واجدحسین
معطل
وَ جَاھِدُو فِی اللہِ حَقَ جِھَادِہ
جہاد
آیات
احادیث
فضائل
فہرستِ عنوانات
پیش لفظ
جہادکے معنی
جہادکی نیّت
مؤمن کا جہادوطن کے لئیےنہیں،اسلام کے لئیےہے
ہماراوطن اسلام ہے
اسلامی جہادکاناقابلِ تسخیرسامان
امدادِخداوندی کی شرائط
دس10 آیاتِ کریمہ کاخلاصہ
جہادکی تیاری اورسامانِ جنگ کی فراہمی فرض ہے۔
سامانِ جنگ کی صنعت سیکھنے کے لئیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کابیرونِ ملک سفر
رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت
بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے
عہدِرسالت میں بلیک آوٹ کی ایک نظیر
جہادعام حالات میں فرضِ کفایہ ہے
فرضِ کفایہ بعض اوقات فرضِ عین ہوجاتاہے
جہادکب فرضِ عین ہوجاتاہے
جہادکے بارے میں متفرّق اہم مسائل کاذکر
فضائل جہاد کی چہل40 حدیث
شہری دفاع کی خدمت بھی جہادہے
جہادمیں کیانیّت ہونی چاہیے
اسلامی سرحدوں کی حفاظت(رباط)
رینجرزپولیس کے لیے عظیم الشان بشارت
شہیدفی سبیل اللہ کامقام اوراس کے درجات
شہیدکے تین درجے
مجاھداپنی موت مرجائےتوبھی شہیدہے
مال اورزبان سے بھی جہادہوتاہے
جہادکے لیے مال خرچ کرنے کاعظیم ثواب
ہندوستان پرجہادکی خاص اہمیّت اورفضیلت
ہندوستان کے جہادسے کونساجہادمرادہے؟
ترکِ جہادکی وعیداوردنیامیں اس کاوبال
ترکِ جہادمصائب کودعوت دیتاہے
جہادکے لیے سامان مہیّاکرنابھی جہادہے
غازی کوسامانِ جہاددینایااسکے گھرکی خبرگیری کرنابھی جہادہے
دفاعی فنڈمیں چندہ کاثواب عظیم
جہادسے ہرگناہ معاف ہوجاتاہے مگرفرض اورخیانت معاف نہیں
بحری فوج کےلیے عظیم سعادت
جہاداورزمانہ جنگ کی دعایئں
جہادکے مختلف اوقات کی دعایئں (قنوتِ نازلہ)
عملِ جہاد (مرتب محمدراشد)
بسم اللہ الرحمن الرحیمط
اَلحَمدُ لِلہِ الّذِی ھَدَانَا لِھَذَا وَ ماَ کُنِّا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہُ والصَلٰوۃ وَ السلام علی من ارسلہ با الھُدایٰ ودِینَ الحَق و کفاہ و علی الِہِ و صَحبِہ و کُلِ مَنِ اھتدیٰ بِھُدَا ہ
اما بعد
جہاد اسلام کے فرائض میں نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ کی طرح اسلام کا پانچواں فرض ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الجہاد ماض الی یوم القیامۃ یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک۔
قرآن و سنّت کی بے شمار نصوص اور اجماع امت جہا د کی فر ضیت کا اعلان کر رہے ہیں۔
لیکن ہندوستان پر انگریزی تسلط کے بعد وہاں کے مسلمانو ں کو کھلے طور پر کفار کے ساتھ جہاد و قتال کے مواقع نہ رہے اورر فتہ رفتہ لوگوں کے ذہن سے اس کی ضرورت اور فضائل اور مسائل بھی غائب ہونےلگے۔ عام دیندار مسلمان بھی نماز، روزے کے مسائل سے توکچھ نہ کچھ واقف ہوتے ہیں۔جہاد کب فرض ہوتا ہے ؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ آداب کیا ہیں ؟ اس کی واقفیت تقریبًا مفقود ہوتی چلی گئی۔
دنیاکی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان قائم ہوجانے کے بعدہمارافرض تھا کہ سب سے زیادہ اس فریضئہ جہادپرتوجّہ دیتے اوراسکے اسباب ووسائل جمع کر نے میں لگ جاتے اورپاکستان کے مسلمان نوجوانوں کوفوجی تربیّت دی جاتی،ان کے دلوں میں جہادکاجذبہ پیداکیاجاتا۔ مگرافسوس ہے کہ ہم نے یہاں پہنچ کربھی اس فریضہ کواسی طرح نسیان میں ڈالے رکھاجس طرح پہلے سے تھا۔
اور قرآن و سنّت کی نصوص نیزپوری تاریخ اسلام کا تجربہ شاہد ہے ۔ کہ جب بھی ملسمان جہاد چھوڑدیتے ہیں تو دوسری قومیں ان پر غالب آ جاتی ہیں، ان کے دل ان سے مرغوب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے آپس میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ وہ جذبہ شجاعت و حمیّت جو کفّار کے مقابلہ میں صَرف ہونا چاہیےتھا وہ آپس میں صَرف ہونے لگتا ہے اور یہی ان کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔
اس وقت ہم اپنی اس غفلت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ سب طرف سے دشمنوں کی یلغار ہے اور مسلمان مختلف پار ٹیوں، فر قوں اور نظریوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسرِ پیکار ہیں۔
1965 میں پاکستان پر بھارت کےاچانک حملہ کے وقت احقر نے ایک رسا لہ بنام "جہاد"لکھا تھا،جس میں جہاد کی تعریف اوراس کے احکام اور فضائل و برکات کا مفصل بیان تھا۔دوسرے علماء کی طرف سےبھی اخباری بیانات اور ر سا ئل اس طرح شائع ہوئے اور عام مسلمان دُعا کی طرف متوجہّ ہوئے۔
الحمد اللہ! اُس وقت حق تعالٰی نےاپنے فضل سے بہت جلد تمام مسلمانوں میں جذبّہ جہاد عام فرما دیا اور فسق اور فجور کےبازارسرد پڑ گئے۔اللہ تعالی کی طرف سےتوجہ بڑھ گئ۔ اس کے نتیجے میں حق تعالی کی غیبی امدادکا کھلی آنکھوں سب نے مشاہدہ کیا۔ اس کا شکر تو یہ تھا کہ ہم جنگ ختم ہو نے کے بعد اور زیاد ہ اللہ کی طرف رجوع ہوتے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے جہادکی تیاری میں لگ جاتے،مگرافسوس ہے کہ معاملہ برعکس ہوااوراب پھراسی پرانے دشمن نے ہماری سرحدات پرحملے شروع کردئیے۔اس لیے اب یہ رسالہ کسی قدرترمیم کے ساتھ پھرشائع کیاجارہاہے۔ضرورت اس کی ہے کہ اس رسالہ کی اشاعت پاکستانی افواج میں اورعام شہریوں میں کثرت سے ہو ۔شایداللہ تعالٰی ہماری غفلتوں اورگناہوں کومعاف فرمادے اورہمارے دلوں میں پھرسے جہادکا جذبہ پیدافرمادیں اورہمیں اس کاحق اداکرنے کی توفیق بخشیں۔ بندہ محمدشفیع
(6شوال 1391ھ)
جہادکے معنی
لغت میں کسی کام کےلیے اپنی پوری کوشش اورتوانائی خرچ کرنےکے ہیں اورشریعت کی اصطلاح میں اللہ کا کلمہ بلندکرنے اوردشمن کی مدافعت کرنے میں جان ،مال،زبان،قلم کی پوری طاقت خرچ کرنے کو جہاد کہاجاتاہے۔
امامِ راغب اصفہانی نے لفظِ جہادکی تشریح کرتے ہوے فرمایاکہ جہاد کی تین قسمیں ہیں ،ایک کھلے دشمن کامقابلہ ،دوسرے شیطان اوراس کے پیدا کئیے ہوئے خیالات کامقابلہ،تیسرے خود اپنےنفس کی ناجائز خو اہشات کا مقابلہ ۔
مطلب یہ ہے کہ جوچیزبھی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے راستہ میں رکاوٹ ہے ،اس کی مدافعت جہاد ہے اوریہ رکاوٹ عادتاً انہیں تین طرفوں سے ہوتی ہے۔اس لیے جہادکی تین قسمیں ہوگئیں۔امامِ راغب نے یہ تین قسمیں بیان کرنے کے بعدفرمایاکہ ارشادِقرآنی ہے۔وَ جاَھِدُوفیِ اللہِ حَقَّ جِہَادِہ (یعنی جہادکرواللہ کی راہ میں پوراجہاد)۔
یہ جہادکی تینوں قسموں کو شامل ہے ۔
بعض روایات حدیث میں نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ اسی لئیے جہاد قرار دیا ہے۔
قرآنِ کریم کی کئ آیتوں میں جہاد کےلیے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد فرمایا ہے ۔وَتجاھِدُونَ فیِ سبیلِ اللہِ بِاَموَالِکمُ وَاَنفسکم کابھی یہی مطلب ہے اوررسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلمّ نےفرمایاکہ جس شخص نے کسی غازی کوسامانِ جہاددے دیااس نے بھی جہادکرلیا۔
اورایک حدیث میں زبان کے جہادکوبھی جہادقراردیاہے۔اورقلم چونکہ ادائے مضمون میںزبان ہی کے حکم میں ہے،اس لیے قلمی دفاع کوعلماء اُمّت نے جہادمیں شامل فرمایاہے۔
مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ لفظِ جہاد اصطلاحِ شرع میں اللہ کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کے مقابلہ اور مدافعت کے لیے عام معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر عرفِ عام میں جب لفظِ جہاد بولا جاتا ہے توعموماً اس کے معنی دشمنانِ دین کے مقابلہ میں جنگ ہی سمجھے جاتے ہیں جس کے لیے قرآنِ کریم نےلفظِ قتال یا مقاتلہ استعمال فرمایا ہے ۔
جہاد کی نیّت
ہر مسلمان جانتا ہے کہ تمام عبادات اسلامیہ کی صحِت کامدارنیّت صحیح ہونے پر ہے ۔ اسی لیے نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج سب ہی کی ادایئگی میں نیّت درست کرنا فرض اور ضروی سمجھا جاتا ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد اس معاملہ میں یہ ہے۔ اِنما الا عما ل بالنیّاتِ وانمالامریٔمانوٰ ی(صحیح بخا ری)'اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر انسان کو اپنے عمل کے بدلہ میں وہی چیز ملتی ہے جس کی نیّت کی ہے ۔
یعنی عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماںبرداری اور رضاجوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یاجاہ ومنصب مقصود نہ ہو،ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ ریاء ہے جوبجا ئے ثواب کے گناہِ عظیم ہے۔
علماء اسلام نے اس حدیث کو ایک چوتھائی اسلام قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا حصّہ اس پر موقوف ہے۔
وہ عالم جودنیا کی شہرت اورنام ونمود کےلیےعلمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت وانعام کی خاطر جانبازی کرتااور شہید ہو جا تا ہے ۔ اور وہ شخص جو نام ونمود کے لیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔
ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کو یہ کہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کے لیے علمِ دین کو استعمال کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی ، یا جس مقصد کےلیےمال خرچ کیا،وہ مقصد ہم نے تجھے دنیامیں عطاکردیاکہ لوگوں میں تیرے عالم،ماہرہونے کی شہرت ہوئی ،یاتجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا،یامال خرچ کرنےکی بناء پرتجھےسخی اور فیاض کہا گیا۔اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟العیاذبا للہ!
