لذت آشنائی- گذشتہ مکمل - زندگی کی پنہاں حقیقتوں اور لذتوں سےآشکار ہوں- 2

گوہر

محفلین
تحریروتحقیق: محمد الطاف گوہر
لذت آشنائی قسط نمبر 3​

اس خطہءزمین پہ ہم روزانہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوے صبح کو آتے ہیں ، دن گزارتے ہیں اور رات کو واپس چلے جاتے ہیں کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مختصر سے لمحے کو رہنے کی زندگی کیلئے شاندار محلات تعمیر کرتے ہیں اور شانِ طولانی دیکھئے کہ انا (خود پسندی) کی ملمع کاری بھی سمندر میں اُٹھتی ہوئی لہر کی طرح ہے جو اپنے ہی شور میں یہ بھول گئی ہے کہ آخر اِسے پھر واپس اِسی سمندر میں مل جانا ہے تو پھر اتنا تلاطم کیسا؟ اور اتنا بپھرنا بھی کیا؟آخر سر اٹھاتی ہوئی موجیں (لہریں) ہی کناروں سے اپنا سر پھوڑ تی ہیں وگرنہ گہرے سمندر تو از لوں سے خاموش اور ساکن رہے ہیں۔ ہمارے رشتے اور ناطے آپس میں کچھ اس طرح سے ہیں کہ جیسے ریل کے ایک ڈبے میں چند لوگ بیٹھے سفر کر رہے ہوں اور ان کو اپنی نامعلوم منزل پر پہنچنا ہے اور جیسے ہی کسی کی منزل آ گئی وہ اُتر گیا اور پھر یہ سفر جاری رہا اور آخر ایک وقت آتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ عدم سدھار جاتے ہیں تو پھر آپس میں نفرتیں، عداوتیں اور محبتیں کیسی؟
میں (Self) جو کہ اِس کائنات سے ہمارا رابطہ (Channel) بنتی ہے اس تک رسائی کیلئے پہلے ہمیں اپنے قلوب کے زنگ کو اُتارنا ہو گا جبکہ یہ زنگ وہ بدعملیاں اور منفی جذبے و رویے ہیں جو ہمارے من (قلب) پہ زنگ کی ملمع کاری کی طرح تہہ در تہہ چڑھتے رہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ باہر کی روشنی اندر دکھائی نہیں دیتی اکثر اوقات خوشبختی، سکون اور راحت باہر سے دستک دیتے ہیں اور اندر آنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں مگر اندر کے یہ دُشمن اِنہیں گھسنے نہیں دیتے۔ ہمارے تمام یہ منفی رویے جذبے (حسد، لالچ، مکر، فریب، دھوکہ دہی، نفرت وغیرہ) اور خوامخواہ کے خوف جو ہم نے اپنے اندر بیج (تخم، Seed) کی طرح بو دئیے ہیں آخر کچھ تو پھل دیں گے؟
قدرت کے بچھائے ہوئے سبز مخملی قالین (گھاس) پہ چلتے ہوئے ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ رنگ برنگے پھل و پھول اور پودے اور تنا آور درخت سب کے سب ایک ہی زمین سے نکلے ہیں مگر ہر ایک کا ثمر (پھل) اور خاصیت دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ گلاب کے پودے پر گلاب کا پھول مگر نرگس کے پودے پر نرگس کا پھول اور دونوں کی رنگت اور خوشبو جداگانہ حالانکہ ایک ہی زمین سے نکلی ہوئی یہ نباتات جو کہ جبلت کی باندھی ہوئی ہے (یعنی نشوونما تو ہے مگر نقل مکانی نہیں اور نہ ہی سمجھ بوجھ) اس کو بھی معلوم ہے کہ گلاب کے پودے کے ساتھ گلاب کا پھول لگے گا نہ کہ چنبیلی یا نرگس کا۔ اب اگر ہم آم کا بیج بو کر سیب کے پھل کی دُعا مانگیں تو کیا خیال ہے کہ دُعا قبول ہو گی یا کونسا پھل ملے گا؟ قدرت تو قدرت ہے ہر چیز کی طاقت رکھتی ہے اور اُس کیلئے سب کچھ ممکن ہے مگر ہمیں سنت خدا وندی بھی تو معلوم ہونی چاہیے کہ جس کا قدرت بھی خیال رکھتی ہے یہاں قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک شاہکار قانون ہمیں پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ جیسا بووءگئے ویسا کاٹو گے (یعنی جیسا تخم ہو گا ویسا ہی پھل ہو گا) یہاں بیج (Seed) وہ رابطہ (Channel)ہے جو زمین کے ساتھ ایک پودہ اور درخت رکھتا ہے اور اس کی خاصیت کی وجہ سے مخصوص پھل اور پھول حاصل کرتا ہے۔
اگر دُنیا کو ایک معصوم چڑیا کی نظر سے دیکھا جائے جس کے گھونسلے میں پڑے ہوئے بچے ایک سانپ کھا رہا ہے تو دُنیا ہمیں کتنی ظالم دکھائی دے گی مگر اسی لمحے اِس بھوکے سانپ کی نظر سے دُنیا کو دیکھا جائے تو دُنیا کتنی مہربان نظر آئے گی کہ بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا ملا ہے مگر ہمیں اِن نقطہ نظر سے کیا لینا دینا؟ ہمیں تو صرف اِتنا سمجھنا ہے کہ وہ زاویے (Angle)، واسطے (Channel)، نظریے(Concept) اور بیج (Seed) کونسے ہیں جو کہ ہماری زندگی کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ہمارے سامنے تو زندگی (دُنیا) فطرت کے شاہکاروں سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نظر میں وہ زاویہ کہاں ہے، وہ رابطہ کہاں جو اِن شاہکاروں کو ملاحظہ فرمائے؟ اپنی نظر میں اتنی بصارت کہاں۔ ہمارے قلوب کے زنگ وہ پردے ہیں جو ہمیں سکون، راحت اور خوشبختی اور صحت کے تحفے حاصل کرنے سے دور رکھتے ہیں۔ ہمیں تو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جسکی چھاپ ہمارے قلوب میں پڑ چکی ہے یعنی جیسا بیج ویسا ہی پھل۔
