فتور.

با ادب

محفلین
زندگی بیت چلی. . . عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے آج تک.ہم معاشرے کے چلن سے واقف نہ ہوپائے.
مرد و عورت ....عورت و مرد.
کیو ں ہیں اس دنیا میں؟ ؟
کیا ان کے ہونے کا کوئی مقصد ہے؟ ؟
یا کیا دونوں کے ہونے کا مقصد ایک ہے؟ ؟
یا کوئی مقصد ہے ہی نہیں؟ ؟
جتنی خلقت اتنی باتیں. . راز عیاں نہ ہو پایا. .
اللہ نے فرمایا میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لئیے پیدا کیا. .
سماج کے ٹھیکیدار کہتے ہیں اللہ نے مرد کو اپنی عبادت کے لئیے اور عورت کو مرد کی عبادت کے لئیے پیدا کیا. .
یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے. .
عورت پہ فرض ہے پتی ورتا رہے. . . مانتے ہیں. .
لیکن سمجھ نہیں آتی مرد پہ کس کتاب میں فرض ہے کہ وہ ادھر اُدھر منہ مارتا رہے؟ ؟
مجھ پہ خدارا اسلام بیزاری کا فتوٰی ہر گز مت لگائیے گا کہ مجھے اسلام میں کبھی تبگ نظری دکھائی نہیں دی. . .
ہم ۴ سال کے تھے تو ہماری والدہ نے ہمیں پڑھنا لکھنا سکھایا تھا. . . اسی ۴ سال کی عمر میں ہمیں ٹوٹی پھوٹی زبان میں لکھنے کا شوق تھا. . ہمارے گھرانے میں پڑھائی لکھائی کی بات بڑی معتبر گردانی جاتی فقط نصابی کتابوں کی حد تک. . . ٹارزن اور عمرو عیار کی کہانیوں کو بھی مخرب الاخلاق سمجھ کر بچوں کی دسترس سے دور رکھا جاتا. .
ہمارے والدہ پڑھنے لکھنے کے فن سے قطعی طور پہ نا آشنا تھیں اور ان کے ہاں ان باتوں کی زیادہ اہمیت بھی نہیں پائی جاتی تھی سوائے اس کے کہ بچے تعلیم حاصل کر لیں. . معاشرے میں رہنے کے لئیے ضروری ہے. .
ان تمام حالات کے پیش نظر گھر میں اس بچی کا جنم ہوتا ہے جسے کتابیں پڑھنے کا ہوکا ہے اور کہانیاں لکھنے کا جنون. . .
اس چار سالہ بچی کو ماموں محترم ایک نیلے جلد والی ڈائری بطور تحفہ دیتے ہیں. .
یہی ڈائری تمام فسادات کی جڑ ہے. . بچی اپنے تمام تر معمولات ہر روز اس ڈائری میں قلمبند کرتی ہے. . آج بمورخہ فلاں ہم صبح اٹھے ناشتہ کیا اور رات تک تمام کہانی بمعہ احساسات و جذبات رات تک کے دورانیے پہ مبنی لکھی جاتی ہے. .
شاید یہ ایک بہترین کاوش قرار پاتی لیکن ابا حضور اس ڈائری کو دیکھ کر اس قدر چراغ پا ہوتے ہیں جیسے جوان بیٹی کسی عاشق کے ساتھ فرار ہوتے پکڑی جائے اور اس کے بعد فیصلے میں دقت کا سامنا ہو کہ آیا اسے قتل کیا جائے یا سنگسار کیا جائے. . . . دونوں میں سے کوئی ایک کام ضرور سر انجام پا جاتا اگر معاملہ نہایت فرماں بردار اور عزیز از جان بیٹی کا نہ ہوتا تو. . . یہ بیٹی بہت انوکھے طور پہ اس سخت گیر باپ کی لاڈلی ہے. . .
اسلئیے نہایت سخت الفاظ میں آخری خبرداری دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے. .
لیکن چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی کے مصداق ایسے گھر میں جہاں کوئی اس کا ہم خیال نہیں تھا اسکا رشتہ اپنی ڈائری سے ٹوٹنا مشکل تھا. .
کچھ دن ڈر کے مارے روزنامچوں کا سلسلہ بند ہوتا ہے لیکن آخر کب تک. . . لفظ اس کے اندر مچلتے ہیں. . اسے تنگ کرتے ہیں. . تقاضا کرتے ہیں ہمیں لکھ ڈالو لکھتی کیوں نہیں. .
