مگر بہار ہے اور دل ہوا کی زد پر ہے۔

نصابِ عشق کا کیا کیا سبق نہ ازبر ہے۔
مگر بہار ہے اور دل ہوا کی زد پر ہے۔
٭٭٭
کمالِ معجزہِٗ فن، اگر حقیقت ہے۔
سراب ہے، تو قیامت صفت وہ پیکر ہے۔
٭٭٭
ہم اتفاق سے اک راہ پر سہی لیکن۔
ِّبس اپنے ظرف کی حد تک کا ہر مسافر ہے۔
٭٭٭
مگر وہ لب کہ سرِ آب جو بھی تشنہ ہیں۔
مگر وہ آنکھ کہ مرہونِ خوابِ دیگر ہے۔
٭٭٭
خرامِ یار کی تشبیہ نہ استعارہ ہے۔
کہ شاخِ گل بھی لچکتی تو ہے پہ کمتر ہے۔
٭٭٭
نہیں ہے شہر میں کہرام کی کمی لیکن۔
اگر نہیں تو فقط نعرۂِ قلندر ہے۔
٭٭٭
نہ حسنِ یار کہیں ریختے میں آتا ہے۔
نہ ربِ خلق سا دیگر کوئی سخنور ہے۔
٭٭٭
پڑا ہے کام تو اک شمعِ میکدہ سے مجھے۔
نسَب کی مد میں مرے شجرۂ پیمبر ہے۔
 
خرامِ یار کی تشبیہ نہ استعارہ ہے۔
کہ شاخِ گل بھی لچکتی تو ہے پہ کمتر ہے۔

تشبیہ ۔۔۔ اگرچہ ہ کو گرانا جائز ہے تاہم یہاں لفظ کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ ’’تشبی‘‘ ۔۔۔۔
 
نہیں ہے شہر میں کہرام کی کمی لیکن۔
اگر نہیں تو فقط نعرۂِ قلندر ہے۔

دوسرے مصرعے میں معنوی تقاضا نہیں کا ہے۔ مصرع سے قطع نظر ’’اگر نہیں تو فقط نعرۂ قلندر نہیں ہے‘‘۔ ہم دوسری ’’نہیں‘‘ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
 
Top