غصہ اور نفرت

راشد احمد

محفلین
وہ ایک بے حس قوم تھی، ناانصافی، مہنگائی میں پسی ہوئی، ہر ظلم وزیادتی خاموشی سے برداشت کرنیوالی، مایوسی کے اندھیروں میں پھنسی ہوئی،امیرامیر ترہوتا جارہا تھا اور غریب غریب تر، یہ فرانسیسی قوم تھی آخر کار اس قوم کی بے حسی اور برداشت غصے اور نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی انہوں نے روٹی کے لئے احتجاج کرنا شروع کردیا تو ملکہ نے لوگوں کو احتجاج کرتے دیکھ کر کہا کہ اگرانہیں روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھالیں۔

اس احتجاج کے کچھ دن بعد ایک مالی بادشاہ کے محل کے کسی کمرے میں غلطی سے گھس گیا، معاملہ عدالت میں چلا گیا، عدالت نے مالی کو کوڑوں کی سزاسنادی، گماشتے مالی کو مار رہاتھا اور لوگ بے‌حس ہوکرمجمع کی صورت میں تماشہ دیکھ رہے تھے، مالی گماشتے کی مار کی تاب نہ لاسکا اور مرگیا تو مجمع میں سے کسی شخص نے گماشتے کو پتھر ماردیا جواب میں گماشتے نے مجمع کو گالی دیدی توتھوڑی دیر بعد اس کی وہاں لاش ملی، یہیں سے انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔اس کے بعد عوام نے یہ سلسلہ پکڑلیا اور اشرافیہ، وزراء، امراء کو قتل کرکےکسی نہ کسی چوراہے پر لٹکانا شروع کردیا۔ عوام نے گردنیں کاٹنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا۔

مسولینی اٹلی کا ایک فاشسٹ حکمران تھا، جب لوگ اس کے ظلم و ستم سے تنگ آگئے تو لوگوں نے اسے سر عام پھانسی دیدی اور اس کی لاش کو دو دن تک لٹکائے رکھاتاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بنا، ایک عرصے تک یہاں فوجی حکومت قائم رہی آخر کار جنرل ارشاد کے خلاف عوام اٹھ کھڑی ہوئی تو مرد، بچے، عورتیں سب سڑکوں پر آگئے اور اس وقت تک گھر نہیں گئے جب تک جنرل ارشاد حسن کی حکومت ختم نہ ہوئی۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کوئی بھی قوم پہلے بے حس ہوتی ہے پھر اس کی بے حسی غصے اور نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہی غصہ اور نفرت کسی بڑی تبدیلی کا موجب بنتا ہے۔ مشرف دور میں مہنگائی، بیروزگاری، ناانصافی، لاقانونیت عام ہوگئی ہے۔ پاکستانی قوم قیام پاکستان سے اب تک حکمرانوں کی ظلم وزیادتی کا شکار بنتی آرہی ہے لیکن پھر بھی ظلم وزیادتی برداشت کرتی آرہی ہے۔ ہر ایک نے عوام کی امنگوں اور امیدوں کے ساتھ کھلواڑ کیا لیکن پھر مشرف کا دور آیا۔ جس میں کبھی بے گناہوں کو گھروں سے اٹھاکر امریکہ کے حوالے کیا جاتا اور ڈالر چھاپے جاتے، کبھی بگٹی جیسے بزرگ پر فوجی یلغار کی جاتی، کبھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں معصوم بچیوں کو نشانہ بنایا جاتا

کبھی چیف جسٹس کو لوگوں کوانصاف دینے پر معزول کیا جاتا، ان کے بال کھینچے جاتے، کبھی 12 مئی جیسے واقعات کو اپنی طاقت کہا جاتا، کبھی وکلاء پر لاٹھی چارج اور تشدد کیا جاتا، کبھی عوام کو آٹے کے حصول کے لئے لمبی قطاروں میں‌لگایاجاتا، کبھی مخالفین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاتا، کبھی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے میڈیا کو خاموش اور کبھی ججوں کو نظر بند کیا جاتا، کبھی سٹاک ایکسیینج کو اوپر نیچے کرکے اربوں روپے ڈبودئیے جاتے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔لوڈشیڈنگ نے بیروزگاری میں اضافہ کردیا۔ این آر او کےذریعے جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد کے گناہ معاف کرنے شروع کردئیے۔لوگوں کی بے حسی نفرت اور غصے میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی، لوگ حکومت کی پالیسیوں اور زیادتیوں پر کڑھنا شروع ہوگئے

