فورٹ ولیم کالج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
فورٹ ولیم کالج




فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا ۔ تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔
اس کالج کا پس منظر یہ ہے 1798 میں جب لارڈ ولزلی ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا تو یہاں کے نظم و نسق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انگلستان سے جو نئے ملازمین کمپنی کے مختلف شعبوں میں کا م کرنے یہاں آتے ہیں وہ کسی منظم اور باقاعدہ تربیت کے بغیر اچھے کارکن نہیں بن سکتے ۔ لارڈ ولزلی کے نزدیک ان ملازمین کی تربیت کے دو پہلو تھے ایک ان نوجوان ملازمین کی علمی قابلیت میں اضافہ کرنا اور دوسرا ان کو ہندوستانیوں کے مزاج اور ان کی زندگی کے مختلف شعبوں ان کی زبان اور اطوار طریقوں سے واقفیت دلانا ۔
پہلے زبان سیکھنے کے لئے افسروں کو اناونس دیا جاتا تھا لیکن اُس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ اس لئے جب لارڈ ولزلی گورنر جنرل بن کر آئے تو اُنھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ انگریزوں کو اگر یہاں حکومت کرنی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کا مقامی زبانوں اور ماحول سے آگاہی کے لئے تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کیاجائے۔ ان وجوہات کی بناءپر ولزلی نے کمپنی کے سامنے ایک کالج کی تجویز پیش کی ۔ کمپنی کے کئی عہداروں اور پادرویوں نے اس کی حمایت کی۔
اور اس طرح جان گلکرسٹ جو کہ ہندوستانی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ کمپنی کے ملازمین کو روزانہ درس دینے کے لئے تیار ہو گئے۔اور لارڈ ولزلی نے یہ حکم جاری کیا کہ آئندہ کسی سول انگریز ملازم کو اس وقت تک بنگال ، اڑیسہ اور بنارس میں اہم عہدوں پر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک وہ قوانین و ضوابط کا اور مقامی زبان کا امتحان نہ پاس کر لے۔ اس فیصلے کے بعد گلکرسٹ کی سربراہی میں ایک جنوری 1799 میں ایک مدرسہOriental Seminaryقائم کیا گیا۔ جو بعد میں فورٹ ولیم کالج کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ کچھ مسائل کی وجہ سے اس مدرسے سے بھی نتائج برآمد نہ ہوئے جن کی توقع تھی ۔ جس کے بعد لارڈ ولزلی نے کالج کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔

کالج کا قیام:۔

لارڈ ولزلی نے کمپنی کے اعلیٰ حکام سے منظوری حاصل کرکے 10 جولائی 1800 میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے قیام کا اعلان کیا۔ لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ کالج کا یوم تاسیس 4 مئی 1800 تصور کیا جائے کیونکہ یہ دن سلطان ٹیپو شہید کے دارالحکومت سرنگا پٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔ جب کہ کالج میں باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ 23 نومبر 1800 ءکو یعنی کالج کے قیام کے اعلان کے کوئی چھ ماہ بعد شروع ہوا۔کالج کے قواعد و ضوابط بنائے گئے ۔ اس کے علاوہ گورنر کو کالج کا سرپرست قرار دیا گیا۔ کالج کا سب سے بڑا افسر پروسٹ کہلاتا تھا۔ پروسٹ کا برطانوی کلیسا کا پادری ہونا لازمی قرار دیا گیا۔

