عاطف بٹ
محفلین
لوہے والے سکول کا کنڈر گارٹن
شاہد ملک
روزنامہ پاکستان، لاہور (30 ستمبر 2012ء)
روزنامہ ”ڈان‘‘ میں ایڈیٹر کے نام ایک خط میں پنجاب کے دانش سکولوں کو اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ان کی بدولت غریب طلبہ کی دس فیصد تعداد کو بھی فائدہ نہیں پہنچا، حالانکہ اس اسکیم کے لئے مختص رقم صوبے کے مجموعی تعلیمی ڈھانچے پر خرچ ہونی چاہئے تھی، جہاں بچوں کی اکثریت آج بھی دیہی سکولوں کی غیر علمی فضا میں دقیا نوسی نصاب کا مطالعہ کررہی ہے۔ حکومت پنجاب کی تعلیمی ترجیحات کیا ہیں اور ان کا تعین کیسے کیا گیا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم سہی، لیکن میرے خیال میں مراسلہ نگار کی سوچ آج کے مقبول رجحان کے برعکس پرائیویٹ تعلیم کے فیشن ایبل نعرے کو جھٹلا کر اس خوشگوار حقیقت کو اجاگر کررہی ہے کہ بچوں کے لئے یکساں تعلیمی سہولتیں کسی اور کی نہیں، حکومت کی ذمہ داری ہیں۔عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ تعلیم کا ابتدائی مقصد شرح خواندگی اور پھر معلومات کے پھیلاﺅ میں اضافہ کرنا ہے، اس کے بعد آتے ہیں تحقیق و تلاش کے مرحلے۔ یہ ذرا اونچی سطح کی بات ہے، وگرنہ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے میں تعلیم کی افادیت اس لئے بھی ہے کہ یہ لوگوں کے لئے عمودی حرکت پذیری کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ انگریز کے آخری دور میں یہی ہوا کہ دسویں جماعت پاس کرنے کی دیر ہوتی اور اچھا خاصا معقول نوجوان ”بابو‘‘ بننے کے خواب دیکھنے لگتا، بلکہ افسرانہ صلاحیت والوں کو مسلح افواج میں کمیشن بھی مل جاتا، جبکہ سول سرشتہ میں لیلائے افسری سے ملاپ کے لئے بہرحال ڈگری کی شرط تھی۔
اس حکمت عملی کے پیچھے نو آبادیاتی اغر اض تو ہوں گی، مگر مقامی آبادی کو بھی اس سے فائدہ پہنچا۔ جیسے فوجی میس کے لئے انڈے مرغی کی سپلائی سے لے کر بارکوں میں رنگ روغن اور چھاﺅنی میں ہوٹلوں، سنیما گھروں اور ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے مالکان تک بہت سی نئی سماجی پرتیں ہمارے سامنے آئیں۔ براہ راست یا نچلے عہدوں سے ترقی پانے والے لاتعداد بارسوخ فوجی افسروں کا طبقہ اس کے علاوہ ہے، جس کی بدولت ایک جنگ آزمودہ مصنف کے مطابق.... ہم نے سلیکشن کے لئے عزیز واقارب کے حوالے سے اپنے شجرہءنسب کو کھینچ تان کر اتنے صوبیدار چچاﺅں اور کپتان چچا زادوں کا احاطہ کر لیا تھا کہ بورڈ کو مطمئن کرنے کے بعد بھی کچھ باقی رہ گئے۔
مَیں نے ”ڈان‘‘ کے مراسلے میں نجی تعلیمی شعبے کے خلاف اپنی مرضی کا نکتہ ابھارنے کی جو کوشش کی ہے اس کے جواز میں خود اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات کی ترتیب بدلے بغیر یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ بطور طالب علم اور استاد میری وابستگی جن باضابطہ درسگاہوں سے رہی، ان کی تعداد ڈیڑھ درجن سے ذرا اوپر بنتی ہے۔ ان میں اس نیم فوجی ”دانش‘‘ سکول کو شامل نہیں کیا، جہاں تقرری کے عمل میں اس مطالبے پر کہ انگریزی کے ساتھ اکنامکس پڑھانے کا اضافی مشاہرہ ملنا چاہئیے، کرنل جے ۔ ڈی۔ ایچ چیپ مین کے پاکستانی جانشین نے کہا.... "برخوردار! پہلے دن تنخواہ کی بات نہ کرو۔ مَیں نے ساری زندگی ایسا نہیں کیا۔" "سر! ہو سکتا ہے آپ دنیا میں اپنی نوعیت کے واحد آدمی ہوں ، ورنہ یہ بات تو پہلے ہی دن ہوتی ہے۔" ظاہر ہے اس کے بعد ”وہ ہاتھ سو گیا ”تھا سر ہانے دھرے دھرے۔“
