انیس مجرائی! جب کہ شہ نے سر اپنا کٹا دیا - میر انیس

حسان خان

لائبریرین
مجرائی! جب کہ شہ نے سر اپنا کٹا دیا
تب ظالموں نے خیمۂ اقدس جلا دیا
ہمشکلِ مصطفیٰ کو لعینوں نے، حیف ہے
گھوڑے سے برچھی مار کے نیچے گرا دیا
کہتی تھی صغرا کھیلنے کہتیں جو لڑکیاں
بابا کی یاد نے مجھے سب کچھ بھلا دیا
واللہ جیتے جی نہیں ہونے کی میں جدا
گر، اب کی حق نے مجھ کو پدر سے ملا دیا
جب شہ کو دفن کر چکے سجاد کہتے تھے
زہرا کا چاند خاک میں مَیں نے چھپا دیا
پیچھے ہٹے نہ جنگ میں حضرت کے جاں نثار
تیغوں سے دوڑ دوڑ گلوں کو ملا دیا
کیا آبدار تیغ، عَلَم دارِ شہ کی تھی
دریا کے پاس خون کا دریا بہا دیا
پیاسے کو یاد پیاس جو آئی سکینہ کی
چلّو میں لے کے نہر سے پانی گرا دیا
کس درجہ اشتیاقِ شہادت تھا شاہ کو
خنجر گلے پہ چلتے ہوئے مسکرا دیا
کہتے تھے رن میں شامی کہ اکبر کے حُسن نے
ہم کو خدا کے نور کا جلوہ دکھا دیا
لب پر زباں پھرا کے یہ کہتے تھے رن میں شاہ
زخموں نے بھوک پیاس میں کیا کیا مزا دیا
عابد جو دفن کر چکے قاسم کی لاش کو
تربت پہ اس کی پھولوں کا سہرا چڑھا دیا
ماتم میں اس کے روتے رہو، مومنو! مدام
شبیر نے تمہارے لیے سر کٹا دیا
کیا رانڈ بیبیوں میں تلاطم تھا اس گھڑی
جب ناریوں نے شاہ کا خیمہ جلا دیا
اللہ! کیا حسین کو امت کا پاس تھا
سر کو کٹا کے عاصیوں کو بخشوا دیا
خنجر کو لے کے شمر جب آیا تو شاہ نے
کس بیکسی سے سر کو زمیں پر جھکا دیا
کیا عشق تھا حسین سے زینب کے بیٹوں کو
دونوں نے کس خوشی سے سروں کو کٹا دیا
اصغر کو بوند بھر نہ پلایا کسی نے آب
لشکر کو حُر کے شاہ نے پانی پلا دیا
بستر سے اٹھ نہ سکتا تھا جو مارے ضُعف کے
طوقِ گراں لعینوں نے اس کو پنہا دیا
اس کا ادائے شکر ہو کس طرح اے انیس
جس نے اٹھا کے خاک سے انساں بنا دیا
(میر انیس)
 
Top