مضراب: ایک نثری مناجات

۔۔۔مضراب۔۔۔

غیر کے غم سے چھڑا اپنی گلی کا کر دے
مجھ کو اک گیت بنا ایک صحیفہ کر دے
نطق نوری کا بنوں کوئی وظیفہ کر دے
تجھ سے میں دور سہی شاملِ حال تو کر
نظرِ مقہور سہی اک نظر ڈال تو پر
مجھ پہ الزام لگا نذرِ زلیخا کر دے
صبرِ ایوب نہ دےؑ
گریہِ یعقوبؑ نہ دے
یونسؑ کا تیقن ہی سہی
لاجِ ندامت رکھ لے
شکمِ ماہی کو سفینہ کر دے
تابانیِ رحمت کی ضیا پاش ہو پھر
معاف آدم کی خطا کاش ہو پھر
قُم سے مسیحائی کرے ابنِ مریمؑ کوئی
زندہِ جاوید یہ گلتی ہوئی لاش ہو پھر
خوگرِ حبس تنِ مردہ کو مرے
مائلِ دمِ عیسیٰؑ کردے
غیر کے غم سے چھڑا اپنی گلی کا کر دے
ہاں سہی خاکِ خراباں ہی سہی
ہاں سہی چاکِ نگاراں ہی سہی
ہاں سہی آکِ خیالاں ہی سہی
مجھ کو چھو لے کسی پارس کی طرح
عشق کی بھٹی میں تپا خاک کو سونا کر دے
زیبائی انگشت کی دے کر اپنی
سنگِ احقر کو نگینہ کر دے
اس طرح مستور نہ ہو
مجھ سے محجوب نہ ہو
ہاں مرے محبوب نہ ہو
نظر پر شوق کو پھر تابِ چراغاں دے دے
زہدِ خشک کو پھر ذوقِ بہاراں دے دے
کم نگاہی کو مری بے نگاہی سے بچا
شب دیجور کو پھر دیدہِ بینا کر دے
غیر کے غم سے چھڑا اپنی گلی کا کر دے

عاصمؔ شمس
 
Top