کچھ لوگ کہیں گے کہ چلو، یکے بعد دیگرے سات تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی بات تو مان سکتے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی فیل ہوئے بغیر سولہ یا اٹھارہ سال تک پورے ایک درجن سکولوں اور کالجوں میں پڑھتا رہا ہو۔ اس سوال پر مجھے مرحوم منیر نیازی کا خیال آتا ہے، جن سے میرے دوست اور نامور ریڈیو، ٹی وی پروڈیوسر عارف وقار نے بالکل آخری دنوں میں قدرے اونچی آواز میں پوچھا، ”ڈاکٹروں نے تو اب پینے سے منع کردیا ہوگا“.... ”کردیا ہے“ نیازی صاحب نے مخصوص دھیمے لہجہ میں کہا۔ ”پھر تو آپ بہت تنگ ہوتے ہوں گے۔“ ”ہوتا ہوں۔“ "تو نیازی صاحب! اس صورت میں کیا کرتے ہیں؟" "پی لیتا ہوں!“ میرے پاس منیر نیازی کا سا ٹھہراﺅ ہوتا تو اس امکانی سوال کے جواب میں پوری متانت سے کہتا، ”ہاں، پڑھتا رہا ہوں۔“
یہاں یہ راز افشا کر دینے میں کوئی حرج نہیں کہ میرے ابا اپنی چار بہنوں کے اکیلے بھائی ہیں، جبکہ دادا، جن کی دو بہنیں بھی تھیں‘ اس لحاظ سے تنہا سمجھے گئے کہ ان کے واحد بڑے بھائی نے لالہ سائیں کے ”قلمی“ نام سے سنیاس لے لیا تھا۔ میرا ارادہ لالہ جی کا نام لے کر اپنی روحانی پریکٹس چمکانے کا ہر گز نہیں، صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری پیدائش کے بعد پوری کوشش کی گئی کہ اس وقت کی نو زائیدہ پاکستانی مملکت کی طرح مجھے بھی ”جدید تقاضوں اور ملی ضروریات‘‘ سے پوری طرح ہم آہنگ کردیا جائے۔ اسی جدوجہد کی بدولت مَیں نے تیسری جماعت چوتھے سکول میں جاکر پاس کی، مگر یکے بعد دیگرے ان سکولوں میں ماحول، نصاب، طرز تدریس اور ذریعہء تعلیم کے ساتھ مجھے اچھا خاصا ”چڑی چھکا‘‘ کھیلنا پڑا۔
سیالکوٹ کے اولین سکول میں، جسے لوگوں نے سٹی میموریل کی بجائے یحییٰ شاہ کا سکول ہی کہا، مجھے آج کے گلی محلے کے انگریزی میڈیم ادارے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی فیس کھری کر کے میری انگلش کتنی ”ہائی‘‘ کی، مجھے اس کا کوئی اندازہ نہیں، سوائے اس کے ایک دن ایک کمرے میں بڑی کلاس کی کچھ لڑکیاں ”وہ شمع اجالا“ والی نعت مل کر گارہی تھیں، جو مجھے اچھی لگی۔ اس کے بعد چھاﺅنی کے جونیئر پبلک سکول میں ایک اور ڈرامہ ہوا، یعنی نتیجہ نکلنے پر پتا چلا کہ جس بچے کو بصد اہتمام دوسری جماعت میں داخل کرایا گیا تھا، وہ سارا سال ایک کلاس پیچھے، کے جی ٹو میں پڑھتا رہا ہے، اس لئے اب اسے ترقی دے کر دوسری جماعت میں کیا گیا ہے، تیسری میں نہیں۔
