یہ مینا بازار کی تصویر ہے۔ آگے چل کر مینا بازار تو کیا تصویر بھی دیکھنی نصیب نہ ہوگی۔ یہ وہ تصویر ہے کہ حضور کی منجھلی بہو افروز دولہن تاج رکھے موتیوں کے ہار خرید رہی ہیں اور عورتیں ان کو مال دکھا دکھا کر منہ مانگے دام لے رہی ہیں۔

ریختہ صفحہ 69
جب سب لوگ تصویر دیکھ چکے تو گوہر آرا بیگم نے کہا "اب ہماری ننھی حیدری اپنی داستان سنائیں گی۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں خدا جانے کہاں کہاں خاک چھان لی۔" بی ننھی حیدری مسکرا رہی تھیں کہ پھر آواز گونجی
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
گوہر آرا بیگم نے کہا ،" اے ہے بیگم بس کرو۔ دیکھو تو آدھی سے زیادہ رات باتوں ہی باتوں میں گزر گئی خلقت بے چین ہو رہی ہے۔" بیگم نے قہقہہ مارا اور کہا " آپا پھول تو حتم ہو گئے اب رکھا ہی کیا ہے میں تو ہنس رہی ہوں"۔ اس پر سب ہنس پڑے اور ننھی حیدری نے اپنی بیتی اس طرح سنائی:-
ننی حیدری کی سرگزشت
میرے گھر میں سوائے ابا میاں کے، اللہ کا نام تھا۔ باپ تھے تو وہ اور ماں تھے تو وہ۔ بہن بھائی کوئی ہوا ہی نہیں۔ نانی دادی کی صورت بھی نہ دیکھی۔ کسی بڑی ضرورت کو بھی گھر سے نکلتے تو اوپر کی کنڈی لگا کر جاتے۔ جب غدر کا پہاڑ گرا تو وہ بیچارے آس نہ پاس لیکن کالے مخبر نے میرے بے قصور ابا میاں کو پکڑوادیا اور اتنی سی بات پر کہ اس کے لڑکے سے انہوں نے میری شادی کیوں نہ کر دی۔ مجھ پر جو کچھ گزری کیوں کر کہو کہوں اور کس سے کہوں ۔ دو دن اور دو راتیں جانماز پر بیٹھی تسبیح پڑھتی رہی تیسرے دن صبح ہی اس نے آکر کہا تیرے باپ کو پھانسی ہوگئی۔ تو میری بھتیجی ہے ۔ اب تیرا نکاح میں اپنے لڑکے سے کردوں گا ۔ اب کوئی اللہ کا بندہ بتائے کہ میں کیا کرتی۔ ابا میاں کی پھانسی، کالے بے ایمان کی بدمعاشی، نکاح کا ڈر کس کس چیز کو روتی۔یہ

ریختہ صفحہ 70
تیسرا دن بھی فاقے سے گزرا۔ تیسرے پہر کو اس نے آکر کہا آج مغرب عشاء کے درمیان تیرا نکاح ہے ۔یہ سنتے ہی جان نکل گئی۔ شام پکڑ نی مصیبت تھی۔ادہرجھٹ پٹا ہوا ادہر میں نے ابا میاں کی اچکن پہن صافہ باندھا اور لکڑی ہاتھ میں لے کر باہر نکل گئی۔ ساری رات منہ اٹھائے چلی گئی پلٹ کر نہ دیکھا۔ صبح مجھے جنگل میں ہوئی مگر یہ معلوم ہوتا تھا کہ کالا پیچھے آ رہا ہے۔ پھر چلی شاید دس بجے ہوں گے۔ ایک گاؤں کے چوراہے پر مٹی کی چینی میں خشکہ اور دہی رکھا تھا۔ ڈر ور سب بھول گئی۔ بڑے بڑےنوالے مار آگے بڑھی۔ پیاؤ پر پانی پیا اور چل دی۔
مجھے نہ تو یہ خبر تھی کہ دن کہاں ہے نہ یہ کہ رات کدھر آئی اور گئی۔ یہ بھی نہیں بتا سکتی کہ کتنے دن اور کتنی راتیں اسی طرح گزریں۔ جس گاؤں میں پہنچتی بھیک سے پیٹ بھر لیتی اور آگے بڑھ جاتی۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ اسی طرح گزرا ہو گا آخر تھک کر چور ہو گئی۔ پاؤں لہو لہان ہوئے۔ اور جب ایک دن دوپہر کے وقت بخار شدت سے چڑھا تو ایک درخت کے نیچے ٹھٹکی ۔ مگر کالے کمبخت کا ایسا ڈر سوار تھا کہ بخار میں بھی اسی مردود کی صورت سامنے آتی دکھائی دیتی تھی۔ سامنے ایک پہاڑ تھا وہاں گئی تو اس کے نیچے ایک کھو میں پڑ گئی ۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ میں کب تک وہاں سوئی۔ گھنٹہ بھر یا دن بھر۔ آنکھ کھلی تو بخار اتر چکا تھا مگر کمزوری کا یہ حال تھا کہ بات نہ کی جاتی تھی۔ چاروں طرف دیکھا آدمی نہ آدم زاد۔ پیاس کے مارے کانٹے زبان پر پڑ رہے تھے مگر پانی کا کوسوں پتہ نہ تھا۔ اس جنگل بیابان میں اس سنسان پہاڑ پر ایک طرف سے کچھ گانے کی سی آواز آئی ۔ اسی آواز پر چل کھڑی ہوئی۔ تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتی ہوں کہ ایک آبشار ہے اور پاس ہی ایک چشمہ صاف اور شفاف پانی کا لہریں لے رہا ہے ۔
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 41
جب دوپہر ہو جاتی تو ان کو لے کر جنگل نکل جاتی۔ چلتے وقت گھر والی دو موٹی موٹی روٹیاں مجھے دے دیتی۔ میں جنگل ہی میں مولیاں توڑ کر روٹی کھاتی۔ شام کو چاروں بھینسیں اور تین گائیں لے کر آتی تو پھر ان کے دھندوں میں لگ جاتی۔ اگر کام سے ذرا غفلت کرتی یا کرنے کا ارادہ بھی کرتی تو مینا کہتا۔ ”مارے لکڑیوں کے سر پھاڑ ڈالوں گا۔“
کوئی دن اور کوئی رات ایسی نہ جاتی تھی کہ میں اپنے بچوں کی یاد میں آنسو نہ بہاتی ہوں۔ میں نے ایک دفعہ دل کڑا کر کے اس مینے سے پوچھا تو اس نے کہا ”تیرے دونوں بچے اچھے ہیں۔ بڑا تو ذرا دور ہے مگر چھوٹا پاس ہی کے گاؤں میں ہے۔ اب وہ بھی کام کاج خاصا کرتا ہے۔ میں پچھلی سوموار کو گیا تھا۔ اگر تو کام اچھا کرے گی تو تجھ کو اس چھوٹے سے ملوا دوں گا۔“ میں اس کے قدموں میں گر پڑی۔ کچھ اس کو مجھ پر رحم بھی آ گیا اور کہنے لگا۔ اچھا آج دوپہر کو یہ جو سامنے جھنڈ ہے اس کے نچیے پربت نگر میں آ جائیو۔ میں بھی وہیں جا رہا ہوں تیرا چھورا بھی وہیں ہے۔ میں نے اس کو ہزاروں دعائیں دیں اور دوپہر سے پہلے ہی پہنچ گئی تو دیکھا کہ پربت میں وہ بھی ایک چھوٹا سا سرکنڈہ لیے بھینس چرا رہا ہے۔ میری جان میں جان آ گئی۔ اس کو کلیجے سے لگا کر دیر تک روتی رہی۔ آخر مینے کے کہنے سے اس کو چھوڑ اپنے گاؤں آ گئی۔
سات مہینے اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میں ندی پر ڈھوروں کو پانی پلا رہی تھی دوسری طرف میں نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ وہ بھی پانی پلا رہا ہے۔ مجھے اپنے بڑے کا شبہ ہوا۔ آوازیں دیں مگر اس تک نہ پہنچیں تو جانور چھوڑ کر آگے بڑھی۔ پاس پہنچی تو وہ میرا بڑا بچہ ہی تھا

ریختہ صفحہ 42
اور سنتے ہی تڑپ اُٹھا دوڈ کر آیا اور کلیجہ سے چمٹ گیا۔ ہم دونوں اسی طرح چمٹے ہوئے رو رہے تھے کہ ایک شخص چیختا ہوا آیا اور بچے کا ہاتھ پکڑ کر الگ گھسیٹ لیا۔
بچہ کا چھٹنا میرے واسطے قیامت تھی۔ میں نے گھر پہونچ کر اپنے چودہری سے سارا واقعہ حرف بہ حرف سنا دیا۔ وہ بعض دفعہ جب میرے کام سے خوش ہوتا تھا تو رحم سے کام لیتا تھا اور تعریف بھی کرتا تھا۔ اس وقت تو خاموش ہو رہا مگر دو تین روز کے بعد خود ہی کہنے لگا کہ اچھا میں تیرے لڑکے کو ملوا دوں گا۔ میں اس روز سے بلا ناغہ دوپہر کے وقت اسی جنگل اور تالاب پر جاتی مگر پھر مجھ کو نہ بچہ ملا نہ وہ ڈھور ملے۔ ایک دن کا ذکر ہے چھٹ پٹا وقت تھا کہ چودہری میرے لڑکے کو ساتھ لے کر آیا اور کہا دیکھو میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ اگر یہ رہنا چاہے تو یہاں شوق سے رہ کسی کی پرواہ نہ کر۔ جلتونی والے دنگا مچائیں گے تو میں ان سے سلٹ لوں گا۔ میں یہ سنتے ہی باغ باغ ہو گئی۔ دونوں میاں بیوی کا شکریہ ادا کیا اور مینے سے کہا۔ جہاں آپ نے اتنا احسان کیا ہے اتنا اور کیجئے کہ چھوٹے کو بھی ملوا دیجئے۔ ہم دونوں تینوں ان ڈھوروں کی خدمت پیٹ بھر کر کریں گے۔ مینا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اپنے لڑکے سے کہا کہ جا پربت نگر سے اس کے چھوڑرے کو لے آ۔
میں کس زبان سے خدا کا شکر ادا کروں۔ رات کو وہ لڑکا بھی آ گیا۔ میں نے اس سے چپکے سے پوچھا ارے خوبن کی بھی کچھ خبر ہے۔ تو وہ کہنے لگا ہاں وہ تو ہمارے ہی گاؤں میں ہے۔ میں اس سے باتیں

