اقتباسات مزید حماقتیں از شفیق الرحمٰن سے

یاز

محفلین
ذیلی اقتباس اس کتاب کے پہلے باب یعنی "تزکِ نادری" سے لیا گیا ہے۔

حملہ آوری اور برادر محمد شاہ کی ہماری ذات سے عقیدت
صبح سے محمد شاہ اپنا لشکر لے کر سامنے آیا ہوا تھا، مگر ابھی تک سعادتِ زیارت سے مشرف نہ ہوا تھا۔ دوپہر کو ایک ایلچی رنگین جھنڈا لہراتے ہوئے آیا اور معروض ہوا کہ "محمد شاہ صاحب نے دریافت کیا ہے کہ حملہ کرنے کا کس وقت ارادہ ہے؟" ہم نے پوچھا "ابے حملہ کیسا؟" ایلچی نے عرض کیا "خداوندِ نعمت وہ تو عرصے سے آپ کے حملے کے منتظر ہیں۔ اتنے دنوں سے تیاریاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر حملہ نہ ہوا تو سب کو سخت مایوسی ہو گی۔ کل بارش کی وجہ سے لشکر اکٹھا نہ ہو سکا۔ اور پھر یہ رسم چلی آتی ہے کہ درہ خیبر سے آنے والے۔۔۔"
"بس بس! آگے ہمیں پتا ہے۔" ہم نے اسے ڈانٹا۔
مجبوراََ ہم نے حملے کا حکم دے دیا، لیکن لڑائی کا لطف نہ آیا۔ وہ لوگ فوراََ تتربتر ہو گئے۔ہم شہر کے بڑے دروازے میں داخل ہوئے تو عزیزی محمدشاہ نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ گھوڑے سے اتر کر بغل گیر ہوئے۔ اس کے بعد دو دن تک محمد شاہ کا کوئی پتا نہ چلا۔
دلی میں داخل ہو کر ہم نے اور بندگانِ درگاہ نے خوب دادِ عیش دی کہ شیوہِ سیاحاں ہے۔

ہنوز دلی دور است
اس فقرے کو ہم نے اہلِ دلی کا تکیہ کلام پایا۔جب ہم خیبر میں تھے تو سنا تھا کہ ہمارے لئے ہنوز دلی دور تھی۔جب لاہور پہنچے تب بھی دور رہی۔ لال قلعے میں پہنچ کر بھی لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ اچھا بھئی چلو دلی دور است۔ بس!

ہندی کلچر
ہندی کلچر کی بے حد تعریفیں سنی تھیں۔ چنانچہ دیکھنے کا شوق تھا (حملے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی۔ فرمانبردار خان کو وقت پر سوجھتی نہیں)۔
عزیزی محمد شاہ سے ذکر کیا۔ وہ بولا کلچر کا تو پتا نہیں ہے۔ آپ نے ایگری کلچر سنا ہو گا۔ وہ البتہ مشہور ہے۔ ہم مُصر ہوئے تو کہنے لگا سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کیجئے۔ ویسے ہمارے ہاں چند ایک باتیں واقعی شہرہ آفاق ہیں۔ ایک تو یہی قدیمی دواخانے، جن کے اشتہار آپ چپے چپے پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے قدیم روایات جن کے لئے بھیس بدل کر شہر میں چلنا ہو گا۔ چنانچہ ہم دونوں گئے۔ ایک جگہ ایک شخص (جو کہ مدرس تھا) بھینسوں کے آگے بین بجا رہا تھا اور بھینسیں متوجہ نہیں تھیں۔ ایک سیاسی جلسے میں بہت سے حضرات اپنے سامنے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ رکھے عبادت میں مشغول تھے۔ وہیں ایک شخص باغیرت معلوم ہوتا تھا۔ چلو میں پانی لئے، ناک ڈبونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک جگہ دو حکامِ شہر ایک پرندے کو کھینچ کر سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پرندہ الو تھا۔ ایک نہایت ضعیف بزرگ قبر کے کنارے پاؤں لٹکائے نوجوانوں پر تنقید کر رہے تھے۔ محمد شاہ کے متعلق تو ہم کہہ نہیں سکتے، البتہ ہم ازحد محظوظ ہوئے۔

( مزید حماقتیں از شفیق الرحمٰن سے اقتباس)
 