آج یہ سخت حیرت کی بات سمجھی جائے گی، مگر پچاس کی دہائی میں میرے داخلے کے وقت ماں اور پھوپھی دونوں کو ”بے جی‘‘ کے معانی تو معلوم تھے ”کے جی‘‘ کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اصل میں اس ”دانش‘‘ سکول میں علم و دانش کے کسی دباﺅ کے تحت اردو تھی ہی نہیں اور ”پیٹ کین سنگ .... مدر کین سنگ“ کے ساتھ ”کھب صورت، کھب صورت کر کے لکھنا“ پر گزارا چل رہا تھا۔ مجھے داخل کرانے والی پھو پھی خود ایک ہائی سکول میں پڑھاتی تھیں، لیکن کڑے تعلیمی معیار کا حامل یہ ایک روایتی گرلز سکول تھا، جہاں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی اور استانی کو ”آپا جی“ اور ہیڈ مسٹریس کو ”بڑی آپا جی“ کہہ کر مخاطب کرتے۔ اب اتنی اپنائیت اور ادب کی عادی ”آپا جی‘‘ کو کیا پتا کہ کنڈر گارٹن تعلیم میں جماعت شماری کا "اعشاری نظام" کیا ہے۔
میرے گھر والوں نے اپنی غلطی تو تسلیم نہیں کی، بس خفت مٹانے کے لئے میونسپل بورڈ، سیالکوٹ کا ایسا ”بے دانش“ سکول تلاش کرلیا، جہاں مجھے تین ماہ بعد تیسری میں ”چڑھا‘‘ دینے کا وعدہ کرلیا گیا تھا۔ ان دنوں اپنے ”کیس‘‘ کو مضبوط بنانے کے لئے والدین نے دو قومی نظریے کا سہارا بھی لیا کہ بچے کے لئے اردو پڑھنا اور لکھنا بے حد مفید ہے۔ بہرحال، ایم بی پرائمری سکول، اڈہ پسروریاں کے نام سے یہ ایک اور دنیا تھی۔ مسز میسی کی جگہ آزادی کے وقت یہیں رہ جانے والے ماسٹر وزیر چند، کرسی اور ڈیسک کی جگہ گرد آلود ٹاٹ، کاپی پنسل کو چھوڑ کر سلیٹ سلیٹی اور تختی لکھنے کے لئے دھات یا مٹی کی دوات اور بعض حالتوں میں پونڈز کریم کی ”متروکہ‘‘ شیشی۔
ہمارا یہ سکول، جس میں پہلی بار اردو حروف تہجی اور عربی ہندسوں کی صحیح پہچان ہوئی، دو ملحقہ احاطوں پر مشتمل تھا، جنہیں الگ الگ آہنی اور چوبی پھاٹکوں کی وجہ سے لوہے والا اور لکڑ والا سکول کہتے۔ سکول لگتے ہی پہلے حساب، پھر املا اور اردو کی کتاب، جس میں "ہمارے پیارے نبی"، ”حضرت عمرؓ اور بڑھیا“، ”چڑیا اور جگنو“، ”بہادر لڑکا“ اور ”سلمیٰ کی گڑیا“ نے خوب مزا دیا۔ آگے چل کر ”گیت اسی کی حمد کے گائیں‘‘، ”چاند سہانی رات میں نکلا‘‘، ”وہ دیکھو ہوائی جہاز آ رہا ہے“ .... جس چیز نے طبیعت کا ترنم سیٹ کیا وہ آدھی چھٹی کے بعد شمشاد بیگم اور سکھیوں کے انداز میں لہک لہک کر پہاڑے گانے کا پُرجوش عمل ہے، جس میں باقاعدہ سُر تال کے ساتھ ضلعی جغرافیہ کے مشہور مقامات، ندی نالے اور ریل کے رابطے بھی شامل ہوجاتے، سیالکوٹ سے وزیر آباد، سیالکوٹ سے نارووال، سیالکوٹ سے جموں۔
لوہے والے سکول میں ایک سال گزرا ہو گا کہ والد کا تبادلہ واہ ہو گیا، جہاں کنٹونمنٹ بورڈ ماڈل پرائمری سکول میں بھولی بسری اے، بی، سی پھر سے یاد کرنے کی مشق شروع ہوئی، مگر خوش قسمتی یہ تھی اس کے ساتھ اردو بھلا دینے کی شرط عائد نہ کی گئی۔ بعد کے برسوں میں کئی ایک دانش سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پالا پڑا، لیکن آج بھی بازار میں کسی ایک آئٹم کی قیمت پوچھ کر آدھی یا پوری درجن کا حساب لگانے لگتا ہوں تو ذہن میں "بارہ چھیک بہتر، تیرہ چھیکے اٹھہتر، سولھو بارہیا ایک سو بانوے" ایک کیف آگیں نغمہ بن کر گونجنے لگتے ہیں۔ پس منظر میں سکول کے دروازے پر تازہ گنڈیری کٹنے کی مہک، نکے فالودے کے باہر چھڑکاﺅ کے قطرے، حسن دین کا تر تراتا ہوا حلوہ پوری اور بنٹے والی بوتلوں کی "چزززز ٹھک"۔ میرا کنڈر گارٹن یہی لوہے والا سکول ہے۔