لگتے ہو کسی قہر میں لُٹے ہو جیسے سحر میں

آئے ہو کیسی بحر میں؟
لپٹے دھوئیں کی لہر میں
سُلگ رہے ہو زہر میں
لگتے ہو کسی قہر میں
لُٹے ہو جیسے سحر میں
وحشت ہے تیری ذات میں
دہشت ہے تیری بات میں
ہیبت ہے تیری رات میں
سانسیں تیری اٹک رہی ہیں
اجل ہے تیری گھات میں
یہ زخم ہیں ماہ و سال کے
یا نشان ہیں رنج و ملال کے
کیوں بیٹھے ہو ہار کے؟
زخموں پہ پردہ ڈال کے
چہرے پہ لہریں درد کی
رنگت ہے تیری زرد سی
یہ کیسے کرب میں ہو تم؟
کسی کے درد میں ہو تم
جسے تم کہہ بھی نہیں سکتے
کہے بن رہ بھی نہیں سکتے
ملا ہے درد تمہیں کیسا؟
جسے تم سہہ بھی نہیں سکتے
کسی کو یاد کرتے ہو
کوئی فریاد کرتے ہو
اُلجھے ہوئے لگتے ہو
گھبرائے ہوئے ہو
یہ آگ ہے کیسی؟
جو دہکا ئے ہوئے ہو
لگتا ہے محبت کے
ٹھکرائے ہوئے ہو
تخلیق
محمد اطہر طاہر ہارون آباد
 
Top