مایۂ ناز فکشن نگار، اسد محمد خاں کی کتھا

تلمیذ

لائبریرین
’’مریم کے خیال میں ساری دنیا میں بس تین ہی شہر تھے۔ مکہ، مدینہ اور گنج باسودہ۔‘‘

اگر یہ سطر پڑھ لی، تو سمجھیں کہ اب فرار کا کوئی راستہ نہیں۔ افسانے سے بندھے آپ اختتامیے تک جائیں گے، ’’باسودے کی مریم‘‘ کے معتقد ہوجائیں گے۔ اگر اتفاقاً بچ بھی گئے، تو وہ ’’مئی دادا‘‘ کا ہاتھ تھامے، ہنستے مسکراتے چلے آئیں گے، کہیں گے: ’’مایا کے تین ناموں کی طرح مئی دادا کے بھی تین نام تھے؛ مجیتا، مجید اور مئی دادا۔‘‘

گرویدہ ہوئے بغیر اب تو کوئی چارہ نہیں۔ اور اِس عمل کو ’’ترلوچن‘‘ اور ’’گھس بیٹھیا‘‘ مہمیز لگائیں گے۔ ’’غصے کی نئی فصل‘‘ کے حافظ شکر اﷲ خاں رہی سہی کسر پوری کر دیں گے۔ اب خود کو اُن کے فکشن کا قیدی جانیے۔

یہ تذکرہ ہے، اردو کے منفرد فکشن نگار، اسد محمد خاں کا، جن کے قلم نے زندہ کہانیاں بُنیں۔ یادگار کردار تشکیل دیے۔ کردار اُن کا چاہے دھتکارے ہوئے طبقے سے ہو یا پاک دامنوں کی صف میں کھڑا نظر آئے، اُس کے عشق میں مبتلا ہوئے بغیر رہا نہیں جاتا۔

اُن کا فن زیر بحث ہو، تو دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں۔ پختہ، گُتھا ہوا اسلوب۔ ہندی شبدوں کا حیران کن استعمال۔ چونکا دینے والا مزاح۔ کہیں کہیں حزنیہ لے۔ لہجوں پر گرفت۔ افسانے کی تکنیک بیانیہ ضرور ہے، مگر انوکھا پن ہر سطر میں جلوہ گر۔ تجریدی آہنگ بھی ملتا ہے۔ ایک ہی جملے میں متضاد کیفیات اِس سہولت سے در آتی ہیں کہ پڑھنے والا ششدر رہ جائے۔ الغرض پُرقوت افسانے لکھے۔ بہ آسانی اردو کے جید افسانہ نگاروں سے اُن کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ قابل تقلید ضرور ہیں، مگر اُن کی تقلید سہل نہیں۔ اسد محمد خاں جیسے افسانے تو بس اسد محمد خاں ہی لکھ سکتے ہیں۔ اتنی محنت بھلا کون کرے!

شاعری اور ڈراما نگاری میں بھی اوج پر ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھے گیتوں کی تعداد ڈیڑھ سو ہے۔ بُنت ایسی کی کہ بیش تر سامعین کے دلوں میں گھر کر گئے۔’’انوکھا لاڈلا‘‘، ’’موج بڑھے یا آندھی آئے ‘‘، ’’زمین کی گود رنگ سے، امنگ سے بھری رہے‘‘ اور ’’تم سنگ نیناں لاگے‘‘ چند مثالیں ہیں۔ اِسی وسیلے خیال گائیکی کے معروف استاد، عاشق علی خان سے ربط پیدا ہوا۔ موسیقی کے بنیادی رموز سیکھے۔ تیرہ راگوں پر اُنھوں نے گیت لکھے ہیں۔ اِس ضمن میں عاشق علی خان کی دوستی خوب کام آئی، اور عاشق علی خان سے ملایا پی ٹی وی نے۔

ڈراموں کا بھی بڑا چرچا ہوا۔ ’’منڈی‘‘، ’’الزام‘‘، ’’سفر‘‘، ’’دل دریا‘‘، ’’پارٹیشن ایک سفر‘‘، ’’زبیدہ‘‘ اور ’’شیر شاہ سوری‘‘ ناظرین کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ’’شاہین‘‘ مقبول ترین ٹھہرا۔ یہ ایک تاریخی ناول پر لکھا گیا۔ سفر پر نکلے، تو مشاہدات انوکھے ڈھب پر تحریر میں سموئے۔ کہتے ہیں،’’اردو سفرنامہ نویسی میں کئی پُرقوت تجربات ملتے تھے، جن کی تقلید کے بجائے خود اپنا اسلوب تشکیل دیا۔‘‘

