فارسی شاعری قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کو شند

قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کو شند
ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند


قلندر ہوا مٹی آگ پانی سب پر حکم چلاتے ہیں
خود گدڑی پہنے ہوتے ہیں اور بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں

بجلوت اندو کمندے بہ مہرو ماہ پیچند
بخلوت اندو زمان و مکاں در آغوشن
د

جلوت میں سورج و چاند پر اپنے تصرف کی کمند ڈالتےہیں
خلوت میں اپنی آغوش میں زمان و مکاں کو لئے ہوتے ہیں

بروز بزم سراپا چو پرنیان و حریر
بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند


محفل میں ان کی زبان سے ریشم اور پھول جھڑتی ہے
جنگ میں وہ اپنے اپ سے آگاہ ہو کر جسم فراموش کرتے ہیں

نظام تازہ بچرخ وو رنگ می بخشند
ستارہ ہائے کہن را جنازہ بر دوشند


دو رنگے آسمان کو نیا نظام بخشتے ہیں
پرانے ستاروں کی گردش کا خاتمہ ان کی ابرو کی جنبش سے ہوتا ہے اور اپنے کندھوں پر ان کا جنازہ اٹھاتے ہیں

زمانہ از رخ فردا کشود بند نقاب
معاشراں ہم سر مست بادۂ دوشند


زمانے نے تو آنے والے وقت کی نقاب کھول دی ہے
مگر(مسلم)معاشرہ ابھی تک پچھلے وقت کو یاد کر کے خوش ہو رہا ہے

بلب رسید مرا آں سخن کہ نتواں گفت
بحیرتم کہ فقیہان شہر خاموشند


میرے لبوں پر وہ بات آ گئی ہے جو بیان نہیں ہو سکتی
حیرت ہے کہ شہر کی فقیہ خاموش ہیں​
 

سید زبیر

محفلین
بے شک سرکار!
بجلوت اندو کمندے بہ مہرو ماہ پیچند
بخلوت اندو زمان و مکاں در آغوشند
واہ لاجواب۔
 
Top