جہاد کے میدان میں اُترنے والے ہمارے بھائی جوساری دنیاکوچھوڑکراپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیں،دنیاوآخرت کے اعتبارسے کتنابڑاکارنامہ ہےکہ اسکے ثواب کااندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انُ حضرات کے لیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے کہ رسو لِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ِِِِ مذکورکو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے سا تھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی حفا ظت اور دشمنا نِِ دین کی ی مدافعت کرنا ہے۔ دنیا کے ثمرات ونتائج اور انعامات بھی اللہ تعا لیٰ ان کو عطا فرما یئں گے ۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔ وَاللہ الموفق وا لمعین ۔
مؤمن کا جہادوطن کے لیے نہیں،
اسلام کے لیے ہے
اسلام نےاپنے ابتدائی دورمیں نسلی،قبائلی،وطنی،لسانی وحدتوں کے بت توڑکرایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ،عربی،ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیاکی ساری وحدتوں کوزیروزبرکردیا۔
چند صدیوں سے یورپ والوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہوکر بڑی چالاکی سےلوگوں میں پھروطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کئے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر پارہ پارہ کر دیں۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذہت نہیں ہے جسکے نا م پر تما م دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں۔اس لے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کے لیے اسی کے نام پر جنگ کرتے ہیں، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دیکر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں۔ِِ
مسلمان قوم کو اللہ تعا لٰی نے ان سب چیزوں سے با لا تر رکھا ہے۔ وہ صرف اللہ کے لیے اور اسلا م کے لیے جہاد کرتا ہےاور وطن یا نسب اللہ تعا لیٰ اور اسلا م کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتا ہے ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرت ِمدینہ نے اور بدرِ اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیے ہیں ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔
آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کانعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہوگئے اوراپنے جہادکووطن کےلیےکہنےلگے۔اللہ تعالٰی کاشکرہےکہ ہمارےاکثرنوجوانوں کےخیالات اس سے پاک ہیں۔وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتےہیں نہ کہ وطن کے لیے۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیا لی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے مشرکانہ الفاظ سے بھی اجتناب کیا جائے ۔
ہماراوطن اِ سلام ہے
ہم وطن پرست نہیں۔ہمیں اس وطن سے ہجرت کر جانے کا حکم ہے جس میں رہ کر ہم اسلام کے تقاضے پورے نہ کر سکیں۔
یہی وہ نظریہ ہے جس نے پاکستان بنوایا اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر آمادہ کیا ۔ شاعر مشرق اقبال مرحوم نے اس مضمون کو بڑی ہی لطافت سے ا دا کیا ہے ۔ وطنیّت پر ان کے چند اشعار اس جگہ نقل کیے جاتے ہے
اس دور میں مےَاور ہے جام اور ہے جم اور ہے ساقی نے بِنا کی روشِ لطف وکرم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشو ائے صنم اور
ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کاکفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے غار تگر کا شاؐنہ دینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو د کھا دے
اے مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاک میں اس بت کو ملا دے ۔
اسلامی جہاد کا نا قا بلِ تسِخیر سامان
صبراور تقویٰ ہے ،
دنیا اپنے حریف پر غلبہ پانے کے لیے طرح طرح کے سامان اور تدبیریں کرتی ہے اور اس سائنس کی ترقی کے زمانہ میں تو ان سا ما نوں اور تدبیروں کی حد نہیں رہی ۔ اسلام بھی ضروری مادی تدبیریں اور سامانِ جنگ جمع کرنے کا حکم دیتا ہے جیسا کہ اس کا مفصّل بیان آگے آتا ہے ۔ لیکن یہ ظاہرہےکہ مادی سامان وتدبیرمیں مسلمانوں کودوسری قوموں سے کوئی خاص امتیاز حاصل ہے نہ ہو سکتا ہے بلکہ عادتاً غیر مسلموں کی ساری ذہنی فکری توانائی اور سارا زور چونکہ ان ہی مادی سامانوں میں صرف ہو تا ہے وہ اس معا ملہ میں مسلمانوں سےہمیشہ زیادہ ہی رہیں گےاورتاریخ کےہردورمیں ایساہی ہوتا رہاہے۔
البتہ مسلمانوں کےپاس ایک اورایسی قوت ہےجوناقابلِ تسخیررہی ہے،اوردوسری قومیں اس سےعاجزہیں۔وہ ہےاللہ تعالٰی کی نصرت اورغیبی امداد۔مگرقرآن نےاس تائیدرباّنی کےحاصل ہونےکی کچھ شرطیں رکھی ہیں۔جب بھی مسلمان اِن شرطوں کوپوراکرلیں تواللہ تعالٰی کی نصرت وامدادآتی ہےاورتھوڑی تعدادتھوڑےسامان کو بڑی سےبڑی تعداد اورجنگی سامانوں پرغالب کردکھاتی ہے۔
اورجب مسلمان خودان شرطوں کو پوراکرنےمیں سستی اورغفلت کریں توپھراس امدادونصرت کا اللہ تعالےٰ کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ۔ ایسی حالت ہمیں اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں سمجھنا چاہیے یہ دوسری بات ہے کہ اللہ جلّ شانہُ اپنے خاص فضل وکرم سے مسلمانوں کے ضعف پر رحم فرما یئں اور بلا شرط بھی اپنی امداد بھیج دیں ، جیسا کہ 65 ٔ میں پاکستان پر بھارت کے حملہ کے وقت اس کا مشاہدہ ہوا کہ ہم اور ہماری قوم ان شرطوں پر کسی طرح پوری نہیں اترتی تھی جن کے ذریعے امدادِ الہی آنی چاہیے ۔ مگر اس اپنے فضل سے یک بیک ہمارے حالات میں بھی انقلاب پیدا کرکے ہمیں صبروتقویٰ کے قریب کردیا اور اپنی امداد کے اسے معجزات دکھاۓ کہ دشمنوں کو بھی اس کا قائل ہونا پڑا ۔ امدادِ الہی کے لیے وہ شرطیں کیا ہیں ؟ قرآنِ کریم کی آیات ذیل میں تلاش کیجیے : ۔
1 : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153) (بقرہ ع 109 )
ترجمہ :۔ اے ایمان والو ! مددمانگواللہ سےصبراورنمازکےذریعہ۔
2:۔وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ( .177بقرہ ع 22 )
ترجمہ :۔ نیکوکار وہ لوگ ہیں جو تنگ دستی اور بیماری میں اور دشمنوں سے جہاد کے وقت صبرکرنے والے یعنی ثابتِ قدم رہنے والے ہیں یہی لوگ صادقین ہیں اور یہی متقی ہیں ۔
3 :۔ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (250 بقرہ ع 33 )
ترجمہ :۔ (جہاد میں نکلنے والو نے کہا ) اے ہمارے پروردگار عطا کر دے ہم کو صبر اور ہمیں ثابتِ قدم رکھ اور کافروں کی قوم کے مقابلہ پر ہماری مدد فرما ۔
4 :۔ وَاِن تصبرو او تتقو ا لا یضر کم کیدھم شیاً ،(آل عمران ع13)
ترجمہ:۔اوراگرتم صبرکرواورتقویٰ اختیارکروتوان کی کو ئی جنگی تدبیر تمھیں نقصان نہیں پہنچائےگی۔
5:۔بلیٰ اِن تصبرُواوَتتقواوَیاتوکم من فورِھِم ھذَایمدِدکم رَبکم بخمسۃِ اٰلاَفٍ من الملئکۃُ مسوِّ مینَ،
ترجمہ:۔بےشبہ اگرتم نے صبر اور تقو یٰ اختیا ر کیا اور دشمن فو راً ہی تم پر ہی ٹوٹ پڑے تو تمہارا پروردگار پانچ ہزارنشانہ کرنیوالےفرشتوں سے تمھاری مدد فرما ئے گا ۔
6 :۔ وان تصبرو اوتتقو ا فاِ نَ ذٰ لک من عزم ا لا مورِ ، ( آل عمران ع 9 )
ترجمہ :۔ اور اگر تم نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا تو یہی ہمت کے کام ہیں ۔
7 :۔ یاایھا الذین اٰمنو ا اصبروا وصابروا ورابطو واتقو ا اللہ لعلکم تفلحون ( آل عمرن ختم )
ترجمہ:۔ اےایمان والو صبر کرویعنی ثا بت قدم رہو اور دو سروں کو بھی ثا بت قدم رکھو اور دل لگائے رہو عبادت میں تا کہ تم فلا ح و کا میا بی حا صل کر و۔
8:۔وَقالَ مو سیٰ لقومہ ا ستعینو ا با للہِ وا صبروا انَ الا رض للہ یورِ ثھا من یشاء من عبا د ہ والعاَ قبۃُ للمتقینَ،(اعراف،15)
تر جمہ:۔مو سیٰ علیہ ا لسلا م نے اپنے قو م سے کہا کہ اللہ سے مد د ما نگو اور ثا بت قد م رہو َ۔ بے شبہ زمین اللہ ہی کی ہے۔ وہ اپنے بند وں میں جس کو چا ہے اس کا ما لک و وارث بنا دے اورانجام کارکا میا بی تقویٰ شعا ر لوگوں کی ہی ہے۔
9:۔و تمت کلمۃ ر بک الحسنیٰ علےٰ بنی اسرَ ا ئیلَ بما صبررُو او دمر ناَ ماَ کاَنَ یصنعُ فرعونَ وَ قومہٗ وماَ کاَ نوُ ایعر شونَ۔(اعراف ع16)
تر جمہ:۔اور اپنے رب کا نیک و عد ہ بنی اسر ا ئیل کے حق میں ان کے صبر کی جہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فر عو ن کے اور اس کی قوم کےسا ختہ پر وا ختہ کا ر خا نوں کو اور جو کچھ وہ او نچی او نچی عما رتیں بنو ا تے تھے، سب کو در ہم بر ہم کر دیا ۔
10:۔اِنہٗ من یتقِ وَ یصبر فاِ نّ اللہَ لاَ یضیعُ اَجرَ المحسنینَ،
تر جمہ:۔اس لیے کہ جو شخص صبر اور تقو یٰ اختیا ر کرتا ہے تو اللہ تعا لٰی ایسے نیکو کا ر لو گو ں کا اجر ضا ئع نہیں کر تے۔
قر آن کر یم کی یہ دس آ یتیں ہیں ۔ان کو پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے۔ ان میں انسا ن کے تما م ا ہم مقا صد خصو صاًجہاد اور دشمنوں کے مقا بلہ میں اللہ تعا لٰی کی غیبی تا ئید اور نصرت وامد اد حا صل کر نے کا نسخہ بتلا یا گیا ہے۔ اس نسخہ کے دو تین اجزاء اپ کو ان سب آیا ت میں مشترک نطر آئیں گے ۔
صبر،تقویٰ، نما ز۔
ان آ یا ت میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ابتدا ئے آفر ینَش عا لم سے اللہ تعالٰی کا یہی دستور رہا ہے کہ اس تا ئید ونصرت ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ایمان کے ساتھ نماز اور صبر وتقویٰ کے پابند ہو ۔
نماز کا مفہوم اور اس کی اہمیت تو سب ہی مسلمان جانتے ہیں ۔ صبر کا لفظ عربی زبان میں ہماری زبان کے عرفی معنی سے بہت عام معنی رکھتا ہے ۔عربی زبان میں صبر کے عام معنی روکھنے کے ہیں۔ اور قرآن کی اصطلاح میں نفس کو اس کی بری خواہشات سے روکنے کے ہیں اور قابو میں رکھ کر ثابت قدم رہنے کے ہیں ۔
اور تقویٰ کا ترجمہ پرہیزگاری کیا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت وفرماں برداری کا نام تقویٰ ہے ۔
اسلامی تاریخ کے قرن اوّل میں جو چیزیں مسلمانوں کا شعار اور طرہ امتیاز تھیں وہ یہی نماز اور صبر اور تقویٰ ہیں اسی کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے انہیں ہر میدان میں فتح مبین اور کا میابی عطا فرمائی ۔ آج بھی اگر ہم اس اصول پر کار بند ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں کی امداد ہم سے کچھ دور نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ،
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
جہاد کی تیاری اور سامان جنگ کی
فراہمی بھی فرض ہے ۔
صبروتقویٰ اور اللہ تعالٰی پر ایمان وتوکل تو مسلمانوں کی اصل اور نا قابل تسخیر طاقت ہے ہی اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کے ہر زمانہ اور ہر مقام کے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ بھی جمع کیا جائے ۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔
واَعدوا لھم ما ا ستطعتم من قو ۃ ومن ربا ط الخیل تر ھبونَ بِہِ عدواللہ وعدوکم ۔
ترجمہ :۔ اور تیار کرو تم دشمن کے لیے جتنا بھی تم کرسکو سامان جنگ اور سدھے ہوئے گھوڑے تاکہ دھاگ پڑجائے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگی مشقوں کا اہتمام فرمایا ۔ اس زمانہ میں جو جنگ کے ہھتیار تھے ان کوجمع کرنے کی ہدایتیں فرمائیں ۔ جہاد کے لیے گھوڑے ، اونٹ، زرہ بکتر وغیرہ جمع فرمائے ۔ تیراندازی اور نشانہ بازی کی مشق کے لیے ہدایت فرمائی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) نے سامانِ جنگ کی صنعت
سیکھنے کے لیے دوسرے ملکوں کا سفر کیا ۔
امام حدیث وتفسیر ابن کثیر نے اپنی تاریخی کتاب (البدایہ والنہایہ ) میں غزوہ حنین کے تحت نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو2 صحابی حضرت عروہ رضی اللہ عنہ (عنہم) بن مسعود اور غیلان بن اسلم رضی اللہ عنہ (عنہم)اس جہادمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس لیے شرکت نہیں کرسکےکہ وہ بعض جنگی اسلحہ اورسازوسامان کی صنعت سیکھنےکےلیےدمشق کےمشہورصنعتی شہرجرشؔ میں اس لیےگئےہوئےتھےکہ وہاں دبّابہؔ اورضبوّرؔ کی وہ جنگی گاڑیاں بنائی جاتی تھیں جن سے اُس وقت آج کل کے ٹینکو ں جیسا کا م لیا جاتا تھا ۔اسی طرح منجنیق کاوہ آلہ جس سے بھا ری بھاری پتھرپھینک کر قلعہ شکن توپوں کاکام لیا جا تا تھا،اس کی صنعت بھی وہا ں تھی ۔یہ صنعتیں سکیھنے کے لیے ان بز رگوں نے ملک شام کا سفر اختیا ر کیا تھا۔اس واقعہ سے یہ بھی ثا بت ہوا کہ مسلما نوں کے لیے ضر وری ہے کہ اپنے ملک کو جنگی اسلحہ اورسا ما ن کے لیے خو د کفیل بنا ئیں دوسروں کے محتا ج نہ رہیں ۔ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ جنگی گا ڑ یا ں اور منجنیق وہا ں سے خر ید کردرآ مد کر لی جا تیں ۔مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کر ا م رضی اللہ عنہم نےاس پراکتفا نہیں فرما یا بلکہ خوداپنے یہا ں ان کے تیا ر کرنے کی تد بیر اختیا ر فر ما ئی۔ہما را فر ض ہے کہ ہم اس پر پو را غو ر کر یں کہ رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وہ روحانی اور ربانی طاقت اور نصرت حاصل تھی جس کے ہوتے ہوئے مادی سامان کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کااس قدر اہتمام فرمایا ، تو ہم جیسے گناہگار ضعیف الایمان لوگوں کو اس کی ضرورت کس قدر زیادہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جنگ کے لیے جس طرح کے اسلحہ اور آلات و سامان کی ضرورت ہے ، ان میں کسی سے پیھچے نہ رہیں ، اور اس کی کوششں میں لگ جائیں کہ قریب سے قریب مدت میں ان چیزوں کےلیے اپنی ملک کوخود کفیل بنا سکیں ۔ واللہ الموفق والمعین ۔
