مرگ ِ بہار

یہ بتانِ شب کی حکومتیں ، یہ ریاستوں کی قیادتیں
صفِ دشمناں کی رفاقتیں ہیں کہ دیر و دہر کی مورتیں

نہ مکاں ملا نہ کفن سلا، بنے فاقہ کش ہیں اسیرِشب
ہوئے بے لباس جو بت شکن، ملیں بت فروشوں کو خلعتیں

کہیں بک گئی یہاں منصفی، کہیں سوئے دار چلی خودی
کہیں زر خریدوں کے فیصلے کہیں اندھی بہری عدالتیں

کبھی قتل عام ہے صبح کا، کبھی شب تماشہء حشر ہے
ہوئیں زرد شامیں لہو لہو کہ ہیں دشتِ غم کی مسافتیں

سوئے حشر روتے ہیں ادھ کھلے سے گلاب مرگ ِ بہار پر
کہ کفن میں لپٹے ہیں گلبدن، دمِ غسل اتریں قیامتیں

فاروق درویش
 
Top