مراد کو پانے نکلا ہوں

مراد کو پانے نکلا ہوں کوئی مجھ کو دعا دے
ضعیفی ہے ہمسفر میری کوئی مجھ کو عصا دے

شب و روز ڈھونڈتا پھرتا ہوں ایسا سوداگر
عقل کے بدلے عشق کا مجھ کو سودا دے

کبھی دھیمی نہ پڑ نے پائے میری طلب آشنائی
تشنگی عشق میں ایسی مجھ کو انتہاء دے

میری لکیروں سے کھچے وہ تصویر
نا خداوؤں کے جو تخت کو ہلا دے

میرے ہم خیال ہوں میرے ہم سفر
تصور میں میرے ایسی مجھ کو ضیاء دے

مجھ کو گر مان ہے تو تیری رحمت پر
خدایا تو ہی کوئی مجھ کو آسرا دے

میرا شعور تو ٹھہرا پابند سلاسل
اپنے فضل سے ہی تو کوئی مجھ کو پتا دے
 
مراد کو پانے نکلا ہوں کوئی مجھ کو دعا دے
ضعیفی ہے ہمسفر میری کوئی مجھ کو عصا دے

شب و روز ڈھونڈتا پھرتا ہوں ایسا سوداگر
عقل کے بدلے عشق کا مجھ کو سودا دے

کبھی دھیمی نہ پڑ نے پائے میری طلب آشنائی
تشنگی عشق میں ایسی مجھ کو انتہاء دے

میری لکیروں سے کھچے وہ تصویر
نا خداوؤں کے جو تخت کو ہلا دے

میرے ہم خیال ہوں میرے ہم سفر
تصور میں میرے ایسی مجھ کو ضیاء دے

مجھ کو گر مان ہے تو تیری رحمت پر
خدایا تو ہی کوئی مجھ کو آسرا دے

میرا شعور تو ٹھہرا پابند سلاسل
اپنے فضل سے ہی تو کوئی مجھ کو پتا دے

بہت نیک خیالات ہیں ڈاکٹر صاحب۔ اسی ضمن میں مندرجہ ذیل لنک پر ہمارا مضمون ملاحظہ فرمائیے

شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
 
ہماری صلاح

میں مرادوں کو پانے چلا ہوں کوئی آکر مجھے اب دعا دے
اب ضعیفی مری ہمسفر ہے ، کوئی آکر مجھے اب عصا دے

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں میں جگ میں، مجھ کو مل جائے کاش ایسا مرشد
مجھ سے دنیا مری اب بھلا دے، خوگرِ عشق مجھ کو بنادے

دھیمی پڑ نے نہ پائے کبھی بھی ، مجھ سے میری طلب آشنائی
تشنگی کچھ مری یوں بڑھادے، ایسی مجھ کو کوئی انتہادے

دُم دُڑم دُم دُڑم دُم دُڑم دُم، تُم تُڑم تُم تُڑم تُم تُڑم تُم
 
آخری تدوین:
Top