رباط یعنی اسلامی سر حدات کی حفا ظت
جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی اصطلاح میں '' رباط '' کہا جاتا ہے ۔ اورجہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضا ئل قرآن وحدیث میں مذکور ہیں ۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا تھا ۔
آج کل یہ فرائض ہماری رینجر ز پولیس انجام دیتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جزبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط '' کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک دن اللہ کی راہ میں رباط کی خدمت انجام دینا ایک مہینہ کے مسلسل روزے اور شب بیداری سے افضل ہے۔اور اگر اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو جو نیک عمل یہ کرتا تھا وہ مسلسل اس کے نامئہ اعمال میں مرنے کے بعد بھی لکھے جاتے رہیں گے اور قبر کے سوال وجواب اور عذاب سے محفوظ رہے گا ۔
اور طبرانی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص قیامت کے روز شہیدوں کے ساتھ اٹھا یا جائے گا اور قیامت کے ہولناک عذاب میں بھی اس کو اطمینان ہو گا ۔ (فتح ا لقدیر )
رباط کا مفہوم اسلامی سرحدات کی حفاظت ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کام ان ہی مقامات پر ہوسکتا ہے جو اسلامی ملک کی آخری حدود پر واقع ہیں ۔
لیکن اس زمانے کی فضائی جنگ نے اس معاملہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے ، کیونکہ چھاتہ بردار فوج ہر جگہ اتر سکتی ہے، بم بار طیاروں سے ہر جگہ بم گرائے جاسکتے ہیں ، اس لیے جن مقامات پر بھی د شمن کی اسی یورش کا خطرہ ہو ، ان کے حفاظتی انتظامات بھی اسی رباط کے حکم میں داخل ہوں گے ۔
قدیم فقہائہ نے بھی رباط کے معاملہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس بستی پر ایک مرتبہ دشمن حملہ کر دے اس کی حفاظت چالیس 40 سال تک رباط کے حکم میں داخل ہے ۔ (فتح القدیر ، ص 278 ، ج 4 )
پاکستان کے سابقہ جہاد میں سرگودھا ، پشاور ، کراچی وغیرہ مقامات جہاں چھاتہ بردار فوجیں اترنے کے خطرات پائے گئے اور جہاں دشمن کے بمباروں نے بمباری کی ، ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے ۔
یہ ایسا جہاد ہے جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے ، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور بھر اس میں کوشش کرے ۔
بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے
ایسے خطرات کے وقت جن بستیوں میں حکومت کی طرف سے اندھیرا جاری رکھنے کی ہدایت جاری ہو ان کی تعمیل بھی ان ہی حفاظتی انتظامات کے تحت رباط کے حکم میں داخل ہو کر انشأ اللہ ا س ثواب عظیم کا موجب ہوگی۔مسلمان اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ مفت کا ثواب رباط حاصل کرنے پر خوش ہوں اور شکر ادا کریں۔
عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بلیک آؤٹ کی ایک نظیر
جنگی حالات اور ان کے تقاضے ہر زمانے اور ملک میں جدا ہوتے ہیں ۔ ملک کے مبصر اور اربابِ حکومت جس چیز کو شہری دفاع کے لیے ضروری قرار دیں ، اس کی تعمیل شرعی حیثیت سے بھی ضروری ہو جاتی ہے ۔ خواہ اس معین چیز کا ثبوت قرونِ اولٰی کی روایات میں ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ مباحات میں اطاعت امیر کا ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے، وہی ان تمام جا ئز کاموں میں تعمیل حکم کی اصل علت ہے لیکن کوئی خاص کام اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کام رضی اللہ عنہ (عنہم) سے بھی منقول ہو تو اس کا محبوب و مشروع ہونا اور مبارک عمل ہونا ظاہر ہے ۔
دوران جنگ پاکستان میں شہری دفاع کے لیے حکومت میں رات کو روشنی کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ اطاعتِ حکم کے تحت تو اس کی تعمیل ضروری تھی ہی ، اتفاق سے اس کی ایک نطیر خود عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ملتی ہے جو ناظرین کی دلچسپی اور ایمان کو مستحکم کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے ۔ جمادالثانی 8 ھ میں جہاد کے لیے ایک لشکر مدینہ طیبہ دس منزل کے فاصلہ پر لخم وجزام کے قبائل مقابلہ کے لیے بیھجا گیا تھا جس کے امیرحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے اس عزوہ میں دشمن کےسپاہوں نے پوری فوج کو حلقئہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے ۔ اسی لیے یہ غزوہ '' ذات السلاسل '' کے نام سے موسوم ہے ۔ ( یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی دور صحابہ میں اس کے بعد ہوئی ہے ) ۔
حدیث مشہور کتاب جمع الفوائد میں معجم کبیر طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس غزوہ ذات السلاسل میں امیر لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے اپنی فوج یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ ہی آگ جلایئں ۔
تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ بھاگتے ہوئی دشمن کا صحابہ کرام نے جو لشکر میں موجود تھے ، تعاقب کرنا چاہا مگر امیر لشکر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے تعاقب سے بھی منع کردیا ۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم ہی ناگواری تھی ،کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوارہ گزرا، مگر اطاعت امیر کی بناء پر تعمیل لازمی تھی ، اس لیے ان دونوں احکامات کی بلا چون و چرا پابندی کی گئی ۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) بلا کروجہ دریافت فرمائی ۔
حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی تھی ، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلتِ تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے اور اس کا حوصلہ نہ بڑھ جائے ۔ اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی تو وہ کہیں لوٹ کر ان پر حملہ نہ کردے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس جنگی تدبیر اور عمل کو پسند فرما کر اس پر اللہ تعالٰی کا شکر آدا کیا ۔
جہاد عام حالات میں فرضِ کفایہ ہے
فرض کفایہ اصطلاحِ شرع میں اس فرض کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق ہر مسلمان کی ذات سے نہیں بلکہ پوری مسلم قوم سے ہے ۔ اسے فرض کا یہ حکم ہے کہ مسلمانوں سے چند آدمی اس فرض کو پورا کردیں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بھی آدا نہ کرے تو جن جن لوگوں کو اطلاع پہنچے اور قدرت کے باوجود ادا نہ کریں ، وہ سب گنہگار ہوں گے ۔
مثال کے طور پر مسلمان میت کی نمازِ جنازہ اور کفن دفن کا انتظام ہے کہ یہ فریضہ پوری قومکی ذمہ ہے ، عزیز قریب اور برادری کے لوگ اگر اس فریضے کو ادا کریں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہوگئے اور میت کا کوئی ایسا عزیز قریب موجود نہیں یاموجود ہوتے ہوئے عاجز ہے یاجان بوجھ کر غفلت کرتاہے تو محلے کے دوسرے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اس کو انجام دیں ۔محلے والے بھی نہ کریں تو شہر کے دوسرے لوگوں پرجن کو اطلاع ملے یہ فریضہ عائدکیا جائےگا ۔شہر والے بھی نہ کرے تو اس کے متصل دوسرے شہر والوں پر عائد ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے جتنے بھی اجتماعی فرائض واجبات ہیں سب فرضِ کفایہ ہیں اور ان کا بھی یہی حکم ہے ۔
احکامِ دین کی تعلیم و تبلیغ ، ضرورت کے مطابق مسجدوں کی تعمیر اور دینی تعلیم کے مدرسوں کا قیام ،مختاجوں ، یتیموں اور غریبوں کی ضرورت پوری کرنے کےلیے مختاج خانے ، یتیم خانے وغیرہ قائم کرنا ، ناواقفوں کو احکام شرعیہ بتلانے کے لیے فتوی دینے کے کا اِنتظام ، امر بالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا انتظام ، اسلام کے خلاف اسلام کے دشمنوں یا گمراہوں کی طرف سے شبہات وتحریفات کے جوابات کا انتظام ، اسلام کا کلمہ بلند کرنے اور معاند دشمنوں کو زیر وزبر کرنے کے لیے جہاد ۔
یہ سب امور وہی ہیں جن کا تعلق پوری مسلم قوم سے ہے اور یہ اجتماعی فرائض ہیں ۔ ایسے فرائض کو عین حکمت کے مطابق حق تعالٰی نے ہر شخص پر فرضِ عین نہیں کیا بلکہ پوری قوم کے ذمہ لگا دیاہے تاکہ وہ تقسیم کے ذریعہ ان سب فرائض کو آسانی سے ادا بھی کرسکیں اور اپنی معاشی ضروریات اور عینی فرائض کی ادئیگی کےلیے بھی ان کو فرصت مل سکے ۔
پوری قوم میں سے جس قدر آدمی ایک کام کی ضرورت کو پورا کر سکیں اور وہ اس کام کیں لگ جائیں تو باقی پوری قوم اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتی ہے ۔
بعض تعلیم دین کے لیے مدارس کا انتظام کریں۔ بعض فتویٰ اور تصنیف کی ضرورت پوری کریں ۔ بعض مساجد کے قیام وانتظام میں لگیں ، بعض یتیم خانے ، مختاج خانے ، شفاخانے وغیرہ بنانے کا کام کریں ۔ بعض قلم اور زبان کا جہاد کرکے مخالفین اسلام کے جوابات دیں ۔ بعض جہاد وقتال کے فرائض کو انجام دیں ۔
جہاد وقتال کے بارے میں حق تعالٰی کا واضح ارشاد ہے :۔
فضل اللہُ المجاھِد ین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃً ط وکلاً وعداللہ ا لحسنی وفضل اللہ المجا ھدین علی القاعدین اجراً عظیما ط
( سورئہ نساء پ : 5 ۔ ع: 13 )
ترجمہ :۔ اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کا درجہ بہت بلند بنایاہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے اور سب سے اللہ تعالٰی نے اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی نے مجاہدین کو بمقابلہ گھر میں بیٹنے والں کے اجر عظیم دیا ہے ۔
اس آیت نے واضح طور پر بتلا دیاہے کہ اگر چہ جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے مگر جو لوگ دوسرے کاموں کی وجہ سے خود کو جہاد میں شریک نہ کرسکیں ان سے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جہاد اپنی اصل عام قومی فرائض کی طرح فرض کفایہ ہے ۔
دو سر ی آیت ماکانَ المؤمنونَ لینفرُواکآ فۃ میں بھی یہ بتلاگیاہےکہ جب بھی مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کیلیےکافی ہوتوسب پرجہادواجب نہیں رہتا۔
فرضِ کفایہ بعض اَوقات فرضِ عین ہوجاتاہے،
اگرکوئی قومی فرض جوعلی الکفایہ سب کےذمہ فرض ہے،اسکےاداکرنیوالی کوئی جماعت موجودنہیں ہےیاموجودہوتے ہوئےسستی یاغفلت کررہی ہےیااس کی تعداداورسامان اس فریضےکی ادائیگی کےلیےکافی نہیں ہےتواُن سےقریب کےمسلمانوںپرفرضِ عین ہوجاتاہےکہ وہ اِس فریضےکواداکریں اوراگراداکرنےوالوں کوجانی یامالی امدادکی ضرورت ہوتواس کوپورا کریں۔
قریب کے مسلمانوں نے بھی غفلت برتی یا وہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہوئے تو ان سے قریب کے شہروں اور دیہات میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر فریضہ عائد ہو جا ئیگا ۔ اسی طرح جس قدر جانی یا مالی امداد کی ضرورت پیش آتی جائے گی ، نزدیک سے لے کر سب مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہو تا چلا جائے گا ۔ صرف بچے ، بوڑے ، بیمار ،نادار اور اپاہچ لوگ اس فرض سے مستثنٰی ہوں گے ۔ (ہدایہ ، بدائع )
جہاد کب فرضِ عین ہوجاتا ہے ؟
جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لیے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں ، شریک ہوں ، تو سب پر جہاد کے لیے نکلنا فرضِ عین ہو جا تا ہے ۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے ۔
غزوہ تبوک میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکمِ عام جاری فرمایا تھا اسی لیے جو لوگ اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان پر سزائیں جاری کی گئیں ۔
مسائل متفرقہ !
