مٹی کے ڈھیر

انتہا

محفلین
مٹی کے ڈھیر

جب میری نانی مر گئی تو ماں اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو اپنے گھر لے آئی۔ میرے نانا پہلے وفات پا چکے تھے، ماں کی شادی سے بھی بہت پہلے۔ یہی وجہ تھی کہ ماں اسے گھر لے آئی۔کہتے ہیں میرا ماموں خصلت اور عادات و اطوار میں مثالی آدمی تھا، بے حد نیک اور بے ضرر، اتنا بے ضرر کہ سوئے ہوئے آدمی کو جگانا بھی اس کے نزدیک معیوب تھا۔ جیسا کہ سنتے آئے ہیں کہ نیک آدمیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ میرے ماموں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو دن بخار ہوا اور تیسرے دن چل بسا۔ماں رو رو کر بے حال ہو گئی۔ دوسرے دن بھائی کی قبر پر گئی تو شدت غم سے بے ہوش ہو کر گر گئی۔ ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں یہ صورت حال دیکھ کر گھبرا گئیں اور انھوں نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ خود میں بھی ان دنوں چھوٹی سی تھی، چنانچہ دہاڑیں مار کر رونے لگی۔قبرستان کے چوکیدار شوضل کاکا نے شور سنا تو دوڑا آیا۔ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا تھا۔ ہماری ایک رشتہ دار عورت نے پورا کٹورا ماں پر انڈیل دیا۔ ماں کے کپڑے بھیگ گئے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ سفید برقع جسے وہ آدھا الٹا چکی تھی ،بکھرا پڑا تھا۔ لاش کی طرح زرد رنگ اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ماں کی یہ حالت دیکھ کر میں دیوانوں کی طرح اِدھر اْدھر دوڑنے اور چیخ چیخ کر رونے لگی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ ماں بھی ماموں کی طرح مر چکی اور سفید کفن میں لپٹی ہوئی ہے۔ آج بھی ان لمحوں کی یاد آئے، تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری روح کانپ جاتی ہے۔دو تین روز بعد جب ماں دوبارہ ماموں کی قبر پر گئی تو میرے اور ہماری نوکرانی دلاجان بی بی کے علاوہ کوئی ساتھ نہ تھا۔ اچانک ماں کی حالت پھر بگڑ گئی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ قبرستان کا چوکیدار شوضل کاکا دوبارہ ہماری مدد کو پہنچا اور دلاجان بی بی سے کہنے لگا’’گھر والوں کو کہہ دو، بیگم صاحبہ کو قبرستان نہ آنے دیں۔ خواہ مخواہ روگ لگ جائے گا۔ اگر بہت ہی مجبوری ہے، صبر نہ آئے، تو چند روز ناغہ کرنے کے بعد آئے۔ آہستہ آہستہ غم ہلکا ہو جائے گا۔‘‘ماں ہوش میں آئی تو دلاجان بی بی نے شوضل کاکا کی بات دہرائی۔ ماں رونے لگی، بولی:’’اکلوتے بھائی کا غم بھی کبھی کم ہوگا؟ ایسی جوانمردگی کی موت، کلیجا کٹ کٹ جاتا ہے۔ بے چارہ دلہن کے چہرے کا گھونگھٹ بھی نہ اٹھا سکا۔ ہائے موت کو بھی ترس نہ آیا!‘‘ ماں پھر رونے لگی۔ ’’باپ کا خون اور ماں کی آخری نشانی۔ موت کے بعد بھی ماں کے کیا کیا ارمان تھے، پختہ قبر بنانے کی آرزو اور اس پر سرخ سبز جھنڈے لہرانے کی حسرت، لیکن خدا جانے ایسا ہواکیوں نہیں !‘‘
اب کوئی دن ایسا نہ جاتا کہ ماں قبرستان نہ جاتی۔ بھائی کی قبر پر ہاتھ رکھ کر زاروقطار روتی۔ میں حیران ہوتی کہ آنسوؤں کا یہ رواں دواں کارواں ختم کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ڈھیروں پانی کہاں سے آتا ہے۔ وہ پھر قرآن مجید کھولتی، پڑھتی اور ہچکیاں لے لے کر تلاوت کرتی۔ آنسو تھے کہ پھر بھی نہ تھمتے۔ لیکن احتیاط کرتی کہ بہتے آنسو قرآن کے صفحات کے بجائے دائیں بائیں گریں۔وہ پھر پنج سورہ لے کر جانے لگی۔ اب میں اور ماں ہی قبرستان جاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ قبر پر جانا کم ہونے لگا۔ جمعرات کے جمعرات اور پھر بتدریج مہینے دو مہینے میں ایک آدھ بار، یوں ایک سال گزر گیا۔ اب شب قدر یا عید آتی تو ماں ماموں کی قبر پر چلی جاتی۔ پھر ایک وقت آیا میں اس سے کہتی’’ماں، ماموں کی قبر پر نہیں جانا؟ اب تو ۲سال بیت گئے ہیں۔‘‘
تب ماں چونکتی، ٹھنڈی آہ بھرتی اور کہتی’’ہاں بیٹی! اس جواں مرگ کو مرے ۲ سال ہو گئے۔ زندگی بھی کیا ہے، ۲ سال آنکھ جھپکتے گزر گئے جیسے کل ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا۔‘‘ماں کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ تب مجھے وہ وقت یاد آ جاتا جب ماں قبر پر دہاڑیں مارتے ہوئے بے ہوش ہو جاتی تھی۔ کتنافرق تھا تب میں اور اب میںۙ!
