لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

با ادب

محفلین
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

رات جب دنیا تھک کر سو چکی تھی اور گھر ایسے سکوت کی زد میں تھا کہ دل کے بند دریچے وا ہونے کو تھے .. میں نے کمرے میں نگاہ دوڑائی لیمپ کی ہلکی زرد روشنی تنہائی میں اور کتاب .. کیا خوشی اس سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے؟ ؟
لمحے بھر کو ذہن کے کونے کھدروں سے سوچ کے در وا ہونے لگے. کبھی آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کی تیز ترین بے ڈھنگی رفتار سے دور کسی ویرانے میں جا کر گھر بسا لیں اور رات کے پچھلے پہر جب آپ زندگی کے تمام غموں فکروں سے آزاد اپنے کمرے میں اپنے بستر پر ایک انجان دلی سکون کے ساتھ لیٹے ہوں اور آپکو خیال آئے .. خوشی آخر اور کیا ہوسکتی ہے؟ ؟
دھیرے سے چلتے ہوئے میں نے کمرے کا دروازہ کھولا خالی برآمدہ جسکی جالی کے دروازوں پہ موٹے دبیز پردے آویزاں تھے ان پردوں سے باہر کی دنیا پہ بھی خاموشی کا راج تھا .. وہ پرندے جو سارا دن صحن میں موجود درختوں پہ چہچہاتے تھے اپنے گھونسلوں میں گہری نیند سو رہے تھے وہ گلہریاں جو سارا دن ہائیڈ اینڈ سیک کھیلا کرتی ہیں درخت کی کسی شاخ پہ آنکھیں موند کے لیٹی ہونگی ... میں نے پردہ ہٹایا ... آج اسکی دنیا کو رات میں دیکھیں کیا عالم ہے ... اور خوشی کچھ اور بھی ہوتی ہے ....
مارچ کا اوسط .. گرمی سردی دونوں غائب ہیں ... درختوں پہ ننھی کونپلیں پھوٹی ہیں فضا رات کی رانی کی مدہوش کرنے والی خوشبو سے معطر ہے ... کوئی سحر ہے جو آپکو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور میں جسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے سب کچھ بھول بھال کے اسی اندھیرے میں قدم رکھتی ہوں ... اچانک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم سے ٹکراتے ہیں اور خوشی کا نیا مفہوم سمجھا تے ہیں .. ہلکی اور دکھائی نہ دینے والی پھوار پڑ رہی ہے ... باغیچے میں لگے پھول اور پودے ہوا کی تال پہ دھیمے سروں میں تھرکتے ہیں ... دل کی کیفیات کسی نئے رنگ نئے سرور سے آشنا ہوتی ہیں ....
کیا یہ absolute happiness ہے؟ ؟
کیا دنیا میں کہیں مکمل خوشی موجود ہے؟ ؟
آپ مکمل خوش ہوں تو بھی بہت اندر کہیں ایک ہلکی سی بے چینی موجود رہتی ہے کہ ہمیں کہیں جانا ہے ....کہاں؟ ؟
یہ سوال ہم خود سے نہیں پوچھتے .. اور اگر پوچھ لیں تو جواب سے کنی کترا کے آنکھ چرا کے گزر جاتے ہیں ....
کہتے ہیں موت کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے ....
ہم جو کسی دوسری دنیا سے اس دنیا میں آئے ہیں ہمیں ایک دن اپنی دنیا کی جانب انتقال کر جانا ہے واپس لوٹ جانا ہے .... یہی لوٹ کے اپنے گھر جانے والی خلش ہمیں بے چین رکھتی ہے یہ.ہمیں مکمل خوشی نہیں دیتی ...
آپ کسی کے گھر مہمان بن کر جائیے وہاں اس گھر میں آپ کو لاکھ آسائشات میسر ہوں لیکن آپ کے دل کے ایک کونے میں اپنے گھر جانے کی خواہش چٹکیاں بھرتی رہتی ہے اور جس دن لوٹ کر آپ اپنے گھر کی دہلیز پہ آ کھڑے ہوتے ہیں اس دن آپ اس مکمل اطمینان سے ہمکنار ہوتے ہیں جو اُس پرائے گھر میں مفقود تھا ...
بالکل ایسے ہی ہم جو جنت کے باسی ہیں وہیں لوٹ جانے کے لیے بے چین رہتے ہیں مکمل خوشی سے ہمکنار نہیں ہو پاتے ...
یہ جو رات کا پہر خوشی کی نوید لیے آیا ہے میں نے اس سے سوال کیا
سنو! یہ جو میرے پیارے اللہ کی دنیا ہے بہت خوبصورت ہے لیکن اسکے باسی بڑے عجیب ہیں ...
رات مسکرا دی ..
یہ باسی کہتے ہیں موت بڑی حسین شے ہے جب یہ آئے گی اور ہمیں اس دوسری دنیا میں لے جائے گی جہاں اللہ سوہنا بذات خود موجود ہے تو شاید کسی کافی شاپ میں دنیا کے دانشور سائنسدان شاعر ادیب چائے کی چسکی لیتے اللہ سے ون ٹو ون گفت و شنید کر کے اپنی تھیوریوں فلسفوں اور غور و فکر کی بابت سوال کریں گے ...