نصاب تعلیم:۔

فورٹ ولیم کالج کے ریگلولیشن کے تحت کالج میں عربی، فارسی ہندوستانی ، سنسکرت ، مرہٹی اور کٹری زبانوں کے شعبے قائم کئے گئے۔ اس کے علاوہ اسلامی فقہ ، ہندو دھرم ، اخلاقیات ، اصول قانون ، برطانوی قانون، معاشیات، جغرافیہ ، ریاضی ، یورپ کی جدید زبانیں ، انگریزی ادبیات ، جدید و قدیم تاریخ ہندوستان دکن کی قدیم تاریخ ۔ طبیعات ، کیمسٹری اور علوم نجوم وغیر ہ کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا تھا۔
کالج میں مشرقی زبانوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا ۔اس لئے السنہ شرقیہ کے شعبوں میں انگریز پادریوں کے علاوہ پروفیسروں کی مدد کے لئے شعبے میں منشی اور پنڈت بھی مقرر کئے گئے تھے۔ ہندوستانی زبان کے شعبے میں پہلے بارہ منشی مقرر ہوئے جسے بعد میں پڑھا کر 25 کر دیا گیا۔

فورٹ ولیم کالج کے مصنفین:۔

فورٹ ولیم کالج صرف ایک تعلیمی ادارہ نہ تھا بلکہ یہ کالج اس زمانے میں تصنیف و تالیف کا بھی بڑا مرکز تھا۔ اس کالج کے اساتذہ اور منشی صاحبان طلباءکو پڑھانے کے علاوہ کتابیں بھی لکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس کالج میں لغت ، تاریخ، اخلاقی ، مذہبی ، اور قصوں کہانیوں کی کتابیں بڑی تعدا د میں لکھی گئیں۔ مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے منظور شدہ کتابوں پر انعام بھی دیا جاتا تھا۔ کالج کےقیام کے ابتدائی چار سالوں میں 23 کتابیں لکھی گئیں ۔ ذیل میں بعض مشہور اہم مصنفین اور ان کی تصانیف کا ذکر اختصار کے ساتھ در ج ہے۔

گلکرسٹ یا گلکرائسٹ:۔

فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کے مصنفین میں سے سر فہر ست گلکرسٹ کا نام ہے۔ وہ بطور ڈاکٹر ہندوستان آئے ۔اور یہاں کی زبان سیکھی کیوں کے اس کے بغیر وہ یہاں اپنے پیشے کو بخوبی سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔ بعد میں فورٹ ولیم کالج کے آغاز کا سبب بنے ۔جان گلکرسٹ نے چار سال تک اس کالج میں خدمات سرانجام دیں اور 1704 میں وہ پنشن لے کر انگلستان چلے گئے۔ جہاں اورینٹل انسٹی ٹیوٹ میں اردو کے پروفیسر مقر ہوئے۔ چار سالہ قیام میں انھوں نے مندرجہ زیل کتابیں لکھیں۔
”انگریزی ہندوستانی لغت“ اُن کی پہلی تصنیف ہے اس لغت میں انگریزی الفاظ کے معانی اردو رسم الخط میں شامل کئے گئے ہیں۔ اور اس میں اس طرح کے اشاروں کا اضافہ کیا گیا ہے جن سے پڑھنے والوں کو الفاظ کے تلفظ میں زیادہ سے زیادہ سہولت ہو۔ لغت میں معنی سمجھانے کے لئے اردو ہندی اشعار رومن میں درج کئے گئے ہیں۔
”ہندوستانی زبان کے قواعد “ ان کی دوسری تصنیف ہے ۔ یہ اردو کی صرف نحو کی بہترین کتاب ہے۔ بہادر علی حسینی نے رسالہ گلکرسٹ کے نام سے اس کتا ب کا خلاصہ مرتب کیا۔
”بیاض ہندی“ میں فورٹ ولیم کالج کے مصنفین و مو لفین کے کلام نثر کا انتخاب شامل ہے۔
”مشرقی قصے“ میں حکایتوں اور کہانیوں کا ترجمہ شامل ہے جو حکایات لقمان اور انگریزی ، فارسی ، برج بھاشا اور سنسکرت کے واسطے مترجم تک پہنچی ہیں۔ ان کے علاوہ گلکرسٹ کی تصانیف میں مشرقی زبان دان ، فارسی افعال کا نظریہ جدید ، رہنمائے اردو، اتالیق ہندی، عملی خاکے، ہندی عربی آئینہ ، ہندو ی داستان گو اور ہندوستانی بول چال وغیر شامل ہیں