وہ سب معاملات جن پہ وہ اپنی رائے رکھتی ہے لیکن بول نہیں سکتی اسے تنگ کرتے ہیں. . .
بابا گھر میں زور سے کیوں بولے؟ یہ بات شاید باقی بچوں کے لئیے عام ہے لیکن وہ صاحب الرائے ہے. ہمیں ادب سے بات کرنی چاہیئے. . . بہن بھائ کے پاس اسکی عقل پہ ماتم.کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں. . میں بابا سے بات کرتی ہوں. . اور بڑی بہن اس کا ہاتھ تھام کہ زبردستی بٹھاتی ہے مار کھاؤ گی ہر بات میں بچے نہیں بولتے. . . میں بچی نہیں ہوں. . یہ نو سالہ بچی کے الفاظ ہیں جسکو چار سال کی عمر سے بولنا آگیا ہے. . .
دیکھو بابا کو غصہ آیا تو تم سمیت سب کی شامت آئے گی. تم خاموش نہیں ری سکتی. .
تم لوگ بول کیوں نہیں سکتے؟ ؟
ہم تمھاری طرح فسادی نہیں. .
بولنے سے فساد ہوتا ہے؟
فضول باتیں بولنے سے فساد ہوتا ہے.
تو بابا نے کیوں فضول بات کی.
اف. سو جاؤ خدارا.
اسکا جی چاہتا اپنی بہن کی خوب پٹائی کرے وہ بولنا چاہتی ہے. . نہیں بولتی تو گھٹن ہوتی ہے.
سونا ہر دلعزیز بچی ہے. وہ ذہین ہے وہ لاڈلی ہے وہ ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتی وہ فرماں بردار ہے لیکن اسے ہر بات لئیے منطق کی ضرورت ہے. . بغیر منطق کے وہ کوئی بات ماننے کو تیار نہیں. . جب تک بات اسکے دل و دماغ میں نہ اترے وہ اسے قبول نہیں کرتی. .
سونا مت کرو یہ کام. .
کیوں؟ کیا ہوتا ہے؟
بڑے زچ. . .
اسکے پاس ہر بات کا جواب کیوں ہے.
اور گھر میں ہر کیوں پہ پابندی ہے. . کسی کی مجال ہے نہیں کیوں کا لفظ کہا جائے . وہاں گھر کی چھوٹی بچی کے پاس کیوں کے بغیر کوئی بات نہیں. . .
جب اسے لگا کہ اسکو زبردستی ڈانٹ کر چپ کروادیا جاتا ہے. تو بستروں میں چھپائی ڈائری ایک بار پھر اسکی ہمنوا ہے. . . وہ کیوں لکھتی ہے اور اس کیوں کے آگے ایک منطق بھرا جواب لکھتی ہے.
سونا ڈائری مت لکھو بابا کہتے ہیں اچھی لڑکیاں ڈائری نہیں لکھتی. .
بابا کیوں لکھتے تھے؟
کہاں لکھیں ہیں بابا نے؟
انکی کتابوں کی پیٹی سے میں نے انکی ڈائریز نکالی ہیں. .
تم نے بابا کی کتابیں کھولیں؟
ہاں کیوں؟
کیوں کھولیں؟
پڑھنے کے لئیے.
بابا تمھیں مار ڈالیں گے.
وہ خود کیوں پڑھتے ہیں. ؟
وہ بڑے ہیں.
کتابیں صرف بڑے پڑھتے ہیں. ؟
ہاں. تم بھی بڑی ہو جاؤ گی تو پڑھنا. .
سنو بابا کی کتابوں میں ناول بھی ہیں. . تم پڑھو گی؟
سونا. .
ارے پڑھ لو بہترین ہیں. .
لا کے دوں؟
بابا ڈانٹیں گے.
دیکھو لالئی بابا روز اپنی کتابیں چیک نہیں کرتے تم چپ چاپ چھپا کے پڑھو پھر مجھے دینا میں چھپا کے رکھ دوں گی. .
بڑی بہن انتہائی فرماں بردار اور ہر ایک کی بات ماننے والی بچی ہے. وہ دونوں ایک دوسرے کی متضاد ہیں. .
اب اسکا معمول تھا ڈائری لکھنا اور ایسی جگہ چھپانا جہاں کسی کے فرشتے بھی نہ پہنچ سکیں. . .
اگر کسی دن سوتے میں بابا کے زور سے بولنے کی آواز سن لیتی تو ہاتھ پاؤں ڈر کے مارے پھول جاتے کہیں میری ڈائریز تو نہیں ہاتھ لگ گئیں. . وہاں جا کے چیک کیا جاتا جہاں انھیں چھپایا گیا ہوتا. .
