لب پہ مدعا نہیں حرف ہیں دعا نہیں

میاں وقاص

محفلین
لب پہ مدعا نہیں
حرف ہیں دعا نہیں

میں تو ہوں ترا صنم
تو مگر مرا نہیں

اب دیے کے سامنے
اسقدر ہوا نہیں

تو بھی سابقہ نہیں
میں بھی لاحقہ نہیں

میں ہوں آپ کا مگر
آپ کو پتہ نہیں

اب کے میری بات پر
"ہاں" کرو گے یا "نہیں" ؟

یوں ملا ہے آج کہ
آشنا بھی تھا نہیں

بے ثمر سی شاخ ہوں
ہاں، مجھے ہلا نہیں

تو وہی ہے پر تیرا
طرز تو ویسا نہیں

اب زمین کے سوا
کوئی آسرا نہیں

آنکھ ٹھہرے گی کہاں
تو جو ایک جا نہیں

عشق کے سوا کوئی
درد_لادوا نہیں

کیا مرا ہی جرم ہے
کیا تری خطاء نہیں

آپ (ص ) سا کوئی تو کیا
مثل_نقش_پا نہیں

دیکھتا ہوں کیا بھلا
عکس_آئنہ نہیں

تو ہے سادہ لوح پر
دور کچھ بھلا نہیں

جانتا ہوں میں سبھی
مجھ کو ورغلا نہیں

جان لے اے نا خدا
تو مرا خدا نہیں

داستاں میں آ گیا
حرف جو سوچا نہیں

اس کی ابتداء تو ہے
جس کی انتہاء نہیں

تو عجب شاہین ہے
کیوں بھلا اڑتا نہیں

حافظ اقبال شاہین
 
Top