میرا من دہلوی:۔

فورٹ ولیم کالج کے مصنفین میں سے جس قدر شہرت میرامن کو نصیب ہوئی وہ کسی دوسرے مصنف کو نصیب نہیں ہوئی ۔ میرامن کا اصل نام میرامان اور تخلص لطف تھا۔ لیکن میر امان کی جگہ میرامن کے نام سے مشہور ہوئے۔ میرامن کے بزرگ ہمایون بادشاہ کے عہد سے ہر بادشاہ کے عہدمیں خدمات سرانجام دیتے چلے آئے تھے۔ ان خدمات کے صلے میں انھیں جاگیر و منصب وغیر ہ عطا ہوئے ۔ اس طرح میرامن کے بزرگ خوشحال زندگی بسر کرتے رہے۔ لیکن جب دہلی پر تباہی و بربادی آئی، تو میرامن بھی تلاش معاش کے لئے دہلی چھوڑ کر نکلے اور آخر کار بہادر علی حسینی نے وساطت سے میرامن نے گلکرسٹ تک رسائی حاصل کی۔
میرا من نے فورٹ ولیم کی ملازمت کے دوران دو کتابیں تحریریں کیں۔ باغ و بہار اور گنج خوبی جس میں سب سے زیادہ شہرت باغ و بہار کو ملی
”باغ و بہار“ دراصل محمد عطا حسین تحسین کی فارسی کتاب ”نو طرز مرصع کا اردو ترجمہ ہے۔ باغ و بہار کو بے انتہاءشہر ت حاصل ہوئی ۔ اور آج کل کم و بیش ایک سو نو سال گزرنے کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ۔ اس کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ اس کی زبا ن ہے ۔ مولوی عبدالحق باغ و بہار کی زبا ن کو اپنے وقت کی نہایت فصیح اور سلیس زبان قرار دیا ہے۔ اور ہر نقاد نے اس کی تعریف کی ہے۔ اس کتاب کی دوسری بڑی خوبی اپنے عہد اور زمانے کی تہذیب کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ باغ و بہار میں جابجااپنے عہد کے جیتے جاگتے مرقعے نظر آتے ہیں۔

