جوش متولیانِ وقفِ حسین آباد سے خطاب

حسان خان

لائبریرین
لکھنؤ میں وقفِ حسین آباد ایک شاہی وقف ہے، جس کے غیور متولی حسین آباد اور آصف الدولہ بہار کے مقبروں میں محرم کی آٹھویں اور نویں کو بہت بڑے پیمانے پر چراغاں کا اہتمام کرتے ہیں۔
محرم! اور چراغاں!!!
آٹھویں کے چراغاں کی یہ شرمناک و غلامانہ خصوصیت ہے کہ اس شب کا 'کھیل تماشا' صرف 'صاحب لوگوں' کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ جو اپنے اپنے محبوبوں کے ہاتھوں میں ہاٹھ ڈالے ادھر سے ادھر قہقہے مارتے پھرتے ہیں۔
اس دن کسی ہندوستانی کو امام باڑوں میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے، صرف بعض ممتاز ہندوستانیوں کو پاسوں سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ البتہ صرف ہندوستانی اس شرط سے داخل ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے ہندوستانی لباس کو ترک کر کے انگریزی لباس میں آئیں۔

=================​

سن سکو تو چند نالے ہیں دلِ ناشاد کے
اے گرامی ممبرو! وقفِ حسین آباد کے
مشعولوں کی جگمگاہٹ کی ہوا کرتی ہے 'شو'
ہر محرم کی نویں اور آٹھویں تاریخ کو
وہ اداس اور تشنہ دو راتیں سرِ جوئے فرات
جن کے سناٹے کے اندر گم تھی روحِ کائنات
جن کی رو میں درہم و برہم تھا دنیا کا نظام
جن کی خاموشی میں غلطاں تھا شہادت کا پیام
جن کی ہلچل سے تلاطم تھا دلِ آفاق میں
جھلمائی تھی وفا کی شمع جن کے طاق میں
جن کی ظلمت کو منور کر رہے تھے دل کے داغ
گل ہوا تھا جن کی آندھی میں مدینے کا چراغ
پرفشاں تھے جن کے سناٹے جرس کے واسطے
تم نے ان راتوں کو چھانٹا ہے ہوس کے واسطے
مشعلوں میں جس جگہ خونِ شہیداں کا ہو رنگ
سیر کرنے کو بلائے جائیں واں اہلِ فرنگ
کیا حمیت ہے کہ اپنوں کے لیے ہو روک تھام
روپ میں بھی غیر کے آئے کوئی تو اذنِ عام
یہ تملق، یہ خوشامد، یہ زبوں اندیشیاں
غم کدہ مسلم کا ہو نصرانیوں کا بوستاں
دیدۂ ناہید ہو جس بزم میں افسانہ گو
اس جگہ دی جائے دعوت چشمکِ مریخ کو
داغ ہائے دل میں کھولا جائے میخانے کا باب
قہقہے ہوں آنسوؤں کی انجمن میں باریاب
بزمِ عصمت میں، سر آنکھوں پر لیا جائے گناہ
مقبرے کو اور بنائے آسماں تفریح گاہ
دعوتِ حرف و حکایت، زلزلے کی رات میں
منعقد ہو جشن، اشکوں کی بھری برسات میں
بامِ شیون پر کُھلے موجِ تبسم کا علَم
خون کے قطروں پہ اور اربابِ عشرت کے قدم
کشتیِ صہبا چلے اہلِ وفا کے خون میں
آخری ہچکی بھری جائے گرامو فون میں
لشکرِ شادی سے روندی جائے غم خانے کی خاک
غازۂ خوباں بنائی جائے پروانے کی خاک
چنگ و بربط کا تسلط ہو دیارِ آہ میں
اہلِ ماتم لاش کو رکھیں نمائش گاہ میں
دیدۂ عشرت اٹھے صد پارہ لاشا دیکھنے
ہنسنے والے آئیں رونے کا تماشا دیکھنے
جوئے خون، اور اس پہ تیراکی کا میلا، الحذر
غیرتِ اسلام! تجھ کو کھا گئی کس کی نظر
روحِ مومن کو عطا، بارِ خدا! ادراک ہو
یہ نہیں تو صور پھنک جائے کہ قصہ پاک ہو
(جوش ملیح آبادی)
 

حسان خان

لائبریرین
اہلِ عالم کو مبارک جوش، فانی عز و جاہ
فخر کافی ہے مجھے ہم نامئ شبیر کا
(شبیر حسن خان 'جوش ملیح آبادی')
 
Top