مست ہیں ہم خراب حالی میں - حکیم سید ضامن علی جلال لکھنوی

حسان خان

لائبریرین
مست ہیں ہم خراب حالی میں
خوش ہیں رندانِ لاابالی میں

رشکِ یوسف ہیں خوش جمالی میں
شہرہ اُن کا ہے بے مثالی میں

ٹھوکریں اُن کی کھائے جا اے دل
سرفرازی ہے پائمالی میں

اپنی کشتِ عمل ہے کیا سرسبز
لاکھ دانے ہیں ایک بالی میں

کیوں نہ بے فیض ہوں یہ زاہدِ خشک
خاک اُڑتی ہے خشک سالی میں

سجدے کرنے سے بھی نہیں ملتی
بار اُس بارگاہِ عالی میں

لاکھ کیفیتیں بھری ہیں یہاں
تیرے مستوں کے جامِ خالی میں

شوخیاں تجھ سے بڑھ کے پاتے ہیں
ہم ترے شاہدِ خیالی میں

سب ہمارے گِلے تمام ہوئے
شبِ وصل اُن کی ایک گالی میں

کھینچ سکتا ہے کون اُس کی شبیہ
فرد ہے یار بے مثالی میں

پرِ بلبل جو کاٹتا صیاد
خوب کٹتی فراغ بالی میں

یا رب اُس سے عدو ہے ہم بستر
ڈال دے جان شیرِ قالی میں

مدعیِ کمال سب ہیں جلال
ہم کو دعویٰ ہے بے کمالی میں

(حکیم سید ضامن علی جلال لکھنوی)
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top