اب اگر آپ نے اُردو زبان لکھنی پڑھنی سیکھی ہے تو آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ورنہ آپ کے سامنے یہ آڑھی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ تحریر کسی ایسی زبان میں لکھی ہوتی جسکو کہ آپ جانتے نہیں تو کس طرح سے ممکن تھا کہ آپ اِس کو پڑھ سکتے اور پھر اِسکو سمجھ سکتے؟ یعنی ہماری باہر والی دُنیا پر ہماری اندر والی دُنیا کی چھاپ ہوتی ہے اور ہمیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جس کا عکس ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے ورنہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک دریا میں ایک مچھلی نے دوسری مچھلی سے پوچھا کہ کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی میں نے تو اپنی زندگی میں پانی نہیں دیکھا تو دونوں مِل کر ایک بوڑھی مچھلی کے پاس گئے اور پوچھا کہ اماں کبھی پانی دیکھا ہے تو وہ بولی بچو میں نے بھی اپنی زندگی میں پانی نہیں دیکھا۔ آپ اندازہ کریں کہ اِنہوں نے اگر کبھی خشکی دیکھی ہوتی تو اِن کو پانی کا اندازہ ہوتا اور جس نے ساری زندگی پانی میں گزاری ہو اِسے (ضد دیکھنے کا موقع نہ مِلا ہو) تو اِسے کیسے اندازہ ہو سکتا ہے پانی کیا ہو تا ہے ا؟
جمادات (Stoneبے حرکت کوئی نشوونما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشونما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animal سب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے باندھے ہوئے) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں، Self) سے کروا دیتا ہے حالانکہ ہمارے منفی جذبے، رویے اور غلط نقطہ نظر وہ گرداب ہیں جن میں پھنس کر اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ بہت خوب گزر ہو رہی ہے حالانکہ ہم ایک دائرے میں سفر کر رہے ہوتے ہیں جہاں منزل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں اور بعض اوقات ہمارے چور دروازے پستی کی طرف کھلے ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم دوڑ رہے ہیں مگر جتنا تیز دوڑتے ہیں اتنا ہی پستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ بلندی اور ندرت اور کھلے آسمانوں کا سفر تو قدرت کے حسین و جمیل تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے وہ اِنہیں کو ملتا ہے جو اپنا قلب اِن تمام ملاوٹوں (منفی جذبے، رویے اور خواہ مخواہ کے خوف) سے پاک رکھتے ہیں یہ آئینہ جلا کا کام دیتا ہے اور ہمیں اپنی خود ی(میں Self) کے تمام زاویے اور ثمرات ملتے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں۔ اِسی خود ی(Self)کا سفر بھی کیسا کہ نڈر اور بے پرواہ کوئی خوف نہیں نہ کوئی ملمع کاری خوشی کے وقت ہنسنا اور حقیقی خوشی اور تکلیف کے وقت رونا کوئی دکھلاوا نہیں اور کوئی غرض نہیں اور نہ ہی کسی کیلئے دھوکہ دہی کہ یہ وہ ہمارا بچپن ہے کہ جہاں خودی(Self)اپنی موج میں رواں دواں ہے۔ اب زندگی کے رنگ بدلتے ہیں اور نفرتوں، خواہشوں کے گرداب میں پھنس کر اور کبھی خود پسندی کے فریب میں ہم اپنی خود ی(Self)سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے درمیان یہ پردوں کی طرح حائل ہوتے جاتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہمارا رشتہ ہمارے ازل سے کٹ جاتا ہے۔