ریختہ صفحہ 43
کر رہی تھی کہ پربت نگر کا نمبر دار آن پہنچا اور بگڑ کر کہنے لگا۔ ”چھورے کا اچار ڈالا ہے۔“ ہمارے چودھری نے کہا۔ ”ارے دیا کر دونوں چھوکرے آئے ہیں۔ کاں چلے جائیں گے۔“ بات بڑھ گئی اور اس نے کہا ”میں ابھی لے کر جاؤں گا۔ ہمارے چودسری کو بھی ضد آ گئی اور اس نے قسم کھا لی کہ کال بھیجوں گا لیکن بارے بچے رات کو پربت نگر والے آ گئے اور یہ کہہ گئے کہ صبح خون خرابے ہوں گے۔ ہمارے چورھری نے کہا کہ تو دونوں بچوں کو لے راتوں رات بھاگ جا۔ صبح میں جو کچھ ہو گا دیکھ لوں گا۔ میری تو جان میں جان آ گئی مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ خوبن مریں۔ میں نے اسی وقت چھوٹے کو پکارا کہ جا کر خوبن کو چپکے سے لا۔ بڑی جان جوکھوں کا کام تھا اور میرا ہی دل گردہ تھا کہ میں نے جلتی آگ میں بچے کو ڈال دیا مگر خدا ساتھ تھا۔ کام بن گیا اور بی خوبن آ گئیں۔ اس وقت ہمارے چودہری نے تھوڑا سا آٹا اور پیاز کی گھنٹیاں ساتھ کیں اور کہا جاؤ بھاگ جاؤ۔
ایک یا دو بجے ہوں گے کہ ہم چاروں وہاں سے نکلے۔ خدا کی قدرت کے قربان جائیے رات چاندنی تھی۔ صبح ہوتے ہم کسی گاؤں میں پہنچے اور لوگوں کی آنکھ بچا کر ایک باغ میں گھس گئے۔ خوبن نے کہا باغ میں ٹہرنا ٹھیک نہیں۔ یہاں لوگ آ جائیں گے۔ الگ چلی چلو۔ ہم نے کنواں تو بھانپ لیا اور آگے بڑھ کر ایک بڑ کے نیچے ڈیرا جمایا۔ آٹا ہمارے ساتھ تھا پانی ایک تسلے میں بھر لیا تھا۔ چکنے پتھر پہ آٹا گوندھا اور دیا سلائی سے آگ لگا کر موٹے موٹے روٹ ڈالے۔ دوپہر سے ہی پہلے روٹیاں تیار ہو گئیں اور کھانے بیٹھے۔
اب ایک مرنے کی بات سنو۔ ایک جگادری بندر خدا معلوم

ریختہ صفحہ 44
کب سے بیٹھا تاک لگا رہا تھا۔ میری آنکھ ادھر ہوتے ہی روٹیوں کی تھئی کی تھئی لے چلا۔ میں اور خوبن بڑا اور چھوٹی بہتیرا چیخے اور چلّائے مگر وہ کم بخت کیا چھوڑنے والا تھا درخت پر چڑھ گیا۔ میں نے سوچا کہ چٹیل میدان میں صرف یہ ایک درخت ہے باقی آس پاس کوئی درخت نہیں۔ کب تک نہ اترے گا اور کتنی کھا لے گا۔ ہم چاروں نے اس کو پتھر مارنے شروع کئے مگر وہ بھی اب چمچڑ ہو کر بیٹھا اور روٹیاں چھاتی سے لگائیں کہ پتھر پر پتھر پڑ رہے تھے لیکن روٹی نہ چھوڑتا تھا۔ خوبن کا ایک پتھر کھوپڑی پر ایسا لگا کہ بھنّا گیا اور سر سہلانے لگا۔ روٹیاں نیچے گریں تو ہم نے اٹھائیں اور کھانے بیٹھے۔ دن اسی طرح ہم نے گذارا۔ شام کو تھوڑا سی روٹیاں اور پکا لیں اور آگے بڑھے۔
سڑک پر پہنچے تو پربت نگر کی ایک بڑھیا کبڑی چلی جا رہی تھی۔ ہم کو دیکھ کر بہت پھیلی اور کہنے لگی اقبھی گاؤں کے لوگوں کو بلا کر تم کو پکڑواتی ہوں۔ مینوں کی چوری کی اور یہاں بھاگ کر آئے ہیں۔ میں نے جتنی اس کی خوشامد کی نا مراد اتنی ہی سر چڑھی اور لگی غل مچانے۔ آخر خوبن نے سر کے بال پکڑ کر کہا آواز نکالی تو جان سے مار ڈالوں گی۔ یہ کہہ کر دونوں ہاتھ خوبن نے میرے اور ایک پاؤں بڑے نے اور ایک چھوٹے نے ڈنڈا ڈولی بنا کر ایک خوہن اس کو جنگل میں لے چلیں۔ مجھے تو خبر بھی نہ تھی چار پانچ گز گہری ایک کھوبی خوبن کے یہاں دیکھ لی تھی۔ وہاں پہنچ کر لگی بڑھیا ہاتھ جوڑنے اور سر جھکانے کہ رحم کرو اور چھوڑ دو۔ میں تو شاید چھوڑ دیتی مگر لڑکے راضی نہ ہوئے نہ خوبن اور تینوں نے مل کر اس مردود کو پھینک دیا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ چوٹ کہاں کہاں لگی مگر خوبن نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات تک

ریختہ صفحہ 45
آواز نکالی تو مارے پتھروں کے بھرکس کر دوں گی۔
اب ہم بھاگم بھاگ چلے اور دم بھر کر کہیں نہ ٹھٹکے۔ صبح ہم کو شاید پانی پت میں ہوئی۔ یہاں پہنچ کر ہماری جان میں جان آ گئی اور ہم نے جنگل میں ہی بسیرا لیا۔
ہم کو یہاں آ کر معلوم ہوا کہ اب خدا کے فضل سے شہر میں امی جمی ہے اور یہاں کے نواب نے ایک محل سرائے میں دلی کے کھا گئے ہوئے آدمیوں کا یہ انتظام کر دیا ہے کہ وہ دو دو دن رہ کر جہاں جانا ہو چلے جائیں گے۔ ہم چاروں بندے بھی اس محل سرا میں دو دن رہے۔ کھانے کا انتظام خاصا تھا۔ لنگر کی روٹی جیسی ہوتی ہے ویسی تھی۔ خیر خدا کا شکر ادا کیا اور پیٹ بھرا۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں پناہ کا مقدمہ ہو رہا ہے اور نمک حراموں نے زور شور سے حضور کے خلاف گواہیاں دی ہیں۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کہ چار دن کی زندگی کے واسطے کیسے کیسے کم بختوں نے اپنا منہ کالا کیا۔
مقدمے کی خبر سنتے ہی ہوش جاتے رہے۔ پر نہ تھے کہ اُڑ کر پہنچ جاتے۔ دوسرے ہی دن ہم کو خبر لگ گئی کہ مقدمے کا فیصلہ ہو گیا اور سرکار رنگون بھیج دیے گئے۔ اس خبر سے سنتے ہی پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور میں نے تو پکا ارادہ کر لیا کہ اب شہر نہ جاؤں گی مگر پردیس میں بھیک کب تک مانگے اور کیا کرتے۔
پانی پت سے چل کر ہم بہرو پور میں آئے۔ ایک دن اور ایک رات یہاں ٹھہر کر آگے بڑھے تو بی خوبن کو رستہ میں بخار چڑھ آیا۔ ان کے لینے کے دینے پڑ گئے کہیں تیسرے دِن ان کا بخار اترا تو گھر کا رُخ کیا۔ یہاں پہنچ کر