یاز

محفلین
کچھ مزید
سفر کا حال
دریائے سندھ عبور کرنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ سید بایزید ابنِ یزید یزدانی آستان بوسی کی سعادت کے متلاشی ہیں۔ جب بلایا تو دیکھا کہ فقط ایک آدمی تھا۔ ہم نے ازراہ تلطف اسے گلے لگا لیا اور پیار سے بھینچا۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے فوراََ باہر لے گئے۔ لخلخہ سنگھایا گیا اور مالش کی گئی۔ کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو وہ نذریں جو پیش کرنے لایا تھا لے کر رفوچکر ہوا۔ ہم نے اہلکاروں کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اگر خود نہیں آتا تو نذریں تو بھجوا دے، مگر اس کا کوئی پتا نہ چلا۔
قلعے کا فوجدار ہماری سواری کو ایک عجیب و غریب چوپایہ لایا، جسے ہاتھی کہتے ہیں۔ نہایت پرشوکت فیل جسم جانور ہے۔ اس کے دو دانت ہوتے ہیں، جو صرف دکھانے کے لئے ہیں۔ ناک جس کو سونڈ کہا جاتا ہے، زمین کو چھوتی ہے۔ہاتھی پر چڑھ کر آدمی دوسروں کے گھروں کے اندر سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ ہم نے سواری کا قصد کیا اور باگ ہاتھ میں لینی چاہی۔وہ بولا اس کی لگام نہیں ہوتی۔ ڈرائیور الگ بیٹھتا ہے۔ ہم نے ایسے بے لگام جانور پر سواری سے انکار کر دیا۔

اخترشماری
کل رات اخترشماری کی۔ دو سو پچاسی تک گنے ہوں گے کہ نیند آ گئی۔ باقی بشرطِ زندگی کل گنیں گے۔

شُترغمزے
مقامی قلعہ دار کی دعوت پر اس کے ساتھ گئے اور شُترغمزے ملاحظہ فرمائے۔ کافی محظوظ ہوئے کیونکہ ایران میں یہ چیز نہیں ہوتی، اور اس ملک میں عام ہے۔
 

یاز

محفلین
لاہور سے روانگی
چاہئے تو یہ تھا کہ ان علاقوں میں چند روز رہ کر دادِ عیش و کامرانی دیتے، مگر یہاں کی پرانی رسم ہے کہ وہ سیاح جو درہ خیبر سے آتے ہیں، انہیں سیدھا دلی جانا پڑتا ہے۔ راستے میں کہیں نہیں ٹھہر سکتے۔
جہلم،چناب اور راوی عبور کر چکے تھے۔ ستلج کو عبور کیا اور پنجاب کے پانچویں دریا کو بہت ڈھونڈا۔ خبر ملی کہ بیاس تو پہلے ہی ستلج سے مل چکا ہے۔ سخت مایوسی ہوئی۔ مصاحبین نے دست بستہ عرض کی کہ اہلِ ہند کا دستور ہے کہ حملہ آوروں سے اس علاقے میں ضرور لڑتے ہیں۔ اس کے لئے پانی پت، تراوڑی وغیرہ کے میدان مخصوص ہو چکے ہیں۔ ہم نے فرمایا کہ لڑیں تو تب اگر مقابلے میں کوئی فوج آئی ہو۔ معلوم ہوا کہ حملہ آوروں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اہلِ ہند اگر اس علاقے میں نہ لڑیں، تو پھر کہیں نہیں لڑتے۔
محمد شاہ کو ہماری تشریف آوری کا علم ہو چکا تھا۔ ایک مرتبہ تو اس نے ایلچی کو خط اور لفافے سمیت شراب کے مٹکے میں دھکیل دیا اور بولا "ایں ایلچی بے معنی غرقِ مے نابِ اولیٰ"۔ کسی طبلچی نے حافظ کا یہ مصرعہ صحیح کرنا چاہا، تو محمد شاہ نے اسے بھی مٹکے میں دھکیل دیا۔ آدمی باذوق معلوم ہوتا ہے۔
 

