اقتباسات ممتاز مفتی کی کتاب تلاش سے اقتباس

حکم' دلیل اور مصلحت سے بے نیاز ہوتا ہے۔
مبلغ کہتے ہیں، نماز قائم کرلو تو کردار خود بخود قائم ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ نمازیوں میں ہو جاتا ہو۔ بیشتر نمازی محروم رہتے ہیں۔ ہمارے مبلغ کہتے ہیں نماز کا اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہمیں برائیوں سے بچاتی ہے، حفظان صحت ہے۔ میری دانست میں اللہ کے حکم کو ریشنلائز کرنا' اس میں مصلحتیں تلاش کرنا' حکم کے لفظ کی توہین کے مترادف ہے۔ نماز قائم کرو' اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے۔ بس' اس کے بعد بات کرنے کی گنجائش بھی نہ ہو۔
قدرت اللہ شہاب کی بیگم ڈاکٹر عفت لندن کے ایک ہوٹل میں بیٹھی تھیں۔ اسی ٹیبل پر ایک فوجی افسر وردی پہنے بیٹھا تھا۔ فوجی افسر نے ڈاکٹرعفت سے پوچھا : "لیڈی ! آپ مسلمان ہیں؟"
"الحمدللہ" ڈاکٹر عفت نے کہا۔
فوجی بولا : کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟
"پوچھیئے !" ڈاکٹر عفت نے کہا۔
فوجی بولا : "آپ سور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟"
عفت نے کہا : میرے اللہ کا حکم ہے کہ مت کھاؤ اس لیے نہیں کھاتی"
فوجی بولا : "اس حکم کے پیچھے کیا دلیل ہے"؟
عفت نے کہا: "آپ فوجی ہو کر حکم کے مفہوم کو نہیں جانتے؟ حکم کی عظمت کو نہیں جانتے؟ حکم' دلیل اور مصلحت سے بے نیاز ہوتا ہے۔

تلاش : ممتاز مفتی
 
بے شک حکم تو حکم ہے جسے ماننا ہی ہے مگر ساتھ ساتھ اللہ کے احکام کی مصلحتوں کو سمجھنا بھی مسلمان کی شان ہے کیونکہ اللہ کا کوئی حکم بغیر حکمت کے نہیں ہوتا۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ہمیں دلائل دیے ہیں ، قران کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو دلائل دینے کی ضرورت کیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایسے جانور اس لیے نہیں کھاسکتے ہیں کہ ان کے گوشت میں زہریلے مواد زائد ہوتے ہیں ! اور توانائی کم
 

ظفری

لائبریرین
اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں حکم دیا ہے وہاں دلیل کیساتھ یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس حکم کی حکمت کیا ہے ۔ سور کے بارے میں انجیل میں بھی معمانیت ہے ۔ تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو تفصیل بھی مل جائے گی ۔ جانے ہم نے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ نے ہم پر اپنے احکامات بغیر کسی دلیل کے نافذ کر دیئے ہیں ۔ احکامات تو دور کی بات ، اللہ نے اپنے نبیوں سے جب دین کی دعوت کا کام لیا تو لمبے عرصے تک دلیل اور استدلال سے کام لیتے ہوئے اپنے دین کو صحیح طو رپر متعارف کیا ۔
 
آخری تدوین:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾ البقرۃ

"ہاں ، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے ۔ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں ، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہیں ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے ۔ اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے ، جو فاسق ہیں۔"
 