سید حیدر بخش حیدری:۔

فورٹ ولیم کالج کے مصنفین میں سے میرامن کے بعد جس مصنف کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔ وہ سید حیدر بخش حیدری ہیں۔ حیدری دہلی کے رہنے والے تھے۔ دہلی کر بربادی کے زمانے میں حیدری کے والد دہلی سے بنارس چلے گئے۔ فورٹ ولیم کالج کے لئے ہندوستانی منشیوں کا سن کر حیدری ملازمت کے لئے کلکتہ گئے۔ڈاکٹر گلکرسٹ تک رسائی کے لئے ایک ”قصہ مہر و ماہ“ بھی ساتھ لکھ کر گئے۔ گلکرسٹ نے کہانی کو پسند کیا اور اُن کو کالج میں بطور منشی مقر ر کیا۔ وہ بارہ برس تک کالج سے منسلک رہے۔
فورٹ ولیم کالج کے تمام مصنفین میں سے سب سے زیاد ہ کتابیں لکھنے والے سید حیدر بخش حیدری ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد دس کے قریب ہے جن میں
١)قصہ مہر و ماہ ٢)قصہ لیلیٰ مجنوں ٣) ہفت پیکر ٤) تاریخ نادری ٥) گلزار دانش ٦)گلدستہ حیدری ٧)گلشن ہند ٨) توتا کہانی ٩)آرائش محفل
لیکن حیدری کی شہرت کا سبب اُن کی دو کتابیں ”توتا کہانی“، ” آرائش محفل ہیں۔ یہ دونوں کتابیں داستان کی کتابیں ہیں جو کہ جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی گئیں
”طوطا کہانی “جس طرح کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب مختلف کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے جس کی سب کہانیاں ایک طوطے کی زبانی بیان کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں 53 کہانیاں ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک عورت اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے محبوب سے ملنے جانا چاہتی ہے۔ طوطا ہر روز اس کو ایک کہانی سنانا شروع کر دیتا ہے اور ہر روز باتوں باتو ں میں صبح کر دیتا ہے۔ اور وہ اپنے محبوب سے ملنے نہیں جا سکتی حتی کہ اس دوران اس کا شوہر آجاتا ہے۔ جہاں تک کتاب کے اسلوب کا تعلق ہے تو سادگی کے ساتھ ساتھ حیدری نے عبارت کو رنگین بنانے کے لئے قافیہ پیمائی سے بھی کام لیا ہے۔ اس کے علاو ہ موقع اور محل کے مطابق اشعار کا بھی استعمال کیا ہے۔ توتا کہانی کی داستانوں میں جابجا مسلمانوں کی معاشرت اور ان کے رہنے سہنے کی بھی جھلک پیش کی ہے۔
حیدری کی دوسری کتاب ”آرائش محفل“ ہے جو اپنی داستانوی خصوصیات کی بنا پر توتا کہانی سے زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کتا ب میں حیدری نے حاتم کے سات مہموں کو قصے کے انداز میں بیان کیا ہے۔ اور اسے فارسی سے ترجمہ کیا۔ لیکن اپنی طبیعت کے مطابق اس میں اضافے بھی کئے ہیں۔ جہاں تک اس کے اسلوب کا تعلق ہے تو زبان میں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ سادگی اور بے تکلفی بھی پائی جاتی ہے۔ اس میں توتا کہانی کی طرح جان بوجھ کر محاورات کا استعمال نہیں کیاگیا۔ جبکہ داستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں وہ تمام لوازمات شامل ہیں جو کہ کسی داستان کا حصہ ہونے چاہیے اس لئے کتاب میں مافوق الفطرت عناصر کی فروانی ہے۔

میر شیر علی افسوس:۔

فورٹ ولیم کالج کے مشہور مصنفین میں میر شیر علی افسوس کا نام بھی شامل ہے۔ میر شیر علی افسوس کے آباو اجداد ایران سے آکر ہندوستان میں آباد ہوئے۔ افسوس دہلی میں پیدا ہوئے ۔ لیکن دہلی کی تباہی کے بعد افسوس لکھنو چلے گئے ۔ کرنل اسکاٹ کی بدولت فورٹ ولیم کالج کے منشیوں میں بھر تی ہوئے
فورٹ ولیم کالج کے زمانہ میں میر شیر علی افسوس نے دو کتابےں تصنیف کیں١) باغ اردو) آرائش محفل
”باغ اردو “سعدی کی گلستان کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں سادگی کی کمی ہے اس میں عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال زیادہ ہے۔ افسوس نے فارسی کے محاورے اور اسلوب کا موزوں اردو بدل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لئے کتاب میں نہ سلاست پیداہوئی ہے اور نہ ہی روانی اور بے تکلفی۔
اُن کی دوسر ی کتاب ”آرائش محفل“ ہے۔ یہ کتاب سبحان رائے بٹالوی کی کتاب ”خلاصتہ التواریخ“ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ تاریخ کی کتاب ہونے کے باجود اپنے سادہ اور پروقار اسلوب کی بناءپر ہمارے دور کے ادب کی کتابوں میں شامل ہونے لگی ہے۔ عبار ت میں سلاست اورروانی اور بے تکلفی اس کتاب کا خاصہ ہے۔