ریختہ صفحہ 46
شہر کی جو کیفیت دیکھی کلیجہ پر گھونسے لگ رہے تھے۔ جدھر نظر جاتی تھی سنسان اور جس چیز کو دیکھتی تھی اُجڑی ہوئی۔ حضور روانہ ہو چکے تھے۔ اس خیال نے تمام امیدوں کا خاتمہ کر دیا اور دل زندگی سے سیر ہو گیا مگر جو کچھ گذری خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس طرح گذری۔
یہاں تک بیان کرنے کے بعد شہزادی قمر آرا کی بیگم کی آنکھ سے ٹپ شب آنسو گرنے لگے۔ ان کے آنسوؤں نے شمع جھلملا دی اور نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آسمان کروٹ لے رہا تھا اور تارے دامنِ شب سے جدا ہو رہے تھے۔
بیگم نے اپنے پھولوں کی لپٹ سے مجلس کو مست کیا اور کہا بیویوں شمع جھلملا گئی اور پھول ٹھٹھرا گئے۔ رات ختم ہو گئی۔
”ہمیشہ رہے نام اللہ کا“
شہزادیوں کا نالہ ختم ہو چکا اور وہ رات جس نے مدّتوں کے بچھڑے ملوائے کبھی کی رخصت ہوئی۔ یہ متبرک صورتیں جہنوں نے جہاں آباد اور اس کے حکمراں پر فاتحہ کے پھول چڑھائے میرے سامنے ایک ایک کر کے اٹھی ہیں۔ شاداب پھولوں کا یہ گلدستہ جس کی خوشبو نے دماغ معطّر کیے، ولی اور بہادر شاہ کو یہ رونے والے جن کی آنکھوں نے پیلے میں موتی برسائے، میرے رو برو فنا ہوئے، بیلے کے پڑھنے والے اس مضمون کو کہانی سمجھیں یا قصٗہ مگر میرے دل سے پوچھو، کلیجہ کے ٹکڑے اڑتے ہیں جب وہ سماں یاد آتا ہے جس وقت عالمِ خیال میں وہ صورتیں سامنے لاتا ہے اور حافظہ مٹنے والی عورتیں سامنے لا کھڑی کرتا ہے تو دلِ وحشی ٹکریں مارتا ہے۔ وہ رات جس کے ہر لمحہ میں صداقت و انسانیت کے

ریختہ صفحہ 47
خزانے دفن تھے، اپنے ساتھ بہت کچھ نہیں کچھ لے گئی، جہاں آباد اپنی رونق اور چہل پہل وداع کر چکا جن گھروں سے محبت و ایثار کے چشمے پھوٹے جن دہلیزوں نے حقانیت کے ڈنکے بجائے آج سنسان و خاموش ہیں اور جن محلوں کی سر زمین سے درس وفا کی آندھیاں اُٹھی ہیں وہاں اس وقت خاک اُڑ رہی ہے۔
شہر کی بہت سی عمارتوں کے آثار کھنڈر بنے پڑے ہوئے ابھی تک نقشِ پا کا پتہ دے رہے ہیں مگر پھول والی بیگم کی صدا ”لپٹیں آ رہی ہیں موتیا کی“ جو جہاں آباد کی فضا میں گونجی ہے اور جو اس رات کی شمع اور اس بزم کی عروس تھی مدّتیں ہوئیں فنا ہو چکی۔ مگر اس کی مہک اب بھی میرے کانوں میں بس رہی ہے اور جب کبھی فراشخانہ کے سامنے سے گزرتا ہوں تو آنکھیں اس ٹیلے کو ڈھونڈ رہیں ہیں جہاں سے یہ صدا بلند ہوتی تھی اور چھیبوں کے پھول خاندان تیموریہ کی یہ بد بخت بیگمات کے انقلاب کی داستان سناتے تھے۔
جس وقت زمین و آسمان خاموش آنسوؤں میں رات کو وداع کر رہے تھے اس وقت کا درد انگیز منظر انسانی نظر بہت کم دیکھے گی۔ شمع کی روشنی اور تاروں کا اجالا دونوں پھیکے پڑے، دنیا اپنے چہرے سے رات کا برقع سرکا رہی تھی۔ آسمان کی سیاہی آہستہ آہستہ سپیدۂ صبح میں جذب ہوئی اور تیموری بیگمات کا یہ دستہ بادِ سحر کے جھونکوں سے کھلنے کے بجائے منتشر ہوا۔ جب صحبتِ شب کی یادگار مرے ہوئے پان مرجھائے ہوئے پھول بکھری ہوئی چھالیہ اور فرش کی سلوٹیں باقی رہ گئیں تو ایک متفقہ صدا

ریختہ صفحہ 48
بلند ہوئی اور بادشاہ کی مغفرت کی دعا ہوئی۔ اس وقت تماشائیوں نے جن میں عورتیں اور مرد دونوں شامل تھے گوہر آرا بیگم سے درخواست کی کہ زیادہ انتظار ہمارے واسطے پہاڑ ہو گا۔ حضور کی جدائی نے ہمارے دلوں میں زخم ڈال دیے ہیں۔ رات نے ہمارے زخموں کا مداوا کیا اور آپ نے ہمارے چکنا چور دلوں پر مرہم کے پھائے رکھے۔ کل بسنت تھی آج میلہ ہو اور رات کو اسی میدان میں باقی داستان ختم کیجئے۔ کوٹلہ کے جانے میں زحمت ہو گی اور دل کے ارمان دل میں رہ جائیں گے شام پکڑنی مشکل ہے۔ رحم کیجیے اور ایک دن ہو یا دو دن لگاتار رکھئے۔
اس درخواست پر سخت اصرار ہوا اور جب یہ طے ہو گیا کہ میلہ تین روز اور رہے گا تو لوگ خوشی کے مارے اچھل پڑے اور دکانداروں نے اپنی دکانوں کا اور سیلانیوں نے اپنے ڈیروں کا راستہ لیا۔
اجڑا ہوا میلہ جہاں ہر طرف جھاڑ جھنکار تھے، بیوہ کی طرح ایک دفعہ پھر دلہن بنا۔ جبینِ عروس پر دن ڈھلتے ہی افشاں چنی جانے لگی۔ آج بھی بسنت کا وہی زور تھا اور قدرت بھی شہر والوں کے مجروح جذبات کی ہمہنوائی کر رہی تھی۔ خود رو پھولوں کی زردی نے میلہ کی شان دو بالا کر دی اور غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی شمع نے اپنے آنسوؤں میں دلّی والوں کو آج پھر دورِ گذشتہ کی تصویر دکھا دی۔
گوہری تمبو کل سے زیادہ آراستہ تھا اور خلقت ہی اس طرح ٹوٹ رہی تھی کہ بیٹھنے کو جگہ نہ تھی نہ کھڑے ہونے کو۔ مجبوراً مچان بنایا گیا اور تخت پر گوہر آرا بیگم غدر کی ماری شہزادیوں کو ساتھ لے کر بیٹھیں۔

ریختہ صفحہ 49
جلسہ عشا کے بعد شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے پھول والی بیگم نے اپنے چھیبے کھولے۔ موتیا کی بھینی بھینی خوشبو نے دماغ معطّر کر دیے اور تنبو میں یہ صدا گونجی۔
”لپٹیں آ رہی ہیں موتیا کی“
پیسہ پیسہ اور دو دو پیسے کے پھوں بکنے شروع ہوئے۔ ادھر گاہکوں کی آواز تھی کہ ”ایک پیسہ کے اور“ ”دو پیسہ کے اور“ اُدھر بیگم لہک رہی تھی۔
”کٹورا سے پھول موتیا کی موتیا ہے گجراتی“
چوٹی دار دو پیسے آدھ گھنٹے میں ختم ہو گئے تو گوہر آرا بیگم نے کہا بس ہوا بیگم اب ایک جھیبا رہنے دو۔ دیر ہو رہی ہے۔ شمع گھومنی شروع ہوئی کچھ پڑھنے پڑھانے کو نہیں بلکہ مقرر کی صورت دکھانے کو سب سے پہلے گوہر آرا نے اپنے ہاتھ سے شمع مقصر جہاں بیگم کے سامنے رکھی اور کہا۔ ”ہاں بیگم۔ اپنی بپتا سنائیے۔ لوگ مشتاق ہیں۔“ قیصر جہاں بیگم نے پان کھایا اور مجمع کی طرف دیکھ کر کہا۔

شہزادی قیصر جہاں بیگم کی آپ بیتی​

دلی والوں ہاتھ اٹھا کر دعا کر ”الہیٰ جہاں پناہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو۔“ دعا ہو چکی تو قیصر جہاں بیگم نے کہا۔
”نیاز علی مخبر جس کا دور دورہ تھا اور سچ پوچھو تو موت کی کل جس کے ہاتھوں میں تھی میرے شوہر مرزا سکندر کی کہانی کا حکم مجھ کو دوپہر ہہ کو سنا چکا تھا۔

