میرے کوزہ گر

تو گزر گیا کسی موج میں، جسے توڑ کر میرے کوزہ گر
میرے خال و خد کے نقوش تھے، اسی چاک پر میرے کوزہ گر

ترے بعد کوزہ فروش نے، مجھے تاقچے میں سجا دیا
جہاں ٹوٹ جانے کا خوف تھا، مجھے رات بھر میرے کوزہ گر

تیری کار گاہ کی خامشی، مجھے نا تمام نہ چھوڑ دے
تو دوام ھوتے سکوت میں، کوئی بات کر میرے کوزہ گر

کہیں یوں نہ ھو تیرے بعد میں، یونہی خاک پر ھی پڑا رھوں
میرے سونے نقش و نگار میں کوئی رنگ بھر میرے کوزہ گر

جو ظروف خانہ بدوش تھے، مجھے کوزہ گاہ میں دیکھ کر
سبھی حیرتوں میں چلے گئے، مجھے چھوڑ کر میرے کوزہ گر

ابھی آگ سے میری گفتگو کو تمام ھونے میں وقت ھے
میں ھنوز نم ھوں کہیں کہیں، ذرا دیر کر میرے کوزہ گر

مجھے شکل دے کے درود پڑھ، میرے ساتھ اسمِ وجود پڑھ
کسی صبح اوّلیں وقت میں، مجھے نقش کر میرے کوزہ گر

فیصل ھاشمی
 
Top