فوج اور سیاست روبرو اور دوبدو

آرمی چیف جنرل کیانی کے لئے کچھ دیر کے لئے ٹریفک روکی گئی جس میں ایک جھنڈے والی کار بھی تھی۔ اس کے خلاف چودھری نثار نے اسمبلی میں آرمی چیف کی طرف سے قومی پرچم کی توہین کے عنوان سے ولولہ انگیز تقریر کی۔ پیپلز پارٹی کے وزیر نذر محمد گوندل کہیں جا رہے تھے، نجانے کہاں جا رہے تھے! ان جیسے کئی وزیر شذیر ٹریفک رکواتے ہیں۔ ان کے وزیراعظم کے لئے رکی ہوئی ٹریفک میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کے لئے تین نام تجویز کئے گئے: پروٹوکول خان، سکیورٹی خان، ٹریفک بلاک خان! جب گیلانی صاحب وزیراعظم نہ تھے اور جب وہ وزیراعظم نہیں ہونگے تو سڑکوں پر وزیراعظم کیلئے روکی گئی ٹریفک میں ہونگے۔ سنا ہے نذر محمد گوندل نے کچھ احتجاج سا کیا۔ ان کی گاڑی آگے بھی بڑھی پھر پیچھے ہٹ کر اور ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔ گوندل صاحب شاید گوند سے بنے ہوئے وزیر شذیر ہیں۔ وہ وزارت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ان کا نام وزیراعظم کی اس فہرست میں شامل ہے جنہیں الگ کیا جا رہا ہے۔ ایسی ایسی گاڑیوں پر جھنڈے لگے ہوئے ہیں کہ انہوں نے شرم کے مارے لہرانا چھوڑ دیا ہے۔ اپنی گاڑی روکے جانے کو گوندل صاحب نے محسوس نہ کیا مگر قومی اسمبلی میں فرینڈلی اپوزیشن لیڈر چودھری نثار نے اسے جمہوریت کی توہین کا عنوان بنا کر اپنی ذومعنی تقریر میں آرمی چیف اور جرنیلوں کو بے نقط سنا ڈالیں۔ ان پر نقطے تہمینہ دولتانہ نے ایک ٹی وی ٹاک میں لگائے۔ محرم کو مجرم بنا دیا۔ چودھری نثار نے اپنے لیڈروں کے لئے روکی گئی ٹریفک میں ایمبولینس کے اندر تڑپتے ہوئے زخمیوں اور بیماروں کے لئے کبھی توہین محسوس نہیں کی اور اسمبلی میں تقریر نہیں کی۔ پورے ملک میں وزیروں کی فوج ظفر موج کے لئے اتنا پروٹوکول اور سکیورٹی ہے کہ لوگ مہنگائی اور دہشت گردی سے بھی زیادہ تنگ ہیں۔ وزیر شذیر اپنے لئے اس طرح بھی فوج کا لفظ سن کر خوش ہوتے ہیں کہ سارے وزیر فوج کی مہربانی سے آئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر بھی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ چودھری نثار اب بھی وفاقی کابینہ میں سینئر وزیر ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور چودھری نثار نے حکومت اور اپوزیشن کا فرق مٹا دیا ہے۔ نذر محمد گوندل کا دفاع کر کے چودھری نثار نے وزیر دفاع احمد مختار کو شرمندہ کر دیا ہے۔ دوسرا نام ڈاکٹر بابر اعوان کا لیا جا رہا تھا۔ انہوں نے لاہور سے تردید کی ہے کہ میں تو اسلام آباد میں ہی نہیں ہوں۔ وہ ایک بار امریکی سفارت خانے کے دروازے سے لوٹ آئے تھے کہ جھنڈے والی کار کو اندر نہیں جانے دیا گیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ جھنڈے والی کار میں بیٹھا کون ہے! آجکل رانا ثناءاللہ اور ن لیگئے مغل بادشاہ بابر کے لئے بھی اندر سے خلاف ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے اسلام آباد میں مجید نظامی کیلئے شاندار تقریب اعترافِ خدمت میں شرکت کر کے کہا کہ ان کی قیادت میں مل کر مفاہمت کی سیاست کا آغاز کرنا چاہئے۔
