مجھے اس دن معلوم ہوا موت ٹھنڈی ہوتی ہے

تاریخ کے گمنام گوشوں سے پاکستانی بچوں پر بیتا ہوا ایک المناک واقعہ، جس پر کوئی تقریب منعقد ہوئی نہ میڈیا میں رپورٹ ہوا۔ اے پی ایس کا واقعہ ایک المناک سانحہ ہے، مگر پاکستان کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے کہ ویسا المیہ شاید دنیا میں اور کہیں نہ ہوا ہو۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا سکول بھی ہے جس میں دو سو بچوں کی اجتماعی قبریں ہیں؟ وہ بچے بھی سکول گئے، مگر پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ اُن کا جنازہ ہوا نہ ان کو کفن ملا۔ وہ سکول کے یونیفارم میں ہی دفن ہو گئے۔ اکثر بچوں کے والدین ان کا چہرہ بھی نہ دیکھ پائے۔ دنیا کے کسی اور سکول میں یوں اجتماحی قبریں نہیں۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں بالاکوٹ ہائی اسکول کی۔ ذیل میں دی گئی قبر کی تصویر اسی سکول کی ہے۔ اس میں دو سو بچے دفن ہیں جن میں لڑکے بھی شامل ہیں اور لڑکیاں بھی۔
Dzc8u-Sz-Ww-AAg-Gy3.jpg

میرے لیے یہ تھریڈ لکھنا آسان نہیں تھا۔ میں اس بارے دو ہفتے سے سوچ رہا تھا، مگر ہر بار دل ڈوب جاتا اور آنکھیں بھر آتیں۔ میری پروفیشنل زندگی کا ایک ناقابل فراموش حصہ اسی واقعے سے جڑا ہے۔ نیچے دائرے میں میری تصویر ہے۔

Dzc8-YKWs-AAhb-Wg.jpg

یہ 8 اکتوبر 2005 کا ایک دن تھا جب یہ بچے بھی باقی بہت سے بچوں کی طرح اسکول گئے مگر ایک قیامت خیز زلزلے نے سب اجاڑ ڈالا۔ اس زلزلے میں ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی شہید ہو گئے جن میں 36 ہزار سے زیادہ بچے بھی شامل تھے۔ ان علاقوں کے سو فیصد سکول تباہ ہو گئے جسکی ایک وجہ اُن سکولوں کی ناقص تعمیر بھی تھی۔ جب امدادی کاروایاں شروع ہوئیں تو بچوں کی اتنی زیادہ لاشیں تھیں کہ ان کی پہچان مشکل تھی۔ اکثر کے والدین بھی شہید ہو گئے تو اس ہنگامی صورتِ حال میں انکو وہاں ہی اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔

Dzc-l2-SXg-AA2-SP2.jpg

اس وقت کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ سکول دوبارہ بنے گا بھی یا نہیں۔ بعد میں جب بحالی کا کام شروع ہوا تو سکول کے لیے کسی ملک نے پہلے سے تعمیر کلاس رومز (Prefab Classrooms) دئیےوہ جب انسٹال کیے گے تو یہ قبریں اسکول کے عین وسط میں کھیل کے میدان میں تھیں۔ اس وقت میں راولپنڈی میں واقع پنجاب کے پہلے سٹریٹ چلڈرن ڈراپ اِن سینٹر کو چلا رہا تھا جو ہماری چار سال کی محنت سے بنا تھا۔زلزلے کے بعد ہماری این جی او (NGO) ، جو ایک بہت بڑی بین لاقوامی تنظیم تھی، نے بھی حصہ لیا۔ میں بھی امدادی سرگرمیوں میں شامل تھا، پھر میں واپس آ گیا۔ کچھ عرصے بعد بحالی کے کام کے سلسلے میں مجھے آفس نے مانسہرہ بھیج دیا جہاں میرا کام نفسیاتی سماجی مدد (Psycho Social Support) پروگرام کو دیکھنا تھا۔ میں اس وقت اس پروگرام میں مکمل طور پر تربیت یافتہ بھی نہیں تھا، بلکہ پاکستان میں کوئی بھی نہیں تھا۔ کافی عرصےبعد میں نے سویڈن سے 2007 میں اس کی ٹریننگ لی۔
Dzc98-Yq-Ws-AAsg-EH.jpg
جب کوئی بھی اتنی بڑی آفت آجائے یا حادثہ ہو جائے تو سب متاثرین کو انفرادی طور پر نفسیاتی مدد (Psychological Help) فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ نفسیاتی سماجی امداد (Psycho Social Support) ایسا پروگرام ہوتا ہے جس میں آپ پوری کمیونٹی (Community) کی نفسیاتی بحالی کا کام کرتےہیں۔
Dzc-AH6-Ww-AAmp-ZJ.jpg