جس طرح ہمارا رابطہ اپنے ازل(اصل) اور کائنات سے اپنے اندر سے خود ی(Self)کے ذریعے ہوتا ہے اِسی طرح ہمارا بیرونی دُنیا سے رابطہ ہمارے ذہن (Mind) کے مرہون منت ہے اور انسان کے سوچنے کی صلاحیت اس کو کائنات پر دراندازی (مداخلت) کا موقع فراہم کرتی ہے اب جس طرف بھی نظر دوڑائیں گے آپ کو ایک طرف قدرت کے شاہکار نظر آئیں گے اور دوسری طرف لوگوں کے جمے ہوئے خیالات بھی نظر آئیں گے یعنی یہ ہماری تعمیر کردہ دُنیا (اشیا)، تعمیرات اور ایجادات۔ اب اگر ایک لکڑی کی میز کو دیکھا جائے اِس کا خاکہ پہلے کسی اِنسان کے ذہن میں تیار ہوا پھر اِن خیالات نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور وہ ہمیں لکڑی کے میز کی شکل میں منجمد نظر آئے اِسی طرح آپ تعمیرات کو دیکھیں اور ایجادات کو دیکھیں تو یہ سب کے سب لوگوں کے خیالات کا انجماد ہی تو ہے کہ پہلے یہ خیال ذہن میں نقشہ کی طرح بنا اور پھر ٹھوس (منجمد) شکل اختیار کر گیا جسے ہم اِنسانی سوچ کا شاہکار بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ خود ی(Self) اِنسان کے اندر سے رابطے کیلئے کسی واسطے کی محتاج نہیں جبکہ ذہن حواسِ خمسہ کا محتاج ہے یعنی ہمارے اندر معلومات ذخیرہ کرنے کیلئے پانچ حواس ہوتے ہیں جن کے باعث یہ معلومات ذہن اپنے پاس ذخیرہ کرتا ہے (چکھنا، چھونا، سونگنا، دیکھنا اور سُننا)یہ وہ صلاحیتیں ہیں کہ جن کے بل بوتے پر ایک انسان اپنا ذہن Mind بناتا اور اپنی اندر کی دُنیا تعمیر کرتا ہے۔
خود ی(Self)کا کائنات سے رابطہ اور تعلق اِن سب واسطوں سے بے نیاز ہے (ادراک ماورائے حواس ESP)۔ اِس من کی دُنیا میں اگر چشمہ خودی پھوٹ پڑے تو زندگی تپتے صحراؤں سے نکل کر سکون کی گھنی چھاﺅں میں آ جاتی ہے اور اندر کا عکس بدل جاتا ہے اور باہر بھی شاہکارِقدرت کا نظارہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے سے کشف وجدان کے دھارے اور علم و عرفان کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور زندگی خزاں سے موسمِ بہار میں آ جاتی ہے۔ اِس آگہی کی لذت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ بیرونی دُنیا پہ بھی براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ آسمانوں سے مینہ برستا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور قدرت کی طرف سے شاندار استقبال کیا جاتا ہے اور اِس کائنات کا ذرہ ذرہ اِس لذت سے معمور ہوتا ہے کہ جن کا الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے اِسی کے دم سے پھلوں میں رس بھرا جاتا ہے اور پھولوں میں خوشبو۔ بیماروں کو شفا ملتی ہے اور یہ نظر جس طرف اُٹھتی ہے بہار ہی بہار آ جاتی ہے اور اِس نظر کی موج میں آنے والا ہر پل اپنے اوپر ناز کرتا ہے اور ہر فنا اپنی بقاء دیکھتی ہے۔ اِس زمین میں زرخیزی آتی ہے با الفاظِ دیگر اِس خود ی(Self)کا کیا کہنا کہ جو لذت آشنائی سے لبریز ہے اور ہم اِس کا تذکرہ قرآن کریم سے دیکھتے ہیں۔ سورة الکہف (آیت 60 تا 86) کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کا تذکرہ کیا ہے جسے اللہ نے اپنا فضل اور علم بخشا ہے۔ (آیت 79 تا 86) دیکھیں کس طرح سے میں سے ہم اور ہم سے اللہ تعالیٰ کا تعلق بیان کیا گیا ہے (میں نے چاہا، ہم نے چاہا اور تیرے اللہ نے چاہا) حالانکہ اِس واقعہ میں جو بیان کیا گیا ہے سارے کے سارے واقعات ایک بندہ کے ہاتھ سے سرزد ہو رہے ہیں مگر اِن کی توجیہہ میں ”میں“ سے اللہ تک کی رسائی کا پتہ ملتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا۔ اِس واقعہ میں شریعت اور طریقت کا شاندار امتزاج بیان کیا گیا ہے اور ایک بندے کی ”میں“ کا اللہ سے تعلق بیان کیا گیا ہے۔ آشنائی کی لذت سے مامور دیے (چراغ) تو ابد تک کیلئے روشنی بن جاتے ہیں اور یہ روشنی دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے اور ہماری زندگیوں میں روشنی اِنہی چراغوں کے دم سے ہے ورنہ کائنات کا ردِعمل ہر ظلم و زیادتی اور آہ پہ آندھی، طوفان اور زلزلوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ کائنات ہر کرب کا اور مظلوم کی آہ کا جواب ضرور دیتی ہے ۔
مراقبہ کی روح تو آپ کی خدمت میں پیش کر دی اور خودی (Self) کی لذت کا آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا مگر اِن ثمرات میں مراقبہ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ شاید کسی اور چیز کو نہیں اس عمل کو کرنا دراصل آپ کو آپکی شعوریت کے قریب لاتا ہے اور یہ ایسا ہی عمل ہے جیسا ایک بنجر زمین پر ہل چلانا اور پھر اِس کو دھوپ میں چھوڑ دینا تا کہ اِس کے اندر کی جڑی بوٹیاں (بے لگام خیالات( خود بخود فنا ہو جائیں اور زمین بیج بونے کے قابل ہو جائے اور اب اِس میں بیچ لگا کر اِس کو پانی دیا جائے اور پھر اِسکے پودے کی نشوونما کی جائے اور پھر کہیں جا کر پھل نصیب ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے اِتنی ثابت قدمی ممکن ہے کیونکہ الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پیرونا تو آسان ہے مگر مقامات آگہی میں غوطہ زن ہونا بڑے جگرے کی بات ہے البتہ گہرے سمندر میں غوطہ زنی نہ سہی مگر کنارے کنارے رہ کر کچھ تو سیکھا (حاصل کیا) جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