مسئلہ :۔ یہ ضروری نہیں کہ شہر کا حاکم وامیر جو اعلان جہاد کرے ، متقی ، پرہیزگار یا عالم ہی ہو ، جو بھی مسلمان حاکم ہو ، جب ایسے حکمِ عام کی ضرورت محسوس کرے، یہ حکم دے سکتا ہے ، اور سب مسلمانوں کو اس کا یہ حکم ماننا فرض ہے ۔ ( فتح ا لقدیر۔ ص : 280 ۔ ج: 4 )
فائدہ :۔ اس میں شبہ نہیں کہ امیرِ جہاد کا عالم ومتقی ہونا بہت بڑی نعمت ہے اور فتح کا بہت بڑا سامان ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کو امیر ِ جہاد مقرر فرماتے تو اس کو وصیت فرماتےتھے کہ خود بھی تقوےٰ اختیار کریں اور اپنے سپاہیوں کو بھی اس کی تلقین کریں اوریہی مسلمان کا وہ اصلی جوہر ہے جو دنیاکے کسی طاقت سے مغلوب نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ ہے مگر عملِ جہاد کے لیے شرط نہیں ۔
جہاد ہرمسلمان امیر وحاکم کے ساتھ ضروری اور اس کے جائز احکام کی تعمیل واجب ہے ۔
مسئلہ :۔ جہاد جب فرضِ کفایہ ہو تو بیٹے کو ماں باب کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں کیونکہ ان کی خدمت اور اطاعت فرضِ عین ہے ۔ وہ فرض کفایہ کی وجہ سے ساقط نہیں ہوسکتی ۔
اسی طرح عورت کا شوہر کی اجا زت کے بغیر جہاد کے کام میں لگنا جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صو رت میں جائز نہیں۔ البتہ اگر دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے مسلمان حاکم وقت سب کو جہاد میں لگنے کا حکم جاری کردے اور جھاد فرضِ عین ہوجائے تو پھر بیٹا ماں باپ کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اپنے اس فرض کو پوراکرے۔ (بدئع۔ ص : 98 ۔ ج: 7 )
مسئلہ:۔ میدان جہاد سے بھاگنا انتہائی سخت گناہ اور غضبِ الہی کا سبب ہے ۔ قرآن کریم میں ہے :۔
یاا یھاا لذین اٰ منو اذا لقیتم الذین کفرو ا زحفاً فلا تولوھم الادبار ط
ترجمہ : اے ایمان والوں ! جنگ میں کافروں سے تمھارا مقابلہ ہو جائے تو ان سے پشت نہ پھیرو ۔
اور فرمایا گیا :۔
ومن یولِھم یومئذ ٍ دبرہٗ فقد باء بغضبٍ من اللہِ ط
ترجمہ :۔ اور جس نے اس دن کافروں سے پشت پھیری تو اللہ کا غضب لے کر لوٹا۔
مسئلہ :۔ ہاں ! اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ مجاہدین کو حالات سے اس کا پورا اندازہ ہوجائے کہ اگر ہم اس وقت لڑیں گے تو ہم سب فناہ ہو جائے گے اور دشمن کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے ۔ ایسے وقت ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے کمک حاصل کرنے اور تیاری کے بعد لڑنے کی نیت سے اس وقت میدان چھوڑدیں اور پھر دوسرے مسلمانوں کی امداد اور سامان کی تیاری کے ساتھ دوبارہ مقابلہ پر جائیں ۔ اس کا مدار مجاہدین کی تعداداور سامان کی کمی یا زیادتی پر نہیں ، بلکہ محاذِ جنگ کے مجموعی حالات اورتجربہ پرہے۔تجربہ ہی سےاس کافیصلہ کیاجاسکتاہےکہ اس مقام پرلڑنامفیدہےیاپیچھےہٹنا۔قرآن مجیدمیںایسےہیحال کےمتعلق ارشادہے:۔
وَمَن یولھم یومئذ ٍ دُبرَہ اِلاّمتحرِفاً لقتاَلٍ اَومتحیزًااِلیٰ فئۃٍ فقدباَبغضبٍ من اللہِ
ترجمہ:۔اورجس نےاس دن کافروں سےپشت پھیری بجزجنگی چال کے،یامسلمانوں کےکسی گروہ سےملنےکےلیےتو اللہ کا غضب لےکرلوٹا۔
اس سےمعلوم ہواکہ جنگی تدبیرکےلیےیادوسرےمسلمانوں سےامدادحاصل کرنےکےلیےپیچھےہٹنےکی خاص حالات میں اجازت دی گئ ہے۔جب مقصودبھاگنانہ ہوبلکہ؛ دوبارہ؛ حملہ کرناہو۔
تنبیہ:۔صاحبِ بدائع نےفرمایاکہ اس سےیہ بھی معلوم ہوگیاکہ قرآنِ کریم میں یہ ارشادہے:۔
اِن یکن منکم عشرُونَ صاَ برُونَ یغلبواماِ ٔتینِ وَاِن یکن مأِۃ یغلبوااَلفاً۔
ترجمہ:۔اگرتم میں سےبیس آدمی ثابت قدم رہنےوالےہوں تودوسوپرغالب آجائیں گےاوراگرتم سوہوتوہزارپرغالب آجاؤگے۔
''یہ آیت منسوخ نہیں۔آج بھی ایساہوسکتاہے۔''چنانچہ پاکستان کےسابقہ جہادمیں خصوصاً لاہورکےمحاذپرتوایسامشاہدہ ہواکہ دشمن کوبھی اس سےانکارنہیں ہوسکتاکہ مسلمانوں کی بہت تھوڑی سی تعدادنےدشمن کی ٹڈی دل فوج کا حملہ روکااوراس پرفتح پائی۔
اگراس کاامکان غالب نظرآئےکہ تھوڑی تعدادیاکم سامان کےباوجودمسلمان غالب آسکتےہیں تومحض تعدادکی کمی کی وجہ سےپیٹھ پھرناجائزنہیں ہوگا۔
مسئلہ :۔ جو عورتیں ، بوڑھے یا بچے جنگ میں جاسوسی کا کام کریں یا دوسرے طریقوں سے جنگ میں حصہ لیں ، ان کو حالتِ جنگ میں قتل کیا جائے گا تاکہ ان کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں ۔
لیکن اگر بچے قید ہو جائے تو قید ہونے کے بعد ان کا قتل جائز نہیں ، خواہ انہوں نے جنگ میں کھلے طور پر حصہ لیاہو ، کیونکہ گرفتار کرنے کے بعد ان سے کوئی خطرہ نہیں رہا ۔ اب اگر قتل کیا جائے تو ان کے پچھلے عمل کی سزا میں قتل کیا جائے گا اور بچوں پر سزا جاری کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
مسئلہ:۔ جہاد میں اگر کسی مسلمان کا کافر باپ سامنے آجائے تو جب تک وہ حملہ نہ کرے بیٹے کو اس پر حملہ کرنا جائز نہیں ۔ کیونکہ قرآنِ کریم کی ہدایت یہ ہے کہ دنیا میں کافر ماں باپ کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرو، ان کی خدمت وخبر گیری کرو ۔ اس لیے جہاد کے وقت بھی ابتداً ان کا قتل کرنا جائز نہیں ۔
حضرت خنظلہ رضی اللہ عنہ (عنہم) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کافر باپ کے قتل کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ۔ البتہ اگر باپ ہی بیٹے پر حملہ کردے اور اس حملہ سے اپنی جان بچانا بغیر اس کے ممکن نہ ہو کہ باپ کو قتل کرے تو اسکو اپنی حفاظت کرنا چائیے ، خواہ اس میں باپ کا قتل ہی واقع ہو جائے مگر یہ باپ کو قتل کرنے کا ارادہ نہ کرے ۔ ( بدائع ، ص 102 ۔ ج 7 )
مسئلہ :۔ جہاد میں جانے کے وقت اپنے ساتھ قرآنِ کر یم تلاوت کے لیے ایسی صورت میں لیجانا جائز ہے جبکہ مسلمانوں کی قوت مستحکم ومظبوط ہو ، شہید یا قید ہو نے کا خطرہ کم ہو اور جہاں یہ خطرہ قوی ہو تو قرآن کو اپنے ساتھ نہ رکھے ۔ اس میں بے ادبی کا خطرہ ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی زمین پر قرآنِ کریم لیجانے کو جو منع فرمایاہے ، وہ ایسی ہی حالت سے متعلق ہے ۔ ( بدائع )
مسئلہ :۔جنگی قیدی جو مسلمان کے ہاتھ آجائیں ، ان کو بھوک ، پیاس، وغیرہ کی تکلیف دینا جائز نہیں ۔ (بدائع )
مسئلہ :۔ کافر قیدیوں سے اپنے مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کرلینا جائز ہے ۔ ( علیٰ قول الصاحبین ، بدائع )
مسئلہ :۔ جہاد میں جن لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے ، ان کا بھی مثلہ کرنا یعنی ناک، کان وغیرہ کاٹنا شرعاً جائز نہیں ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
مسئلہ :۔ دشمن قلعہ بندی ہوجائے یا کسی محفوظ مکان میں داخل ہو کر دروازے بند کرلے تو اس کو ہتھیار ڈالنے اور اطاعت قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ اس کو نہ مانے تو آگ لگا کر یا پانی میں غرق کرکے یا دوسرے طریقوں سے قلعہ اور مکان کو منہدم کر دینا بھی جائز ہے ۔ (بدائع )
مسئلہ :۔ دشمن اگر قلعہ بند ہو جائے اور یہ معلوم ہو کہ دشمن کے ملازموں میں کچھ مسلمان بھی ہیں تو ان کی وجہ سے دشمن کے مقابلے میں کوئی رعایت نہ کی جائے گی البتہ اگرمسلمانوں کو بچا سکتے ہیں تو بچانے کی فکر کریں ، ورنہ دشمن کو تباہ کرنے کے قصد سے گولہ باری کریں ۔ جو مسلمان اس کی زَد میں بلا اختیار آجائیں وہ معاف ہے ،کیونکہ کافروں کاکوئی شہراور بستی اس سے خالی نہیں ہوتی کہ کوئی مسلمان قیدی یاملازم وغیرہ انکےپاس ہو،اگران کی رعایت سےدشمن کامقابلہ چھوڑدیا جائے توجہادکا دروازہ ہی بندہوجائے۔(بدائع ضائع،ص100،ج7)
مسئلہ:۔ یہی صورت اس وقت بھی کی جائے گی جبکہ دشمن اپنے آپ کو بچانے کے لیے مسلمان قیدیوں یا بچوں کو آگے کردے ۔ اس وقت بھی اگر مسلمانوں کو بچانے کی کوئی صورت نہ رہے تو دشمن پر حملہ کی نیت سے مقابلہ کیا جائے اور جو مسلمان اس کی زد میں آجائیں وہ معاف ہے ۔ (بدائع )
مسئلہ :۔ عین حالتِ جنگ وقتال میں بھی ایسے کافروں کو قتل کرنا جائز نہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے ۔ مثلاً چھوٹے بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، اپاہج ، اندھے ، دیوانے ، مندروں اور عبادت خانوں میں مشغولِ عبادت رہنے والے ، بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میدانِ جنگ میں کسی کافر عورت کو مقتول پایا تو بہت افسوس کا اظہار فرما کر فرمایا کہ یہ تو جنگ کرنے والی نہ تھی ، اس کو کیوں قتل کیا گیا ؟
چہل40حدیث۔۔۔۔۔فضائل جہاد،
جہاد کے فضائل ومسائل سے متعلق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی روایات حدیث اس کثرت سے منقول ہوئی ہیں کہ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہو جائے ۔ اس جگہ ان میں سے صرف چالیس حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ۔ اس عدد میں ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں یاد کرکے میری امت کو پہنچا دے ، اس کا حشر قیامت کے دن علمائ مقبولین کے ساتھ ہوگا ۔ اس برکت کو لکنھے والا بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس کو چھاپ کر شائع کرنے والابھی ۔
حدیث نمبر 1 :۔عن معاذ ا بن جبل فی حدیث طویل قال قال رسول ِ صلی اللہ علیہ وسلم رأس الامر الاسلام وعمودہُ الصلوٰۃ وذروۃ سنا مہ الجھاد۔ ( رواہ احمد والترمذی از مشکوٰۃ )
ترجمہ :۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (عنہم) ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ''اصل کام اسلام ہے اور اسلام کا عمود جس پر اس کی تعمیر قائم ہے ، نماز ہے اور اس کا اعلی مقام جہاد ہے"۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی عزّت وقوت جہاد پر موقوف ہے ۔ جب وہ جہاد چھوڑدیں گے ، ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے ۔