تخلیقات انگریزی، ہندی، گجراتی، پنجابی، مراٹھی اور دیگر زبانوں میں ڈھل چکی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے The Harvest of Anger & Other Stories کے زیر عنوان اُن کی 12 کہانیاں شایع کیں۔ کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ افسانوی مجموعے ’’نربدا‘‘ کو 2003 کی بہترین تصنیف کا بابائے اردو ایوارڈ ملا۔ دوحہ کا فروغ ادب ایوارڈ اور شیخ ایاز ایوارڈ اُن کے حصے میں آئے۔ تمغۂ امتیاز پیش کیا گیا۔

لکھنے کی صلاحیت کو اسد صاحب عطیۂ خداوندی سمجھتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ تخلیق کار اِس عطا پر شکر گزار ہوں۔ اردو افسانے کے مستقبل سے پُرامید ہیں۔ جو مایوسی کا اظہار کرتے ہیں، اُن سے پوچھتے ہیں؛ کیا آپ نے طاہرہ اقبال اور رفاقت حیات وغیرہ کو پڑھا ہے؟ ذی شان ساحل اور ثروت حسین کی مثال پیش کرتے ہوئے اردو شاعری کا مستقبل درخشاں قرار دیتے ہیں۔ اردو ادب، اُن کے نزدیک بین الاقوامی ادب کے سامنے کھڑا ہونے کی قوت رکھتا ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُسے پرموٹ کیا جائے۔ اردو رسم الخط کو اُن کے نزدیک کوئی خطرہ نہیں، یہ باقی رہے گا۔ ادب کی جانب آنے والے نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ پڑھیں سب کو، مگر راستہ اپنا خود بنائیں۔ تسلیم کرتے ہیں کہ ادب میں گروہ بندیاں ہیں۔ خود کو اُن بکھیڑوں سے دُور رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق ماضی کے برعکس آج کا ادیب خوش حال ہے، بلکہ کچھ تو ایسے ہیں، جو امیر کبیر کہے جاسکتے ہیں۔

اب توجہ اُن کے حالاتِ زندگی پر مرکوز کرتے ہیں:
بانی ریاست بھوپال، سردار دوست محمد خاں کی نویں پیڑھی میں، 26 دسمبر 1932 کو آنکھ کھولنے والے اسد صاحب کا تعلق قبیلہ اورک زئی کی شاخ میرعزیزخیل سے ہیں۔ تیراہ میں اِس قبیلے کی جڑیں ملتی ہیں۔ ریاست بھوپال 49ء میں ہندوستان میں ضم ہوئی۔ اِس سے قبل ریاست بھر میں نماز جمعہ میں نواب کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔

اُن کے والد، عزت محمد خاں فن کے پرستار تھے۔ شوق کی انگلی تھامے شانتی نکیتن چلے گئے، مگر کچھ ہی ماہ بعد بھوپال سے بلاوا آگیا۔ اسد صاحب کے دادا، کمال محمد خاں کے قریبی دوست، ٹھاکر جگن پورہ بلاوے کی وجہ بنے۔ ان کا خیال تھا: ’’ہندو دھرم کا ستیاناس کرنے کے بعد ٹیگور مسلمانوں کو گم راہ کریں گے۔‘‘ عزت محمد خاں لوٹ تو آئے، مگر ساری زندگی انھیں اِس بات کا قلق رہا۔ شاہ جہانی ماڈل ہائی اسکول میں آرٹ ماسٹر ہوگئے۔ شوقیہ مصوری کرتے رہے۔ انھیں خدا نے پانچ بیٹوں، پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ اسد صاحب لڑکوں میں دوسرے۔ سب سے فتنہ انگیز۔ کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ والدہ کے ذریعے اکثر والد کا پیغام ملتا: ’’یہ شرارتیں چھوڑ دو، ورنہ خوب دُرگت بنے گی۔‘‘ ہاکی کے وہ دل دادہ تھے۔ بھوپال میں یہی کھیل مقبول تھا۔ سابق اولمپیئن، احسن محمد خاں رشتے کے چچا ہیں۔ شاہ جہانی ماڈل اسکول سے 49ء میں میٹرک کرنے کے بعد حمیدیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ بھوپال میں بیٹھے بیٹھے جے جے اسکول آف آرٹس سے فری ہنڈ ڈرائنگ میں ڈپلوما کیا۔