ریختہ صفحہ 50
اس نامراد کافر نے جو ستم توڑے ہیں فرعون اور نمرود نے بھی نہ توڑے ہوں گے۔ اس ناہنجار نے سینکڑوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میرے شوہر سے اس کو سدا کی لاگ ڈانٹ تھی۔ اسی نے جھوٹی مخبری کی اور بیمار کو پکڑوا دیا۔ اس اندھیر کو دیکھو کہ گٹھیا کا بیمار جو چلنا پھرنا تو درکنار کھڑا تک نہیں ہو سکتا کیا لڑے گا اور کیا مارے گا۔ مگر اندھیر نگری اور چوپٹ راج تھا۔ شاباش ہے ان عقلوں پر جنہوں نے یقین کیا اور پھانسی کا حکم دے دیا۔ مرزا بے چارے نے لاکھوں قسمیں کھائیں اور بہتیرا ہی کہا ”میری تو دونوں ٹانگوں رہی ہوئیں ہیں“ مگر کسی نے نہ سنی۔ نیاز و کمبخت کی خدائی تھی۔ جس کو چاہا پسّو اور کھٹمل کی طرح دم بھر میں مسل دیا، اس مردے کی صورت دیکھتے ہی میرے ہوش اُڑ گئے تھے کہ دیکھئے جوانا مرگ کس کی سناونی لاتا ہے کہ اس نے چُگی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا۔ ”مرزا جی جا رہے ہیں۔ ملنا ہے تو مل لو اور چار پانچ گھنٹے کے مہمان ہیں۔“ اماں جان اندر بیٹھی خیم پڑھ رہی تھیں۔ سنتے ہی دھم ہو گئیں اور باہر نکل کر کہا۔ ”الہیٰ مُردے نیازو تجھے ڈھائی گھڑی کی۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ تو سمجھے غریبوں کا صبر خالی جائے یہ ہوا نہیں۔ خدا اور اس کا رسول چاہے تو تن بدن میں کوڑھ ٹپکے گی اور رنجھ رنجھ کر مرے گا۔
وہ ناشاد تو چکنا گھڑا تھا۔ سینکڑوں گھر اُجڑوائے۔ مرزا بے چارے کس گنتی میں تھے۔ یہ کہہ سیدھا ہو گیا کہ ”کوؤں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرتے“ اور ہماری آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔ ان دونوں پھانسیاں دو جگہ ہوتی تھیں۔ کوتوالی چبوترے پر اور جمنا کی ریتی پر۔ ہم دونوں ساس بہوئیں پہلے کوتوالی گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ شام کو پانچ بجے دریا پر باڑ ماری جائے گی۔ یہاں سے ادھر گئے تو سینکڑوں بد نصیبیں کھڑی اور بیٹھی کلیجوں پر گھونسے مار ہی تھیں۔ ٹکریں مار مار شام پکڑی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 71
ادھر ادھر خوش رنگ پھولوں کے پودے ہیں اور جس وقت ہوا ان پھولوں کو سرسراتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام پہاڑ ہنس رہا ہے۔ کیسی بہار تھی کہ سبحان اللہ۔ میں نے پانی پیا تو کتنا شیریں کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ پہاڑی درخت میوؤں سے لدے کھڑے تھے۔ بھوک کے مارے بیتاب تھی۔ خوب توڑے خوب کھائے مگر وہ باجے گانے کی آواز اب تک برابر آ رہی تھی اور اب تو بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔ آگے بڑھی تو دور سے ایسا معلوم ہوا کہ وہ باجے کی آوازپونگی ہے اور کوئی شخص تنہا کبھی پونگی بجاتا ہے کبھی گاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص دکھائی دے گیا۔ دور سے کھڑے ہو کر دیکھا کہ کہیں کالا نہ ہو۔ جب دیکھ لیا کہ ایک بڈھا سپیرا ہے تو پاس پہنچ گئی۔ سپیرا اپنی بین میں مست خود ہی جھوم رہا تھا اور اس کے سامنے دو سانپ کالے بھنور پھن اٹھا اٹھا کر اس کی گود میں کھیل رہے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر سپیرے نے پونگی چھوڑ دیں اور ایک سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر مجھ سے پوچھا بابا کون ہے کیوں آیا ہے۔ میں ایک کونہ میں خاموش بیٹھ گئی سپیرا میرے قریب آیا۔ بڈھا پھونس تھا پلکیں تک بگلہ تھیں اور تمام جسم پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے اس سے تمام کیفیت بیان کی وہ ایسا مہربان ہوا کہ اسی وقت اپنے ہاتھ سے پھل توڑ کر کھانے کو دیئے اور کہا بیٹی یہ نیلگری پربت ہے۔ تو شوق سے رہ ۔میں تجھ کو اپنی بیٹی سمجھوں گا۔ اس نے مجھ سے اپنی حالت بیان کی کہ سمیر پور راجہ کا بھانجا ہے۔ ایک جوان لڑکی عمر بھر کا سرمایہ تھی ۔جس کو مرے پندرہ بیس برس ہو گئے۔ اس کی موت کے بعد سے گھر بار چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں نکل آیا اور یہاں زندگی بسر کر رہا ہے مجھے اس کی زندگی پر رشک آتا تھا کہ کوئی رنج و غم اس کے پاس آکر نہ پھٹکتا تھا۔ قدرت کا دسترخوان

ریختہ صفحہ 72
انواع و اقسام کی نعمتیں ہر وقت اس کے واسطے حاضر تھیں۔ اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے ہر لمحہ اس کی دعوت میں مصروف تھے۔ میں بھی ہر طرح سے بے فکر تھی۔ وہ مجھ کو بیٹی سے زیادہ چاہتا تھا۔ اس کی محبوب و مرغوب چیزیں سانپ تھے ہر وقت کھیلتا اور مگن رہتا۔
ایک روز اس نے مجھ کو ایک بوٹی دکھائی کہ کیسا ہی زہریلا سانپ ہو یہ تریاق ہے۔ اگر ایک قطرہ بھی حلق سے اتر گیا تو آدمی مر نہیں سکتا۔ کوئی دو مہینے بعد میرا سپیرا پہاڑ سے اترتا ہوا لڑھک گیا۔ اور ایسا گرا کہ ہڈی پسلی چکناچور ہو گئی۔ اب میرا یہاں ٹھہرنا فضول تھا۔ اور میرا دل بھی اس کے بعد نہ لگا۔ میں یہ کہنا بھول گئی کہ میرے کپڑوں کی دھجیاں لگ گئی تھیں۔ ایک گیرواچادر سپیرے نے مجھ کو دے دی تھی وہی میرے بدن پر تھی۔ صبح کے وقت ایک دن میں وہاں سے چل کر کھڑی ہوئی۔ شام کے قریب ایک شہر میں پہنچی۔ دلی چھوڑے رتیں ہو گئی تھیں۔ شہر کی صورت دیکھتے ہی دل کی کیفیت اور ہوگئی اور اپنا گھر یاد آیا۔ مگر کجا دلی اور کجا میں۔ ٹھنڈا سانس بھر کر سڑک پر بیٹھ گئی۔ سامنے دیکھا تو آدمیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں۔ گھس جاتے ہیں بیس آتے ہیں۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا تمہیں سانپ کے کاٹے کا منتر بھی یاد ہے ۔میں نے پوچھا کیا معاملہ ہے۔ تو اس نے کہا ہمارے راجکمار کو ناگ نے ڈس لیا۔ میں نے کہا کدھر ہے دیکھوں۔ بوٹی میرے ساتھ تھی۔ میں نے اندر جا کر دیکھا تو بائیس چوبیس برس کا لڑکا بے ہوش پڑا ہے اور سینکڑوں آدمی ادھر ادھر کھڑے افسوس کر رہے ہیں۔ اس کی ماں پچھاڑیں کھا رہی تھی۔ میری صورت دیکھتے ہی قدموں میں گری اور کہا مہاراج دیا کیجئے۔ میں نے بوٹی پیس کر حلق میں ڈالی۔ خدا کی شان را ج کمار نے آنکھیں کھول دیں۔ اب تو سارا شہر میرے قدموں میں تھا۔ راج کمار کی

ریختہ صفحہ 73
ماں کو جب معلوم ہوا کہ میں لڑکی ہو ں تو اس نے مجھ کو اپنے ہاتھ سے نہلا دھلا کر کپڑے بدلے اب راجکمار بالکل اچھا ہوگیا تھا میں نے چلنا چاہا تو وہ کہنے لگا اگر تم جاتی ہو تو مجھے بھی زندہ رہنے کی ضرورت نہیں۔ اسی سانپ کو بلوا کر پھر ڈسوا دو۔ میں نے اس سے حرف بہ حرف تمام داستان کہہ دی۔ اور یہ بھی کہہ دیا کہ دلی کو دل ترس رہا ہے ۔اس کے حکم کی دیر تھی وہ اور اس کے نوکر چاکر ساتھ ہو لئے۔ اور ہم سب آج پانچواں روز ہے کہ یہاں پہنچے۔ راج کمار بڑا رئیس ہے۔ تھا تو ہندو مگر اب مسلمان سمجھ لو۔ نکاح کا خواستگار ہے جو تم سب کا فیصلہ ہو وہ تعمیل کروں۔
ننھی حیدری کی داستان ختم ہوئی تو رات بھی ختم کے قریب تھی گوہر آرا بیگم نے فرمایا،" بیویوں آج کی رات بھی ختم ہوگئی مگر ابھی داستانیں بہت باقی ہیں ۔ آپ لوگ اکتا جائیں گی ۔سچ پوچھو تو یہ داستانیں زبان پر نہیں تو دلوں میں اس وقت تک باقی رہیں گی جب تک شہر زندہ ہے۔ اب اس کو ختم کرنا چاہیے۔ اصل یہ ہے کہ عمرہیں ختم ہو جائیں گی لیکن یہ داستانیں ختم نہ ہوں گی۔ دلی والوں پر جو خدا کا قہر ٹوٹا اور مصیبت آئی وہ خدا دشمن پر بھی نہ ڈالے۔ مجھ سے اگر سچ سچ پوچھو تو اس میں گوروں کا قصور ہے نہ فرنگیوں کا۔ سب سے پہلے تو تلنگوں نے آفت ڈھائی کہ شہر بھی لوٹا اور میموں کو بھی مارا۔ اس کے بعد مخبروں نے جن کی جھوٹی خبروں سے سینکڑوں نہیں ہزاروں بے قصور پھانسیوں پر چڑھ گئے اور گور و کفن تک نصیب نہ ہوا قیامت برپا کردی۔ رہا صاحب عالم کا معاملہ وہ شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ایسے بھولے بھالے ایسے سیدھے سادے بادشاہ پر بغلی گھونسوں نے وار کیا اور جس کے نمک سے پیٹ بھر رہے تھے اس کو گھر سے نکال کر اپنے گھر میں گھی کے چراغ جلائے۔