کئی کتابیں باپ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئیں. . کئی بار کالے پانی کی سزا ہوئی. . . لیکن بابا نہیں جانتے تھے کہ جب تک کتاب نہ پڑھنے کی لاجک نہ سمجھائی جائے تب تک سونا کو کتاب پڑھنے سے منع نہیں کیا جا سکتا.
ایک دن وہ باپ کے سامنے جا کھڑی ہوئی وہ باپ جس کے سامنے بات کرتے ہوئے بڑے بڑوں کو سوچنا پڑتا ہے. . . جو جرگوں کو سربراہ ہے جس کے آگے جرگے میں کوئی بات نہیں کر سکتا. . . اس کے آگے اسکی اپنی بیٹی نے پہلی بار سوال اٹھایا.
بابا آپ نے میری کتاب کیوں پھاڑی؟
تمھاری عمر کہانیاں پڑھنے کی نہیں ہے.
کیوں ؟
تم سکول کی کتابوں پہ توجہ دو.
مجھے سب کتابیں یاد ہیں.
زبانی؟
جی زبانی
لاؤ سناؤ
رٹی ہوئی کتابیں سنا دی جاتی ہیں.
پانچویں جماعت کی بچی کو کیسے ٹالا جائے وہ بھی تب جب وہ بغاوت پہ آمادہ ہے.
تم بہشتی زیور پڑھو.
مجھے پورا بہشتی زیور یاد ہے.
زبانی؟ اب کے حیران ہونے کی باری بابا کی تھی.
جی سناؤں کیا؟
تمھیں فقہی مسائل یاد ہیں؟
یاد ہیں سب. بہشتی زیور کے آخر میں لکھہ گئی صابن بنانے کی تراکیب تک یاد ہیں.
رسولوں کی کہانیاں پڑھو.
آپ لا دیں.
اس بات پہ ابا جان خاموش ہیں لیکن اگلے دن پیارے رسول کی پیاری کہانیاں کتاب آجاتی ہے. .
بہن بھائی اس حسن کارکردگی پہ اسے تمغے سےنوازنا چاہتے ہیں. اور والدہ سر پکڑے حیران ہیں. . سونا بی بی کتاب سامنے رکھ کر پڑھ رہی ہیں. .
سراقہ بن جعشم کی کہانی وہ چھوٹے بھائی کو ایسے انداز سے سناتی ہے کہ اسے کتابیں پڑھنے کی لت لگ جاتی ہے اور بقول والدہ میرے بچوں کو سونا نے بگاڑا ہے.
اس کتاب کے بعد گھر میں دوبارہ کوئی کتاب نہ آئی لیکن اماں اور بہن بھائیوں نے باغی کی بغاوت پر چپ سادھ لی. . .
لکھنا آج بھی جرم تھا. .
ایک بار اردو کی کتاب پہ لکھا گیا شعر ابا جی کی نگاہوں کی زد می آگیا. . .
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا عشق کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری.
کتاب لالئی کی تحریر لالئی کی. . . ابا حضور آگ بگولہ. . . لالئی کا رنگ زرد. .
یہ کس نے لکھا ہے. . ؟
لالئی گھگھیا تے ہوئے خاموش ہوجاتی ہے.
پر سونا کو کون روکے.
بابا یہ کیا ہے؟
واہیات شعر ہے.
کیا سب اشعار واہیات ہوتے ہیں؟
لڑکیاں شعر و شاعری نہیں کرتیں.
یہ لالئی نے نہیں پروین شاکر نے لکھا ہے وہ اس دن آئی تھیں نا ٹی وی پہ تب آپ نے کہا تھا بڑی مشہور شاعرہ ہیں. . وہ اچھی لڑکی نہیں کیا؟
لالئی پی نازل ہونے والا عتاب رک چکا تھا. .
کتاب کا صفحہ پھاڑ کے بابا نے پھینک دیا. . اور وارننگ لالئی کو دیکھ کر دی گئی آئندہ میں یہ بے حیائی نہ دیکھوں.
زندگی اسی لڑکیاں یہ نہیں کرتیں وہ نہیں کرتی میں گزر گئی. . . بعد میں ابا کے لڑکوں میں سے چند ایک نے وہ وہ کام کئیے جن کے متعلق کوئی ذی ہوش و صاحبِ کردار سوچ بھی نہ سکتا تھا. . یہ نہیں تھا کہ ابا نے انھیں میڈل پہنائے لیکن یہ کبھی نہ کہا کہ لڑکے یہ نہیں کرتے. .
