حسان خان
لائبریرین
باری تعالیٰ:
ہم نے دنیا میں مثالی جاہ و عظمت دی تجھے
جو حریفِ اہلِ شہرت تھی وہ شہرت دی تجھے
اک نئی جودت عطا کی ایک اچھوتا اجتہاد
اک بڑی قوت بفیضِ علم و حکمت دی تجھے
مشرق و مغرب ترے افکار سے مرعوب تھے
خود معلم بن کے تعلیمِ سیاست دی تجھے
صرف پاکستان ہی تجھ کو نہیں بخشا گیا
پاک نیت، پاک طینت، پاک سیرت دی تجھے
'قائدِ اعظم' تجھے سارا جہاں کہنے لگا
کاروانِ اہلِ ملت کی قیادت دی تجھے
اب جو ہو کے فائزِ منزل یہاں آیا ہے تو؟
پیشکش کو کیا ہمارے سامنے لایا ہے تو؟
قائدِ اعظم:
ہدیۂ منت، بدرگاہِ خدا لایا ہوں میں
امتِ ختم الرسل کا شکریہ لایا ہوں میں
اپنے کافوری کفن کے گوشۂ محدود میں
خون بھر کر ملتِ مظلوم کا لایا ہوں میں
پیش کرنے کے لیے منجانبِ قومِ ضعیف
'استغاثہ، مشتمل بر خوں بہا' لایا ہوں میں
دفترِ مستقبلِ مدت ہے شایانِ کرم
دستخط کو محضرِ اہلِ وفا لایا ہوں میں
دستِ لرزاں میں مرے نقشہ ہے پاکستان کا
اور اس کے ساتھ ہی یہ التجا لایا ہوں میں
بسکہ ہے آغاز تیرے ہاتھ میں انجام بھی
سلطنت دی ہے تو اب دے اِس کو استحکام بھی
باری تعالیٰ:
ملتِ مرحوم کا ہم 'خوں بہا' دیں گے تجھے
تیرے ایثارِ مسلسل کا صلہ دیں گے تجھے
خونِ ناحق سے رنگے جن وحشیوں نے اپنے ہاتھ
کیا مآل اُن کا ہوا، یہ بھی بتا دیں گے تجھے
تجھ کو 'تاریخِ جہانِ نو' بھلا سکتی نہیں
ارضِ پاکستان کے ذرے دعا دیں گے تجھے
اب چراغِ رہگزر ہوں گے نقوشِ پا ترے
ہم منارِ روشنِ منزل بنا دیں گے تجھے
قوتِ عزم و عمل بخشیں گے تیری قوم کو
مدعائے دل بقدرِ التجا دیں گے تجھے
حال بھی روشن ہے پاکستاں کا، استقبال بھی
اس کو استحکام بھی قسمت ہے، استقلال بھی
قائدِ اعظم:
میں ہوں یا رب تنگ دامن، تیری رحمت کم نہیں
اپنے مر جانے کا اب مجھ کو ذرا بھی غم نہیں
اب میں اپنی قومِ پس ماندہ کو دیتا ہوں پیام
ہے یہ وقتِ شادمانی، موقعِ ماتم نہیں
'کل نفس' پڑھنے والے کیوں ہیں مجھ پر نوحہ خواں؟
میرا مر جانا خلافِ فطرتِ عالم نہیں
زندگیِ نو دماغوں میں مچلنی چاہیے
یہ قنوط و یاس شایانِ بنی آدم نہیں
اس کا مسلک، اس کا نصب العین تو موجود ہے
تم میں گو باقی تمہارا قائدِ اعظم نہیں
گر نہیں قائد نہ ہو، کونین کا آقا تو ہے
زندہ و باقی خدائے اعظم و اعلیٰ تو ہے
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۸ء
ہم نے دنیا میں مثالی جاہ و عظمت دی تجھے
جو حریفِ اہلِ شہرت تھی وہ شہرت دی تجھے
اک نئی جودت عطا کی ایک اچھوتا اجتہاد
اک بڑی قوت بفیضِ علم و حکمت دی تجھے
مشرق و مغرب ترے افکار سے مرعوب تھے
خود معلم بن کے تعلیمِ سیاست دی تجھے
صرف پاکستان ہی تجھ کو نہیں بخشا گیا
پاک نیت، پاک طینت، پاک سیرت دی تجھے
'قائدِ اعظم' تجھے سارا جہاں کہنے لگا
کاروانِ اہلِ ملت کی قیادت دی تجھے
اب جو ہو کے فائزِ منزل یہاں آیا ہے تو؟
پیشکش کو کیا ہمارے سامنے لایا ہے تو؟
قائدِ اعظم:
ہدیۂ منت، بدرگاہِ خدا لایا ہوں میں
امتِ ختم الرسل کا شکریہ لایا ہوں میں
اپنے کافوری کفن کے گوشۂ محدود میں
خون بھر کر ملتِ مظلوم کا لایا ہوں میں
پیش کرنے کے لیے منجانبِ قومِ ضعیف
'استغاثہ، مشتمل بر خوں بہا' لایا ہوں میں
دفترِ مستقبلِ مدت ہے شایانِ کرم
دستخط کو محضرِ اہلِ وفا لایا ہوں میں
دستِ لرزاں میں مرے نقشہ ہے پاکستان کا
اور اس کے ساتھ ہی یہ التجا لایا ہوں میں
بسکہ ہے آغاز تیرے ہاتھ میں انجام بھی
سلطنت دی ہے تو اب دے اِس کو استحکام بھی
باری تعالیٰ:
ملتِ مرحوم کا ہم 'خوں بہا' دیں گے تجھے
تیرے ایثارِ مسلسل کا صلہ دیں گے تجھے
خونِ ناحق سے رنگے جن وحشیوں نے اپنے ہاتھ
کیا مآل اُن کا ہوا، یہ بھی بتا دیں گے تجھے
تجھ کو 'تاریخِ جہانِ نو' بھلا سکتی نہیں
ارضِ پاکستان کے ذرے دعا دیں گے تجھے
اب چراغِ رہگزر ہوں گے نقوشِ پا ترے
ہم منارِ روشنِ منزل بنا دیں گے تجھے
قوتِ عزم و عمل بخشیں گے تیری قوم کو
مدعائے دل بقدرِ التجا دیں گے تجھے
حال بھی روشن ہے پاکستاں کا، استقبال بھی
اس کو استحکام بھی قسمت ہے، استقلال بھی
قائدِ اعظم:
میں ہوں یا رب تنگ دامن، تیری رحمت کم نہیں
اپنے مر جانے کا اب مجھ کو ذرا بھی غم نہیں
اب میں اپنی قومِ پس ماندہ کو دیتا ہوں پیام
ہے یہ وقتِ شادمانی، موقعِ ماتم نہیں
'کل نفس' پڑھنے والے کیوں ہیں مجھ پر نوحہ خواں؟
میرا مر جانا خلافِ فطرتِ عالم نہیں
زندگیِ نو دماغوں میں مچلنی چاہیے
یہ قنوط و یاس شایانِ بنی آدم نہیں
اس کا مسلک، اس کا نصب العین تو موجود ہے
تم میں گو باقی تمہارا قائدِ اعظم نہیں
گر نہیں قائد نہ ہو، کونین کا آقا تو ہے
زندہ و باقی خدائے اعظم و اعلیٰ تو ہے
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۸ء