ریختہ صفحہ 74
یوں تو سارا شہر ہی مصیبت کا مارا ہے۔ بس آج اور کل دو راتیں اور سہی۔ کل تک جن جن کی کتھا ہو جائے۔ باقی اب ختم کیجئے ۔زندگی ہے تو پھر کبھی سہی۔ اگلے برس جب بیلہ میں میلہ ہوگا تو دیکھی جائے گی ۔
ہم تو پھول والی بیگم کے قائل ہیں ایک اکیلی نے سارے مخبروں اور اللہ ماروں کو ناک چنے چبوا دیئے۔ دنیا شہر چھوڑ کر بھاگ گئی مگر یہ اسی طرح شہر میں دندناتی رہی۔ مجال نہیں جو کوئی آنکھ ملا سکتا۔ دو کو روٹی کھلا کر کھا رہی ہیں ۔آدمی ہاتھ پاؤں ہلائے تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور اس طرح عزت آبرو سے گزر بسر ہو سکتی ہے۔
ہم شہزادیاں سچ پوچھو تو پر قینچ کبوتر تھے۔ قلعہ سے چھوٹے تو اڑ کر کہاں جاتے۔ جنم نہ دیکھا بوریا سپنے آئی کھاٹ۔ عمر رنگ رلیوں اور ایسے مردوں میں گزری جو قید سے بدتر تھے ۔ اب جو اڑے تو بازو میں سکت نہ پاؤں میں ہمت۔ نیچے سے بلیوں نے دبوچا اوپر سے باز بہریوں نے۔ خیر اب جلسہ ختم کرو۔ زندگی بخیر ہے تو کل رات کو گوری پھوپھی اپنی داستان سنائیں گی۔ ہاں بی پھول والی بیگم لو اذان سے پہلے ایک صدا اور لگا لو ہاں بیوی۔
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
بیویوں میں قہقہہ لگا۔ پھول والی بیگم بھی ہنسنے لگیں اور سب اپنے اپنے گھر رخصت ہو ئے۔ مغرب کی نماز کے بعد بھی گوہر آرا بیگم آموجود ہوئیں۔ دس گیارہ بجے رات تک کھچڑیاں سی پکتی رہیں۔ آدھی کا عمل تھا کہ بیگم کی آواز گونجی۔
" لپٹیں آرہی ہیں موتیا کی"
برجیس دلہن برابر بیٹھی تھیں۔ بیگم کی آواز جو ان کے برابر گونجی تو چونک

ریختہ صفحہ 75
پڑیں اور کہنے لگیں " اےہے خالہ ٹپکی پڑے موئی لپٹوں کو۔میرے تو پردے بھی پھٹ گئے۔ گوہر آرا بیگم نے کہا" اچھا بی خالہ جان لو جلدی جلدی چھیبے خالی کرلو۔ دیر زیادہ ہوگئی ہے۔ خلقت ٹوٹ پڑی اور ایک آدھ ہی گھنٹہ میں پھول صاف ہو گئے تو گوہر آرا بیگم نے کہا" اب سب سے پہلے گوری پھوپھی جان اپنی بیتی سنائیں گی۔ اتنا کہہ کر انہوں نے گوری کا ہاتھ پکڑ کر سامنے بٹھایا تو وہ ہنس کر کہنے لگیں:-
شہزادی قمر جہاں کی بپتا
سب نے اب تک آپ بیتی سنائی مگر میں جگ بیتی سناتی ہوں اور یہ ایسی ہے کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ مجھ کو شہر آئے دو سال سے زیادہ ہوئے۔ میں نے کسی سے کچھ نہ کہا آج سب کے سامنے بیان کرتی ہوں۔
مجھ پر تو کچھ ایسی بپتا نہیں پڑی جس کا رونا روؤں۔ ہاں میں نے برادری والی چچی کی لڑکی قمر جہاں کی جو مصیبت دیکھی وہ خدا کا دشمن کو نہ دکھائے۔ میرے آقا ابا اجنٹی میں میرے منشی تھے۔کس مخبر کی مجال تھی کہ ہم سے آنکھ ملا لیتا۔ بلکہ انہوں نے بیسوں کو پھانسی سے چھٹکارا دلوایا اور موئے نصیرا مخبر کو تو جنٹ صاحب سے کہہ کر بیچ بازار میں پھانسی دلوا دی۔ ان کو ایکا ایکی کان پور جانے کا حکم ہو گیا۔ پچیس تیس آدمی ساتھ تھے۔ اور بھی دو تین آدمیوں کے بال بچے تھے۔ باقی سب مرد ہیں مرد ہم شام کے لگ بھگ کانپور اترے۔ وہاں امی جمی تو ہو چکی تھی مگر شیو راؤ ڈاکو باغی اب تک قبضہ میں نہ آیا تھا۔اس کے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 86
کوئی رات کی بچی بچائی باسی کوسی روٹی بغل میں ماری۔ دو چار پان کے ٹکرے مٹی کا حقہ ساتھ لیا اور وہیں شام کر دی۔ اگر کوئی مچھلی مل گئی توفبہا محلہ بھر میں عید ہوگئی۔ کچھ بچی کچھ بانٹیں کچھ کھائیں کچھ رکھی نہ ملی تو چپکے سے آ کچھ موجود ہوا تو کھا کر ورنہ فاقے سے چپکے پڑ رہے
شہزادوں کا یہ خاندان غدر کے بعد کچھ شادی بیاہ کے اور کچھ کام کے سلسلہ میں منتشر ہوکر دوسرے شہروں میں پہنچ گیا۔ یہ جس وقت کا ذکر ہے اس وقت دلی شہزادوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی مگرافلاس نے ایسی بری گت بنا دی تھی کہ روٹی تھی تو کپڑا نہ تھا اور کپڑا تھا تو روٹی نہ تھی۔
دلی میں جو میلے اس سے پہلے ہوئے وہ میں نے نہیں دیکھے مگر اس کے بعد میلے بھی دیکھے دربار بھی دیکھے جلسے اور محفلیں بھی دیکھیں مگر جو صورتیں میلے میں نظر آ گئیں وہ تو پھر کیا نظر آتیں ، ان جیسی بھی پھر دیکھنے میں نہ آئیں۔ ہاں پھول والی بیگم جب تک زندہ رہیں ان کی لہکار اور ان کے پھولوں کی مہکار میں وہ سماں یاد دلاتی رہی۔
برجیس دلہن جو اس میلے کی جان اور گوہر آرا بیگم جو اس برات کی دلہن تھیں بہت روز تک زندہ رہیں۔ برجیس دولہن کلاں محل کے پاس رہتی تھیں مگر گوہر آرا بیگم اپنی نندکے ساتھ سلطان جی چلی گئی تھیں۔ کبھی کبھی پھول والی بیگم کے ہاں ان شہزادیوں کا جمگھٹا ہو جاتا تھا۔ عید اور بکرا عید پر سب کی سب پھول والی بیگم کے ہاں جمع ہوتی تھیں اور رنگ رلیاں منانا لیتی تھیں قطب میں بھی اندھیری باغ میں ایک برسات میں نے اس میلے کے چار یا پانچ سال بعد شہزادیوں کی دیکھی ہے۔ جھولے پڑے ہوتے تھے اور آم جامنوں کی جہلیاں رکھی ہوئی تھیں۔

ریختہ صفحہ 87
کڑہائیاں چڑھی ہوئی تھیں اور پینگیں بڑھ رہی تھیں۔ پھول والی بیگم جس جھولے میں بیٹھی ہیں تو گوہر آرا بیگم ان کے ساتھ پاؤں جوڑے بیٹھی تھیں۔ سلطان بیگم اور برجیس دلہن جن کے ساتھ اور بہت سی بیبیاں تھیں جھولا جھول رہی تھیں۔ پھول والی بیگم نے جس وقت یہ ملہار شروع کیا ہے
" جھلوا جھلاتے ناگن ڈس گئی"
تو باغ گونج اٹھا تھا۔ شام تک چہل پہل رہی۔ گوہر آرا بیگم کو میں نے اس کے بعد نہیں دیکھا۔ سنا ضرور کہ زندہ ہیں۔ اسی طرح برجیس دلہن بھی پر نظر نہ آئیں۔ ہاں پھول والی بیگم کی صدا روز رات کو بلند ہوتی تھی۔ وہ کبھی کبھی جب جی چاہتا تھا تو خود ہی بادشاہ کی کوئی غزل الاپتی تھیں۔ مگر جہاں انہوں نے غزل شروع کی اور دکان کے آگے بھیڑ لگی۔ رات کے سناٹے میں شاید ہی کوئی ایسا سنگدل ہوتا ہوگا جس کے کلیجہ میں بیگم کی آواز نہ گھستی ہو۔
افسوس یہ ہے کہ بیگم کے سوا جس کو سرکار سے کچھ نہ ملتا تھا باقی اور سب شہزادیوں کی جن کو ماہانہ وظیفہ مل رہا تھا حالت نہایت ر دی تھی۔ ٹھیک یاد نہیں مگر گوہر آرا بیگم کے ہاں سب مل جل کر پچاس روپیہ کم کا وظیفہ نہ ہوگا مگر ان کے نندوئی اور دیور بھنگ، چرس، چنڈو، کبوتر، مرغ، گلدم، ہڑنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ یقینی طور پر تو کہنا مشکل ہے مگر گمان غالب ہے کہ مہینہ میں ایک آدھ فاقہ ضرور تو آتا ہوگا۔ ان کی بھتیجی قمر آرا جس کو انہوں نے بیٹی بنا لیا تھا پہلی بیوی کے مر جانے کے بعد سلطان دولہا سے بیاہی گئی۔ یہ سب ہی گنوں پورے تھے۔ لمبی سفید داڑھی تھی مگر چوک پر روزانہ کبوتر ہاتھ میں لیے موجود ہوتے تھے۔ ٹوپی تو چکٹ ہوتی تھی، مگر ہوتی وہی شاہانہ تھی۔ میں نے ان کو چوک