والد کا جھکاؤ کانگریس کی جانب۔ خود اسد محمد خاں سوشلسٹ۔ واقعہ یہ ہوا کہ حکومت ہند نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عاید کردی۔ سیاسی سرگرمیاں ماند پڑیں، تو اندور کے کمیونسٹ بھوپال میں لیکچرز کا اہتمام کرنے لگے۔ وہ بھی اُن میں شرکت کرتے۔ ترقی پسند ادیب مطالعے میں تھے ہی۔ دھیرے دھیرے ذہن سازی ہوتی گئی۔ اُن کے مکان پر بھی کامریڈوں کی میٹنگز ہوئیں، البتہ گھر والوں کو بھنک نہیں پڑنے دی۔ اب پوسٹرز لکھنے کا مرحلہ آیا۔ اردو خط اُن کا اچھا تھا۔ ذمے داری اُنھیں سونپی گئی۔ موتی مسجد کی دیوار پر پوسٹر لگاتے ہوئے پولیس نے دھر لیا۔ والد کے ایک دوست اے ایس آئی تھے، اور ماموں عبدالسلیم ایس ایس پی۔ معاملہ بہ آسانی نمٹ جاتا، مگر ماموں کسی سلسلے میں ریاست سے باہر گئے ہوئے تھے۔ وہ بھی گرفتاری کے بعد اکڑے بیٹھے رہے۔ کسی کو نہیں بتایا کہ میں عزت محمد خاں کا بیٹا ہوں۔ جب تک گھر والوں کو اطلاع ملتی، ایف آئی آر کٹ چکی تھی۔

اب ایس ایس پی صاحب، یعنی ماموں کو آنا پڑا، کیس اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔ پیشی کے موقعے پر عجب منظر ہوتا۔ ماموں کرسی سنبھال لیتے۔ کچھ فاصلے پر اُنھیں بٹھا دیا جاتا۔ براہ راست بات نہیں کرتے۔ کسی اے ایس آئی کے ذریعے بھانجے سے سوالات کیے جاتے۔ جواب میں اسد صاحب پختہ عمر کامریڈوں کی طرح آدرش بیان کرنے لگتے۔ ماموں ہنسی روکے بیٹھے رہتے۔ سولہ روز تک اڑے رہے۔ پھر محلے کا ایک شخص، جو درحقیقت سی آئی ڈی اہل کار تھا، کامریڈ کے روپ میں ملا، اور معافی نامہ لکھنے کے لیے قائل کرنے لگا۔ اسد صاحب کی والدہ بھی اُن دنوں شدید بیمار تھیں۔ سو اُنھوں نے معافی نامہ لکھ دیا۔ بعد میں کامریڈوں نے بہت لعن طعن کی۔ گھر لوٹے، تو تایا، چچا کہنے لگے، اُن دوستوں کے نام بتاؤ، جنھوں نے تمھیں اِس راہ پر ڈالا، ہم ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ حالات بگڑتے دیکھ کر والد نے کہا،’’تمھارا بھوپال میں رہنا ٹھیک نہیں۔ یا تو ممبئی جاکر جے جے اسکول آف آرٹ میں داخلہ لے لو، یا پھر بڑے بھائی، عظمت محمد خاں کے پاس پاکستان چلے جاؤ۔‘‘

پاکستان کا انتخاب ہوا۔ مئی 50ء میں لاہور آگئے۔ رشتے کے ماموں کے ہاں ٹھہرے۔ وہ شہر دیکھا، جس کا تذکرہ کرشن اور منٹو کے افسانوں میں پڑھا تھا۔ دو قسطوں میں وہ ڈیڑھ برس لاہور میں رہے۔ پنجابی سیکھی۔ ریلوے والٹن ٹریننگ اسکول سے اسٹیشن ماسٹر کی تربیت لی۔ کچھ عرصے ریلوے سے وابستگی رہی۔ پھر بھائی کی بیماری مستقلاً کراچی لے آئی۔ یہاں عظمت صاحب کا انتقال ہوگیا۔ یہ بڑا سانحہ تھا، جس سے نبردآزما ہونے میں خاصا وقت لگا۔

