لگتا ہے کہ چپ رہنے سے کچھ کام نہیں ہے

عظیم

محفلین
غزل



لگتا ہے کہ چپ رہنے سے کچھ کام نہیں ہے
اس شہر میں کم گوئی کا انعام نہیں ہے

دب جائیں تو پھر اور دباتی ہے یہ دنیا
گم رہتا ہے وہ جس کا کوئی نام نہیں ہے

جس بزم کے سب لوگ شرافت کے ہیں داعی
حد ہے کہ شریفوں کا وہاں کام نہیں ہے

میں تجھ سے بڑا ہوں تو بہت چھوٹا ہے مجھ سے
اس گالی سے بڑھ کر کوئی دشنام نہیں ہے

جس شخص کو دیکھو بنا پھرتا ہے وہ عالم
اس پر بھی کہیں علم یہاں عام نہیں ہے

صد شکر کہ رکھا ہے بچائے ہوئے مجھ کو
شاعر ہوں پہ گھر میں مرے کہرام نہیں ہے

کیا کرتی ہیں زنجیریں تمہاری میں بھی دیکھوں
اس دام سے بڑھ کر بھی کوئی دام نہیں ہے

ہوں مست میں مستی میں فقط عشق کی ہر دم
ہاتھوں میں کوئی مے سے بھرا جام نہیں ہے

مر جائے جو اس دل کے مکیں کے لیے وہ شخص
مردہ تو کہا جائے پہ ناکام نہیں ہے




****

 
Top