ریختہ صفحہ 88
پر لیتھڑے پہنے اور ننگے پاؤں پھرتے دیکھا ہے۔ گوہر آرا بیگم اور سلطان دولہا کے بعد اس لڑکی قمر کی حالت بہت ابتر ہو گئی۔ بچہ کوئی نہ تھا اور اس قابل بھی نہ رہی تھی کہ نکاح کر لیتی۔ چالیس پچاس برس کی عمر ہو گی مگر افلاس نے قبل از وقت بڑھاپے کے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ وہ پھرتی پھراتی میرے ماموں کے ہاں ماما گیری کے واسطے آئی اور ایک روپیہ مہینہ اور روٹی پر نوکر ہوئی۔ اس کی عمر غدر میں سات آٹھ برس کی ہوگی۔ مصائب کے تمام پہاڑ اس کے سر سے گزر چکے تھے۔ خاندان تیموریہ کی تباہی و بربادی میں وہ برابر کی شریک تھی اور اس کی زندگی بتا رہی تھی کہ کس طرح بیجوں پر سونے والیاں خاک ہیں۔
رات کے وقت جب بوا قمر جن کو بچے خالہ خالہ کہتے تھے کام کاج سے فارغ ہو جاتی تو ان کے پاس جا بیٹھتے اور وہ غدر کی داستانیں اس طرح سناتیں کہ بعض دفعہ بڑے بوڑھے بھی شوق سے سنتے۔ انہوں نے اپنی آنکھ سے ایسے ایسے خاندانوں کی بربادی دیکھی تھی کہ سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ اور میری رائے میں تو وہ خود بھی انقلاب کی پوری تصویر تھیں۔ ان کا پھٹا ہوا برقع اور ٹوٹی ہوئی جوتی اس وقت تو نہیں مگر آج عالم تخیل میں میرے واسطے درس عبرت ہے۔ اب تو نہ وہ لوگ رہے نہ وہ باتیں رہیں۔ ہر جگہ امی جمی دکھائی دیتی ہے۔ مگر جن جن پر مصیبتیں پڑیں وہ نہ رہے مگر ان کی دل ہلا دینے والی داستانیں اور ان کی ہوش ربا مصیبتیں آج بھی لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں اور بہاتے رہیں گے۔

تمت
 

محمد عمر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 76
دو ڈھائی سو آدمی تھے۔ دِن بھر جنگلوں میں رہتا اور رات کو یہاں جی چاہا پہنچا، مارا پیٹا اور جو ہاتھ لگا لے چلتا ہوا۔ کوئی دن ایسا نہ جاتا تھا کہ ایک آدھ ڈاکہ نہ ڈالتا ہو اور دو چار آدمی نہ مار آتا ہو۔ آکا ابا کی بہادری مشہور تھی۔ جنٹ صاحب نے اسی لئے ان کو کانپور بھیجا۔ جو لوگ ساتھ تھے وہ ان کے ماتحت تھے اور خوب رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ رستے بھر انہوں نے جنگل میں منگل رکھا اور کانپور پہنچ چھاؤنی میں ڈیرے ڈال دیے۔
شام ہو گئی تھی اس لئے رات تو وہیں گذری، صبح کو چھوٹے بوچڑ خانہ میں اکا ابا نے مکان کا انتظام کیا اور ہم دونوں ماں بیٹیاں وہاں چلی گئیں۔ ہمارے برابر ہی دیوار بیچ رسالدار احمد نبی خاں کا مکان تھا۔ وہ آکا ابا سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ہماری دعوت کی۔ ہم دوسرے دن شام کو ان کے ہاں گئے تو میں نے ان کی بیوی کو دیکھا، بہت ہنس مکھ اور اچھے مزاج کی بی بی تھیں مگر میں یہ دیکھ کر حیران تھی کہ جو لونڈی ان کے ہاں کام کاج کر رہی تھی وہ مجھ سے اپنا منہ چھپا لیتی تھی۔ میں نے گھر والی بیوی سے تو پوچھنا مناسب نہ سمجھا مگر اس تاک میں رہی کہ کسی طرح چھوکری دیکھ لوں۔ جب میں کھانے کے واسطے ہاتھ دھونے اُٹھی تو چھوکری کا گھونگھٹ الٹ دیا۔ دیکھتی ہو تو قمر جہاں۔ اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اگر وہی مجھے نہ پکڑتی تو میں گر پڑتی۔ اس نے سنبھالا اور اشارے سے کہا۔ ”خبردار بولنا مت۔“ میں نے اما جان سے ذکر نہ کیا مگر کھانا کیا خاک کھایا جاتا برائے نام دو چار نوالے کھا اُٹھ کھڑی ہوئی۔ قمر جہاں کا نام اس گھر میں آ کر چنی ہو گیا تھا۔ چلتے وقت میں نے رسالدارنی سے کہا اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی چنی کو ساتھ لے جاؤں پرایا محلہ اور اکیلا مکان ہے آکا ابا اب چھاؤنی چلے جائیں گے۔“

ریختہ صفحہ 77
رسالدارنی نے کہا۔ ”بیٹی شوق سے لے جاؤ۔“ میں باغ باغ ہو گئی اور قمر کو لے گھر آئی۔ اما جان کو معلوم ہوا کہ یہ قمر ہے تو گلے سے لگا کر اس قدر روئیں کہ ہچکی بندھ گئی۔ میں نے اسی وقت اس کو اپنے کپڑے دیے نہلوایا اور کہہ دیا کہ بس لونڈی گیری ہو چکی۔ اب کسی کی مجال نہیں کہ تم پر حکومت کر سکے۔ تم بتاؤ تو سہی یہاں کیونکر آ گئیں۔ قمر یہ سُن کر بہت روئی۔ جب میں نے زیادہ کہا تو کہنے لگی ”بوا کیا بتاؤں تقدیر کا لکھا بھگت رہی ہوں اور دیکھئے کیا کیا لکھا ہے۔ لو سنو کیا بیتی۔“
اما جان تو تمہیں نہیں ابا میاں کو جب پھانسی ہو گئی تو گھر میں بیٹھی بھر آٹا بھی نہ تھا۔ دو راتیں تو میں نے جوں توں گزاریں مگر تیسرے دن دم آنکھوں میں آ گیا اور پانی کی بھی بوند نہ رہی تو رضائی اوڑھ باہر نکلی۔ بھوک اور پیاس کے مارے جان نکل رہی تھی۔ ایک کرتہ یا پاجامہ کی بقچی بغل میں تھی۔ چاروں طرف بھیک مانگی مگر خدا گواہ ہے جو کسی نے آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھا ہو۔ ہنں پیاؤ پر پانی تو خوب ڈگڈگا کر پیا۔ آگے بڑھی تو سارا قلعہ جمعہ مسجد کے تلے جمع تھا۔ وہاں پہنچی تو سب رشتہ دار اور ملنے جلنے والے مگر کچھ ایسی نفسی پڑ رہی تھی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ چنوں کی گاڑی گیارہ بجے آتی ہے اور سب کو مٹھی مٹھی بھر ملتے ہیں۔ بی کیا بتاؤں کہ کیونکر گذری۔ مجھ میں تو چلنے کی سکت نہ تھی۔ زمین پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ گاڑی آئی تو خدا کی پناہ ایک پر ایک گر رہا تھا۔ دھکا اور مکّا لات اور گھونسہ مگر پیٹ بری بلا ہے۔ پٹتی کٹتی پہنچی اور مٹھی بھر چنے جو اس وقت پلاؤ سے زیادہ تھے دو ہی پھنکوں میں ختم کر لئے۔ چاروں طرف چیل کی طرح منڈلائی لیکن ایک دانہ نصیب نہ ہوا۔

ریختہ صفحہ 78
جب رات ہو گئی تو ایک آدمی جس کے پیچھے پیچھے دو نوکر تھے روٹیاں بانٹتا آیا۔ اس نے مجھ کو بھی ایک روٹی دی۔ میں نے پانچویں روز روٹی کی صورت دیکھی تھی امرت ہو گئی۔ کھا کر پانی پیا۔ کئی وقت کے بعد جو پیٹ بھرا تو ایسی نیند آئی کہ کچھ ہوش نہ رہا۔ وہیں سر رکھ کر میں لیٹ گئی۔ آنکھ کھلی تو خاصا اُجالا تھا۔ اس طرح تین چار دن گذارے۔ شام کے وقت ایک دن تین فوجی آدمی آئے۔ ان میں سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ مسلمان نے میری طرف دیکھا اور کہا۔ “چل ہمارے ساتھ آ۔ روٹی دیں گے۔ میں ساتھ ہوئی۔ اس نے اپنے گھر آ کر ایسا پٹخا کہ آج تک نہ اُبھری۔ یہ وہی رسالدار ہیں اور یہ رسالدارنی ان کی بیوی ہیں۔ کوئی آٹھ دس روز تو میں وہاں رہی پھر یہ لوگ یہاں چلے آئے۔ اب چاہے لونڈی باندی کو یا ماما اصیل۔ نماز کے وقت کی اٹھی ایک ٹانگ سے پھرتی ہوں۔ جب کہیں جا کر پیٹ بھرتا ہے۔ بیوی تو خیر کچھ رحم بھی کر لیتی ہے مگر رسالدار تو حقہ کو دم بھر دیر ہو جائے یا نہ سلگے تو چھوٹتے ہی کوڑے سے بات کرتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کھال ادھڑے۔ دیکھو سارا بدن نیلا ہو رہا ہے۔“
اتنا کہہ کر اس نے کرتا اُٹھا پیٹھ دکھائی تو اماں اور میں دھاڑوں رونے لگے۔ اس کا جسم چوڑی تھا خدا خدا کر کے صبح ہوئی تو اماں جان نے آکا ابا کو ساری کیفیّت سنائی۔ انہوں نے قمر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ ”بیٹی تم گبھراؤ نہیں۔ اپنے گھر آ گئی ہو اب رسالدار کے ہاں نہ جانے دوں گا۔“ میں یہ دیکھ رہی تھی کہ خوش ہونے کے بدلے قمر کچھ ڈر سی رہی تھی۔ اس کا دل کچھ ایسا مر گیا تھا کہ ہنسی نام کو نہ آ رہی تھی۔ آکا آبا نے رسالدار سے کہا تو وہ بہت پھیلے اور کہنے لگے کہ ”ہم نے آپ کی اچھی دعوت کی کہ اپنا آدمی ہی ہاتھ سے کھویا۔ آپ اس کو لے جا

