مسرور تھے کیا کیا روز ازل سمجھے تھے ہمیں غم کیا ہو گا

یوسف سلطان

محفلین
مسرور تھے کیا کیا روز ازل سمجھے تھے ہمیں غم کیا ہو گا
اب قصۂ جنت سامنے ہے اے حضرت آدم کیا ہو گا

وہ شامِ الم آنے سے رہے اب دردِ جگر کم کیا ہو گا
باقی ہیں سحر میں چار پہر اے خالقِ عالم کیا ہو گا

کیا فائدہ بلوانے سے اسے کہہ دے گا مجھے فرصت ہی نہیں
جو بزمِ طرب میں بیٹھا ہو وہ شاملِ ماتم کیا ہو گا

یہ رنج تو ہم سے پوچھ کہ ہم گلزار سے لٹ کر آئے ہیں
اللہ ترے گھر کو رکھے صیاد تجھے غم کیا ہو گا

ہم اپنا سمجھتے تھے جن کو وہ دشمن بنتے جاتے ہیں
اتنا تو زمانہ برہم ہے اب اور بھی برہم کیا ہو گا

اس وقت حقیقت سمجھے ہیں جب پیاس بجھی ہے غنچے کی
کہتے ہیں چمن والے ورنہ اک قطرۂ شبنم کیا ہو گا

جب بانیِ محفل ہو ناحق پھر محفل والے کن میں ہیں
جب شمع کے رونے والے نہیں پروانوں کا ماتم کیا ہو گا

کیسے یہ مسلمانوں سے کہوں اب ان کی زبانیں بند کرو
اسلام کے دشمن کہتے ہیں اسلام منظم کیا ہو گا

مہمان بلا کے شب کو انہیں اس وقت تو خوش بیٹھے ہو قمرؔ
جب صبح کا تارہ چمکے گا اس وقت کا عالم کیا ہو گا

استاد قمر جلال آبادی​
 
آخری تدوین:
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top