مچھروں کے خاتمے کے لیے ڈرون کا استعمال۔۔

حاتم راجپوت

لائبریرین
considering-drones-to-fight-mosquitoes-670.jpg

تقریباً ایک کلوگرام وزنی یہ ڈرون طیارہ نوّے میل تک پرواز کرسکتا ہے۔ —. فوٹو

میامی، 17 اگست: ہمارے ملک میں جہاں ڈرون طیاروں کو ان کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے، ترقی یافتہ دنیا میں ان خودکار طیاروں سے بہت سے ایسے کام لیے جارہے ہیں جو انسانوں کے بس میں نہیں یا پھر ان کی تکمیل میں خاصا وقت لگ جاتا ہے.

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ امریکی ریاست فلوریڈا کا ایک اہم ادارہ جزائر کو مچھروں کے جھنڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے پہلی مرتبہ ڈرون کا استعمال کرنے جارہا ہے، جس کے ذریعے ان دور دراز علاقوں میں مچھروں کی افزائش کو روکا جائے گا۔ یہ کیڑے مکوڑوں کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔

فلوریڈا ڈسٹرکٹ میں مچھروں کے خاتمے کے لیے قائم ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مائیکل ڈوئیل نے کہا کہ ”اگر آپ ملک کے اطراف میں پھیلے ہوئے چھوٹے جزیروں میں جانے کی کوشش کریں تو یہ آسان نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ سب کے سب جنگلوں سے بھرے ہوئے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈرون زمینی سطح پر اس سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششوں کا نعم البدل تو ثابت نہیں ہوسکیں گے، لیکن مچھروں اور کیڑے مکوڑوں کے خاتمے کے لیے ایک ”اسمارٹ بم حملے“ کی صورت میں مددگار ضرور بنیں گے۔

نارتھ کیرولینا میں 26 اگست کو ماویرک یعنی آوارہ ڈرون کی آزمائشی پرواز کا مظاہر کیا جائے گا۔ فلوریڈا کی ریاست جسے سن شائن اسٹیٹ بھی کہا جاتا ہے، میں اس کے سب سے زیادہ مشہور سیاحتی مقام پر 65 ہزار ڈالرز کی مالیت کے اس خودکار طیارے کی فروخت کی حکام کو خاصی امید ہے ۔

امریکہ کے ان جزائر کا سلسلہ میامی کے جنوب میں ایک گھنٹے کی مسافت پر شروع ہوتا ہے، اور خلیج میکسیکو میں تقریباً 200 میل کے وسیع حصے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کا جنوبی سرا کیوبا کے ساحلوں سے صرف نوّے میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

considering-drones-to-fight-mosquitoes1-670.jpg

ڈھائی فٹ کے اس ڈرون کو کھول کر باآسانی بیگ میں رکھا جاسکتا ہے۔ —. فوٹو

کونڈور ایئریل کے چیف ایگزیکٹیو فریڈ کلبرسٹن نے بتایا کہ مچھروں کے خاتمے کے لیے تیار کیا جانے والا یہ ڈرون طیارہ تقریباً ایک کلوگرام وزنی اور ڈھائی فٹ لمبا ہے، جو نوّے منٹ کی پرواز کرتے ہوئے 200 میل کا فاصلہ طے کرسکتا ہے۔ اس میں تھرمل کیمرے بھی نصب ہیں، جن کے ذریعے ایسے تالابوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہےجہاں مچھروں کی افزائش ہورہی ہو۔

انسپکٹرز اس طیارے کو کمپیوٹرز کے ذریعے آپریٹ کرنے کے لیے تربیتی سرٹیفکیشن کورسز کررہے ہیں اور مقامی حکام فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی سے ڈرون کو اُڑانے کی منظوری کی کوشش کررہے ہیں۔

فریڈ کلبرسٹن نے کہا کہ ”ہم اسے کسی کی نگرانی کے لیے استعمال کرنے نہیں جارہے ہیں۔“

کونڈور ایئریل جنوبی فلوریڈا میں قائم مینوفیکچررز ”پریوریا روبوٹک“ کا ایک ڈویژن ہے، جس نے 2010ء میں 28 لاکھ ڈالرز کا کینیڈا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت پریوریا روبوٹک افغانستان میں دشمنوں کی حرکات پر نظر رکھنے والا ڈرون فراہم کررہا ہے۔

طوفان یا بڑی سمندری لہروں بننے والے تالاب میں مچھر انڈے دیتے ہیں۔ مچھروں کے خاتمے کے لیے قائم ادارے کے چالیس انسپکٹروں کا کام یہ ہے کہ وہ 140 مربع میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے 42 جزائر پرتیزی سے پھیل جائیں، انسپکٹروں کے پاس چند دن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں وہ انڈے مچھروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو تیزی سے بیماریاں پھیلاتے ہیں۔

جب ڈرون مچھروں کی افزائش کی جگہوں کا پتہ لگالیں گے تو ایک انسپکٹر اس مقام پر جاکر انڈوں کا ٹیسٹ کرے گااس کے بعد ڈسٹرکٹ کے چار ہیلی کاپٹروں کو وہاں بھیج کر اسپرے کے ذریعے ان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

مائیکل ڈوئیل نے کہا کہ ”ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ ٹیکنالوجی حقیقت میں کم گہرے، یا پھر کھلے یا منگروز سے ڈھکے ہوئے پانی میں کام کرسکے گی۔ اور اس کے ذریعے انسپکٹروں کے مقابلے میں کتنے بڑے رقبے پر کام ہوسکے گا۔

ڈینگی پھیلانے والے مچھر چونکہ چھوٹے اور عام نظروں سے پوشیدہ تالابوں میں انڈے دیتے ہیں، اس لیے ڈرون کے ذریعے ان کی نشاندہی ممکن نہیں۔

ربط۔
 
Top