ریختہ صفحہ 79
کہاں سکتے ہیں۔ اس کا نکاح تو میرے نوکر بنو سے ہو چکا ہے۔“ اکا ابا کو بھی غصّہ آ گیا اور انہوں نے کہا ”آپ کو معلوم بھی ہے یہ کون ہے؟ میری بیوی کی بھانجی ہے۔ مرد خدا مسلمان ہو تمہارے آگے بھی بیٹی بھانجیاں ہیں۔ سدا دور ایک نہیں رہتا۔ خدا معلوم کل کیا ہو۔ اس کے قہر سے ڈرو۔“ رسالدار نے حیل حجت تو بہت کی مگر اکا ابا نے ایک نہ سنی اور بوچڑ خانہ کا مکان چھوڑ قمر کو ساتھ لے چھاؤنی میں آ گئے۔
جب ڈاکو پکڑ لیا گیا اور اس کے ساتھی بھی پھانسی پر لٹک گئے تو اکا ابا دلی آ گئے۔ یہاں آئے شاید ساتواں مہنیہ تھا کہ قمر کو بخار چڑھا۔ جب سے آئے دِن کی بیمار ہے بخار چڑھتا ہے پھر اتر جاتا ہے۔ پھر چڑھتا ہے۔ کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اب قمر ہڈیوں کی مالا ہے۔ دُبلی پتلی نازک مزاج لڑکی تھی۔ رسالدار ظالم کے کوڑوں نے زندہ درگور کر دیا۔ اب کوئی دن کی مہمان ہے۔ یہاں آنے کو تڑپ رہی تھی مگر ایک قدم بھی نہیں چلا جاتا۔ خدا اس بدنصیب کا انجام بخیر کرے۔
گوری کی داستان ختم ہوئی تو رات فضاء آسمانی میں کروٹ بدل رہی تھی۔ طبیعتیں گوری کے بیان سے متاثر ہو چکی تھیں۔ اس پر چند لمحہ کی خاموشی اور وداع شب کا درد انگیز آسمان دلوں کی کیفیت عجیب تھی۔ مشکل سے گھٹری بھر اس طرح گذری ہو گی کہ برجیس دلہن نے روتے ہوئے کہا۔
”بس دلّی والو۔ ختم کرو۔ روؤ گے تو ہمیشہ مگر اب طبیعتیں سنبھالو اور اپنے اپنے دھندے دیکھو۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔“
برجیس دلہن دوسروں کو سمجھا رہی تھیں مگر ان کی اپنی حالت یہ تھی کہ پچکی بندھی اور آخر گوہر آرا بیگم نے ان کو پانی پلا کر خاموش کیا اور فرمایا۔

ریختہ صفحہ 80
”ہم ختم ہو جائیں گے مگر ہماری داستانیں ختم نہ ہوں گی۔ جب تک دنیا زندہ ہے اس وقت تک ہمارا تذکرہ زندہ رہے گا۔ اس وقت تک ہمارے رونے والے بھی نہ رہیں گے۔ ہم پر جو قیامت ٹوٹی ہے یہ ایسی نہیں ہے کہ آدمی بھول جائے۔ ہماری بپتا دوسروں کے دل دہلائے گی۔ گورے یا کالے جو کچھ بھی تھے ایسی آفت ڈھائی ہے کہ دلّی اور دلّی والے عمر بھر روئیں گے۔ مخبروں نے جو ستم توڑا ہے اور بے گناہوں کو بھانسیاں دلوا کر جیسے جیسے گھر اجڑوائے ہیں اس کا بدلہ ہم اپنی آنکھ سے دیکھیں گے۔ معصوموں کا خون اوپر ہی اوپر نہ جائے گا۔ ان چاروں نامراد مخبروں میں سے ایک کالے کی کٹیا تو کٹ چکی دوسرا جمّو پاؤں پیٹ رہا ہے۔ باقی دونوں کا حشر بھی دیکھ لینا۔ اب میلہ اور داستانیں ختم، زندگی ہے تو اگلے برس پھر دیکھ لیں گے۔
برجیس دولہن پانی پی کر کچھ سنبھل گئی تھیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ ایک دفعہ اور
”لپٹیں آ رہی ہیں موتیا کی“
آواز گونجی اور پھوں والی بیگم نے کہا۔ ”مرنے والے ایسے بدنصیب تھے کہ ان شہیدوں کو گور و کفن کچھ بھی نصیب نہ ہوا۔ پھول اور چالیسواں تو الگ رہے۔ ڈھونڈھیں بھی تو پتہ نہیں کہ کِس کی قبر کہاں ہے۔ یہ جنّتی بندے ایسے بے وارث تو نہ تھے کہ ان کی روحیں ترستی پھڑکتی سد بار میں اور دو روٹیاں تک نصیب نہ ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ غدر کے شہیدوں کا کل چالیسواں ہو جائے۔ بوا گوہر آرا بیگم اگر منظور کریں تو اس سے بہتر موقعہ کون سا ہو گا۔ سارا شہر جمع ہے لیکن اس خالی خولی رونے دھونے سے کیا حاصل۔ جو جس کو نصیب ہو اپنا اپنا کھانا لے آئے اور یہاں مل بیٹھ کر ان کے نام سے کھا لیں۔“

ریختہ صفحہ 81
پھول والی بیگم کی رائے سے سب نے اتفاق کیا اور جلسہ سے متفقہ آواز آئی کہ بہت خوب ضرور چاہیے کل ہم سب جو خدا نے دیا اللہ چاہے مغرب کے وقت لے کر حاضر ہو جائیں گے۔
اب پو پھٹ رہی تھی اور ہوا اور پرند روزِ روشن کی آمد کا غلغلہ بلند کر رہے تھے کہ گوہر آرا بیگم نے کہا ”اچھا بھائی بہنوں خدا حافظ۔ اصل خیر سے شام کو جمع ہوں گے اور آج اپنے مرنے والوں کا چالیسواں کریں گے۔“
جلسہ برخاست ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھر رخصت ہوئے مگر شام سے پہلے ہی خلقت انواع و اقسام کے کھانے لے کر آ پہنچی۔
افسوس ہے مجھے آج ٹھیک یاد نہیں مگر اتنا خیال ضرور ہے کہ دیگوں کی گنتی نہ تھی۔ چاروں طرف زردہ بریانی پھیلا ہوا تھا۔ بلا مبالغہ سو سرا سو دیگیں ہوں گی۔ یہ کہنا ہی مشکل ہے کہ کتنے اور کون سے خاندان شریک ہوئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے شاید ہی کوئی گھر بچا ہو گا۔ زمیں آدمیوں اور کھانے سے پٹ رہی تھی۔ کھانا شروع ہونے سے پہلے حمید مخبر اور اس کا چھوٹا بھائی جس کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں، گوہر آرا بیگم کو دکھائی دے گئے۔ دیکھتے ہی آپے سے باہر ہو گئیں اور کہنے لگیں۔
”ارے جوانا مرگ حمید۔ تو نے تھوڑی مصیبت توڑی ہے کمبخت۔ پھلروا سے بچے تیری بدولت یتیم ہوئے۔ ہیں مہینہ دو دو مہنیہ کی دلہنیں تیرے ہاتھوں رانڈیں ہوئیں۔ تو نے بھرے پُڑے گھر اجاڑے اور جوان شیروں کو جو ہمارے آس پاس پھانسی پر لٹکوا دیا۔ آج نیک بن کر کھانا کھلانے اور ثواب پہنچانے آیا ہے۔ اسی وقت یہاں سے دور ہو اور نکل جا۔ نہیں تو یاد رکھ اتنی جوتیاں ماروں گی کہ بھیجا پلپلا ہو جائے گا۔ نو سو چوہے

ریختہ صفحہ 82
کھا کر بلّی حج کو چلی۔ سارے شہر کو پکڑوا کر گھر گھر کہرام مچوا چکا اب چالیسویں میں شریک ہوا۔ موئے بے غیرت غارت ہو یہاں سے۔
گوہر آرا بیگم کا عصّہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا تھا۔ خلقت ان کے ساتھ ہو گئی اور میں سمجھتا ہوں کہ دم بھر میں حمید کی تکّا بوٹی ہو جاتی کہ پھول بیگم نے آواز لگائی۔
”لپٹیں آ رہی ہیں موتیا کی“

