رضا قصیدہِ نور کے چند اشعار

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نورکا


صحابہِ کرام کی شان میں
شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اُس بانور کا
نورِ حق سے لَو لگائے دل میں رشتہ نورکا
انجمن والے ہیں انجم بزم حلقہ نور کا
چاند پرتاروں کی جھرمٹ سے ہے ہالہ نور کا


معراج کا بیان
سرمگیں آنکھیں حریمِ حق کے وہ مشکیں غزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کارمنا نور کا
تابِ حسنِ گرم سے کھل جائینگے دل کے کنول
نو بہاریں لائیں گے گرمی کا جھلکا نور کا
ذرے مہرِ قدس تک تیرے توسط سے گئے
حدِ اوسط نے کیا صغریٰ کو کبریٰ نور کا
سبزہِ گردوں جھکا تھا بہرِ پا بوسِ براق
پھر نہ سیدھا ہوسکا کھایا ہو کوڑا نور کا
تابِ سم سے چوندھیا کر چاند اُنہیں قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا
دیدِ نقش سم کو نکلی سات پردوں سے نگاہ
پتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا
عکسِ سم نے چاند سورج کو لگائے چار چاند
پڑگیا سیم و زر گردوں پہ سکہ نور کا


اے رضا یہ احمد نوری کا فیض نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا


از امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ
 
Top