حدیث نمبر 2:۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم مثل المجاھدین فی سبیلاللہ کمثل الصائم ا لقائم ا لقانت بآیات اللہ لا یفتر من صیام ولا صلوٰۃ حتٰی یرجع المجا ھدین فی سبیل اللہ ۔ ( بخاری ومسلم )
ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے لیے جہادکرنیوالے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا رہے اور رات بھر تہجد کی نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے ۔ نہ کسی دن روزہ میں سستی کرے اور نہ کسی رات نماز میں ، اور مجاہد کو یہ فضلیت اس وقت تک برابر حاصل رہے گی جب تک وہ لوٹ کر اپنے گھر نہ آجاوے ۔
جہاد
آیات
احادیث
فضائل
فہرستِ عنوانات
پیش لفظ
جہادکے معنی
جہادکی نیّت
مؤمن کا جہادوطن کے لئیےنہیں،اسلام کے لئیےہے
ہماراوطن اسلام ہے
اسلامی جہادکاناقابلِ تسخیرسامان
امدادِخداوندی کی شرائط
دس10 آیاتِ کریمہ کاخلاصہ
جہادکی تیاری اورسامانِ جنگ کی فراہمی فرض ہے۔
سامانِ جنگ کی صنعت سیکھنے کے لئیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کابیرونِ ملک سفر
رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت
بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے
عہدِرسالت میں بلیک آوٹ کی ایک نظیر
جہادعام حالات میں فرضِ کفایہ ہے
فرضِ کفایہ بعض اوقات فرضِ عین ہوجاتاہے
جہادکب فرضِ عین ہوجاتاہے
جہادکے بارے میں متفرّق اہم مسائل کاذکر
فضائل جہاد کی چہل40 حدیث
شہری دفاع کی خدمت بھی جہادہے
جہادمیں کیانیّت ہونی چاہیے
اسلامی سرحدوں کی حفاظت(رباط)
رینجرزپولیس کے لیے عظیم الشان بشارت
شہیدفی سبیل اللہ کامقام اوراس کے درجات
شہیدکے تین درجے
مجاھداپنی موت مرجائےتوبھی شہیدہے
مال اورزبان سے بھی جہادہوتاہے
جہادکے لیے مال خرچ کرنے کاعظیم ثواب
ہندوستان پرجہادکی خاص اہمیّت اورفضیلت
ہندوستان کے جہادسے کونساجہادمرادہے؟
ترکِ جہادکی وعیداوردنیامیں اس کاوبال
ترکِ جہادمصائب کودعوت دیتاہے
جہادکے لیے سامان مہیّاکرنابھی جہادہے
غازی کوسامانِ جہاددینایااسکے گھرکی خبرگیری کرنابھی جہادہے
دفاعی فنڈمیں چندہ کاثواب عظیم
جہادسے ہرگناہ معاف ہوجاتاہے مگرفرض اورخیانت معاف نہیں
بحری فوج کےلیے عظیم سعادت
جہاداورزمانہ جنگ کی دعایئں
جہادکے مختلف اوقات کی دعایئں (قنوتِ نازلہ)
عملِ جہاد (مرتب محمدراشد)
بسم اللہ الرحمن الرحیمط
اَلحَمدُ لِلہِ الّذِی ھَدَانَا لِھَذَا وَ ماَ کُنِّا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہُ والصَلٰوۃ وَ السلام علی من ارسلہ با الھُدایٰ ودِینَ الحَق و کفاہ و علی الِہِ و صَحبِہ و کُلِ مَنِ اھتدیٰ بِھُدَا ہ
اما بعد
جہاد اسلام کے فرائض میں نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ کی طرح اسلام کا پانچواں فرض ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الجہاد ماض الی یوم القیامۃ یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک۔
قرآن و سنّت کی بے شمار نصوص اور اجماع امت جہا د کی فر ضیت کا اعلان کر رہے ہیں۔
لیکن ہندوستان پر انگریزی تسلط کے بعد وہاں کے مسلمانو ں کو کھلے طور پر کفار کے ساتھ جہاد و قتال کے مواقع نہ رہے اورر فتہ رفتہ لوگوں کے ذہن سے اس کی ضرورت اور فضائل اور مسائل بھی غائب ہونےلگے۔ عام دیندار مسلمان بھی نماز، روزے کے مسائل سے توکچھ نہ کچھ واقف ہوتے ہیں۔جہاد کب فرض ہوتا ہے ؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ آداب کیا ہیں ؟ اس کی واقفیت تقریبًا مفقود ہوتی چلی گئی۔
دنیاکی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان قائم ہوجانے کے بعدہمارافرض تھا کہ سب سے زیادہ اس فریضئہ جہادپرتوجّہ دیتے اوراسکے اسباب ووسائل جمع کر نے میں لگ جاتے اورپاکستان کے مسلمان نوجوانوں کوفوجی تربیّت دی جاتی،ان کے دلوں میں جہادکاجذبہ پیداکیاجاتا۔ مگرافسوس ہے کہ ہم نے یہاں پہنچ کربھی اس فریضہ کواسی طرح نسیان میں ڈالے رکھاجس طرح پہلے سے تھا۔
اور قرآن و سنّت کی نصوص نیزپوری تاریخ اسلام کا تجربہ شاہد ہے ۔ کہ جب بھی ملسمان جہاد چھوڑدیتے ہیں تو دوسری قومیں ان پر غالب آ جاتی ہیں، ان کے دل ان سے مرغوب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے آپس میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ وہ جذبہ شجاعت و حمیّت جو کفّار کے مقابلہ میں صَرف ہونا چاہیےتھا وہ آپس میں صَرف ہونے لگتا ہے اور یہی ان کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔
اس وقت ہم اپنی اس غفلت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ سب طرف سے دشمنوں کی یلغار ہے اور مسلمان مختلف پار ٹیوں، فر قوں اور نظریوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسرِ پیکار ہیں۔
1965 میں پاکستان پر بھارت کےاچانک حملہ کے وقت احقر نے ایک رسا لہ بنام "جہاد"لکھا تھا،جس میں جہاد کی تعریف اوراس کے احکام اور فضائل و برکات کا مفصل بیان تھا۔دوسرے علماء کی طرف سےبھی اخباری بیانات اور ر سا ئل اس طرح شائع ہوئے اور عام مسلمان دُعا کی طرف متوجہّ ہوئے۔
الحمد اللہ! اُس وقت حق تعالٰی نےاپنے فضل سے بہت جلد تمام مسلمانوں میں جذبّہ جہاد عام فرما دیا اور فسق اور فجور کےبازارسرد پڑ گئے۔اللہ تعالی کی طرف سےتوجہ بڑھ گئ۔ اس کے نتیجے میں حق تعالی کی غیبی امدادکا کھلی آنکھوں سب نے مشاہدہ کیا۔ اس کا شکر تو یہ تھا کہ ہم جنگ ختم ہو نے کے بعد اور زیاد ہ اللہ کی طرف رجوع ہوتے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے جہادکی تیاری میں لگ جاتے،مگرافسوس ہے کہ معاملہ برعکس ہوااوراب پھراسی پرانے دشمن نے ہماری سرحدات پرحملے شروع کردئیے۔اس لیے اب یہ رسالہ کسی قدرترمیم کے ساتھ پھرشائع کیاجارہاہے۔ضرورت اس کی ہے کہ اس رسالہ کی اشاعت پاکستانی افواج میں اورعام شہریوں میں کثرت سے ہو ۔شایداللہ تعالٰی ہماری غفلتوں اورگناہوں کومعاف فرمادے اورہمارے دلوں میں پھرسے جہادکا جذبہ پیدافرمادیں اورہمیں اس کاحق اداکرنے کی توفیق بخشیں۔ بندہ محمدشفیع
(6شوال 1391ھ)
جہادکے معنی
لغت میں کسی کام کےلیے اپنی پوری کوشش اورتوانائی خرچ کرنےکے ہیں اورشریعت کی اصطلاح میں اللہ کا کلمہ بلندکرنے اوردشمن کی مدافعت کرنے میں جان ،مال،زبان،قلم کی پوری طاقت خرچ کرنے کو جہاد کہاجاتاہے۔
امامِ راغب اصفہانی نے لفظِ جہادکی تشریح کرتے ہوے فرمایاکہ جہاد کی تین قسمیں ہیں ،ایک کھلے دشمن کامقابلہ ،دوسرے شیطان اوراس کے پیدا کئیے ہوئے خیالات کامقابلہ،تیسرے خود اپنےنفس کی ناجائز خو اہشات کا مقابلہ ۔
مطلب یہ ہے کہ جوچیزبھی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے راستہ میں رکاوٹ ہے ،اس کی مدافعت جہاد ہے اوریہ رکاوٹ عادتاً انہیں تین طرفوں سے ہوتی ہے۔اس لیے جہادکی تین قسمیں ہوگئیں۔امامِ راغب نے یہ تین قسمیں بیان کرنے کے بعدفرمایاکہ ارشادِقرآنی ہے۔وَ جاَھِدُوفیِ اللہِ حَقَّ جِہَادِہ (یعنی جہادکرواللہ کی راہ میں پوراجہاد)۔
یہ جہادکی تینوں قسموں کو شامل ہے ۔
بعض روایات حدیث میں نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ اسی لئیے جہاد قرار دیا ہے۔
قرآنِ کریم کی کئ آیتوں میں جہاد کےلیے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد فرمایا ہے ۔وَتجاھِدُونَ فیِ سبیلِ اللہِ بِاَموَالِکمُ وَاَنفسکم کابھی یہی مطلب ہے اوررسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلمّ نےفرمایاکہ جس شخص نے کسی غازی کوسامانِ جہاددے دیااس نے بھی جہادکرلیا۔
اورایک حدیث میں زبان کے جہادکوبھی جہادقراردیاہے۔اورقلم چونکہ ادائے مضمون میںزبان ہی کے حکم میں ہے،اس لیے قلمی دفاع کوعلماء اُمّت نے جہادمیں شامل فرمایاہے۔
مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ لفظِ جہاد اصطلاحِ شرع میں اللہ کی راہ میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کے مقابلہ اور مدافعت کے لیے عام معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر عرفِ عام میں جب لفظِ جہاد بولا جاتا ہے توعموماً اس کے معنی دشمنانِ دین کے مقابلہ میں جنگ ہی سمجھے جاتے ہیں جس کے لیے قرآنِ کریم نےلفظِ قتال یا مقاتلہ استعمال فرمایا ہے ۔
جہاد کی نیّت
ہر مسلمان جانتا ہے کہ تمام عبادات اسلامیہ کی صحِت کامدارنیّت صحیح ہونے پر ہے ۔ اسی لیے نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج سب ہی کی ادایئگی میں نیّت درست کرنا فرض اور ضروی سمجھا جاتا ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد اس معاملہ میں یہ ہے۔ اِنما الا عما ل بالنیّاتِ وانمالامریٔمانوٰ ی(صحیح بخا ری)'اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر انسان کو اپنے عمل کے بدلہ میں وہی چیز ملتی ہے جس کی نیّت کی ہے ۔
یعنی عبادات کا ثواب جب ہی کسی کو ملتا ہے جب کہ اس کی نیّت خالص اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماںبرداری اور رضاجوئی کی ہو ۔ دنیا کا مال ومتاع یاجاہ ومنصب مقصود نہ ہو،ورنہ اللہ کے نزدیک وہ عبادت نہیں بلکہ ریاء ہے جوبجا ئے ثواب کے گناہِ عظیم ہے۔
علماء اسلام نے اس حدیث کو ایک چوتھائی اسلام قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کا بہت بڑا حصّہ اس پر موقوف ہے۔
وہ عالم جودنیا کی شہرت اورنام ونمود کےلیےعلمی خدمات انجام دیتا ہے یا وہ غازی جو جہاد میں شہرت وانعام کی خاطر جانبازی کرتااور شہید ہو جا تا ہے ۔ اور وہ شخص جو نام ونمود کے لیے دینی خدمات میں بڑی فیاضی سے مال خرچ کرتا ہے ۔
ان تینوں کے متعلق صحیح حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کو یہ کہ کر جہنّم میں ڈال دیا جائے گا کہ تو نے جس مقصد کے لیے علمِ دین کو استعمال کیا یا جس مقصد کے لیے جان دی ، یا جس مقصد کےلیےمال خرچ کیا،وہ مقصد ہم نے تجھے دنیامیں عطاکردیاکہ لوگوں میں تیرے عالم،ماہرہونے کی شہرت ہوئی ،یاتجھے غازی اور شہید کے نام سے پکارا گیا،یامال خرچ کرنےکی بناء پرتجھےسخی اور فیاض کہا گیا۔اب ہم سے کیا چاہتے ہو؟العیاذبا للہ!
