مزا اور مجبوری۔۔۔

سیما علی

لائبریرین
مزا اور مجبوری
عبد اللہ طارق سہیل
ایک بچی چھوٹی سی عمر کی، کوئی چار سال کی، ایک دوسری بچی اس سے بھی چھوٹی کو ساتھ لئے پھر رہی ہے۔ انہیں پانی چاہیے۔ ایک نل نظر آتا ہے۔ بڑی بچی اپنے ہاتھوں کا کٹورہ بنا کر اس میں پانی بھرتی ہے اور چھوٹی کو پلاتی ہے۔ یہ بڑی بچی، چھوٹی کی ماں ہے۔ کل رات تک یہ اس کی بہن تھی، لیکن رات کو بمباری ہوئی، ماں مر گئی۔ تب سے یہ اس کی ماں ہے۔ چھوٹی بچی پانی پئے جا رہی ہے، وہ کٹورے بھر بھر کر اسے پلا رہی ہے۔ چھوٹی کو اتنی پیاس کیوں لگی ہے؟۔ اس لئے کہ کھانے کو کچھ نہیں ملا، پانی پینے سے پیٹ بھرنے کا احساس ہوتا ہے۔ کھانے کو اس لئے کچھ نہیں ہے کہ کھلانے والی ماں مر گئی، کھانا لانے والا باپ بھی مر گیا۔ دونوں اکیلی ہیں، اکیلی اس لئے کہ دونوں بھائی بھی مر گئے۔ پانی پینے کے بعد بھی یہ ملبے سے اٹی سڑکوں پر گھوم رہی ہیں۔ گھر کیوں نہیں جاتیں؟۔ اس لئے نہیں جاتی کہ گھر رہا ہی نہیں۔ ان کی آنکھیں ان کے ذہن کی طرح خالی ہیں۔ انہیں نہ یہ پتہ ہے کہ کھانا کہاں سے ملے گا، نہ یہ پتہ ہے کہ اب جانا کہاں ہے نہ ہی یہ سمجھ سکتی ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے اور یہ ہی انہیں یہ علم ہے کہ آگے ہونا کیا ہے یا آگے کیا ہو گا۔ ایک خلا ہے جو خالی نہیں ہے، اذیت اور دکھ اور حیرت سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی حالت پر آپ دکھی نہ ہوں، دکھ بھرے یہ دن چند دن کے مہمان ہیں، اگلی بمباری ان دونوں ماں بیٹی کا دکھ بھی سمیٹ لے گی۔
یہ غزہ ہے اور یہاں ایسے منظر عام ہیں۔ ہزاروں بچے ہیں جن کے ماں باپ بہن بھائی سب مر گئے، مکان فنا ہو گئے۔ تکلیف زدہ بچوں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ ہسپتالوں کے فرش پر، اپنے ہی لہو میں نہائے ،زخموں سے چھلنی جسموں کے ساتھ پڑے ہوئے بچے جن کے آپریشن نہ ہوئے تو اسی طرح تڑپتے تڑپتے مر جائیں گے۔ ڈاکٹروں کے پاس آپریشن کے آلات تو ہیں لیکن انستھیزیا نہیں ہے۔ وہ ہوش و حواس والے بچوں کے اعضا کا ٹ رہے ہیں، نشتر لگا رہے ہیں، گوشت الگ کر رہے ہیں۔ یہ تکلیف بڑا آدمی بھی برداشت نہیں کر سکتا لیکن یہ بچے برداشت کر رہے ہیں۔ وہ اتنے بڑے ٹراما TRAUMA سے گزرے ہیں کہ دکھ درد تکلیف کے احساس کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔
یہ جنگ نہیں۔ جنگ بوسنیا میں ہوئی تھی، یہاں کوئی جنگ نہیں ہو رہی۔ بوسنیا میں بھی قتل عام ہوا تھا لیکن اور طرح کا۔ ایک محلّے کے سارے مسلمان، ماں باپ، بچوں سمیت اکٹھے کئے اس کو گولی سے مار ڈالا۔ کسی کو گھائل اور بسمل بنا کر ہی چھوڑا۔ یہاں جتنے مارے جاتے ہیں، اس سے زیادہ بسمل بنائے جاتے ہیں۔ ایسے زخم لگتے ہیں جن کے علاج کیلئے نشتر تو ہے پر دوا نہیں، نشتر کا لازمہ تلازمہ انستھیزیا بھی نہیں۔ بھوک ہے، کھانا نہیں، پیاس ہے پانی نہیں، قبر ہے، قبر کی تختی پر لکھنے کیلئے نام نہیں۔ کچھ دن پہلے ماں باپ نے بچوں کے ہاتھ اور پا?ں پر ان کے نام لکھنے کی مہم شروع کی تاکہ بمباری سے ان کے ننّھے لاشے بے شناخت ہو جائیں تو نام سے شناخت ہو جائے لیکن مسئلہ بہ بنا کہ کسی بمباری میں نام لکھی ہوئی ٹانگ یا بازو بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا ، نام کے الفاظ بکھر گئے اور کسی بمباری میں نام لکھا بازو تو مل گیا باقی جسم نہیں ملا۔