میر بہادر علی حسینی:۔

میر بہادر علی حسینی فورٹ ولیم کالج کے میر منشی تھے۔ میرامن ان ہی کی وساطت سے فورٹ ولیم کالج میں بھرتی ہوئے تھے۔ ان کے حالات زندگی کے بارے میں بھی کچھ زیادہ علم نہیں۔ ان کے والد کا نام سید عبداللہ کاظم بتایا جاتا ہے۔ تذکرہ نگارلکھتے ہیں کہ حسینی شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی ۔ وہ کب فورٹ ولیم کالج میں بھرتی ہوئے اور کب تک منسلک رہے اس کے بارے میں معلومات موجود نہیں۔ انھوںنے فورٹ ولیم کالج کے زمانہ میں کئی کتابیں لکھیں جو کہ مندرجہ زیل ہے۔
”نثر بے نظیر “ میر حسن کی مشہور زمانہ مثنوی ”سحر البیان“ کی کہانی کو نثر میں بیان کیاہے۔ ترجمہ کرتے وقت حسینی نے وہی فضاءپیش کی ہے جو کہ سحرالبیان کا خاصہ ہے۔
”اخلاق ہندی“ حسینی نے جان گلکرسٹ کی فرمائش پر ”مفر ح القلوب “ کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اور اس کانام اخلاق ہندی رکھا ہے۔
”تاریخ آسام“ بھی ترجمہ ہے یہ شہاب الدین طالش ابن ولی محمد کی فارسی تاریخ آسام کا اردو ترجمہ ہے۔
” رسالہ گلکرسٹ“ دراصل گلکرسٹ کی کتاب ”ہندوستانی زبان کے قواعد “ کا خلاصہ ہے۔

مظہر علی ولا:۔

مظہر علی ولا کا اصل نام مرزا لطف علی تھا لیکن عام طور پر مظہر علی خان کے نام سے مشہور ہیں۔ مظہر علی ولا کا تعلق بھی دہلی سے تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہاں تربیت پائی ۔ مظہر علی ولانثر نگار اور شاعر تھے۔ اُن کو اردو ، سنسکرت اور فارسی پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ قیام کالج کے دوران انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔
”مادھونل کام کندلا“ عشق و محبت کا قصہ ہے جس میں مادونل نامی ایک برہمن اور ایک رقاصہ کندلا کی داستان محبت بیان کی گئی ۔ اس قصے کا اصل سنسکرت ہے برج بھاشا میں اس قصے کو موتی رام کوئی نے لکھا ہے۔ ولاِ نے گلکرسٹ کی فرمائش پر اسے قصے کوبرج بھاشا سے اردو میں ترجمہ کیا۔
”ترجمہ کریما“ ولا کی دوسری کتاب ہے۔ جو شیخ سعدی کے مشہور پند نامہ کا منظوم ترجمہ ہے۔
ہفت گلشن بھی ترجمہ ہے ۔والا نے گلکرسٹ کی فرمائش پر واسطی بلگرامی کی فارسی کتاب کو اردو میں ترجمہ کیا اس کتاب میں آداب معاشرت کے مختلف پہلوئوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر بات کی وضاحت کے لئے موزوں حکایتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
”بیتال پچیسی “ولا کی مشہور کتاب ہے اس کتاب کے ترجمے میں ”للو لال“ بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔ یہ پچیس کہانیاں ہیں جو برج بھاشا سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ کتاب میں فارسی کے الفاظ بہت کم ہیں۔ زبان ہندی آمیز ہے۔اور سنسکرت کے الفاظ بکثرت ہیں جس کی وجہ سے عبارت سلیس و عا م فہم بھی نہیں
”اتالیق ہندی“ کی تالیف میں ولا کے علاوہ کالج کے کچھ دوسرے اہل قلم بھی شریک تھے۔ یہ کتاب اخلاقی اسباق اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