لذت آشنائی قسط نمبر 4​
زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی (Travel) چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِرد گرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو عاجزی کی لو سے روشن ہوتا ہے۔ بلندوبالا پہاڑیوں کی کھوکھ سے جنم لینے والے ہزاروں، لاکھوں چشمے، ندیاں، نالے اور دریا آخر سمندر کی گود میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں کیونکہ سمندر انکے مقابلے میں ہمیشہ پستی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑائے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں بلکہ ہم تو کامیابی اور سکون کے وہ سفینے ہیں جو عافیت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم موت کے منہ میں ایک اور نوالہ نہیں ہیں بلکہ ہم تو وہ جلتی شمعیں ہیں جو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشنی بانٹتی چلی جا رہی ہیں اور جہالت کی تاریکی کے سامنے ہم تو وہ چراغ ہیں جو دُنیا کو سورج کی طرح روشن نہ کر سکے مگر اپنے ارد گرد کو تو روشن رکھتے ہیں اور ہم تو وہ ٹھنڈی چھاﺅں ہیں جو تپتی دھوپ میں سایہ بنتے ہیں۔ ہم وہ جوہڑ نہیں ہیں جو زندگی کو فنا کا درس دیتے ہیں اور بقا کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ ہم تو علم و فن کے وہ چشمے ہیں جو زندگی کو بقاءکا درس دیتے ہیں جہاں سے ہر کوئی سیراب ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ اِسی وقت ممکن ہے کہ جب ہمارے اندر خودی (میں، Self) کا دیا جلتا ہے اور ہمارا رابطہ ازل سے جڑ جاتا ہے۔
اس کائنات میں کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی واقعہ حادثہ ہوتا ہے بلکہ ہر شے خاص مقصد کیلئے ہے اور ہر واقعہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جبکہ ہماری سوچنے کی طاقت ہمارے معاملاتِ زندگی کے لیے ہدایتکار (Director) کا درجہ رکھتی ہے اور جو خیال ذہن میں ایک مرتبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا جبکہ وہ اپنی قوت اور مماثلت کے حساب سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قلم جس سے میں لکھ رہا ہوں اور یہ پنکھا جس کی ہوا میں میں بیٹھا ہوں اور وہ کرسی جس نے مجھے بیٹھنے کی سہولت دی ہے اور وہ میز جس کے مرہون منت اِس تحریر کو لکھنے کی معاونت مل رہی ہے اور وہ بلب جس کی روشنی میں مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا ہے اور یہ کاغذ جس پہ میں لکھ رہا ہوں اِن میں سے کوئی بھی بے مقصد نہیں بلکہ ہر شے اپنا مقصد پورا کر رہی ہے۔ اِن میں سے اگر کوئی بھی ایک شے اپنا مقصد پورا نہ کرے تو ہم فوراً اِس کو ردی کی ٹوکری یا کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیں گے کیونکہ جو اپنے مقصد سے ہٹ جائے وہ ہمارے لیے بے کار ہے۔ اب اگر قلم (Pen)میں سیاہی ختم ہو جائے یا میز کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا پھر پنکھا ہوا دینا بند کر دے یا بلب روشنی دینا بند کر دے (Fuse) تو کیا خیال ہے اِن کو ہم ایک لمحہ مزید برداشت کریں گے؟ جی ہاں ایک لمحہ بھی نہیں کیونکہ اِس سے ہماری روانی میں خلل آتا ہے اور ہمارے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی چیز (چاہے وہ بے جان ہی کیوں نہ ہو) اگر اپنے کام اور مقصد سے ہٹ جائے گی تو وہ بالکل بے کار اور بے مقصد ہو جائے گی اور ہم اِسے ضائع کر دینا پسند کرتے ہیں، تو کیا خیال ہے ہم بغےر کسی مقصد کے پیدا ہوئے ہیں؟ ہم جو اِس کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار ہیں کِس کام پر لگے ہوئے ہیں، آیا ہم کارآمد ہیں یا بے کار ہو چکے ہیں؟اگر بے کار ہو چکے ہےں تو قدرت نے ابھی تک ہمیں ردی کی ٹوکری میں کیوں نہیں پھینکا؟
