قائدِ اعظم کے مزار پر - سیماب اکبرآبادی

حسان خان

لائبریرین
قائدِ اعظم کے مزار پر
(وفات کے ایک سال بعد)


مل رہی ہیں انتہا کی سرحدیں آغاز سے!
کون ہے آگاہ مرگ و زندگی کے راز سے
حکمراں تھا جو دلوں پر، آج ہے وہ محوِ خواب
اقتدار و افتخار و سطوت و اعزاز سے
کیا خبر یہ قصر ہے یا قبر جس پر رات دن
زندگی اب تک برستی ہے نئے انداز سے
کس قدر آزاد ہے مہکی ہوئی رنگیں فضا
ایک لمحہ بوئے گل رکتی نہیں پرواز سے
یوں ہیں‌استادہ سرِ بالین و پائیں پاسباں
جیسے اب اٹھنے ہی کو ہے کوئی خوابِ ناز سے
جیسے سورج اٹھنے والا ہے افق کے پار سے
جھانکتی ہے زندگی ہر گوشۂ بیدار سے

زندہ باد، اے زندہ سازِ ملتِ اسلامیاں
جس کے پہلو میں دلِ زندہ ہو موت اس کو کہاں
اے رئیس و قائدِ قوم، اے زعیمِ پاکباز
اے سریر آرائے منزل، رہنمائے کارواں
تا ابد ڈھونڈا کرے گا آپ کا نعم البدل
مشعلیں چاند اور سورج کی جلا کر آسماں
بھر گئی جب نیند، خود آنکھ آپ کی کھل جائے گی
ختم صبحِ حشر تک ہو جائے گا خوابِ گراں
آپ اٹھیں گے نعرۂ تکبیر بر لب قبر سے
صورِ محشر جب نمازِ حشر کی دے گا اذاں
جنبشِ لب لائے گی واپس تکلم آپ کا
دیکھنے کی چیز پھر ہو گا تبسم آپ کا

چہرۂ انور سے ہو گا رعبِ شاہانہ عیاں
سطوتِ خالد، شکوہِ جم، وقارِ ارسلاں
جائزہ لے گی نگاہِ گرم پاکستان کا
نو بہ نو عالم میں ہو گا یہ جہانِ پاکیاں
ریگ زاروں کو سمن زاروں میں بدلا پائیں گے
اس جگہ ایوان ہوں گے آج ٹیلے ہیں جہاں
جھونپڑے مردِ مہاجر کے نہ ہوں گے زخمِ چشم
سندھ سے تا ہند ہو گی وسعتِ دارالاماں
بام و در پر پرچمِ اسلام آئے گا نظر
ملتِ بیضا کی رفعت کاریاں ہوں گی جواں
رنگِ وحدت میں نظر آئیں گے خاص و عام بھی
غالباً بدلا ہوا مرکز کا ہو گا نام بھی

حشر میں بھی قوم کو ہو گی ضرورت آپ کی
ایک دن پھر کام آئے گی قیادت آپ کی
جمع ہو گا زیرِ رایت کاروانِ پاکیاں
پھر میسر قوم کو ہو گی معیت آپ کی
سر جھکا کر دست بستہ امتثالِ امر کو
ترجمانِ حال یوں گی فصاحت آپ کی
آپ لے جائیں گے پیشِ شافعِ محشر ہمیں
لامحالہ راہبر ہو گی سیادت آپ کی
کیا عمل لائے ہو جب پوچھیں گے ختم المرسلیں
معرضِ اظہار میں ہو گی طبیعت آپ کی
'ارضِ پاکستاں' بعنوانِ عمل لایا ہوں میں
قوم کی قربانیوں کا ماحصل لایا ہوں میں

اور کچھ دن قائدِ اعظم یہ خوابِ خوشگوار
کوششِ تعبیر میں ہے انقلابِ روزگار
زندگی اک اور بھی باقی ہے بعدِ زندگی
ہے حیاتِ نو کا دیباچہ حیاتِ مستعار
آپ کی تربت سے ہیں آثارِ رحمت جلوہ گر
ظاہرِ گلشن خزاں ہے، باطنِ گلشن بہار
یہ ہزاروں فاتحہ خواں، سیکڑوں قرآن خواں
بھر رہے ہیں جسمِ واماندہ میں روحِ پائدار
آپ کا دیدار پھر ہو گا ندیدوں کو نصیب
مطلعِ انوار بن جائے گی چشمِ انتظار
آپ اک دن گوشۂ خلوت سے باہر آئیں گے
کارواں بچھڑے ہوئے پھر آپ سے مل جائیں گے

(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۹ء​
 
Top