ایک صدا کے ساتھ ہی ایک قہقہہ گونجا اور خود گوہر آرا بیگم کے چہرے پر مُسکرہڑ آ گئی، تو پھوں والی بیگم نے کہا ”بڑی آپا جان۔ اس ناشدنی نے کو کچھ کیا آپ بھگتے گا۔ یہ جانے اور اس کا خدا جانے۔ تم نے سنا نہیں مردہ دو جوانوں کو رو چکا۔ لڑکے کی چمچماتی لاش گھر سے نکلی۔ خاصی اچھی بھلی چنگی بیٹی گھڑی بھر میں چٹ پٹ ہو گئی۔ وہ کس بل سب نکل گیا۔ اب تو اپنے کرتوتوں کو روتا ہے۔ یہ جانے اور اس کا خدا۔ آ گیا ہے تو آنے دیجئے۔ ایسا ہی ہے تو اس کے کھانے پر لعنت بھیجئے اور کتّوں کو کھلا دیجئے مگر زمین تو اللہ کی ہے ہم کیوں نکالیں۔“ پھول والی بیگم کے ساتھ بھی کچھ لوگ ہو گئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ اس کے کھانے کو کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ بیٹھا ہے تو بیٹھے رہنے دو۔
حمید کا نام سنتے ہی چاروں طرف سے خلقت نے اسے گھورنا شروع کیا۔ گو پھول والی بیگم کی رائے سے کچھ آدمی متفق بھی ہو گئے مگر ہر طرف سے ایسی لعن طعن ہوئی کہ اس کو بیٹھنا مصیبت ہو گیا اور دونوں بھائی آنکھ بچا ایسے چمپت ہوئے کہ پھر صبح تک ان کی صورت نہ دکھائی دی۔
دس بجے ہوں گے یا بجنے والے ہوں گے کہ مولوی نور اللہ خاں نے بآوازِ بلند

ریختہ صفحہ83
فرمایا جب یہ کھانا چالیسویں کا ہے تو ایصالِ ثواب کے واسطے پہلے ختم ہو اس کے بعد کھانا کھایا جائے۔ ان کی رائے پسند کی گئی اور بسم اللہ انہوں نے کی۔
دلّی میں آج بہت سے حافظ ہیں اور خدا کا شکر ہے رمضان المبارک میں یہ سیکڑوں مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسی مسجد ہو جہاں تراویح نہ ہوتی ہو۔ ختم بھی ہوتے ہیں۔ کلام اللہ بھی پڑھا جاتا ہے۔ لیکن نہ معلوم اس دور کے حافظ کیسے تھے ان کی آوازوں میں کیا جادو اور دل میں کیسا درد تھا کہ مجمع پر سنّاٹا چھا گیا۔ ہزار ہا آدمیوں کا ٹھٹ مگر سانس تک کی آواز نہ تھی۔ شہر کے مشہور حافظ امیر اللہ خاں کو پہلی مرتبہ میں نے وہیں سُنا اور دیکھا۔ حافظ وزیر نے باوجود بخار کے مصری لہجہ میں ایک رکوع اس طرح پڑھا کہ آنسو نکل پڑے۔ اس کے بعد تو مجلس کا رنگ ہی بدل گیا۔ سب کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ختم کے بعد سلیمہ سلطان نے نعت پڑھی اور دلوں کے ٹکڑے اُڑا دیے اور بیویاں بھی پڑھنے کا ارادہ کر رہی تھیں گر گوہر آرا بیگم نے کہا کہ بس اب پہلے کھانا کھائیے۔ گیارہ بجے میں باسی ہو جائے گا۔ کھانے میں خاصے ڈھائی تین گھنٹے صرف ہوئے۔ دو بجے کے قریب فارغ ہوئے تو امی خاں نے جو شہر کا مشہور گویّا تھا بادشاہ کی ایک غزل گائی۔ اس وقت کی مجلس کا یہ حال تھا کہ کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ مجھے غزل یاد نہیں مگر قدسی کی غزل پر بادشاہ کی تضمین تھی۔ اس کے بعد اور لوگوں نے بادشاہ کی غزلیں پڑھیں اور یہ رات اسی طرح ختم ہوئی تو حافظ رحمت نابینا نے بلند آواز سے فرمایا۔
”ہمیشہ رہے نام اللہ کا“

ریختہ صفحہ 84
وہ یہ کہہ کر کھڑے ہوئے۔ وضو کیا اور ایسی اذان دی کہ میلہ گونج اٹھا۔ نماز حافظ ضمیر نے پڑھائی اور اس کے بعد ایک دفعہ اور غدر میں مرنے والوں کی پاک روحوں کو ثواب پہنچایا گیا اور بادشاہ کی درازئ عمر کی دعائیں ہوئیں۔
میلہ صبح ہی اکھڑ گیا تھا اور دلّی والے اپنے اپنے کاموں میں پھنس گئے تھے کہ دو بجے قریب اسی حمید مخبر کی اچانک موت کی خبر شہر میں پھیل گئی۔ اس کی موت کے واقعات اس قدر تعجب انگیز ہیں کہ بے ساختہ خدا کی قدرت یاد آ جاتی ہے۔
خاصا بھلا چنگا دن کے گیارہ بجے تک چاروں طرف پھرا۔ قلعہ کے ایک بڈھے آدمی کو مارا۔ کئی ایک کو گالیاں دیں، ایک ایک سے لڑا اور مرزا احمد سے تو یہاں تک کہا کہ ”اکا رات کو تو خوب پھیلے۔ تو سہی میرا نام حمید جو تم کو شہر کا رہنا نہ بھلوا دوں۔ جب میں مخبر ہی مشہور ہو گیا تو اب پوری ہی مخبری کروں گا اور سب کو چھٹی کا کہا یاد دلا دوں گا۔“ فیل کا فیل بنا ہوا تھا۔ جس کی طرف منہ کیا وہی سہم گیا۔ ایک بجے دونوں ہاتھوں میں دو گنے لئے چوراہے کی طرف سے آ رہا تھا۔ سیدھے ہاتھ کو چھکڑا تھا۔ الٹے ہاتھ پر اُپلوں کے گدھے۔ سامنے سے چمارنی شجموں کا ٹوکرا لیے آ رہی تھی۔ بچ کر نکلنا تھا کہ بڑھیا کی ٹکر لگی۔ اس کی جھلی نیچے گری اور اس نے جوانی کے زور میں دو تین گنے سر پر ایسے مارے کہ غریب خونم خون ہو گئی مگر خرانٹ گالیاں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ عورت خون پونچھ اٹھ کھڑی ہوئی اور ٹوکرا سر پر رکھ آگے بڑھی مگر نہ چلا گیا اور آگے جا کر پھر گری۔
حمید اینٹھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے کلیجہ میں درد اٹھا۔ ہائے ہائے کہتا ہوا زمین پر گرا۔ خون کی قے ہوئی۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ آنکھیں پھر گئیں۔ لوگوں کا ٹھٹ کا ٹھٹ لگ گیا۔ جو تھا وہ لعنت بھیج رہا تھا اور خدا کی قدرت کے تماشے دیکھ رہا

ریختہ صفحہ 85
تھا۔ اس کا بڑا بھائی چارپائی پر ڈال کر گھر لے گیا اور کسی حکیم کو لایا۔ وہاں جا کر کیا گذری یہ تو خبر نہیں ہاں یہ سنا تھا کہ کتّے کی طرح ڈیرہ دو گھنٹہ بھونکا۔ آخر اسی طرح تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ عصر کی نماز میں اس کا جنازہ مسجد میں آیا مگر ایک مسلمان نے بھی نماز نہ پڑھی۔ بڑی مشکل سے آغا صدر اور مولوی سلیمان صاحب کے سمجھانے بجھانے سے کوئی پانچ سات آدمی شریک ہو گئے اور اسی طرح مغرب سے پہلے پہلے اس بدبخت کا جنازہ قدم شریف میں پہنچا اور رات کے اندھیرے میں جب روشنی بھی برائے نام تھی گورکنوں کے اوندھا سیدھا دبا دیا۔ اس کی موت نے ساری دلّی کو سبق دیا اور مدّتوں اس کا چرچا شہر کے بچہ بچہ کی زبان پر رہا۔
اس کی چمچاتی لاش پر چاروں طرف سے لعنت برس رہی تھی اور اگر دو چار آدمی بیچ بچاؤ نہ کرتے تو خدا معلوم اس کا کیا حشر ہوتا۔ شاید شہر والے تکّا بوٹی کر ڈالتے۔ بڑے بھائی کی جو شامت آئی تو پھول کر بیٹھا لیکن شہر والے تو درکنار محلہ کا بھی کوئی آدمی جا کر نہ پھٹکا۔ پھاٹک جبش خاں میں مولوی احمد اللہ صاحب کا یتیم خانہ تھا۔ کھانا وہاں بھیجا مگر انہوں نے بھی لینے سے انکار کر دیا۔ اب یہ نہ معلوم کہ کتّوں نے کھایا ہا بلّیوں نے بہرحال اس کی موت کا وہ حشر ہوا کہ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔
شہر میں سب امی جمی تھی مگر دلّی والوں کے دل بادشاہ کے ساتھ اس اطمینان کو رو رہے تھے جو غدر سے پہلے نصیب تھا۔ گوروں کے رعب کی یہ کیفیت تھی کہ اگر دور سے صورت نظر آ جاتی تھی تو بعض اللہ کے بندے تو کانپ جاتے تھے۔
غدر کے بعد جو انقلاب ہوا وہ ایسا نہ تھا کہ دلّی اس کو آسانی سے فراموش کر دیتی۔ ہزار ہا کھاتے پیتے دو ود دوانوں کو محتاج ہو گئے۔ جن کے گھروں پر گھوڑے بندھے ہوئے تھے ان کو روٹی تک نصیب نہ تھی۔ جمنا ان بدنصیبوں کا پیٹ ہھی بھر رہی تھی اور دل بہلا رہی تھی۔ صبح اٹھتے اور مچھلی کی ڈور کانٹے لیے اور دریا پر پہنچ گئے
 
Top