قدرت نے کائنات کی ہر شے ہمارے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے آ پنے لیے نظر آئے گی او ر اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کِس لیے ہیں۔ کائنات کی ہر شے دوسروں کے فائدے کیلئے ہے (نہ کہ اپنے لیے) جبکہ ہر چیز دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے اور انکے لئے کس طرح فائدہ مند ہونا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلئے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔ ہم کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟
طوفانوں سے لڑو تند لہروں سے اُلجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے​
آپ اگر گھڑی کو سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں اور وقت کا گزرنا ملاحظہ کریں تو یقینا آپ گھنٹوں بھی بیٹھیں رہیں گے مگر آپ کو گھنٹوں اور منٹوں والی سوئیاں ساکن نظر آئیں گی جبکہ وقت گزرتا رہے گا یہ برف کی طرح پگھلتی زندگی کے ماہ سال صرف کسی اچھے وقت کے انتظار میں نہ گزار دیں بلکہ وہ لمحہ جو ہمیں بیدار کرتا ہے دراصل اِسی میں زندگی ہے اور باقی وہ لمحے اور پل ہیں جو ہمیں نیم خوابیدہ کرتے ہیں اور یہ وہ خود رو سلسلہ زندگی ہے کہ جہاں وقت کو ضائع کر رہے ہیں، وقت کو ہم اِسی طرح قید (Save) کر سکتے ہیں کہ اپنے پل زندگی کے بیدار لمحوں سے سیراب کردیں۔
پانی قدرت کا حسین تحفہ اور عطیہ ہے اور اسکا سفر کتنا دلچسپ ہے کہ ہلکا ہو تو آکاش کی طرف سفر کرتا ہوا ہواﺅں کو آبیار (Pregnent) کرتا ہے، کبھی تو بادل بن کے آسمان پر چھا جاتا ہے اور پھر رحمت بن کے زمین پہ برستا ہے،اور کبھی آلودہ فضا کی غلاظتوں کو سمیٹتا ہے تو کبھی پھولوں پہ شبنم بن کے موتیوں کی طرح چمکتا ہے اور کبھی آبشار بن کے موسیقی کا سامان مہیا کرتا ہے اور کبھی برف بن کے پہاڑوں کی چوٹیوں پہ دمکتا ہے مگر زمین پہ ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہے اور اگر اِس کے بہاﺅ کو پابند کر دیا جائے (حدوں میں، Boundries) تو ندی، نالوں اور دریاﺅں کی طرح بہتا ہے اور کبھی چشمہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔ اگر حدوں میں رہے تو اس کے باعث طاقت پکڑتا ہے۔ اگر ایک طرف ہمارے لیے آبپاشی کا سامان مہیا کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے۔ اور اِسی طرح اس کا آدھا سفر ایک سمندر میں مدغم ہونے پہ مکمل ہو جاتا ہے جبکہ سورج کی تپش اسے مشتعل کرتی ہے اور پھر یہ بھاپ بن کر ہوا کے بازوﺅں پہ بلند و بالا پہاڑوں کا سفر کرتا ہے اور پہاڑوں کی ننگی چوٹیوں کو سفید مخمل غلاف (برف) سے ڈھانپ دیتا ہے۔ مگر ایک بار پھر اچانک دھوپ کی تپش اِسے تھپکی دیتی ہے اور یہ پھر رخت سفر باندھ لیتا ہے اور ہواﺅں کے دوش پہ سوار میدانوں کا رُخ کرتا ہے اور خطہءزمین پہ رحمت بن کے برستا ہے اور بنجر زمین اس کے دم سے سونا اُگلنے لگتی ہے۔
قدرت نے پانی کی فطرت میں بہنا لکھا ہے اگر اِسے بہنے کا موقع نہ ملے تو تالاب اور جوہڑ کی شکل میں رُک جاتا ہے اور یہیں اِس میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے جو زندگی کو فنا کا درس دیتی ہے۔ اور اگر اِس کے بہاﺅ میں حدیں نہ رہیں تو اپنی لامحدود طاقت و طغیانی کے باعث سیلاب کی شکل میں میدانوں میں دندناتا پھرتا ہے اور کسی سرکش حیوان کی طرح ایک بار پھر زندگی کو فنا کی طرف بہا لے جاتا ہے جبکہ حدوں میں بہتے ہوئے زندگی کو بقا دیتا ہے مگر حدوں کو توڑنے میں اور رُکنے میں فنا سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کا یہ سفر ازل سے اِس کی گتھی میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ اپنے سفر میں رواں دواں ہے (Automatic)۔ قدرت نے انسان کے اندر اور باہر پانی کا انتہائی اعلیٰ تناسب رکھا ہے جبکہ زمین تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی سے مرکب ہے اور یہ خشکی کا خطہ پانی کی سطح پر تیرتا پھرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی جگہ بدلتا ہے، اگر دُنیا کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اندازہ ہو گا جہاں پہلے کبھی سمندر تھے وہاں خشکی کا بسیرا ہے اور جہاں پہلے خشکی کا خطہ تھا وہ اب سمندرکا مسکن ہے۔ یہ معاملہ کچھ بھی عجیب نہیں یہ سب کچھ ہمارے لیے بنا ہے کیونکہ ہم اِس کارخانہ قدرت کے شاہکار ہیں اِس کائنات کی تمام مخلوق ہمارے لیے سربستہ ہاتھ باندھے (مسخرہونے کو) کھڑی ہے کہ جیسے الہ دین کے چراغ والا جن اپنے آقا کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے اور اس کے کسی بھی حکم کو بجا لانے کیلئے تیار ہے۔ مگر ہمارے اندر اِتنی سکت کہاں کہ ہم اِس ”جن“ کو قابو میں کر لیں۔ اِن تمام طاقتوں پہ حاوی ہونے کی کنجی (Key) کسی بھی جن یا دیو کے پاس نہیں بلکہ ایک اِنسان کی دسترس میں ہے جو ”لذت آشنائی“ سے سرشار ہے۔ قدرت نے تمام کی تمام کائنات ہمارے تسخیر کرنے کیلئے بنائی ہے مگر ہم لذت کے جھوٹے اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں سے دل بہلا رہے ہیں۔
ایک دفعہ ایک چرواہے کو جنگل سے شیر کا شیرخوار بچہ ملا اِس نے اِس کو اپنے بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ رکھ لیا یہ بچہ اِنہیں میں پل کر بڑا ہوا مگر وہ بکریوں کے ساتھ رہ کر اِنہی کی طرح کا ہو کر رہ گیا تھا،ایک دفعہ جنگل میں ایک بوڑھے شیر نے دھاڑ ماری اور بکریوں کے ریوڑ کی طرف لپکا اِس بوڑھے شیر کو دیکھتے ہی سب بکریاں بھاگنا شروع ہو گئیں جس کو دیکھ کر وہ شیر بچہ (جو اب جوان ہو چکا تھا) نے بھی بھاگنا شروع کر دیا مگر اچانک اِس کا آمنا سامنا اِس بوڑھے شیر سے ہو گیا
اور اِسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ بھی اِسی طرح کا ہے تو اب اِس نے بکریوں کی طرح ممیانہ بند کر دیا اور ایک گرج دار دھاڑ ماری کہ بوڑھا شیر ڈر کے بھاگ گیا اب یہ شیر بچہ جو کہ بکریوں میں پل کر جوان ہوا تھا اِس نے اپنی حقیقت کو جانا اور بکریوں کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی کہ میں تو جنگل کا بادشاہ ہوں (میرا مقام یہ نہیں ہے کہ میں ان چھوٹے کھلونوں سے دل بہلاؤں ) ۔ اس نظر نے وہ زاویہ دیکھا جو حقیقت شناسا تھا اور اِس آمنے سامنے (Face to Face)کے زوایہ نے شیر کو اُس کی اصلیت اور اُس کا مقام بتا دیا۔ ہم اپنا دل لذت کے جھوٹے کھلونوں سے بہلا رہے ہیں اور حقیقت کو 359 زاویوں میں تلاش کر رہے ہیں حالانکہ یہ ہمیں حقیقت سے دور لے جاتے ہیں۔ حقیقت شناس زاویہ (Face to Face) ہمیں میدان میں آنے کی دعوت دیتا ہے اِس زاویہ کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر تمام دوسرے غلط زاویوں کی نفی کرنا ہو گی۔ اپنے اندر کے کھیت میں ہل چلانا ہو گا اور اپنے ذہن کی زمین (Hard Disk)کو تیار (Format)کرنا ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو پہلے اِسکی بنیادیں کھودی جاتیں ہیں اور ہر نئی فصل اُگانے کیلئے ہل چلانا پڑتا ہے اور اگر سچ پوچھیں تو حقیقت کے چشمے سے سیراب ہونے کیلئے ”لا“ (No) یعنی نفی اور ہر شے سے انکار (Reset) کرنا تو ازل سے سلامتی کے مذاہب کی اساس رہی ہے کیونکہ تمام خود رو جنگلات چاہے کتنے ہی بھلے معلوم کیوں نہ ہوں مگر اصل حسن تو اِن باغات میں ہے جو اِنسان نے زمین پہ محنت کر کے اُگائے ہیں جیسے پانی اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو سیلاب بن جاتا ہے اِسی طرح ہمارے اندر کی لامحدود طاقت اِنسان کو درندہ بھی بنا سکتی ہے اور یہ معصوم صورت درندہ زندگیوں کیلئے فنا بن جاتا ہے۔ اِنسان کے اندر (ذہن) کی طاقت صرف اور صرف ”خیال“ (Thought)میں پنہاں ہے اور یہ اِس پانی کی طرح ہے جو لطیف (ہلکا) ہو جائے تو عرش (آسمانوں) کا رُخ کرتا ہے اور اگر بے قابو ہو جائے تو تباہی و بربادی (خون خرابہ) کا باعث بنتا ہے اور اگر کسی جگہ رُک جائے تو بے چینی (Tension) اور ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ کائنات کی تسخیر کی کنجی (Key) بھی اِسی خیال کی طاقت کے مرہون منت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لذت آشنائی قسط نمبر 5
مائنڈ سائنس (Mind Science) قوت خیال

