مولانا طارق جمیل صاحب:

احسان اللہ

محفلین
مولانا طارق جمیل صاحب :
از
احسان اللہ کیانی
مولانا طارق جمیل صاحب 1953 میں خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں پیدا ہوئے ۔
وہ ایک بڑے زمین دار کے بیٹے تھے، ڈاکٹر بننا چاہتے تھے
اسی مقصد کے حصول کیلئے
انھوں نے "کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی "میں "ایم بی بی ایس" کیلئے داخلہ لیا ۔
دوران تعلیم وہ اپنے ایک دوست کے ذریعے تبلیغی جماعت سے متعارف ہوئے، تین دن ان کے ساتھ گزارے
زندگی ایسی بدلی کہ دنیاوی تعلیم چھوڑ دی اور رائے ونڈ مدرسے میں داخلہ لے لیا، دوران تعلیم بڑی مشکلات اٹھائیں، عالم کورس مکمل کیا۔
پھر گمنامی میں دینی خدمات انجام دینے لگے
اخلاص کی وجہ سے ان کا بیان بڑا پر اثر تھا،جو سنتا، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا
ان کے بیانات کی وجہ سے لاکھوں لوگ مذہب کی طرف مائل ہوئے،جن میں بہت سے اداکار، گلوگار ،کھلاڑی اور مشہور لوگ شامل ہیں۔
میں نے پہلی بار ان کا بیان فیصل مسجد میں سنا تھا،جب 2005 کے زلزلے کے بعد وہ اعتکاف والوں سے بات کرنے آئے تھے
میں دیکھ کر حیران رہ گیا،ان کی آمد کا کوئی اشتہار نہیں چھپا تھا
لیکن
پھر بھی فیصل مسجد اندر سے مکمل بھر چکی تھی، مسجد سے باہر بھی لوگ بیٹھے تھے، انھوں نے تقریبا دو گھنٹے کھڑے ہو کر بیان کیا، پھر پنتالیس منٹ لمبی دعا مانگی، دعا ایسی تھی کہ مجھ جیسا انسان بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
میں بچپن سے مذہبی محفلوں میں جایا کرتا تھا
لیکن
کبھی نہیں رویا تھا، آج پہلی بار ایسا رویا کہ میری آنکھیں رکتی نہیں تھیں۔
اس دن میں نے جینز کی پینٹ، ڈریس شرٹ اور شیڈ والی ٹوپی ،الٹی کر کے پہنی ہوئی تھی۔
دعا کے دوران میں نے اپنے گھٹنے پر سر رکھا ہوا تھا، جب دعا ختم ہوئی تو میرا سارا گھٹنا آنسو سے بھر چکا تھا۔
ہر شخص کی آنکھیں آنسوؤں سے تَر تھیں
میں گھر واپس آیا، کچھ عرصے تک اس بیان کا اثر رہا، پھر وہی حالت ہو گی۔
مزید جاننے کیلئے کچھ انتظار کیجیے
جلد لکھوں گا
ان شاء اللہ
 
Top