مرزا کاظم علی جوان:۔

مرزا کاظم علی جوان جن کا وطن دلی تھا۔ دلی کی تباہی کے بعد پھرتے پھراتے لکھنو آئے ۔ لکھنو میں ان دنوں شعر و شاعر ی کی محفلیں گرم تھیں۔ بحیثیت شاعر انھوں نے بہت جلد مقبولیت حاصل کی ۔ فورٹ ولیم کالج میں کرنل اسکاٹ کی وساطت سے ملازم ہوئے۔ان کی تصانیف مندرجہ زیل ہیں
”شکنتلا“ ان کی مشہور کتاب ہے جو کالی داس کے مشہور ڈرامے شکنتلا کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں جوان نے ہندوستانی معاشرت کی کہانی میں عربی اور فارسی کے الفاظ بلاتکلف استعمال کئے ہیں۔ کتاب کی عبارت مجموعی طور پر روزمرہ اور محاورے کے مطابق ہے۔
”بارہ ماسہ“ میں جوان نے ہندئوں اور مسلمانوں کے تہواروں کا حال مثنوی کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔
شیخ حفیظ الدین احمد:۔
ان کے خاندان کے بزرگ عرب سے ترک وطن کرکے ہندوستان آئے اور دکن کو اپنا وطن بنایا۔ انھوںنے فارسی اور عربی اپنے والد سے سیکھی جب فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو وہاں عربی اور فارسی کے استاد مقرر ہوئے ۔ شیخ حفیظ الدین نے فورٹ ولیم کالج میں درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا۔ ان کی مشہورکتابوں میں ابولفضل کی کتاب’عیار دانش“ کا ترجمہ اردو ترجمہ ہے۔ انھوں نے اس کا نام خرد افروز رکھا۔ حفیظ کا ترجمہ اپنی سادگی ۔ صفائی اور شگفتگی کی بناپر بہت پسند کیا گیا ۔

خلیل خان اشک:۔

ان کے حالات زندگی معلوم نہیں۔ کالج کی ملازمت کے دوران اشک نے چار کتابیں تالیف کیں جن کے نام ہیں۔ داستان امیر حمزہ ۔ اکبر نامہ ، گلزار چین اور رسالہ کائنات لیکن ان کی مشہور کتاب داستان امیر حمزہ ہے۔اس کتاب میں اشک کی زبان بہت صاف اور سلیس ہے۔ جگہ جگہ پر مصنف نے قافیے سے کام لیا ہے۔ اور سیدھی سادی باتوں کو ادبی اور شاعرانہ انداز میں بیان کرکے اس کی دلکشی میں اضافہ کیا ہے۔ نیز قصے میں مقامی معاشرت کا رنگ بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ کتاب اس قدر مشہور ہوئی کہ ہر فرد اس کے نام سے واقف ہے لیکن جس قدر کتاب کو شہرت حاصل ہوئی اس قدر مصنف گمنامی میں چلا گیا۔

نہال چند لاہوری:۔

نہال چند لاہوری کے اجداد کا تعلق دہلی سے تھا ۔ دلی کی تباہی کے بعد نہال چند لاہور چلے گئے اس لئے لاہوری کہلائے۔ کالج میں ایک کپتان کی وساطت سے ملاز م ہوئے ۔ نہال چند لاہور نے ”گل بکاولی“ کے قصے کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا اور اس کانام ”مذہب عشق “رکھا۔ مترجم نے اپنے ترجمے کو اصل سے قریب رکھتے ہوئے تکلفات سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ مترجم نے لفاظی کی جگہ سادگی اختیار کرکے قصے کودلچسپ اور عام فہم بنادیا ہے۔

بینی نارائن جہاں:۔

بینی نرائن کا وطن لاہور تھا ۔ لاہور میں پیدا ہوئے یہیں تعلیم حاصل کی ۔ گردش زمانہ کے ہاتھوں کلکتہ پہنچے ۔ انھوں نے کل دو کتابیں تصنیف کیں۔
”چار گلشن“ ایک عشقیہ داستان ہے جس میں شاہ کیواں اور فرخندہ کی محبت کا ذکر ہے۔ یہ کسی داستان کا ترجمہ نہیں بلکہ اُن کی اپنی طبع ذاد ہے۔
”دیوان جہاں“ اردو شعراءکا تذکرہے ۔ یہ تذکرہ بینی نرائن جہاں نے کپتان روبک کی فرمائش پر مرتب کیا۔
ان مصنفین کے علاوہ جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ کالج کے کچھ اور مصنفین بھی ہیں جن کے نام ذیل میں درج ہیں۔
مرزا جان طپش، میر عبداللہ مسکین، مرزا محمد فطرت، میر معین الدین فیض وغیر ہ