جہاد کے میدان میں اُترنے والے ہمارے بھائی جوساری دنیاکوچھوڑکراپنی جانوں کی بازی لگاتے ہیں،دنیاوآخرت کے اعتبارسے کتنابڑاکارنامہ ہےکہ اسکے ثواب کااندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، انُ حضرات کے لیے نہایت اہم ضرورت اس کی ہے کہ رسو لِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ِِِِ مذکورکو ہر وقت سامنے رکھیں اور جہاد میں اخلاص کے سا تھ صرف یہ نیّت کریں کہ اللہ کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی حفا ظت اور دشمنا نِِ دین کی ی مدافعت کرنا ہے۔ دنیا کے ثمرات ونتائج اور انعامات بھی اللہ تعا لیٰ ان کو عطا فرما یئں گے ۔ مگر جہاد کے وقت ان چیزں کو اپنے دل میں نہ آنے دیں ۔ وَاللہ الموفق وا لمعین ۔
مؤمن کا جہادوطن کے لیے نہیں،
اسلام کے لیے ہے
اسلام نےاپنے ابتدائی دورمیں نسلی،قبائلی،وطنی،لسانی وحدتوں کے بت توڑکرایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ،عربی،ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیاکی ساری وحدتوں کوزیروزبرکردیا۔
چند صدیوں سے یورپ والوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہوکر بڑی چالاکی سےلوگوں میں پھروطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کئے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر پارہ پارہ کر دیں۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذہت نہیں ہے جسکے نا م پر تما م دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں۔اس لے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کے لیے اسی کے نام پر جنگ کرتے ہیں، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دیکر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں۔ِِ
مسلمان قوم کو اللہ تعا لٰی نے ان سب چیزوں سے با لا تر رکھا ہے۔ وہ صرف اللہ کے لیے اور اسلا م کے لیے جہاد کرتا ہےاور وطن یا نسب اللہ تعا لیٰ اور اسلا م کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتا ہے ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرت ِمدینہ نے اور بدرِ اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیے ہیں ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔
آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کانعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہوگئے اوراپنے جہادکووطن کےلیےکہنےلگے۔اللہ تعالٰی کاشکرہےکہ ہمارےاکثرنوجوانوں کےخیالات اس سے پاک ہیں۔وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتےہیں نہ کہ وطن کے لیے۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیا لی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے مشرکانہ الفاظ سے بھی اجتناب کیا جائے ۔
ہماراوطن اِ سلام ہے
ہم وطن پرست نہیں۔ہمیں اس وطن سے ہجرت کر جانے کا حکم ہے جس میں رہ کر ہم اسلام کے تقاضے پورے نہ کر سکیں۔
یہی وہ نظریہ ہے جس نے پاکستان بنوایا اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر آمادہ کیا ۔ شاعر مشرق اقبال مرحوم نے اس مضمون کو بڑی ہی لطافت سے ا دا کیا ہے ۔ وطنیّت پر ان کے چند اشعار اس جگہ نقل کیے جاتے ہے
اس دور میں مےَاور ہے جام اور ہے جم اور ہے ساقی نے بِنا کی روشِ لطف وکرم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشو ائے صنم اور
ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کاکفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے غار تگر کا شاؐنہ دینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو د کھا دے
اے مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاک میں اس بت کو ملا دے ۔
اسلامی جہاد کا نا قا بلِ تسِخیر سامان
صبراور تقویٰ ہے ،
دنیا اپنے حریف پر غلبہ پانے کے لیے طرح طرح کے سامان اور تدبیریں کرتی ہے اور اس سائنس کی ترقی کے زمانہ میں تو ان سا ما نوں اور تدبیروں کی حد نہیں رہی ۔ اسلام بھی ضروری مادی تدبیریں اور سامانِ جنگ جمع کرنے کا حکم دیتا ہے جیسا کہ اس کا مفصّل بیان آگے آتا ہے ۔ لیکن یہ ظاہرہےکہ مادی سامان وتدبیرمیں مسلمانوں کودوسری قوموں سے کوئی خاص امتیاز حاصل ہے نہ ہو سکتا ہے بلکہ عادتاً غیر مسلموں کی ساری ذہنی فکری توانائی اور سارا زور چونکہ ان ہی مادی سامانوں میں صرف ہو تا ہے وہ اس معا ملہ میں مسلمانوں سےہمیشہ زیادہ ہی رہیں گےاورتاریخ کےہردورمیں ایساہی ہوتا رہاہے۔
البتہ مسلمانوں کےپاس ایک اورایسی قوت ہےجوناقابلِ تسخیررہی ہے،اوردوسری قومیں اس سےعاجزہیں۔وہ ہےاللہ تعالٰی کی نصرت اورغیبی امداد۔مگرقرآن نےاس تائیدرباّنی کےحاصل ہونےکی کچھ شرطیں رکھی ہیں۔جب بھی مسلمان اِن شرطوں کوپوراکرلیں تواللہ تعالٰی کی نصرت وامدادآتی ہےاورتھوڑی تعدادتھوڑےسامان کو بڑی سےبڑی تعداد اورجنگی سامانوں پرغالب کردکھاتی ہے۔
اورجب مسلمان خودان شرطوں کو پوراکرنےمیں سستی اورغفلت کریں توپھراس امدادونصرت کا اللہ تعالےٰ کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ۔ ایسی حالت ہمیں اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں سمجھنا چاہیے یہ دوسری بات ہے کہ اللہ جلّ شانہُ اپنے خاص فضل وکرم سے مسلمانوں کے ضعف پر رحم فرما یئں اور بلا شرط بھی اپنی امداد بھیج دیں ، جیسا کہ 65 ٔ میں پاکستان پر بھارت کے حملہ کے وقت اس کا مشاہدہ ہوا کہ ہم اور ہماری قوم ان شرطوں پر کسی طرح پوری نہیں اترتی تھی جن کے ذریعے امدادِ الہی آنی چاہیے ۔ مگر اس اپنے فضل سے یک بیک ہمارے حالات میں بھی انقلاب پیدا کرکے ہمیں صبروتقویٰ کے قریب کردیا اور اپنی امداد کے اسے معجزات دکھاۓ کہ دشمنوں کو بھی اس کا قائل ہونا پڑا ۔ امدادِ الہی کے لیے وہ شرطیں کیا ہیں ؟ قرآنِ کریم کی آیات ذیل میں تلاش کیجیے : ۔
1 : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153) (بقرہ ع 109 )
ترجمہ :۔ اے ایمان والو ! مددمانگواللہ سےصبراورنمازکےذریعہ۔
2:۔وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ( .177بقرہ ع 22 )
ترجمہ :۔ نیکوکار وہ لوگ ہیں جو تنگ دستی اور بیماری میں اور دشمنوں سے جہاد کے وقت صبرکرنے والے یعنی ثابتِ قدم رہنے والے ہیں یہی لوگ صادقین ہیں اور یہی متقی ہیں ۔
3 :۔ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (250 بقرہ ع 33 )
ترجمہ :۔ (جہاد میں نکلنے والو نے کہا ) اے ہمارے پروردگار عطا کر دے ہم کو صبر اور ہمیں ثابتِ قدم رکھ اور کافروں کی قوم کے مقابلہ پر ہماری مدد فرما ۔
4 :۔ وَاِن تصبرو او تتقو ا لا یضر کم کیدھم شیاً ،(آل عمران ع13)
ترجمہ:۔اوراگرتم صبرکرواورتقویٰ اختیارکروتوان کی کو ئی جنگی تدبیر تمھیں نقصان نہیں پہنچائےگی۔
5:۔بلیٰ اِن تصبرُواوَتتقواوَیاتوکم من فورِھِم ھذَایمدِدکم رَبکم بخمسۃِ اٰلاَفٍ من الملئکۃُ مسوِّ مینَ،
ترجمہ:۔بےشبہ اگرتم نے صبر اور تقو یٰ اختیا ر کیا اور دشمن فو راً ہی تم پر ہی ٹوٹ پڑے تو تمہارا پروردگار پانچ ہزارنشانہ کرنیوالےفرشتوں سے تمھاری مدد فرما ئے گا ۔
6 :۔ وان تصبرو اوتتقو ا فاِ نَ ذٰ لک من عزم ا لا مورِ ، ( آل عمران ع 9 )
ترجمہ :۔ اور اگر تم نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا تو یہی ہمت کے کام ہیں ۔
7 :۔ یاایھا الذین اٰمنو ا اصبروا وصابروا ورابطو واتقو ا اللہ لعلکم تفلحون ( آل عمرن ختم )
ترجمہ:۔ اےایمان والو صبر کرویعنی ثا بت قدم رہو اور دو سروں کو بھی ثا بت قدم رکھو اور دل لگائے رہو عبادت میں تا کہ تم فلا ح و کا میا بی حا صل کر و۔
8:۔وَقالَ مو سیٰ لقومہ ا ستعینو ا با للہِ وا صبروا انَ الا رض للہ یورِ ثھا من یشاء من عبا د ہ والعاَ قبۃُ للمتقینَ،(اعراف،15)
تر جمہ:۔مو سیٰ علیہ ا لسلا م نے اپنے قو م سے کہا کہ اللہ سے مد د ما نگو اور ثا بت قد م رہو َ۔ بے شبہ زمین اللہ ہی کی ہے۔ وہ اپنے بند وں میں جس کو چا ہے اس کا ما لک و وارث بنا دے اورانجام کارکا میا بی تقویٰ شعا ر لوگوں کی ہی ہے۔
9:۔و تمت کلمۃ ر بک الحسنیٰ علےٰ بنی اسرَ ا ئیلَ بما صبررُو او دمر ناَ ماَ کاَنَ یصنعُ فرعونَ وَ قومہٗ وماَ کاَ نوُ ایعر شونَ۔(اعراف ع16)
تر جمہ:۔اور اپنے رب کا نیک و عد ہ بنی اسر ا ئیل کے حق میں ان کے صبر کی جہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فر عو ن کے اور اس کی قوم کےسا ختہ پر وا ختہ کا ر خا نوں کو اور جو کچھ وہ او نچی او نچی عما رتیں بنو ا تے تھے، سب کو در ہم بر ہم کر دیا ۔
10:۔اِنہٗ من یتقِ وَ یصبر فاِ نّ اللہَ لاَ یضیعُ اَجرَ المحسنینَ،
تر جمہ:۔اس لیے کہ جو شخص صبر اور تقو یٰ اختیا ر کرتا ہے تو اللہ تعا لٰی ایسے نیکو کا ر لو گو ں کا اجر ضا ئع نہیں کر تے۔
قر آن کر یم کی یہ دس آ یتیں ہیں ۔ان کو پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے۔ ان میں انسا ن کے تما م ا ہم مقا صد خصو صاًجہاد اور دشمنوں کے مقا بلہ میں اللہ تعا لٰی کی غیبی تا ئید اور نصرت وامد اد حا صل کر نے کا نسخہ بتلا یا گیا ہے۔ اس نسخہ کے دو تین اجزاء اپ کو ان سب آیا ت میں مشترک نطر آئیں گے ۔
صبر،تقویٰ، نما ز۔
ان آ یا ت میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ابتدا ئے آفر ینَش عا لم سے اللہ تعالٰی کا یہی دستور رہا ہے کہ اس تا ئید ونصرت ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو ایمان کے ساتھ نماز اور صبر وتقویٰ کے پابند ہو ۔
نماز کا مفہوم اور اس کی اہمیت تو سب ہی مسلمان جانتے ہیں ۔ صبر کا لفظ عربی زبان میں ہماری زبان کے عرفی معنی سے بہت عام معنی رکھتا ہے ۔عربی زبان میں صبر کے عام معنی روکھنے کے ہیں۔ اور قرآن کی اصطلاح میں نفس کو اس کی بری خواہشات سے روکنے کے ہیں اور قابو میں رکھ کر ثابت قدم رہنے کے ہیں ۔
اور تقویٰ کا ترجمہ پرہیزگاری کیا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت وفرماں برداری کا نام تقویٰ ہے ۔
اسلامی تاریخ کے قرن اوّل میں جو چیزیں مسلمانوں کا شعار اور طرہ امتیاز تھیں وہ یہی نماز اور صبر اور تقویٰ ہیں اسی کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے انہیں ہر میدان میں فتح مبین اور کا میابی عطا فرمائی ۔ آج بھی اگر ہم اس اصول پر کار بند ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں کی امداد ہم سے کچھ دور نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ،
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
جہاد کی تیاری اور سامان جنگ کی
فراہمی بھی فرض ہے ۔
صبروتقویٰ اور اللہ تعالٰی پر ایمان وتوکل تو مسلمانوں کی اصل اور نا قابل تسخیر طاقت ہے ہی اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کے ہر زمانہ اور ہر مقام کے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ بھی جمع کیا جائے ۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔
واَعدوا لھم ما ا ستطعتم من قو ۃ ومن ربا ط الخیل تر ھبونَ بِہِ عدواللہ وعدوکم ۔
ترجمہ :۔ اور تیار کرو تم دشمن کے لیے جتنا بھی تم کرسکو سامان جنگ اور سدھے ہوئے گھوڑے تاکہ دھاگ پڑجائے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگی مشقوں کا اہتمام فرمایا ۔ اس زمانہ میں جو جنگ کے ہھتیار تھے ان کوجمع کرنے کی ہدایتیں فرمائیں ۔ جہاد کے لیے گھوڑے ، اونٹ، زرہ بکتر وغیرہ جمع فرمائے ۔ تیراندازی اور نشانہ بازی کی مشق کے لیے ہدایت فرمائی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) نے سامانِ جنگ کی صنعت
سیکھنے کے لیے دوسرے ملکوں کا سفر کیا ۔
امام حدیث وتفسیر ابن کثیر نے اپنی تاریخی کتاب (البدایہ والنہایہ ) میں غزوہ حنین کے تحت نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو2 صحابی حضرت عروہ رضی اللہ عنہ (عنہم) بن مسعود اور غیلان بن اسلم رضی اللہ عنہ (عنہم)اس جہادمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس لیے شرکت نہیں کرسکےکہ وہ بعض جنگی اسلحہ اورسازوسامان کی صنعت سیکھنےکےلیےدمشق کےمشہورصنعتی شہرجرشؔ میں اس لیےگئےہوئےتھےکہ وہاں دبّابہؔ اورضبوّرؔ کی وہ جنگی گاڑیاں بنائی جاتی تھیں جن سے اُس وقت آج کل کے ٹینکو ں جیسا کا م لیا جاتا تھا ۔اسی طرح منجنیق کاوہ آلہ جس سے بھا ری بھاری پتھرپھینک کر قلعہ شکن توپوں کاکام لیا جا تا تھا،اس کی صنعت بھی وہا ں تھی ۔یہ صنعتیں سکیھنے کے لیے ان بز رگوں نے ملک شام کا سفر اختیا ر کیا تھا۔اس واقعہ سے یہ بھی ثا بت ہوا کہ مسلما نوں کے لیے ضر وری ہے کہ اپنے ملک کو جنگی اسلحہ اورسا ما ن کے لیے خو د کفیل بنا ئیں دوسروں کے محتا ج نہ رہیں ۔ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ جنگی گا ڑ یا ں اور منجنیق وہا ں سے خر ید کردرآ مد کر لی جا تیں ۔مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کر ا م رضی اللہ عنہم نےاس پراکتفا نہیں فرما یا بلکہ خوداپنے یہا ں ان کے تیا ر کرنے کی تد بیر اختیا ر فر ما ئی۔ہما را فر ض ہے کہ ہم اس پر پو را غو ر کر یں کہ رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو وہ روحانی اور ربانی طاقت اور نصرت حاصل تھی جس کے ہوتے ہوئے مادی سامان کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کااس قدر اہتمام فرمایا ، تو ہم جیسے گناہگار ضعیف الایمان لوگوں کو اس کی ضرورت کس قدر زیادہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جنگ کے لیے جس طرح کے اسلحہ اور آلات و سامان کی ضرورت ہے ، ان میں کسی سے پیھچے نہ رہیں ، اور اس کی کوششں میں لگ جائیں کہ قریب سے قریب مدت میں ان چیزوں کےلیے اپنی ملک کوخود کفیل بنا سکیں ۔ واللہ الموفق والمعین ۔