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ماں نے قبرستان جانا بالکل ہی ترک کر دیا۔ اسے یاد ہی نہ رہتا، فرصت بھی نہ ملتی۔ اگرچہ میں چھوٹی تھی مگر مجھے اب تک یاد ہے کہ اس سال بہت بارشیں ہوئی تھیں۔ شوضل کاکا نے یہ خبر پہنچائی کہ ماموں کی قبر زمین میں دھنس گئی اور تختے ٹوٹ گئے ہیں۔ مجھے اس خبر سے یوں فکر ہوئی کہ کہیں ماں کو پھر دورہ نہ پڑ جائے۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماں پر اس خبر نے کوئی اثر نہ کیا۔میرے بھائی نے کہا ’’ماں تم کہو، تو کسی کو ساتھ لوں اور ماموں کی قبر ٹھیک کر دوں؟‘‘ماں نے کسی جذبے کے بغیر سرد لہجے میں کہا ’’کیچڑ اور پانی میں کیا اپنے آپ کو دق کرو گے۔ شوضل کاکا سے کہہ دو، مزدور لگا کر ٹھیک کر لے۔‘‘پھر اچانک ابا کا تبادلہ ہوگیا۔ہم سب عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں سے گلے ملے،دعوتیں ہوئیں۔ لیکن کسی کو یاد نہ رہا کہ ماموں کی قبر پر دو پھول ہی ڈال آئیں۔ یوں تبادلے ہوتے رہے، وقت گزرتا رہا۔ دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدلتے گئے۔ ابا کو پنشن مل گئی اور ہم گاؤں واپس آگئے۔
میرا خیال تھا، وطن واپس ہوتے ہی ماں فوراً ماموں کی قبر پر جائے گی۔ میں انتظار میں تھی۔ ہفتہ گزر گیا، ۲ ہفتے گزر گئے، مہینا گزر گیا، ۲ مہینے گزر گئے۔ مگر کسی کو خیال نہ آیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ماں سے کہا ’’ماں قبرستان نہیں جاؤ گی؟‘‘ماں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے ذہن پر زور ڈال کر کچھ یاد کر رہی ہو۔ پھر بولی’’ہاں چلے جائیں گے نا! مگر ابھی اپنے پرایوں کی دعوتیں ختم نہیں ہوئیں۔ سامان بھی اِدھر اْدھر بکھرا پڑا ہے۔ ذرا سانس لے لیں پھر جائیں گے۔‘‘لیکن میں نے اصرار کیا ’’نہیں ماں، آج جائیں گے ماموں کی قبر پر۔‘‘
ماں چند لمحے غیرارادی طور پر مجھے دیکھتی رہی اور پھر آخر چل پڑی۔ ہم نے حیرت سے پھیلے قبرستان کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب مزید ایک قبر کی گنجائش نہیں۔ رکھ کے درخت بھی تقریباً ختم ہوگئے۔ وہ چھوٹا سا میدان بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس میں جنازے کی نماز پڑھی جاتی تھی۔ماموں کی قبر کے قریب ایک چھوٹا سا درخت تھا، وہ بھی نظر نہیں آیا۔ تلاش کے باوجود ماموں کی قبر شناخت نہ ہو سکی۔ ماں نے اپنا سفید برقع پیچھے کی طرف ڈال لیا تھا جس کے زمین کو چھوتے کناروں سے قبرستان کی سوکھی گھاس اور کانٹے الجھ گئے۔ ماں نے برقع اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور بولی’’اب تو بیچارے کی قبر کی ڈھیری بھی نہیں ملتی۔ نام کیا مٹا، نشان بھی مٹ گیا۔ آؤ واپس چلیں۔‘‘