اس وقت میں واحد شخص تھا جس نےسویڈن یہ ٹریننگ لی اور بعد میں باقی لوگوں کو میں نے ٹریننگ بھی دی۔جب میں نےپیشہ ورانہ ذمہ داری کا آغاز کیا تو پہلےدن میں بالاکوٹ ہائی اسکول گیا۔میں نےپرنسپل صاحب سے پوچھا کہ اُنہیں کیا مدد چاہیے۔ میرا خیال تھا ہم سٹیشنری، بچوں کےلیے کھیل کا سامان وغیرہ مہیا کریں گے۔ مگر انہوں نے مجھے ایک چونکا دینےوالی بات بتائی۔ انہوں نے کہا؛ جب سے زلزلہ آیا ہے، بچےکبھی ہنسےہیں نہ کھیلتے ہیں، وہ بس اداس رہتے ہیں۔
Dzc-QIHXg-AEm-Alk.jpg
میرے لیے یہ ایک بہت عجیب صورتحال تھی۔ میرے لیے تمام بچوں کی کونسلنگ (Counselling) کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ میرے ذمے سینکڑوں اسکول تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ کہ چونکہ میں اس وقت اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کیلیے تربیت یافتہ تھا اور نہ ہی ایسا کوئی کیس میں نے کتابوں میں پڑھ رکھا تھا، لہذا میں بہت پریشان ہوا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں روزانہ مانسہرہ سے بالاکوٹ جاتا، سارا دن بچوں سے باتیں کرتا اور واپس آ کر کتابیں دیکھتا۔ پھر اچانک میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مسئلہ کیا ہے۔ آپ غم کے مراحل (Stages of Grief) کے بارے میں جانتے ہوں گے۔
Dzc-Uyl-X4-AAB7bw.jpg
نفسیاتی بحالی کے لیے بہت لازم ہے کہ ہم اس غم کےعمل سےگزریں، اپنے پیاروں کو اچھی طرح سے رخصت کریں۔ ایمرجنسی کی وجہ سے وہ بچے اس عمل سے نہیں گزرےتھے، وہ اپنے دوستوں کےلیے اداس تھے کہ نہ تو وہ ان کا جنازہ پڑھ سکے اور نہ ہی سوگ منا سکے۔اب ضروری تھا کہ وہ عمل مکمل کیا جاتا۔ ایک جرمن ماہرِ نفسیات کی ایک تھیوری گیسٹالٹ اپروچ (Gestalt Approach) نے میری مدد کی۔

Dzc-d-IEWk-AEh-Qlg.jpg
ان بچوں کو غم کے عمل یا مراحل کو مکمل کرنا تھا۔ میں نے ایک آئیڈیا سوچا جوکہ تھوڑا مشکل تو ضرور تھا، مگر میرا یقین تھا کہ وہ اپلائی کرنا لازم ہے۔ میں نے جو پروگرام سوچا اس کے تین حصے تھے؛ ایک تو ان قبروں کو ایک گارڈن بنانا اور بہت سی مختلف قسموں کے پھول لگانا کہ ہر پھول ایک بچے کو ظاہر کرے۔