اور میں ورطہ حیرت میں مبتلا ہوں کہ وہ اللہ جو کہتا ہے اُس دنیا میں میرا اپنے ماننے والوں کے لیئے ایک اسپیشل گفٹ ہے ‍. خصوصی تحفہ ...جو اپنے کسی بہت پیارے راج دلارے کو دیا جاتا ہے وہ ہے اسکا دیدار .. جب وہ اپنے عرش پہ براجمان اس شان و شوکت کے ساتھ آئے گا جو اس ہی کا خاصہ ہے جب وہ مجسم نور حسن و جمال اپنے بندے سے اپنا وعدہ پورا کرے گا اسے اپنی دید سے فیضیاب کرے گا ...صرف اسے جو اس کو مانتا ہے اسکی رضا چاہتا ہے اس سے محبت کرتا ہے ....
تو وہ جو اسکے وجود کا انکار کرنے والے ہیں جو اسکو جھٹلانے والے ہیں جو اسے مانتے ہی نہیں وہ کیسے یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ شام کی چائے کے بعد کوانٹم فزکس کی تھیوریاں سلجھانے والوں کو ابرو اچکا کے دیکھے گا ... ڈارون کو لیکچر دے گا کہ تم غلط تھے ارتقا کی جو تھیوری تم.نے پیش کی تھی وہ درست نہیں تھی ...
کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی آپکے وجود کا انکاری ہو آپکو مانتا ہی نہ ہو آپ اسکو اپنے گھر بلائیں ڈرائنگ روم میں بٹھائیں چائے کا کپ دیں اور اسے جھٹلائیں ...
ایک شخص اپنی ماں کے وجود کا انکار کر دے کہ وہ اسکی ماں ہے ہی نہیں وہ اسکے بطن سے نہیں پیدا ماں کس کرب سے گزرے گی جس نے تکلیفیں جھیل کے اسکو پیدا کیا پال پوس کر بڑا کیا اب وہ انکار کرتا ہے کہ تم میری ماں نہیں ...اگر خود کو میری ماں کہتی ہو تو سائنس سے ثابت کرو .. ڈی این اے کا ٹیسٹ کرواؤ ...ماں بچے کی خاطر سائنس کے سبھی سرٹیفیکیٹ لے کر آتی ہے لیکن بچے کی شقی القلبی دیکھیے وہ اب بھی نہیں مانتا اور کہتا ہے یہ رپورٹس درست نہیں ... وہ تمام عمر ماں کو دق کیے رکھتا ہے اور پھر ایک دن جب وہ سختی اور مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو چاہتا ہے کہ ماں اپنے ڈرائنگ روم میں اس سے ملے اسے گلے لگائے چائے کا کپ پلائے اور ان اذیت بھرے دنوں کی بات کر کے اسکی کم عقلی پہ مسکرائے ایسے بچے کو کیا کہیں گے؟ ؟
مجنوں؟ دیوانہ؟ پاگل یا موقع پرست؟ مطلب پرست بھی کہہ سکتے ہیں ....
یہ رات کے کھانے کے بعد چائے کے کپ کا فلسفہ ذہنی اختراع تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں ...کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ اس " اقراء " سکھانے والے رب نے اپنی پہچان نہ سکھائی ہو ... اپنے دیدار اور خود سے ملاقات کا طریقہ نہ بتلایا ہو ...
اور رات کے پچھلے پہر مارچ کی خنک رو شب میں میں سوچتی ہوں کہ جب فزکس کے ماہرین پچھتاووں میں گھرے ہونگے کہ جس دنیا کو تسخیر کرنے کو کہا گیا تھا اسکا مقصد ذات الہی کی تلاش اور معرفت تھا وہ بلیک ہول کے آگے موجود روشن ذات تک کیوں نہ پہنچ سکے تو تب میں ضرور اس مکمل خوشی سے ہمکنار ہونگی جو اپنے گھر لوٹ آنے پر ہوتی ہے ... یہ دُکھ جو دنیا میں چین نہ لینے دیتا تھا کہ کیوں محبوب کی محبت سے منہ موڑ بیٹھے ہیں .... کیوں خود کو عقل کل جان کر رب کا انکار کرتے ہیں ...کیسے اس سے نظریں ملا پائیں گے جس کو جھٹلاتے رہے ...یہ دکھ شاید تب نہ رہے گا کہ حقیقت کھل چکی ہوگی اور وعدہ وفا ہوگا ....امتحان کے دن پاس ہونے والا فیل ہو جانے والے کا دکھ بھلا کب مناتا ہے ... اس نے تو سمجھایا تھا پڑھو گے تو پاس ہو جاؤ گے اب پڑھتے تو تھے نہیں اور فیل ہونے پہ سوال اٹھاتے ہیں ... کیا کوئی ایسی امتحان گاہ ہے جو نالائق طلبا کو ڈگری دیتی ہو؟ ؟؟
اگر نہیں تو پھر اسکی طمع کیا دیوانے کا خواب نہیں کہ الف تو پڑھا نہیں تھا اور ڈگری مانگتے ہیں پی ایچ ڈی کی ...

اور اس دن وہ اللہ جسکا خاص انعام اسکا دیدار یے ان پہ نگاہ تک نہ ڈالے گا جو اسکے وجود کے منکر تھے .....
کہ دیدار کا وعدہ لطف و کرم سے مسکرا کر دیکھنے کا وعدہ فقط تسلیم کر لینے والوں کے لیے ہے ... اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے .....
سمیرا امام
 
Top