نوید ناظم

محفلین
اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ہمیں دلائل دیے ہیں ، قران کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو دلائل دینے کی ضرورت کیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایسے جانور اس لیے نہیں کھاسکتے ہیں کہ ان کے گوشت میں زہریلے مواد زائد ہوتے ہیں ! اور توانائی کم
سب سے پہلے اپنے سفر کا تعین کرنا ضروری ہے، پھر اس کے بعد بات طے ہوتی ہے۔۔۔ دلیل کی محبت اور شے ہے اور محبت کی دلیل اور شے۔۔۔۔ حکم کی مصلحت تک پہنچنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک وہ خود نہ پہنچا دے، حضرت موسیٰ علیہ السلام، جب حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ چلے تو طے ہی یہ ہوا تھا کہ ہر بات پر مصلحت کے بارے بات نہیں ہو گی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہر بات کی مصلحت فورا چاہتے تھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ راستے جدا ہو گئے۔ اللہ نے کہا کہ اس نے تنکا بھی باطل پیدا نہیں کیا، ہر بات کے اندر مصلحت ہے، ہر حکم کے اندر مصلحت ہے، مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف مصلحت ہی کو تلاش کرے، جب کہ یہاں پر معرفت بھی ہے اور حقیقت بھی ہے۔ واصف صاحب کا قول یاد آیا، فرماتے ہیں کہ تحقیق دنیا کی کرنی ہے اور تسلیم اللہ کو کرنا ہے ایسا نہ کرنا کہ دنیا کو تسلیم کر لو اور اللہ کی تحقیق شروع کر دو، پھر ایک جگہ فرمایا تمھاری زندگی میں ایک شخص ایسا ضرور ہونا چاہیے جس کی تم نے وہ بات بھی ماننی ہے جو بظاہر سمجھ نہیں آ رہی۔ بنی اسرائیل کی ایک قوم کا بھی ذکر ہے جو بال کی کھال اتارا کرتی تھی، ہر حکم کی دلیل پر دلیل اور تاویل پر تاویل کیا کرتی تھی، نتیجہ کچھ اچھا نہ رہا۔ کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے سے انسان تندرست رہتا ہے حالانکہ نماز تو اس پر بھی فرض ہے جسے پہلے فالج ہی کیوں نہ ہو، کہتے ہیں روزہ، غریبوں کی بھوک کا احساس دلاتا ہے حالانکہ روزہ تو غریب پر بھی فرض ہے، کہتے ہیں زکواۃ سے مال بڑھتا ہے پھر تو غریب پر بھی زکواۃ فرض ہونی چاہیے تا کہ تھوڑا سا مال جو ہے، وہ دے کر زیادہ کر لے۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہے، اس کے مال میں اضافہ زکواۃ لے کر ہی ہو گا۔ اسی طرح اللہ نے کہا وہ خیرالماکرین بھی ہے، بہترین ترکیب کرنے والا ہے، وہ آپ کی تمام دلیلوں پر ایسی دلیل چلا جاتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا آپ کو۔۔۔ مکڑی کا جالا دیکھنے والوں نے بالکل ٹھیک دلیل نکالی تھی کہ غار میں کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی۔۔۔وہ تو مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ پیدا کرتا رہتا ہے۔اصل میں یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے اگر یہاں پر ہر بات کی دلیل ڈھونڈو گے تو لطف سے محروم ہو جاؤ گے، گو کہ یہاں ہر بات کی دلیل موجود ہے۔ اپنا سفر آسان کریں، اپنا شعبہ خود منتخب کریں، یہاں سب کچھ ہے، دل بھی ہے اور دلیل بھی ہے۔۔۔ دل والے لوگ اور ہوتے ہیں اور دلیل والے اور، اگرچہ دونوں ٹھیک ہیں۔ زندگی موقع دے تو دل والوں میں شامل ہو جاؤ ورنہ زندگی سب کی گزر جاتی ہے۔ یہاں دشمن رکتا ہے نہ دوست ٹھہرتا ہے۔ باقی آپ غور کریں و ہ جانور بھی تو حرام ہیں جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ بات زہریلے یا میٹھے مادوں کی نہیں ہے، بات حکم دینے والے اور حکم ماننے والے کی ہے..اور سب سے بڑی بات یہ کہ بات اپنے نصیب کی ہے، سلامتی ہو۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سب سے پہلے اپنے سفر کا تعین کرنا ضروری ہے، پھر اس کے بعد بات طے ہوتی ہے۔۔۔ دلیل کی محبت اور شے ہے اور محبت کی دلیل اور شے۔۔۔۔ حکم کی مصلحت تک پہنچنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک وہ خود نہ پہنچا دے، حضرت موسیٰ علیہ السلام، جب حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ چلے تو طے ہی یہ ہوا تھا کہ ہر بات پر مصلحت کے بارے بات نہیں ہو گی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہر بات کی مصلحت فورا چاہتے تھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ راستے جدا ہو گئے۔ اللہ نے کہا کہ اس نے تنکا بھی باطل پیدا نہیں کیا، ہر بات کے اندر مصلحت ہے، ہر حکم کے اندر مصلحت ہے، مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف مصلحت ہی کو تلاش کرے، جب کہ یہاں پر معرفت بھی ہے اور حقیقت بھی ہے۔ واصف صاحب کا قول یاد آیا، فرماتے ہیں کہ تحقیق دنیا کی کرنی ہے اور تسلیم اللہ کو کرنا ہے ایسا نہ کرنا کہ دنیا کو تسلیم کر لو اور اللہ کی تحقیق شروع کر دو، پھر ایک جگہ فرمایا تمھاری زندگی میں ایک شخص ایسا ضرور ہونا چاہیے جس کی تم نے وہ بات بھی ماننی ہے جو بظاہر سمجھ نہیں آ رہی۔ بنی اسرائیل کی ایک قوم کا بھی ذکر ہے جو بال کی کھال اتارا کرتی تھی، ہر حکم کی دلیل پر دلیل اور تاویل پر تاویل کیا کرتی تھی، نتیجہ کچھ اچھا نہ رہا۔ کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے سے انسان تندرست رہتا ہے حالانکہ نماز تو اس پر بھی فرض ہے جسے پہلے فالج ہی کیوں نہ ہو، کہتے ہیں روزہ، غریبوں کی بھوک کا احساس دلاتا ہے حالانکہ روزہ تو غریب پر بھی فرض ہے، کہتے ہیں زکواۃ سے مال بڑھتا ہے پھر تو غریب پر بھی زکواۃ فرض ہونی چاہیے تا کہ تھوڑا سا مال جو ہے، وہ دے کر زیادہ کر لے۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہے، اس کے مال میں اضافہ زکواۃ لے کر ہی ہو گا۔ اسی طرح اللہ نے کہا وہ خیرالماکرین بھی ہے، بہترین ترکیب کرنے والا ہے، وہ آپ کی تمام دلیلوں پر ایسی دلیل چلا جاتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا آپ کو۔۔۔ مکڑی کا جالا دیکھنے والوں نے بالکل ٹھیک دلیل نکالی تھی کہ غار میں کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی۔۔۔وہ تو مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ پیدا کرتا رہتا ہے۔اصل میں یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے اگر یہاں پر ہر بات کی دلیل ڈھونڈو گے تو لطف سے محروم ہو جاؤ گے، گو کہ یہاں ہر بات کی دلیل موجود ہے۔ اپنا سفر آسان کریں، اپنا شعبہ خود منتخب کریں، یہاں سب کچھ ہے، دل بھی ہے اور دلیل بھی ہے۔۔۔ دل والے لوگ اور ہوتے ہیں اور دلیل والے اور، اگرچہ دونوں ٹھیک ہیں۔ زندگی موقع دے تو دل والوں میں شامل ہو جاؤ ورنہ زندگی سب کی گزر جاتی ہے۔ یہاں دشمن رکتا ہے نہ دوست ٹھہرتا ہے۔ باقی آپ غور کریں و ہ جانور بھی تو حرام ہیں جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ بات زہریلے یا میٹھے مادوں کی نہیں ہے، بات حکم دینے والے اور حکم ماننے والے کی ہے..اور سب سے بڑی بات یہ کہ بات اپنے نصیب کی ہے، سلامتی ہو۔