یاز

محفلین
ابتدائیہ از سفرنامہ جہاز باد سندھی کا
بسم اللہ، دیباچہِ فسانہ نغمہ زنی عندلیبِ خانہ رنگیں ترانہ، راست براست، بلا کم و کاست۔ یعنی تذکرہ جہاز باد سندھی عفی عنہ
اے صاحبو! خدا آپ کا بھلا کرے۔ مدتِ مدید و عرصہِ بعید کا ذکر ہے کہ ایک سہ پہر کو ایک نوجوانِ نحیف و نزار (کہ جسے نوجوان سمجھنا نری خوش فہمی تھی) کافی ہاؤس کے دروازے پر زندگی سے بالکل بیزار کھڑا تھا۔ نام اس دراز قد کا جہاز باد تھا۔ تخلص سندھی اور لقب خود۔ حلیہ اس کا فاقہ زدہ تھا اور سر کے بال ماڈرن خواتین کے بالوں سے بھی لمبے تھے۔ ناک پر ایک شکستہ عینک زندگی کے دن توڑ رہی تھی۔ شیو اس نے ہفتے بھر سے نہیں کروایا تھا۔ بغل میں اس کے کاغذوں کا ایک پلندہ تھا۔ پوشاک اس کی ایسی تھی کہ گماں تک نہ ہوتا کہ اس نے پوشاک کو پہن رکھا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پوشاک ہے جو اسے پہنے ہوئے ہے۔
ظاہر ہے یہ نوجوان انٹلیکچویل طبقے سے متعلق تھا۔۔!
 

یاز

محفلین
جہاز باد سندھی کا پہلا سفر


"خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مر ود معمار کج"​
"یہ ان دنوں کا ذکر ہے۔۔" (جہاز باد سندھی) کلاں گویا ہوا۔ "کہ جب یہ خاکسار نیا نیا جوان ہوا تھا۔ ان دنوں جے۔باد سندھی کہلاتا تھا۔ بعد میں جے۔بی۔سندھی ہو گیا۔ اس علاقے میں کئی اور جے۔بی۔سندھی بھی تھے۔ چناں چہ کلاں کا اضافہ کیا۔ ناچیز کو فنونِ لطیفہ، فنونِ لطیفہ شناسی، فنونِ حرب و ضرب، فنونِ جمع و تفریق میں خاصی شُدبُد تھی۔موسیقی میں وہ مہارت تھی کہ شدھ سارنگ، شدھ کلیان، مکردھوج۔۔سب بخوبی گا سکتا تھا۔ لیکن طبیعت میں اس بلا کی سادگی تھی کہ ایک بھیڑیئے کو السیشن کتا سمجھ کے پکڑ لایا اور کئی دنوں تک ساتھ ساتھ لئے پھرا۔ جب غلطی کا احساس ہوا تو ایک بھیڑ کے ہمراہ اسے رخصت کیا۔ سیب کے درخت کو تبھی پہچان سکتا تھا اگر اس میں سیب لگے ہوں، ورنہ پھلوں یا پھولوں کے بغیر سارے پودے اور درخت میرے لئے یکساں تھے۔ نصیبِ دوستاں علیل ہوا تو طبیب نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر دیا۔ حقیر نے گلے میں باندھ لیا اور شفا پائی۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ تعویذ نہ تھا، نسخہ تھا۔ ایک مرتبہ سرمہ ملنے پر حکیم جی سے دریافت کیا کہ اسے کھانا کھانے سے پہلے استعمال کروں یا بعد میں۔ لغت میں قیلولے کے معنی دیکھے تو ہکا بکا رہ گیا۔ برسوں دوپہر کے کھانے کے بعد سویا کیا لیکن کبھی احساس تک نہ ہوا کہ ایسی معمولی سی حرکت کے نتائج قیلولے کی شکل میں برآمد ہوتے ہیں کہ قاف جس کا حلق میں فلک شگاف گونج پیدا کرتا ہے۔ جب فارغ التعلیم ہوا یعنی تعلیم نے مجھ سے فراغت پائی تو چند جانثاروں نے سیاست کی طرف رغبت دلائی۔ فدوی نے رجوع کیا اور رات دونی دن چگنی ترقی نصیب ہوئی۔ میری آتشیں تحریروں نے کئی جگہ لاٹھی چارج کرایا۔ متعدد مقامات پر جوتا چلا۔ کئی اخبارات ضبط ہو گئے۔ اس حیرت انگیز مقبولیت کی وجہ میرے دو جگری دوست تھے جو بے حد معمولی صلے کے عوض یہ سب لکھ دیا کرتے۔ لیکن فلکِ کج رفتار کو میری شہرت ایک آنکھ نہ بھائی اور دفعتاََ میری تحریریں تمام ہوئیں۔ چند ہی مہینوں میں خودغرض دنیا مجھے بھول گئی۔ محض میرے دوستوں کی وجہ سے۔۔۔"
"تو کیا آپ کے وہ دوست داعی اجل کو لبیک کہہ اٹھے۔۔؟"
 
Top