حیرت یہ ہے کہ چودھری نثار کچھ عرصہ پہلے شہباز شریف کے ساتھ آرمی چیف جنرل کیانی سے مل چکا ہے جس پر نواز شریف برہم ہوئے تھے مگر دوسری ملاقات پر وہ برہم چھوڑ درہم بھی نہ ہوئے بلکہ کچھ بھی نہیں ہوئے کہ یہ ملاقات ان کی مرضی سے یعنی ان کی ہدایت پر ہوئی تھی، پھر بھی لوگوں نے باتیں بنائیں۔ اب دو ملاقاتیں شہباز شریف نے چودھری نثار کے بغیر جنرل کیانی سے کر لی ہیں۔ چودھری صاحب کو غصہ تھا جس کا بدلہ اس نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے وزیروں کی ترجمانی کرتے ہوئے لے لیا۔ مدعی سست گواہ چست اور خواجے کا گواہ ڈڈو! قومی اسمبلی میں چودھری نثار صرف نواز شریف کے ترجمان ہیں۔ چودھری نثار نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف نواز شریف سے بنوایا۔ پھر اس نے نواز شریف کے ساتھ کیا کیا جس کا افسوس ہمیں ہے مگر خود نواز شریف کو نہیں۔ اس کے بعد بھی چودھری نثار ان کا ترجمان ہے اور ہمراز ہے! چودھری نثار پھر کچھ کروانے والا ہے۔ چودھری نثار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ کوئی بات بھی ہو ایجنسیوں سے پوچھ کر کرتا ہے جس طرح کچھ صحافی کلمہ¿ حق جابر حکمرانوں سے پوچھ کر بولتے ہیں۔ وہ کلمہ¿ حق اور کلمہ¿ خیر میں فرق نہیں جانتے۔ مجید نظامی کے نقوش قدم پر چلنا ہر صحافی کے بس کی بات نہیں۔مسلم لیگ ایچ (حقیقی) کے سربراہ نوید خان کی بات زیادہ بھلی لگتی ہے۔ اس کی مسلم لیگ حقیقی اور ایم کیو ایم حقیقی میں بڑا فرق ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چودھری نثار خود بخود فوج کا آدمی بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے چودھری نثار اور پیر پگاڑا میں کوئی فرق نہیں۔ ایک دبنگ نظریاتی جرنیل ریٹائرڈ اس کے لئے کہتا ہے کہ وہ اصل میں امریکہ کا آدمی ہے۔ میں اس بہادر جرنیل کو ریٹائرڈ نہیں سمجھتا اور مجھے ان کی سب باتوں پر یقین ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ وہ پاک فوج کے بغیر کم از کم افغانستان میں ناکام و نامراد ہے تو پھر امریکہ پاک فوج کے کیوں خلاف ہے؟ یہی ایک قومی ادارہ مستحکم ہے اور محب وطن ہے اور امریکہ پاکستان میں سب کچھ منتشر کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاک فوج کی صلاحیتوں سے واقف ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ فوج کو لڑانے میں ناکامی کے بعد چودھری نثار میدان میں لایا گیا ہے۔ پاکستان میں سارے اداروں کا حشر ہو گیا ہے۔ سیاسی ادارے کا حشرنشر خود سیاست دانوں نے کر دیا ہے اور الزام فوج کو دیا جا رہا ہے۔ مجید نظامی نے کہا کہ سارا بجٹ فوج کو دے دو، ہم فوج کی عزت کرتے ہیں مگر وہ سیاست میں نہ آئے۔
جنرل کیانی نے کبھی سیاست دانوں کے کسی معاملے میں دخل نہیں دیا۔ وہ فوج کے لئے سیاست سے الگ تھلگ رہنے میں یقین رکھتا ہے۔ اس نے بھارت کو للکارا ہے۔ اس کے باوجود سیاست دانوں کی طرف سے تضحیک آمیز باتیں ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اپوزیشن لیڈر کو اس طرح غیر مہذب اور غیر سیاسی انداز نہیں اپنانا چاہئے تھا۔ جنرل کیانی سیاست میں نہیں آئے گا کہ اسے کسی سیاست دان نے نہیں بنایا۔ پہلے پہل پیپلز پارٹی والے فوج کے خلاف سیاسی طور پر صف آرا تھے۔ اب وہ خاموش ہیں اور یہ کام مسلم لیگ ن نے سنبھال لیا ہے۔ تہمینہ دولتانہ فوج پرگرج برس رہی تھی، مجھے صدمہ ہوا۔ ہم نے ایک ساتھ جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف مہم چلائی تھی۔ لوگوں نے کلثوم نواز کو بھی لیڈر مان لیا تھا۔ وہ اس تحریک جمہوریت کی کامیابی کے نتیجے میں اپنی ساری فیملی کو جدہ سعودی عرب کے سرور محل میں لے گئی۔ وہاں سات آٹھ سال شریف فیملی نے جلاوطنی کا سرور لیا اور پاکستان میں لوگ ہموطنی کا عذاب سہتے رہے۔ تہمینہ دولتانہ جو تب شیرنی تھی اب کیا ہے، میں نہیں بتاﺅں گا کہ وہ خود بھی جانتی ہے۔ اس نے فوج کے خلاف جس جذباتی انداز میں بات کی، اس کے سامنے مخولیہ لگتی ہے۔ !


http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/12-Nov-2010/16180
 
Top