ارے اصول بنانا ہے تو یکساں بناؤ نا. . .
لڑکیاں عشق عاشقی کی باتیں نہیں کرتیں اور لڑکے اپنی محبوباؤں کے گھر کے پتے بتا رہے ہیں. . . کیوں بھائی انکے لئے غیر محرم کا قانون نہیں کیا؟ ؟/
زندگی بیتی شادی ہوئی. . . ابا کے خاندان میں شادی نہیں کرنی. .
ابا کے علاقے میں بھی نہیں کرنی.
ابا مار ڈالیں گے.
مار ڈالیں نہیں کرنی تو نہیں کرنی. . . پڑھے لکھے سے کریں گے جو اہل ادب ہو. .
کر ڈالی. .
پہلا فتوٰی صادر ہی یہی ہوا یہ جو بھی لکھ کے تم پوری دنیا کو میل کر دیتی ہو مت کرو. . اچھا درست. .
نہیں لکھا. . جانے کتنی دہائیاں نہیں لکھا. .
کیوں نہیں لکھا؟
میں ایک عورت ہوں. میرے پاس دماغ نہیں سوچ نہیں ذہن نہیں. . . اور حقیقت ہے بھی یہی. .
عورت استاد ہو تو اسکے معزز پیشے پہ نظر کم جاتی ہے اس بات پہ زیادہ کہ عورت ہے.
عورت مسیحا ہے تو وہ مسیحا نہیں بس عورت ہے.
عورت لکھاری ہے تو سراہنے والے اس لئیے سراہتے ہیں کہ عورت ہے.
عورت شاعرہ تو واہ واہ اس لئیے کی جاتی ہے کہ وہ عورت ہے. . .
وہ عورت ہے اسے انسان کیوں نہیں سمجھتا معاشرہ؟
اسے استاد کیوں نہیں سمجھتا؟
اسے ادیبہ مصنفہ کیوں نہیں جانتا؟
ہمارے معاشرے کا مرد عورت کی آواز کیوں سننا نہیں چاہتا؟
اسے عورت صرف دیکھنے کی چیز کیوں لگتی ہے؟
میں مانتی ہوں کہ یہاں کچھ قصور کچھ عورتوں کا بھی ہے لیکن ان کچھ کی وجہ سے سب کو گدھوں کے اصطبل میں باندھنے پہ کیوں تلے رہتے ہیں؟
ابا کو لکھنے سے اختلاف تھا مخالفت کہہ لیں زیادہ بہتر ہے. .
اہل زبان اہل ادب میاں کو یہ ڈر ہے کوئی یہ نہ جان لے محترمہ انکی کچھ لگتی ہیں. . . . نری شرمندگی. . .
وہ غزال آنکھیں سراب گیسو پہ آہیں بھرتے ہوں تو ہمیں شرمندگی نہیں ہوتی. . . کہ یہ تو انکی شان ٹہری.
اور خود مرد لکھاری جس موضوع پہ چاہے قلم اٹھائے اسکے ابا کی جاگیر ہے. . . الاٹمنٹ کے کاغذات اسکے پاس دھرے ہیں. . کسی بھی وقت دعوٰی کرنے کا اختیار رکھتا ہے. .
ہمیں لکھنا نہیں آتا. . . بجا. . مانتے ہیں. .
تو کیا سیکھیں بھی نہیں؟
سیکھنی چاہی. . کسی محترم نے فرمایا واہ بہت اچھا لکھا حالانکہ خواتین سے یہ امید نہیں. . . سبحان اللہ. . ہمیں کونسا آپ سے تمیزدارانہ گفتگو کی امید تھی. .
نوٹ.
یہ تحریر ہر گز ہر گز حقوقِ نسواں کے ضمن میں نہیں لکھی گئی. . بلکہ یہ فتورِ مرداں کے سبب سے لکھی گئی ہے. . . اس لئیے آپکو اختیار حاصل ہے کہ مجھے پاگل ' خبطی یا کسی بھی قسم کی غیبت میں حصہ ڈال کے اپنا اپنا ثواب کما سکتے ہیں.
شکریہ.
 

نمرہ

محفلین
نیک پروینی کی مقدار بہت زیادہ ہے ہمارے ہاں اور معیار بہت کڑا ۔ پھر اس سے ذرا سا بھی ادھر ادھر ہونے پر اعتراض ہوتا ہے لوگوں کو، تو ہوتا رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مصنفین کو اس معاملے میں ذرا بے پروا ہونے کی ضرورت ہے۔
 
Top