رباط یعنی اسلامی سر حدات کی حفا ظت
جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی اصطلاح میں '' رباط '' کہا جاتا ہے ۔ اورجہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضا ئل قرآن وحدیث میں مذکور ہیں ۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہ (عنہم) کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا تھا ۔
آج کل یہ فرائض ہماری رینجر ز پولیس انجام دیتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جزبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط '' کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک دن اللہ کی راہ میں رباط کی خدمت انجام دینا ایک مہینہ کے مسلسل روزے اور شب بیداری سے افضل ہے۔اور اگر اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو جو نیک عمل یہ کرتا تھا وہ مسلسل اس کے نامئہ اعمال میں مرنے کے بعد بھی لکھے جاتے رہیں گے اور قبر کے سوال وجواب اور عذاب سے محفوظ رہے گا ۔
اور طبرانی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص قیامت کے روز شہیدوں کے ساتھ اٹھا یا جائے گا اور قیامت کے ہولناک عذاب میں بھی اس کو اطمینان ہو گا ۔ (فتح ا لقدیر )
رباط کا مفہوم اسلامی سرحدات کی حفاظت ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کام ان ہی مقامات پر ہوسکتا ہے جو اسلامی ملک کی آخری حدود پر واقع ہیں ۔
لیکن اس زمانے کی فضائی جنگ نے اس معاملہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے ، کیونکہ چھاتہ بردار فوج ہر جگہ اتر سکتی ہے، بم بار طیاروں سے ہر جگہ بم گرائے جاسکتے ہیں ، اس لیے جن مقامات پر بھی د شمن کی اسی یورش کا خطرہ ہو ، ان کے حفاظتی انتظامات بھی اسی رباط کے حکم میں داخل ہوں گے ۔
قدیم فقہائہ نے بھی رباط کے معاملہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس بستی پر ایک مرتبہ دشمن حملہ کر دے اس کی حفاظت چالیس 40 سال تک رباط کے حکم میں داخل ہے ۔ (فتح القدیر ، ص 278 ، ج 4 )
پاکستان کے سابقہ جہاد میں سرگودھا ، پشاور ، کراچی وغیرہ مقامات جہاں چھاتہ بردار فوجیں اترنے کے خطرات پائے گئے اور جہاں دشمن کے بمباروں نے بمباری کی ، ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے ۔
یہ ایسا جہاد ہے جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے ، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور بھر اس میں کوشش کرے ۔
بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے
ایسے خطرات کے وقت جن بستیوں میں حکومت کی طرف سے اندھیرا جاری رکھنے کی ہدایت جاری ہو ان کی تعمیل بھی ان ہی حفاظتی انتظامات کے تحت رباط کے حکم میں داخل ہو کر انشأ اللہ ا س ثواب عظیم کا موجب ہوگی۔مسلمان اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ مفت کا ثواب رباط حاصل کرنے پر خوش ہوں اور شکر ادا کریں۔
عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بلیک آؤٹ کی ایک نظیر
جنگی حالات اور ان کے تقاضے ہر زمانے اور ملک میں جدا ہوتے ہیں ۔ ملک کے مبصر اور اربابِ حکومت جس چیز کو شہری دفاع کے لیے ضروری قرار دیں ، اس کی تعمیل شرعی حیثیت سے بھی ضروری ہو جاتی ہے ۔ خواہ اس معین چیز کا ثبوت قرونِ اولٰی کی روایات میں ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ مباحات میں اطاعت امیر کا ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے، وہی ان تمام جا ئز کاموں میں تعمیل حکم کی اصل علت ہے لیکن کوئی خاص کام اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کام رضی اللہ عنہ (عنہم) سے بھی منقول ہو تو اس کا محبوب و مشروع ہونا اور مبارک عمل ہونا ظاہر ہے ۔
دوران جنگ پاکستان میں شہری دفاع کے لیے حکومت میں رات کو روشنی کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ اطاعتِ حکم کے تحت تو اس کی تعمیل ضروری تھی ہی ، اتفاق سے اس کی ایک نطیر خود عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ملتی ہے جو ناظرین کی دلچسپی اور ایمان کو مستحکم کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے ۔ جمادالثانی 8 ھ میں جہاد کے لیے ایک لشکر مدینہ طیبہ دس منزل کے فاصلہ پر لخم وجزام کے قبائل مقابلہ کے لیے بیھجا گیا تھا جس کے امیرحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے اس عزوہ میں دشمن کےسپاہوں نے پوری فوج کو حلقئہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے ۔ اسی لیے یہ غزوہ '' ذات السلاسل '' کے نام سے موسوم ہے ۔ ( یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی دور صحابہ میں اس کے بعد ہوئی ہے ) ۔
حدیث مشہور کتاب جمع الفوائد میں معجم کبیر طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس غزوہ ذات السلاسل میں امیر لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے اپنی فوج یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ ہی آگ جلایئں ۔
تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ بھاگتے ہوئی دشمن کا صحابہ کرام نے جو لشکر میں موجود تھے ، تعاقب کرنا چاہا مگر امیر لشکر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے تعاقب سے بھی منع کردیا ۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم ہی ناگواری تھی ،کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوارہ گزرا، مگر اطاعت امیر کی بناء پر تعمیل لازمی تھی ، اس لیے ان دونوں احکامات کی بلا چون و چرا پابندی کی گئی ۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) بلا کروجہ دریافت فرمائی ۔
حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ (عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی تھی ، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلتِ تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے اور اس کا حوصلہ نہ بڑھ جائے ۔ اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی تو وہ کہیں لوٹ کر ان پر حملہ نہ کردے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس جنگی تدبیر اور عمل کو پسند فرما کر اس پر اللہ تعالٰی کا شکر آدا کیا ۔
جہاد عام حالات میں فرضِ کفایہ ہے
فرض کفایہ اصطلاحِ شرع میں اس فرض کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق ہر مسلمان کی ذات سے نہیں بلکہ پوری مسلم قوم سے ہے ۔ اسے فرض کا یہ حکم ہے کہ مسلمانوں سے چند آدمی اس فرض کو پورا کردیں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بھی آدا نہ کرے تو جن جن لوگوں کو اطلاع پہنچے اور قدرت کے باوجود ادا نہ کریں ، وہ سب گنہگار ہوں گے ۔
مثال کے طور پر مسلمان میت کی نمازِ جنازہ اور کفن دفن کا انتظام ہے کہ یہ فریضہ پوری قومکی ذمہ ہے ، عزیز قریب اور برادری کے لوگ اگر اس فریضے کو ادا کریں تو باقی سب مسلمان سبکدوش ہوگئے اور میت کا کوئی ایسا عزیز قریب موجود نہیں یاموجود ہوتے ہوئے عاجز ہے یاجان بوجھ کر غفلت کرتاہے تو محلے کے دوسرے لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اس کو انجام دیں ۔محلے والے بھی نہ کریں تو شہر کے دوسرے لوگوں پرجن کو اطلاع ملے یہ فریضہ عائدکیا جائےگا ۔شہر والے بھی نہ کرے تو اس کے متصل دوسرے شہر والوں پر عائد ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے جتنے بھی اجتماعی فرائض واجبات ہیں سب فرضِ کفایہ ہیں اور ان کا بھی یہی حکم ہے ۔
احکامِ دین کی تعلیم و تبلیغ ، ضرورت کے مطابق مسجدوں کی تعمیر اور دینی تعلیم کے مدرسوں کا قیام ،مختاجوں ، یتیموں اور غریبوں کی ضرورت پوری کرنے کےلیے مختاج خانے ، یتیم خانے وغیرہ قائم کرنا ، ناواقفوں کو احکام شرعیہ بتلانے کے لیے فتوی دینے کے کا اِنتظام ، امر بالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا انتظام ، اسلام کے خلاف اسلام کے دشمنوں یا گمراہوں کی طرف سے شبہات وتحریفات کے جوابات کا انتظام ، اسلام کا کلمہ بلند کرنے اور معاند دشمنوں کو زیر وزبر کرنے کے لیے جہاد ۔
یہ سب امور وہی ہیں جن کا تعلق پوری مسلم قوم سے ہے اور یہ اجتماعی فرائض ہیں ۔ ایسے فرائض کو عین حکمت کے مطابق حق تعالٰی نے ہر شخص پر فرضِ عین نہیں کیا بلکہ پوری قوم کے ذمہ لگا دیاہے تاکہ وہ تقسیم کے ذریعہ ان سب فرائض کو آسانی سے ادا بھی کرسکیں اور اپنی معاشی ضروریات اور عینی فرائض کی ادئیگی کےلیے بھی ان کو فرصت مل سکے ۔
پوری قوم میں سے جس قدر آدمی ایک کام کی ضرورت کو پورا کر سکیں اور وہ اس کام کیں لگ جائیں تو باقی پوری قوم اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتی ہے ۔
بعض تعلیم دین کے لیے مدارس کا انتظام کریں۔ بعض فتویٰ اور تصنیف کی ضرورت پوری کریں ۔ بعض مساجد کے قیام وانتظام میں لگیں ، بعض یتیم خانے ، مختاج خانے ، شفاخانے وغیرہ بنانے کا کام کریں ۔ بعض قلم اور زبان کا جہاد کرکے مخالفین اسلام کے جوابات دیں ۔ بعض جہاد وقتال کے فرائض کو انجام دیں ۔
جہاد وقتال کے بارے میں حق تعالٰی کا واضح ارشاد ہے :۔
فضل اللہُ المجاھِد ین باموالھم وانفسھم علی القاعدین درجۃً ط وکلاً وعداللہ ا لحسنی وفضل اللہ المجا ھدین علی القاعدین اجراً عظیما ط
( سورئہ نساء پ : 5 ۔ ع: 13 )
ترجمہ :۔ اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کا درجہ بہت بلند بنایاہے جو اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں بہ نسبت گھر بیٹھنے والوں کے اور سب سے اللہ تعالٰی نے اچھے گھر کا وعدہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی نے مجاہدین کو بمقابلہ گھر میں بیٹنے والں کے اجر عظیم دیا ہے ۔
اس آیت نے واضح طور پر بتلا دیاہے کہ اگر چہ جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے مگر جو لوگ دوسرے کاموں کی وجہ سے خود کو جہاد میں شریک نہ کرسکیں ان سے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جہاد اپنی اصل عام قومی فرائض کی طرح فرض کفایہ ہے ۔
دو سر ی آیت ماکانَ المؤمنونَ لینفرُواکآ فۃ میں بھی یہ بتلاگیاہےکہ جب بھی مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کیلیےکافی ہوتوسب پرجہادواجب نہیں رہتا۔
فرضِ کفایہ بعض اَوقات فرضِ عین ہوجاتاہے،
اگرکوئی قومی فرض جوعلی الکفایہ سب کےذمہ فرض ہے،اسکےاداکرنیوالی کوئی جماعت موجودنہیں ہےیاموجودہوتے ہوئےسستی یاغفلت کررہی ہےیااس کی تعداداورسامان اس فریضےکی ادائیگی کےلیےکافی نہیں ہےتواُن سےقریب کےمسلمانوںپرفرضِ عین ہوجاتاہےکہ وہ اِس فریضےکواداکریں اوراگراداکرنےوالوں کوجانی یامالی امدادکی ضرورت ہوتواس کوپورا کریں۔
قریب کے مسلمانوں نے بھی غفلت برتی یا وہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہوئے تو ان سے قریب کے شہروں اور دیہات میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر فریضہ عائد ہو جا ئیگا ۔ اسی طرح جس قدر جانی یا مالی امداد کی ضرورت پیش آتی جائے گی ، نزدیک سے لے کر سب مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہو تا چلا جائے گا ۔ صرف بچے ، بوڑے ، بیمار ،نادار اور اپاہچ لوگ اس فرض سے مستثنٰی ہوں گے ۔ (ہدایہ ، بدائع )
جہاد کب فرضِ عین ہوجاتا ہے ؟
جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لیے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں ، شریک ہوں ، تو سب پر جہاد کے لیے نکلنا فرضِ عین ہو جا تا ہے ۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے ۔
غزوہ تبوک میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکمِ عام جاری فرمایا تھا اسی لیے جو لوگ اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان پر سزائیں جاری کی گئیں ۔
مسائل متفرقہ !