Dzc-s2m-Wk-AAGIVb.jpg
دوسرا ایک تقریب کا انعقاد جس میں تقاریر کے ذریعے ان بچوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے، تیسرا بچوں کو ایک بینر دیا جائے جس پر وہ اپنے جذبات لکھ سکیں۔
 
میرا خیال تھا کہ اس پروگرام کی مدد سے بچے نارمل ہو جا ئیں گے، مگر یہ ایک رِسکی کام بھی تھا۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے آدھے دن کے میٹنگ کے بعد میرے سوچے ہوئے پروگرام کی منظوری دے دی۔ ذیل میں دی گئی تصاویر اسی پروگرام کے تحت منعقد تقریب کی ہیں جس میں، میں خود بھی شامل تھا۔ اب اہم بات اسکول پرنسپل صاحب جوکہ ایک بہت اچھے انسان تھے سے بات کرنا تھی۔ وہ تو فوراً مان گئے مگر ایک مقامی سیاستدان نے شور ڈال دیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ہم نے جو پروگرام ترتیب دیا تھا وہ بچوں کو واپس غم کی کیفیت کی طرف دھکیل دے گا۔ پہلے میرے اسٹاف اور پھر میرے بہت سمجھانے اور بحث کرنے کے بعد اس نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ میں لکھ کر دوں کہ اگر بچوں کو کچھ ہوا میں ذمےدار ہوں گا۔ میرے لیے یہ صورت حال مشکل تھی مگر مجھے بچوں کے چہرے یاد آگئے اور میں نے اللہ کا نام لے کر تحریری طور پر ذمہ داری قبول کرنے کی حامی بھر لی۔ زیرِ نظر تصویر میں وہ صاحب موجود ہیں اور بعد میں وہ بہت خوش بھی تھے۔
52033894-400850573794329-8347718137520586752-n.jpg
52895372-400850617127658-3775976139579719680-n.jpg

تقریب سے پہلے ہم پریشان تھے کہ ہم بچوں سے بات کیسے کریں گے۔ تقریب کا ایک دلچسپ پہلو وہاں کے بچوں کا جوش و خروش تھا اور انھوں نے بہت محنت کی۔ بچوں نے ایک مزاحیہ خاکہ بھی پیش کیا جس میں امدادی کاموں میں لوگوں کے لالچ پر طنز کیا گیا تھا۔

52699446-400850840460969-7221158639665414144-n.jpg
اس تقریب کی کمپیرنگ کی سعادت مجھے نصیب ہوئی۔ تقریب کے لیے سلوگن کا انتخاب بھی بہت ضروری تھا لہذا سلوگن (Looking Back, Looking forward, We Are Together) میں نے بہت سوچ کر سلیکٹ کیا۔ جو بینر بچوں نے لکھا وہ بہت زیادہ جذباتی (Emotional) تھا۔ وہ پڑھ کر میں دھا ڑیں مار مار کر رویا، ہمارا سارا سٹاف روتا رہا۔ ان میں سے کچھ چیزیں آپکے ساتھ شئیر کرتا ہوں۔
 