کالج کی خدمات:۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انگریزوں نے یہ کالج سیاسی مصلحتوں کے تحت قائم کیا تھا۔ تاکہ انگریز یہاں کی زبان سیکھ کر رسم و رواج سے واقف ہو کر اہل ہند پر مضبوطی سے حکومت کر سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فورٹ ولیم کالج شمالی ہند کا وہ پہلا ادبی اور تعلیمی ادارہ ہے جہاں اجتماعی حیثیت سے ایک واضح مقصد اور منظم ضابطہ کے تحت ایسا کام ہوا جس سے اردو زبان و ادب کی بڑ ی خدمت ہوئی۔
اس کالج کے ماتحت جو علمی و ادبی تخلیقات ہوئیں جہاں وہ ایک طرف علمی و ادبی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں تو دوسری طرف ان کی اہمیت و افادیت اس بناءپر بھی ہے کہ ان تخلیقات نے اردو زبان و ادب کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل میں بڑا حصہ لیا۔خصوصاً ان تخلیقات نے اردو نثر اور روش کو ایک نئی راہ پر ڈالا۔
فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل اردو زبان کا نثری ذخیرہ بہت محدودتھا۔ اردو نثر میں جو چند کتابیں لکھی گئی تھیں ان کی زبان مشکل ، ثقیل اوربوجھل تھی۔ رشتہ معنی کی تلاش جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہ تھی۔ فارسی اثرات کے زیراثر اسلوب نگارش تکلف اور تصنع سے بھر پور تھا۔ ہر لکھنے والا اپنی قابلیت جتانے اور اپنے علم و فضل کے اظہار کے لئے موٹے موٹے اور مشکل الفاظ ڈھونڈ کر لاتا تھا۔ لیکن فورٹ کالج کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے اردو نثر کو اس پر تکلف انداز تحریر کے خارزار سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی۔ سادگی ، روانی ، بول چال اور انداز ، معاشرے کی عکاسی وغیرہ اس کالج کے مصنفین کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔
فورٹ ولیم کالج کی بدولت تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ ترجمے کی اہمیت بھی واضح ہوئی ۔ منظم طور پر ترجموں کی مساعی سے اردو نثر میں ترجموں کی روایت کا آغاز ہوا اور انیسویں اور بیسویں صدی میں اردو نثر میں ترجمہ کرنے کی جتنی تحریکیں شروع ہوئیں ان کے پس پردہ فورٹ ولیم کا اثر کار فرما رہا۔
فورٹ ولیم کالج کی بدولت تصنیف و تالیف کے کام میں موضوع کی افادیت اور اہمیت کے علاوہ اسلوب بیان کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ۔ یہ محسوس کیا گیا جس قدر موضوع اہمیت کا حامل ہے اسی قدر اسلوب بیان ، اسلوب بیان کی سادگی، سلاست اور زبان کا اردو روزمرہ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ تاکہ قاری بات کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مطالب کو سادہ ، آسان اور عام فہم زبان میں بیان کیاجائے ۔
فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کی مساعی کی بدولت اردو زبان بھی ایک بلند سطح پر پہنچی ۔ فورٹ ولیم کالج کی اردو تصانیف سے قبل اردو زبان یا تو پر تکلف داستان سرائی تک محدود تھی یا پھر اسے مذہبی اور اخلاقی تبلیغ کی زبان تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن فورٹ ولیم کالج میں لکھی جانے والی کتابوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان میں اتنی وسعت اور صلاحیت ہے کہ اس میں تاریخ ، جغرافیہ ، سائنس ، داستان ، تذکرے ، غرضیکہ ہر موضوع اور مضمون کو آسانی سے بیان کے جا سکتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top