بعد کی زندگی شہر قائد ہی میں گزاری۔ لیاقت آباد میں محکمۂ آباد کاری سے ایک پلاٹ مل گیا۔ وہاں بنا چھت کا کچا مکان بنا لیا۔ ایس ایم آرٹس کالج سے گریجویشن کے بعد جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی میں داخلہ لے لیا۔ اُسی زمانے میں چھوٹے بھائی، عصمت محمد خاں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ اس سانحے اور معاشی ابتری نے تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا۔ 63ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت شروع کی۔ 93ء میں انسپکٹر امپورٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

58ء میں شعر کہنے لگے تھے، مگر اِس تذکرے سے پہلے شوق مطالعہ کی بات ہوجائے کہ لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط ہے۔ کتابوں کی لت بچپن میں لگی۔ انگریزی جاسوسی ادب جم کر پڑھا۔ پھر سنجیدہ ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ بین الاقوامی اعزازت سے نوازے جانے والے تخلیق کاروں کی کتابیں لائبریری سے ایشو کروانے لگے۔ اردو ادیبوں میں کسی کو نہیں چھوڑا۔ کراچی میں عزیز حامد مدنی اور اطہر نفیس جیسے شعرا کی صحبت میسر آئی۔ اظہار کا شوق پیدا ہوا۔ کبیر اور تلسی داس کو خاصا پڑھ رکھا تھا۔ اِسی اثر کے تحت ہندی میں رچے گیتوں میں خیال ڈھلنے لگا۔ نظموں میں بھی گیت کا انگ تھا۔ ’’نیا دور‘‘ میں پہلا گیت چھپا۔ ادبی مجلے سوغات، بنگلور میں ابتدائی نظموں نے جگہ پائی۔ ایک نظم ’’نومنزلہ بلڈنگ‘‘ کا بہت چرچا ہوا۔

مدنی صاحب نے ریڈیو کے لیے اسد صاحب سے کئی گیت لکھوائے۔ وہاں اچھے مترجم کی ڈھونڈ پڑی، تو اُنھیں پیش کش کی گئی۔ یوں ریڈیو میں وہ ’’نیوز ٹرانسلیٹر‘‘ ہوگئے۔ جنگ کے زمانے میں خبریں بھی پڑھیں۔ فیچرز، خاکے اور بچوں کی کہانیاں لکھیں۔ افتخار عارف نے ٹی وی ڈرامے لکھنے کی پیش کش کی۔ پہلے تو ٹال گئے۔ پھر اطہر نفیس سے کہلوایا۔ یوں ٹی وی سے گیت اور ڈراما نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ برسوں کمرشل رائٹنگ میں مصروف رہے۔ اب اِس سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ شاعری پر بھی افسانہ نگاری غالب آگئی۔

نثرلکھنے کا آغاز خاکہ نگاری سے کیا، جو اسکول میگزین کا حصہ بنا۔ مہاتما گاندھی کی موت پر ایک نثری نوحہ لکھا تھا۔ افسانہ نگاری کی جانب کمرشل رائٹنگ لائی، جس پر ادبیت غالب تھی۔ دوستوں نے اِس میدان میں طبع آزمائی کا مشورہ دیا۔ 34 برس کی عمر میں ادھر قدم اٹھایا۔ لکھنے کا ہنر جانتے تھا۔ پہلا افسانہ ’’باسودے کی مریم‘‘ اتنا گُتھا ہوا اور جان دار تھا کہ اُن کی دھوم مچ گئی۔ یہ ’’فنون‘‘ میں شایع ہوا۔ دراصل ایک ادبی نشست میں احمد ندیم قاسمی کے سامنے یہ افسانہ پڑھا تھا۔ اُنھوں نے سراہا، فوراً فنون کے لیے طلب کر لیا۔ بعد میں ایک جگہ قاسمی صاحب نے لکھا: ’’اردو میں اگر افسانے کی صنف متروک بھی ہوگئی، تب بھی یہ افسانہ دائمی زندہ رہے گا۔‘‘

