قمر جلالوی میرے تنکوں کو بھگتنا پڑا خمیازۂ گل

ہے سخاوت میں مجھے اتنا اندازۂ گل
بند ہوتا نہیں کھل کر کبھی دروازۂ گل
برق پر پھول ہنسے برق نشیمن پہ گری
میرے تنکوں کو بھگتنا پڑا خمیازۂ گل
خیر گلشن میں اڑا تھا مری وحشت کا مذاق
اب وہ آوازۂ بلبل ہو کہ آوازۂ گل
کوششیں کرتی ہوئی پھرتی ہے گلشن میں نسیم
جمع ہوتا نہیں بھکرا ہوا شیرازۂ گل
اے صبا کس کی یہ سازش تھی کہ نکہت نکلی
تو نے کھولا تھا کہ خود کھل گیا دروازۂ گل
زینتِ گل ہے قمر ان کی صبا رفتاری
پاؤ سے گرد اڑی بھی تو بنی غازۂ گل
 
آخری تدوین:
اچھی غزل پیش کی محترم نزیر بھائی شریک محفل کرنے کا شکریہ
کچھ جگہ شاید ٹائپو ہیں نشاندہی کرنے کی کوشش کرتا ہوں
ہے سخاوت میں مجھے اتنا اندازۂ گل
اس میں کچھ فرق ہے سمجھ نہیں آیا یا شاید نہ ہی ہو آپ بہتر بتا سکتے ہیں
کوششیں کرتی ہوئی پھرتی گلشن میں نسیم
کوششیں کرتی ہوئی پھرتی ہے گلشن میں نسیم۔۔۔۔ ہے رہ گیا شاید لکھنے میں
جمع ہوتا نہیں بھکرا ہو شیرازۂ گل
ہوا
پاؤ سے گر اڑی بھی تو بنی غازۂ گل
گرد
 
اچھی غزل پیش کی محترم نزیر بھائی شریک محفل کرنے کا شکریہ
کچھ جگہ شاید ٹائپو ہیں نشاندہی کرنے کی کوشش کرتا ہوں

اس میں کچھ فرق ہے سمجھ نہیں آیا یا شاید نہ ہی ہو آپ بہتر بتا سکتے ہیں

کوششیں کرتی ہوئی پھرتی ہے گلشن میں نسیم۔۔۔۔ ہے رہ گیا شاید لکھنے میں

ہوا

گرد
بہت شکریہ فاروق احمد بھٹی بھائی تدوین کر دی گئی ہے
 
Top