_____
یہ قتل عام کب ختم ہو گا۔ جب کوئی ملک چاہے گا کہ ختم ہو جائے ، تب ختم ہو گا۔ لیکن ابھی تک یہ چاہنے والا ملک کوئی سامنے نہیں آیا۔ عرب ممالک کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ غزہ کے جملہ باسی ختم ہو جائیں تاکہ روز کی اس کل کل بک بک سے جاں چھوٹے۔ قتل عام کی وہ شدید مذمت اس لئے کر رہے ہیں کہ مجبور ہیں۔ مجبور اس لئے ہیں کہ رائے عامہ مشتعل ہے، ایسے مذمتی بیان اس اشتعال کو قابو میں رکھے گی۔ غزہ کی یہ نام نہاد جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی اسرائیلی حکومت نے ایک دستاویز بنائی تھی کہ غزہ کی 20 کی 20 لاکھ آبادی کو مصر کے صحرائے سینا میں منتقل کرنا ہے۔ یہ دستاویزات سامنے آئی۔ مطلب حماس حملہ نہ کرتی تو بھی اس منصوبے پر عمل کرنا تھا۔ مسئلہ یہ بنا کہ مصر نے کمال بہادری سے یہ اعلان کیا کہ ایک بھی فلسطینی اپنی سرزمین میں آنے نہیں دیں گے چنانچہ مجبوری ہے۔ اسرائیل جو چھ چھ ٹن کے بم گرا رہا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔ وہ رات دن فاسفورس بموں کی بوچھاڑ کر رہا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔ مصر انہیں لے نہیں رہا، یہاں یہ رہ نہیں سکتے۔ پھر مسئلہ بموں کے ذریعے حل یا تحلیل نہ کرے تو اسرائیل اور کیا کرے۔
سب سے زیادہ لذّت پیوٹن اٹھا رہا ہے۔ پیوٹن ہی ہے جس کو نیتن یاہو اور بائیڈن سے بڑھ کر مزا آ رہا ہے۔ کل کا بیان ملاحظہ فرمائیے، کہا جو لوگ فلسطینیوں پر یہ ظلم ڈھا رہے ہیں، ان سے لڑنا، ان کو مزا چکھانا نہایت ضروری ہے اور ہم یوکرائن کی جنگ لڑ کے ان کو مزا چکھا رہے ہیں۔ تفنن طبع میں ایران کا کوئی جوڑ نہیں۔ ہر تیسرے روز وہ اسرائیل کو دھمکاتا ہے کہ ۔۔۔ اب کے مار__ اب کے مار! حسب توفیق کچھ مزا حزب اللہ بھی لے رہی ہے۔ یہ دنیا تمہاری ہے، دنیا کے مزے لے لو،
_____
کہا جاتا ہے کہ درحقیقت کسی اور کی ”ھلاشیری“ تھی جس نے حماس کو آمادہ طبع آزمائی کیا۔ اس سے کہا گیا، چڑھ جا بیٹا سولی، ہم لیور کھینچنے سے پہلے تمہیں اتار لیں گے۔ وہ سولی چڑھ گئی اور انہوں نے اب کے مار کا ترانہ الاپنا شروع کر دیا۔
اگر یوں دیکھیں تو ساری دنیا غزہ والوں کے ساتھ ہے کہ ہر ملک میں اس کے حق میں لاکھوں بلکہ دسیوں لاکھوں کے جلوس نکلیں اور دیکھیں تو ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ ہے۔ کیسے ہے۔ ایسے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ اور امریکہ جس کے ساتھ ہے، ساری دنیا اس کے ساتھ ہے، 6,6 ٹن کے جو بم اسرائیل برسا رہا ہے، وہ دس بارہ دن پہلے امریکہ نے ہی دئیے تھے جب اس کا بحری بیڑہ دریائے روم کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا تھا اور پھر امریکہ اکیلا نہیں، برطانیہ، فرانس، کینیڈا ، آسٹریلیا بھی اس کے ساتھ ہیں اور تو اور بھارت نام کا گرگٹ بھی تندور کے شعلوں کا تا? بڑھانے پھونکیں مارنے آ گیااور
عالم اسلام کی جملہ حکومتیں بھی ، بوجہ امریکی خوشنودی یا بوجہ کمزوری اسرائیل کے ساتھ ہیں۔مذمتی بیان دینا مجبوری ہے۔ اردن نے، جو شروع دن سے اسرائیل کی اینکسی ہے، اسرائیل کی پروازوں سے اپنی فضا بند کر دی ہے لیکن محض اس لئے کہ اردن میں دس لاکھ افراد سڑکوں پر ہیں۔ انہیں بھی تو کچھ بتانا ہے۔ یہ وہی اردن ہے جس نے 67ءمیں مغربی کنارہ بیت المقدس سمیت ، بنا کسی جنگ کے، اسرائیل کو ریشمی غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا۔
مصر نے سینائی اور شام نے گولان البتہ ریشمی غلاف میں نہیں، تھالی میں رکھ کر دیا۔🥲🥲🥲🥲🥲


 
Top