ماں واپس ہونے لگی۔ اس کا یہ رویہ مجھے عجیب ہی نہیں برا بھی لگا۔ میری بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ سب کچھ یاد آگیا کہ ماموں کی موت پر ماں کی کیا حالت ہوئی تھی۔ میں نے حیرت سے سوچا ’’یااللہ، یہ وہی عورت ہے جو چند سال پہلے بھائی کی موت پر خون کے آنسو روتی رہی تھی اور کئی بار بے ہوش ہوئی۔ اب اس کا دل پتھر کا ہوچکا ہے۔‘‘
میں نے اس سے کہا ’’ماں، تم تو کہتی تھی، ماموں کی قبر پکی بنواؤں گی!‘‘ ’’ہاں بیٹی! لیکن اس سے کیا فرق پڑتا؟ میں سونے کی قبر بھی بنوا دیتی مگر میرے بعد کون تھا کہ اسے یاد رکھتا اور پھر ہمیں بھی ایک دن مٹی ہوجانا ہے۔ نشان تک باقی نہیں رہتا۔‘‘
ماں واپسی کا ارادہ کر رہی تھی، مگر میرا دِل نہیں مانا۔ ماں کو وہیں چھوڑ کر میں چوکیدار کی کوٹھڑی کی طرف چل پڑی۔ سوچ رہی تھی، شوضل بابا زندہ بھی ہوں گے یا نہیں؟ اسی لمحے ایک سفید باریش آدمی کو دیکھا جو ہڈیوں کا چھوٹا سا متحرک ڈھانچہ تھا۔ فوراً خیال آیا کہ یہیشوضل بابا ہوگا؟قریب پہنچی اور غور سے دیکھا تو وہی تھا۔ پوچھا! ’’بابا! اگر یاد ہو، بہت عرصہ ہوا ایک نوجوان اس قبرستان میں دفن ہوا تھا۔ صبح اس کی بہن قبر پر آتی اور روتے روتے بے ہوش ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے، آپ نے اسے آنے سے منع کیا تھا کہ خواہ مخواہ روگ لگ جائے گا۔ مگر اب اس نوجوان کی قبر نہیں ملتی؟‘‘
اس کے بعد میں نے شوضل بابا کو اپنے باپ کا نام بتایا اور یہ بھی کہ وہ میرے ماموں کی قبر تھی۔شوضل بابا نے اوپر سے نیچے دیکھ کر میرا جائزہ لیا، پھر اطمینان سے بولا:’’بیٹی! یہاں بہت سی مائیں اور بہنیں بھائیوں اور بیٹیوں کی قبروں پر بے ہوش ہوتی رہی ہیں۔ یہ سب قبریں اورمٹی کی ڈھیریاں جو آپ کو نظر آتی ہیں، ان میں دفن پیاروں کے زخمی دلوں کا درد آنسوؤں کی شکل میں بہتا رہا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وقت کے دھاگوں نے ان گہرے زخموں کو رفو کر دیا۔ اشکوں کی جگہ آہوں نے لے لی۔ پھر یہ آہیں بھی وقت کی آندھی اڑا کر لے گئی۔ وہ لوگوں کے دلوں سے اپنے پیاروں کی یادیں بھی سمیٹ کر لے گئی۔ وقت کی یہی آندھی ان قبروں پر بھی گزری جس نے انھیں مٹی کی ڈھیریوں میں تبدیل کردیا۔ پھر ایک وقت آئے گا یہ ڈھیریاں بھی ناپید ہو جائیں گی اور پھر لوگ پیاروں کی قبروں پر ہل چلا دیں گے‘‘۔ خدا جانے شوضل بابا اور کیا کچھ کہتا رہا، میں سن نہ سکی کیونکہ ماں بلند آواز سے مجھے بلا رہی تھی’’آؤ بیٹی، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘میں نے بے بسی سے ماں کی طرف دیکھا اور چل پڑی۔
ماہ نامہ سوئے حرم، مارچ ۲۰۱۳
 
Top