نذیر احمد قریشی
محفلین
قافلے نے مجھے سردار جو مامور کیا
تو امانت میں خیانت کو ہی منشور کیا
دوستوں نے مری توصیف کے وہ پل باندھے
اپنی کج فہمی کے اطوار کو دستور کیا
زادِ رہ پاس نہ تھا اور سفر کو نکلا
راستہ کھو گیا منزل کو بھی مستور کیا
خوش گمانی نے سمجھ بوجھ کو مفقود کیا
پَر نہ تھے خواہشِ پرواز پہ مجبور کیا
اپنےوعدوں کی حقیقت دلِ ناشاد سے پوچھ
پھر بھی دل نےتری ھر شرط کو منظور کیا
جب ضرورت تھی مجھے دل میں بسایا اپنے
کام بنتے ھی مجھے دل سے بہت دور کیا
تو امانت میں خیانت کو ہی منشور کیا
دوستوں نے مری توصیف کے وہ پل باندھے
اپنی کج فہمی کے اطوار کو دستور کیا
زادِ رہ پاس نہ تھا اور سفر کو نکلا
راستہ کھو گیا منزل کو بھی مستور کیا
خوش گمانی نے سمجھ بوجھ کو مفقود کیا
پَر نہ تھے خواہشِ پرواز پہ مجبور کیا
اپنےوعدوں کی حقیقت دلِ ناشاد سے پوچھ
پھر بھی دل نےتری ھر شرط کو منظور کیا
جب ضرورت تھی مجھے دل میں بسایا اپنے
کام بنتے ھی مجھے دل سے بہت دور کیا