’’مئی دادا‘‘ بھی ’’فنون‘‘ کی زینت بنا۔ پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ یادگار افسانے قلم سے نکلتے چلے گئے۔ تاریخ ہند میں شیرشاہ سوری کی کاوشوں کے معترف ہیں۔ اُس عہد کی بابت تحقیق بھی کی۔ آٹھ نو شان دار کہانیاں اُس زمانے سے متعلق لکھیں۔

82ء میں پہلی کتاب ’’کھڑکی بھر آسمان‘‘ (افسانے، نظمیں) شایع ہوئی۔ افسانوی مجموعے ’’برج خموشاں‘‘ 90ء میں منظر عام پر آیا۔ اشاعت کا خود انتظام کیا۔ فروخت سے کچھ منافع بھی ہوا۔ پھر افسانوی مجموعہ ’’غصے کی نئی فصل‘‘ منصۂ شہود پر آیا۔ ’’رکے ہوئے ساون‘‘ گیتوں کا مجموعہ تھا۔ کتاب ’’نربدا اور دوسری کہانیاں‘‘ 2003 میں شایع ہوئی۔ اُس وقت تک تحریر کردہ افسانے ’’جو کہانیاں لکھیں‘‘ کے نام سے چھپے۔ اُسی میں ’’ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی‘‘ کے زیرعنوان سفرنامے اور دیگر تحریریں شامل تھیں۔ پھر ’’تیسرے پہر کی کہانیاں‘‘ اور ’’ایک ٹکڑا دھوپ کا‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔

حیران کن افسانے لکھنے والے اسد محمد خاں فکشن نگاروں میں عزیز احمد اور نیرمسعود کے مداح ہیں۔ نیر مسعود کی نثر پڑھ کر خود کو حالتِ وجد میں پاتے ہیں۔ موجودہ مراٹھی ادب کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ سینئرز میں یگانہؔ اور موجودہ عہد کے شاعر میں ذی شان ساحلؔ پسند ہیں۔ ناول نگاری پر بات نکلی، تو قرۃ العین حیدر کا تذکرہ آیا۔ ’’قرۃ العین ایک پورا عہد ہیں، بڑے سے بڑا نقاد اردو ادب میں اُن کی حیثیت سے انکار نہیں کرسکتا۔‘‘ بیرونی ادب میں بورخیس اور مارک ٹوئن پسند ہیں۔ دونوں کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔ اگرچہ سلیم احمد افسانہ نہیں لکھتے تھے، اور اسد صاحب نے غزل نہیں کہی، اِس کے باوجود وہ شعر و ادب کے دشت میں اُنھیں مرشد و راہ نما قرار دیتے ہیں۔ ’’ادب کے ساتھ اُن کا ایمان دارانہ رویہ تھا۔ میں نے اُن سے یہی کچھ سیکھا ہے۔‘‘

اُن کی خوشیاں اپنوں کی خوشیوں سے جُڑی ہیں۔ منافقوں کی صحبت افسردہ کر دیتی ہے۔ سیاست دانوں کے دعوے سن کر دُکھ ہوتا ہے۔ جاگیرداری کو ملک کا بنیادی مسئلہ گردانتے ہیں۔ فروغ ادب کو شرح خواندگی سے جوڑتے ہیں۔ خواہش مند ہیں کہ اسکولوں کو اوطاق اور باڑے بنانے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ زندگی سے محبت کرنے والے آدمی ہیں۔ بہ قول اُن کے، زندگی سے محبت کیے بغیر انسان کا گزارہ نہیں۔ لباس اور خوراک کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ نیم کلاسیکی موسیقی بھاتی ہے۔ دیوآنند کے مداح، معین اختر کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ نصیرالدین شاہ اور فاروق شیخ کی فلمیں انھیں پسند آئیں۔

65ء میں شادی ہوئی۔ زوجہ، فرزانہ اسد اردو ادب کی استاد ہیں۔ خدا نے تین بیٹیوں سے نوازا۔ تینوں کی شادی ہوچکی ہے۔ سب ہی کو فنون لطیفہ میں دل چسپی وراثت میں ملی۔

(اقبال خورشید)

ربط:
http://www.express.pk/story/224386
 
Top