قدرت ہمیں معاملاتِ زندگی میں سے گزرنے پر مجبور کرتی ہے گرچہ ہم جتنا مرضی جمود میں رہنے کی کوشش کریں۔ ہر مثبت اور صحیح سوچ رکھنے والا شخص نہ صرف معاملاتِ زندگی میں پرجوش اور متحرک (Dynamic)ہے بلکہ اپنی ترقی، کامرانی اور ذہنی پیش رفت کو بھی قدرتی انداز میں رکھنا پسند کرتا ہے جبکہ پیش رفت صرف اور صرف تصورات، خیالات، عوامل اور حالاتِ زندگی کی بہتری کے مرہون منت ہے جو کہ نتیجتاً ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا تخیل (خیالThought) کے تخلیقی مراحل کا مطالعہ اور ان کا زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا استعمال ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیالات (دقیق تا ارفع Alpha and the Omega) کا ابجد (Alphabat)بنانے کے لیے الہامی اور فلسفیانہ ذرائع ہمارے لیے عظیم سچائی (حقیقت) تک رسائی کا موجب بنتے ہیں جبکہ انسانیت اِس اکیسویں صدی میں بڑے زور و شور سے ”حقیقت کی تلاش“ میں ہر وہ راستہ افشاں کرنے پر تُلی ہوئی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے اس تک پہنچنے کا موجب بنے۔ خیال کے بارے میں علم وہ طریقہ کار واضح کرتا ہے جس کے باعث انسانی زندگی کے ارتقائی اور تسلسل کے عمل میں بلندی اور تیزی آتی ہے۔
ع ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں​
جب انسانی سوچ کسی بند گلی میں جا کررک جاتی ہے اور کوئی راستہ نہےں ملتا تو انجام خاتمہ! علم ہی انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے یہ انسانی شرف ومعراج صرف علم کی وجہ سے ہے۔ علم کی روشنی جہاں آجائے وہاں تاریکی ختم ہو جاتی ہے ذہن انسانی جس کی حسیت انسانی سلطنت میں بادشاہ سلا مت کی ہے اسکی مرغوب غذا ہی علم ہے جسکی بدولت وہ پھلتا پھولتا ہے اور سلطنت کے معاملات کو چلاتا ہے۔اگر حضرت انسان اپنے ذہن کو علم سے محروم رکھے گی تو یہ کسطرح ممکن ہے کہ وہ معاملات زندگی پر اپنی گرفت کر سکے ؟ علم کی بہت سی شاخیں ہیں جو انسان کی زندگی میں عروج و ترقی کا باعث بنتی ہیں،اگر اچھا کاروبار کرنا ایک فن ہے تو اچھا لکھنا اور اچھا بولنا بھی ایک فن ہے اسی طرح اگر تعلیم و تر بیت میں شاندار کامیابی بھی ایک فن ہے تو اچھا کھیلنا بھی ایک فن ہے ۔اب اگر ہم زندگی کے سارے علم و فنون کو حاصل کر لیں جو کامیابی و کامرانی کی طرف لے جاتے ہیں مگر زندہ رہنے کا فن نہ سیکھیں تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟
تخیل ہمارے لیے بہتے پانی کی مانند ہے اگر حدوں میں رہے تو لازوال طاقت ہے اور اگر حدوں کو توڑ دے تو طوفان جبکہ یہ طوفان ناقابل تسخیر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپ اس کا راستہ تبدیل کرنے کا طریقہ جانتے ہیں تو آپ اس کا رُخ موڑ سکتے ہیں اور اس کو کارخانوں میں لے جا کر وہاں اس کی قوت کو حرکت، حرارت اور بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ تخیل (خیال) کو گھر بیٹھا دیوانہ بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر بے سدھ گھوڑے سے بھی وابستہ کر سکتے ہیں جس کی نہ لگام اور ہی باگیں، ایسی صورت میں سوار اس کے رحم و کرم پہ ہے کہ جہاں وہ چاہے اس کو کسی کھائی میں گِرا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے لیکن اگر سوار گھوڑے کو لگام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اب یہ گھوڑا (تخیل) اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاتا بلکہ سوار جہاں چاہے گھوڑے کو وہاں لے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
مائنڈ سائنس (Mind Science)اکیسویں صدی کی اختراع ہے جبکہ تخیل (Thought)کو اب ایک بالیدہ شعور سے پالا پڑا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہر خیال آپ سے پوچھ کے آپ کے پردہ اسکرین پر ظاہر ہو گا اور یہی انسانی ذہن کا کمال ہے کہ وہ اپنے تخیل پے حکمرانی کرے ۔ حقیقت شناس زاویہ (Face to Face) ہمیں میدان میں آنے کی دعوت دیتا ہے اِس زاویہ کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر تمام دوسرے غلط زاویوں کی نفی کرنا ہو گی۔ اپنے اندر کے کھیت میں ہل چلانا ہو گا اور اپنے ذہن کی زمین (Hard Disk)کو تیارکرنا ہو گا کیونکہ جب بھی کوئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو پہلے اِسکی بنیادیں کھودی جاتیں ہیں اور ہر نئی فصل اُگانے کیلئے ہل چلانا پڑتا ہے اور اگر سچ پوچھیں تو حقیقت کے چشمے سے سیراب ہونے کیلئے ”لا“ (No) یعنی نفی اور ہر شے سے انکار (Reset) کرنا تو ازل سے سلامتی کے مذاہب کی اساس رہی ہے کیونکہ تمام خود رو جنگلات چاہے کتنے ہی بھلے معلوم کیوں نہ ہوں مگر اصل حسن تو اِن باغات میں ہے جو اِنسان نے زمین پہ محنت کر کے اُگائے ہیں جیسے پانی اپنی حدوں سے باہر نکل جائے تو سیلاب بن جاتا ہے اِسی طرح ہمارے اندر کی لامحدود طاقت اِنسان کو درندہ بھی بنا سکتی ہے اور یہ معصوم صورت درندہ زندگیوں کیلئے فنا بن جاتا ہے۔ اِنسان کے اندر (ذہن) کی طاقت صرف اور صرف ”خیال“ (Thought)میں پنہاں ہے اور یہ اِس پانی کی طرح ہے جو لطیف (ہلکا) ہو جائے تو عرش (آسمانوں) کا رُخ کرتا ہے اور اگر بے قابو ہو جائے تو تباہی و بربادی (خون خرابہ) کا باعث بنتا ہے اور اگر کسی جگہ رُک جائے تو بے چینی (Tension) اور ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ کائنات کی تسخیر کی کنجی (Key) بھی اِسی خیال کی طاقت کے مرہون منت ہے۔ درحقیقت ذہن انسانی ساکن توانائی (Static Energy) کی ایک لطیف ترین قسم ہے اور اسکی بظاہر سرگرمی (Activity) ”خیال“ ہے جو کہ اِسکا متحرک رُخ پیش کرتا ہے۔ ذہن ایک ساکن توانائی ہے اور خیال ایک متحرک توانائی (Dynamic Energy) جو کہ ایک ہی شے (ذہن) کے دو مختلف روپ (Phase) ہیں اور یہ خیال ہی ہے جو آپ کے سامنے ہاتھ باندھ کے جن کی طرح حکم بجا لانے کیلئے کھڑا ہے جبکہ انسانی ذہن کے پردہ سکرین پہ جو اداکار اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہ صرف ہمارے خیالات (تخیل) ہیں اور انکو اپنی مرضی کے مطابق کردار ادا کرنے کا پابند کرنے میں ہی آپ کی لازوال طاقت پنہاں ہے مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ آپ اپنے بارے میں مکمل معلومات نہ رکھتے ہوں۔
اگر ایک طرف مراقبہ کے عمل سے تخیل منظم (Organized)شفاف (Refined) ہوتا ہے اور تقویت (Amplify)پکڑتا ہے تو دوسری طرف (اس عمل سے پیشتر )ذہن کو اس تمام آلودگی اور بے سرو سامانی کے ماحول سے پاک کرنا بھی ضروری ہے تا کہ زمینِ ذہن پہ اُگی ہوئی تمام جڑی بوٹیاں (بے لگام خیالات) سورج کی روشنی میں خود بخود فنا ہو جائیں۔ جیسے آپ نیا کمپیوٹر تیار کر رہے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ایک ہارڈ ڈسک (Hard Disk) کو تیار (Format)کرتے ہیں تا کہ وہ کسی بھی نئے پروگرام کو ذخیرہ (Save) کرنے کے قابل ہو جائے اور پھر سب سے پہلے Operating System )قاعدہ و قانون)کا پروگرام انسٹال کرتے ہیں تا کہ اِس میں Application پروگراموں کو چلانے کی قابلیت ہو جائے۔ تحلیل نفسی (Psychothrapy)بھی اِسی عمل کا تسلسل ہے یا پھر محاسبہ ذات بھی یہی طریقہ کار وضع کرتا ہے جبکہ توبہ (Repent) بھی ایک ایسا ہی عمل ہے جو نہ صرف گناہوں کی دھلائی کا کام کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کی غلاظتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے اور کبھی کبھی Confession (اقرار گناہ)اور آزاد گوئی (Free Speaking)کے ثمرات بھی کسی طرح بھی اِس معاملہ میں پیچھے نہیں۔
جاری
 
ماشاءاللہ بڑی پیاری تحریر ہے۔شعورِ ذات ہی تصو ف ہے۔
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار ۔ ۔ ۔
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
تیری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہےتو جہاں سے نہیں​
آپ نے یہ بجا فرمایا کہ "اب جس طرف بھی نظر دوڑائیں گے آپ کو ایک طرف قدرت کے شاہکار نظر آئیں گے اور دوسری طرف لوگوں کے جمے ہوئے خیالات بھی نظر آئیں گے یعنی یہ ہماری تعمیر کردہ دُنیا (اشیا)، تعمیرات اور ایجادات۔ اب اگر ایک لکڑی کی میز کو دیکھا جائے اِس کا خاکہ پہلے کسی اِنسان کے ذہن میں تیار ہوا پھر اِن خیالات نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور وہ ہمیں لکڑی کے میز کی شکل میں منجمد نظر آئے اِسی طرح آپ تعمیرات کو دیکھیں اور ایجادات کو دیکھیں تو یہ سب کے سب لوگوں کے خیالات کا انجماد ہی تو ہے کہ پہلے یہ خیال ذہن میں نقشہ کی طرح بنا اور پھر ٹھوس (منجمد) شکل اختیار کر گیا جسے ہم اِنسانی سوچ کا شاہکار بھی کہہ سکتے ہیں۔ "
اہلِ تصوف بھی یہی کہتے ہیں کہ کائنات ایک ہی ذات کا اظہار ہے۔ ایک ہی ذات کے خیال کا انجماد ہے۔ ایک ہی شعور کی کارفرمائی ہے۔ کل شئی یرجع الی اصلہِ۔ و الیہ المصیر۔ سنریھم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق۔
 
Top