ہمارے سمجھانے کے انداز و واقعات کا نتیجہ اصل نچوڑ ہوتا ہے! کوئی واقعہ جو بزعم خود پیش آیا ہو اس پہ تسلیم خاطر مصلحت رکھنا یقین ہے یا واقعات جو عین ماضی کا حصہ.اصحاب و الاجمعین و نبی محتشم رسول امین صلی علیہ والہ.وسلم سے متعلق.ہو .. مستقبل.کیا.ہے اس کے واقعات پہ یقین اس کے ہونے پر یقین ہے مگر ایک غلط مثال سے ہم حکمت و مصلحت کے قانون کو.ثابت نہیں کرسکتے نا ہی اپنی کم علمی کی.چشم پوشی کرسکتے ہین! میں تو حیران ہوتی ہوں جب قران پاک کی.روشن آیات پہ غور کرنے کی بات ہوتی ہے تو سختی سے ممانعت کر دی جاتی ہے کہ غور کیوں کیا! دلیل.کے بنا ہی ہم.اماں حوا اور آدم علیہ سلام.کے قصے کو مانتے ہیں! مگر اللہ نے کہاں سے منع کردیاکہ یقین کرنے کے بعد حکمت نہ تلاشو! حکمت نہ ہوتی.تو ابلیس کا.تکبر سامنے نہ.آتا! قصص الانبیاء گنجینہ ہے حکمتوں کا..... یہ امثال اس لیے کہ.احکام کے پیچھے دلیل تلاشو مگر یہ نہیں کہا عامل نہ بنو، بے یقین ہو.جاؤ ...جیسے جیسے یقین کے ساتھ دلیل کو.تلاشو گے یقین.بڑھتا.جائے! غور تم کرو، سوال کرو.، جواب اللہ.دے گا! اللہ.تو سوال کرنے والوں کو پسند کرتا.ہے بلکہ.جو.آنکھیں.بند.کیے زندگی گزار دیتے ہیں، ان پہ دکھ کرتا.ہے کہ.جس.کام کے لیے زندگی.دی اس کا فائدہ نہ ہوا .... ہم بکرے یا.قربانی کے جانور پر تکبیر اس لیے پڑھتے ہیں ... ہم مان لیتے ہیں قربانی چھوٹی ہے، ادنی ہے کیونکہ انسان کی جانب سے ہے جبکہ اللہ تو ہی بڑا ہے! یہ نعمت، یہ قربانی، جو میں اہل و عیال کے لیے کرتا ہوں، جو میں فقراء کے لیے کرتا ہوں، جو میں محتاجوں کے لیے کرتا ہوں، یہ حقیر ہے، یہ چھوٹی ہے! آپ نے اپنے طریق ہماری نسبت جو سوچنا ہے سوچیے کہ کون جانے کس کا نگر کیا ہے، کس کی منزل کیا ہے، کس کا راستہ کیا ہے! میں نے یہاں مناظرہ پیش نہیں کرنا.چاہا نا ہی میں نے مذاق کیا، مجھے جو کہنا تھا، اپنے حقیر سے علم کے مطابق عرض کیا! آپ کے پاس علم وسیع ہے اس لیے رہنمائی کی طلب رہے گی! دعا میں یاد رکھیے گا! وسلام و علیکم
 
Top