ایک بچہ بہت ڈیپرسڈ تھا، اس نے لکھا؛ "میرا ایک بہترین دوست تھا جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا۔ زلزلے کے دن صبح بھی میرا دوست آیا، مگر میں بیماری کی وجہ سے اس دن سکول نہ جاسکا تھا۔ میرا بیسٹ فرینڈ زلزلے میں شہید ہوگیا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے دوست کے ساتھ غداری کی۔ میں سکول آتا تو اسکے ساتھ ہی مر جاتا"۔ ایک اور بچے نے لکھا؛ "جب سکول کی چھت گری تو میں اور میرا ایک دوست سکول کے ملبے کے نیچے دب گئے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ جب بہت دیر تک امداد نہ آئی تو آہستہ آہستہ میرے دوست کا ہاتھ ٹھنڈا ہوتا گیا۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ موت ٹھنڈی ہوتی ہے"۔ ایک اور بچی نے لکھا؛ "جس دن زلزلہ آیا، اس رات بہت بھیا نک بارش تھی۔ ہمارے گھر گِر گئے تھے اور رات ہم باہر ایک درخت کے نیچے کھڑے رہے تھے۔ ہم نے گھر سے صرف قرآن اٹھایا تھا۔ بجلی چمکتی اور میں خوفزدہ تھی۔ مجھے لگتا تھا، قیامت آ گئی ہے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ قیامت کے دن سب کچھ ختم ہو جائے گا اور قرآن کے الفاظ بھی اُٹھا لیے جائیں گے۔ میں نے قرآن کھولا تو اُس میں لفظ موجود تھے۔ میں سمجھ گئی، یہ قیامت نہیں ہے"۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوگا کہ اُدھر ایک طرف زلزلے کے بعد یہ حالات تھے تو دوسری طرف ٹھیک اسی وقت اس وقت کے وزیرِ اطلاعات شیخ رشید احمد پریس کانفرنس کر رہے تھے اور یہ اعلان کر رہے تھے کہ زلزلے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اس وقت تک ہزاروں لوگ شہید ہو چکے تھے۔ بالاکوٹ کے میں بچے ملبے کے نیچے دبے تھے مگر یہ شحص بغیر تصدیق کیے اور بغیر معلومات لیے جھوٹ بول رہا تھا۔ میں نے اس دن کے بعد سے شیخ رشید کی کسی بات کا کبھی یقین نہیں کیا۔

آج اس واقعہ کو تیرہ سال گزر گئے۔ زلزلے کے بعد حکومت نے ایک ادارہ ایرّا (ERRA) بنایا، ایک جرنیل اس کا ہیڈ بنا، تمام بیرونی امداد اس ادارے کو ملی۔ کچھ دن پہلے سپریم کورٹ میں بالاکوٹ کا کیس لگا۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ حکومت نیا بالاکوٹ شہر بنائے گی مگر وہ نہیں بن سکا۔

51874694-400869003792486-5077381419592843264-n.png


52071488-400868987125821-4635257537682210816-n.png
زمینیں بھی موجود تھیں، مگر بابے رحمتے کے بھی پر جلتے تھے۔ اُن معصوم بچوں کے پیارے آج بھی دربدر ہیں۔ آپ اگلی بار جب ناران جائیں تو راستے میں بالاکوٹ ہائی سکول بھی جائیں۔ یہ مدینہ مارکیٹ کے بغل میں بالکل مین شہر میں ہے۔ ان معصوم بچوں کے لیے ضرور دعا کیجیے۔ شاید بالاکوٹ کے یہ بچے اس ملک کے مالکان کی نظر میں پس ماندہ طبقات (Children of Lesser God) سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بچوں کی لاشوں پر تو مائیں بین تک نہ ڈال سکیں، نہ ان کے لیے کبھی کوئی شمع جلی، نہ تقریب منعقد ہوئی اور نہ ہی کبھی میڈیا پر انکا ذکر ہوا۔ میرا بس چلے تو ان بچوں کے نام شاہراہِ داستور پر لکھوا دوں تاکہ یہ نام اربابِ اختیار کی نااہلی اور بے حسی کی یاد دلاتے رہیں ۔

ایک اہم گزارش: برائے کرم میری اِس پوسٹ پر کمنٹ کرتے وقت بہت احتیا ط کیجیے گا، کہ وہ بچے میرے وجود کا حصہ ہیں اور مبادا ان کا پیارا کوئی یہ تحریر پڑھ رہا ہو۔ اللہ نہ کرے، مگر ایسا وقت کسی پر کبھی بھی آسکتا ہے۔ میں آج ان بچوں کا مقدمہ آپ تک لایا۔ آج تک میں نے اسے سینے میں دفن رکھا، مگر اب آپ اسے پھیلائیے، کہ شائد سوشل میڈیا پر اسکے ذکر سے بالاکوٹ سٹی بن جائے۔

۔۔۔۔
دعاؤں کا طالب، آر اے شہزاد۔

۔۔۔

مضمون ہذا ایک مکمل تھریڈ کی صورت میں ٹویٹر سے کاپی کیا گیا ہے۔
 
Top