مسئلہ :۔ یہ ضروری نہیں کہ شہر کا حاکم وامیر جو اعلان جہاد کرے ، متقی ، پرہیزگار یا عالم ہی ہو ، جو بھی مسلمان حاکم ہو ، جب ایسے حکمِ عام کی ضرورت محسوس کرے، یہ حکم دے سکتا ہے ، اور سب مسلمانوں کو اس کا یہ حکم ماننا فرض ہے ۔ ( فتح ا لقدیر۔ ص : 280 ۔ ج: 4 )
فائدہ :۔ اس میں شبہ نہیں کہ امیرِ جہاد کا عالم ومتقی ہونا بہت بڑی نعمت ہے اور فتح کا بہت بڑا سامان ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کو امیر ِ جہاد مقرر فرماتے تو اس کو وصیت فرماتےتھے کہ خود بھی تقوےٰ اختیار کریں اور اپنے سپاہیوں کو بھی اس کی تلقین کریں اوریہی مسلمان کا وہ اصلی جوہر ہے جو دنیاکے کسی طاقت سے مغلوب نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ ہے مگر عملِ جہاد کے لیے شرط نہیں ۔
جہاد ہرمسلمان امیر وحاکم کے ساتھ ضروری اور اس کے جائز احکام کی تعمیل واجب ہے ۔
مسئلہ :۔ جہاد جب فرضِ کفایہ ہو تو بیٹے کو ماں باب کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں کیونکہ ان کی خدمت اور اطاعت فرضِ عین ہے ۔ وہ فرض کفایہ کی وجہ سے ساقط نہیں ہوسکتی ۔
اسی طرح عورت کا شوہر کی اجا زت کے بغیر جہاد کے کام میں لگنا جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صو رت میں جائز نہیں۔ البتہ اگر دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے مسلمان حاکم وقت سب کو جہاد میں لگنے کا حکم جاری کردے اور جھاد فرضِ عین ہوجائے تو پھر بیٹا ماں باپ کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اپنے اس فرض کو پوراکرے۔ (بدئع۔ ص : 98 ۔ ج: 7 )
مسئلہ:۔ میدان جہاد سے بھاگنا انتہائی سخت گناہ اور غضبِ الہی کا سبب ہے ۔ قرآن کریم میں ہے :۔
یاا یھاا لذین اٰ منو اذا لقیتم الذین کفرو ا زحفاً فلا تولوھم الادبار ط
ترجمہ : اے ایمان والوں ! جنگ میں کافروں سے تمھارا مقابلہ ہو جائے تو ان سے پشت نہ پھیرو ۔
اور فرمایا گیا :۔
ومن یولِھم یومئذ ٍ دبرہٗ فقد باء بغضبٍ من اللہِ ط
ترجمہ :۔ اور جس نے اس دن کافروں سے پشت پھیری تو اللہ کا غضب لے کر لوٹا۔
مسئلہ :۔ ہاں ! اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ مجاہدین کو حالات سے اس کا پورا اندازہ ہوجائے کہ اگر ہم اس وقت لڑیں گے تو ہم سب فناہ ہو جائے گے اور دشمن کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے ۔ ایسے وقت ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے کمک حاصل کرنے اور تیاری کے بعد لڑنے کی نیت سے اس وقت میدان چھوڑدیں اور پھر دوسرے مسلمانوں کی امداد اور سامان کی تیاری کے ساتھ دوبارہ مقابلہ پر جائیں ۔ اس کا مدار مجاہدین کی تعداداور سامان کی کمی یا زیادتی پر نہیں ، بلکہ محاذِ جنگ کے مجموعی حالات اورتجربہ پرہے۔تجربہ ہی سےاس کافیصلہ کیاجاسکتاہےکہ اس مقام پرلڑنامفیدہےیاپیچھےہٹنا۔قرآن مجیدمیںایسےہیحال کےمتعلق ارشادہے:۔
وَمَن یولھم یومئذ ٍ دُبرَہ اِلاّمتحرِفاً لقتاَلٍ اَومتحیزًااِلیٰ فئۃٍ فقدباَبغضبٍ من اللہِ
ترجمہ:۔اورجس نےاس دن کافروں سےپشت پھیری بجزجنگی چال کے،یامسلمانوں کےکسی گروہ سےملنےکےلیےتو اللہ کا غضب لےکرلوٹا۔
اس سےمعلوم ہواکہ جنگی تدبیرکےلیےیادوسرےمسلمانوں سےامدادحاصل کرنےکےلیےپیچھےہٹنےکی خاص حالات میں اجازت دی گئ ہے۔جب مقصودبھاگنانہ ہوبلکہ؛ دوبارہ؛ حملہ کرناہو۔
تنبیہ:۔صاحبِ بدائع نےفرمایاکہ اس سےیہ بھی معلوم ہوگیاکہ قرآنِ کریم میں یہ ارشادہے:۔
اِن یکن منکم عشرُونَ صاَ برُونَ یغلبواماِ ٔتینِ وَاِن یکن مأِۃ یغلبوااَلفاً۔
ترجمہ:۔اگرتم میں سےبیس آدمی ثابت قدم رہنےوالےہوں تودوسوپرغالب آجائیں گےاوراگرتم سوہوتوہزارپرغالب آجاؤگے۔
''یہ آیت منسوخ نہیں۔آج بھی ایساہوسکتاہے۔''چنانچہ پاکستان کےسابقہ جہادمیں خصوصاً لاہورکےمحاذپرتوایسامشاہدہ ہواکہ دشمن کوبھی اس سےانکارنہیں ہوسکتاکہ مسلمانوں کی بہت تھوڑی سی تعدادنےدشمن کی ٹڈی دل فوج کا حملہ روکااوراس پرفتح پائی۔
اگراس کاامکان غالب نظرآئےکہ تھوڑی تعدادیاکم سامان کےباوجودمسلمان غالب آسکتےہیں تومحض تعدادکی کمی کی وجہ سےپیٹھ پھرناجائزنہیں ہوگا۔
مسئلہ :۔ جو عورتیں ، بوڑھے یا بچے جنگ میں جاسوسی کا کام کریں یا دوسرے طریقوں سے جنگ میں حصہ لیں ، ان کو حالتِ جنگ میں قتل کیا جائے گا تاکہ ان کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں ۔
لیکن اگر بچے قید ہو جائے تو قید ہونے کے بعد ان کا قتل جائز نہیں ، خواہ انہوں نے جنگ میں کھلے طور پر حصہ لیاہو ، کیونکہ گرفتار کرنے کے بعد ان سے کوئی خطرہ نہیں رہا ۔ اب اگر قتل کیا جائے تو ان کے پچھلے عمل کی سزا میں قتل کیا جائے گا اور بچوں پر سزا جاری کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
مسئلہ:۔ جہاد میں اگر کسی مسلمان کا کافر باپ سامنے آجائے تو جب تک وہ حملہ نہ کرے بیٹے کو اس پر حملہ کرنا جائز نہیں ۔ کیونکہ قرآنِ کریم کی ہدایت یہ ہے کہ دنیا میں کافر ماں باپ کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرو، ان کی خدمت وخبر گیری کرو ۔ اس لیے جہاد کے وقت بھی ابتداً ان کا قتل کرنا جائز نہیں ۔
حضرت خنظلہ رضی اللہ عنہ (عنہم) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کافر باپ کے قتل کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ۔ البتہ اگر باپ ہی بیٹے پر حملہ کردے اور اس حملہ سے اپنی جان بچانا بغیر اس کے ممکن نہ ہو کہ باپ کو قتل کرے تو اسکو اپنی حفاظت کرنا چائیے ، خواہ اس میں باپ کا قتل ہی واقع ہو جائے مگر یہ باپ کو قتل کرنے کا ارادہ نہ کرے ۔ ( بدائع ، ص 102 ۔ ج 7 )
مسئلہ :۔ جہاد میں جانے کے وقت اپنے ساتھ قرآنِ کر یم تلاوت کے لیے ایسی صورت میں لیجانا جائز ہے جبکہ مسلمانوں کی قوت مستحکم ومظبوط ہو ، شہید یا قید ہو نے کا خطرہ کم ہو اور جہاں یہ خطرہ قوی ہو تو قرآن کو اپنے ساتھ نہ رکھے ۔ اس میں بے ادبی کا خطرہ ہے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی زمین پر قرآنِ کریم لیجانے کو جو منع فرمایاہے ، وہ ایسی ہی حالت سے متعلق ہے ۔ ( بدائع )
مسئلہ :۔جنگی قیدی جو مسلمان کے ہاتھ آجائیں ، ان کو بھوک ، پیاس، وغیرہ کی تکلیف دینا جائز نہیں ۔ (بدائع )
مسئلہ :۔ کافر قیدیوں سے اپنے مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کرلینا جائز ہے ۔ ( علیٰ قول الصاحبین ، بدائع )
مسئلہ :۔ جہاد میں جن لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے ، ان کا بھی مثلہ کرنا یعنی ناک، کان وغیرہ کاٹنا شرعاً جائز نہیں ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
مسئلہ :۔ دشمن قلعہ بندی ہوجائے یا کسی محفوظ مکان میں داخل ہو کر دروازے بند کرلے تو اس کو ہتھیار ڈالنے اور اطاعت قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ اس کو نہ مانے تو آگ لگا کر یا پانی میں غرق کرکے یا دوسرے طریقوں سے قلعہ اور مکان کو منہدم کر دینا بھی جائز ہے ۔ (بدائع )
مسئلہ :۔ دشمن اگر قلعہ بند ہو جائے اور یہ معلوم ہو کہ دشمن کے ملازموں میں کچھ مسلمان بھی ہیں تو ان کی وجہ سے دشمن کے مقابلے میں کوئی رعایت نہ کی جائے گی البتہ اگرمسلمانوں کو بچا سکتے ہیں تو بچانے کی فکر کریں ، ورنہ دشمن کو تباہ کرنے کے قصد سے گولہ باری کریں ۔ جو مسلمان اس کی زَد میں بلا اختیار آجائیں وہ معاف ہے ،کیونکہ کافروں کاکوئی شہراور بستی اس سے خالی نہیں ہوتی کہ کوئی مسلمان قیدی یاملازم وغیرہ انکےپاس ہو،اگران کی رعایت سےدشمن کامقابلہ چھوڑدیا جائے توجہادکا دروازہ ہی بندہوجائے۔(بدائع ضائع،ص100،ج7)
مسئلہ:۔ یہی صورت اس وقت بھی کی جائے گی جبکہ دشمن اپنے آپ کو بچانے کے لیے مسلمان قیدیوں یا بچوں کو آگے کردے ۔ اس وقت بھی اگر مسلمانوں کو بچانے کی کوئی صورت نہ رہے تو دشمن پر حملہ کی نیت سے مقابلہ کیا جائے اور جو مسلمان اس کی زد میں آجائیں وہ معاف ہے ۔ (بدائع )
مسئلہ :۔ عین حالتِ جنگ وقتال میں بھی ایسے کافروں کو قتل کرنا جائز نہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے ۔ مثلاً چھوٹے بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، اپاہج ، اندھے ، دیوانے ، مندروں اور عبادت خانوں میں مشغولِ عبادت رہنے والے ، بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میدانِ جنگ میں کسی کافر عورت کو مقتول پایا تو بہت افسوس کا اظہار فرما کر فرمایا کہ یہ تو جنگ کرنے والی نہ تھی ، اس کو کیوں قتل کیا گیا ؟
چہل40حدیث۔۔۔۔۔فضائل جہاد،
جہاد کے فضائل ومسائل سے متعلق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی روایات حدیث اس کثرت سے منقول ہوئی ہیں کہ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہو جائے ۔ اس جگہ ان میں سے صرف چالیس حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ۔ اس عدد میں ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں یاد کرکے میری امت کو پہنچا دے ، اس کا حشر قیامت کے دن علمائ مقبولین کے ساتھ ہوگا ۔ اس برکت کو لکنھے والا بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس کو چھاپ کر شائع کرنے والابھی ۔
حدیث نمبر 1 :۔عن معاذ ا بن جبل فی حدیث طویل قال قال رسول ِ صلی اللہ علیہ وسلم رأس الامر الاسلام وعمودہُ الصلوٰۃ وذروۃ سنا مہ الجھاد۔ ( رواہ احمد والترمذی از مشکوٰۃ )
ترجمہ :۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (عنہم) ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ''اصل کام اسلام ہے اور اسلام کا عمود جس پر اس کی تعمیر قائم ہے ، نماز ہے اور اس کا اعلی مقام جہاد ہے"۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی عزّت وقوت جہاد پر موقوف ہے ۔ جب وہ جہاد چھوڑدیں گے ، ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے ۔
حدیث نمبر 2:۔ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم مثل المجاھدین فی سبیلاللہ کمثل الصائم ا لقائم ا لقانت بآیات اللہ لا یفتر من صیام ولا صلوٰۃ حتٰی یرجع المجا ھدین فی سبیل اللہ ۔ ( بخاری ومسلم )
ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے لیے جہادکرنیوالے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا رہے اور رات بھر تہجد کی نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے ۔ نہ کسی دن روزہ میں سستی کرے اور نہ کسی رات نماز میں ، اور مجاہد کو یہ فضلیت اس وقت تک برابر حاصل رہے گی جب تک وہ لوٹ کر اپنے گھر نہ آجاوے ۔