پھر 18 فروری آیا لوگوں نے ایک بار پھر ووٹ کا اس امید پر استعمال کیا کہ شاید یہ لوگ منتخب ہو کر ہماری پریشانیاں کم کریں لیکن پھر دھوکا، نہ جج بحال ہوئے، این آر او کے تحت گناہ معاف کرانیوالے عوام کے خیرخواہ بن کردوبارہ آگئے۔ نہ عوام کی تکالیف کم ہوئی، پھر وہی کھیل تماشے، معاہدوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ ججوں کو اس ڈر سے بحال نہ کیا گیا کہ کہیں این آر او کالعدم نہ ہوجائے، حکومتی معاملات کو لٹکادیا گیا، بلوچستان کا مسئلہ حل نہ ہوسکا، صوبہ سرحد کی شورش برقرار ہے، سی این جی، بجلی کی قمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، آٹا، چینی اور دیگر بنیادی ضروریات مہنگی ہورہی ہیں۔لوگوں کو ایک بار پھر انصاف تک رسائی ناممکن بنادی گئی۔

پھر پی پی نے پنجاب کو کنٹرول کرنے کے لئے ڈوگرہ عدالتوں کے ذریعے وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف کو نااہل قراردلوایا، گورنرراج نافذ کردیا گیا، عوام پھر غصے میں، کہیں ٹائروں کو آگ لگ رہی ہے کہیں زرداری ہائے ہائے کے نعرے لگ رہے ہیں، پھر وکلاء اور سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو تاجروں کے کنٹینرز پکڑ کر راستے بند کردئیے گئے، کبھی مخالفین کو ہراساں کیا جاتا، لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر تھانوں میں‌بند کردیا جاتا رہا، پھر عوامی غصہ مزید بڑھ گیا اور آخر کار سولہ مارچ آگیا، وکلاء اور لوگوں کا قافلہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا، حکومت بوکھلاگئی پھر وہی لاٹھی چارج، آنسوگیس لیکن لوگ کامونکی تک تھے کہ حکومت کی طاقت جواب دے گئی اور جج بحال ہوگئے،عوامی طاقت کوجھٹلایاجانے لگا، کہا گیا کہ ہم نے محترمہ کی خواہش پوری کردی، اس کا کریڈٹ صدر کو جاتا ہے، خود کو دنیا میں تماشہ بنالیا۔آئے روز اپنی نااہلی کا ثبوت دیاجارہا ہے، امریکہ سے خیرات طلب کرکے اپنے ملک میں شورش پھیلائی جارہی ہے۔

عوام کی برداشت کا امتحان لیا جارہا ہے۔عوام کی برداشت کو کمزوری سمجھاجاتا ہے، عوام بظاہر بے حس نظر آرہی ہے لیکن اپنے اندر غصہ اور نفرت پال رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ غصہ جوالا مکھی کی صورت میں پھٹے اور ذمہ داروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ان کا غصہ اور نفرت وہی فرانس والا نقشہ پیش کرے گا کہ روز گردنیں ماری جائیں، روز کسی نہ کسی چوراہے پر اشرافیہ کی لاشیں جھولتی نظر آئیں۔ کسی دانشور کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں انصاف کرنا بند کردیں تو لوگ خود انصاف کرنا شروع کردیتے ہیں، اگر حکومت عوام پر ظلم وستم شروع کردے تو پھر آئے روز باغی پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی اور ظلم وستم کی چکی میں پسی عوام یہ بھول جاتی ہے کہ وہ کس صوبے، کس فرقے، کس علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔آج بھی بہت سے ہنگامے اور احتجاج نظر آرہے ہیں، بلوچستان سلگ رہا ہے، کلرک، اساتذہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کررہے ہیں، کوئی علاقہ پولیس کے ظلم وستم سے تنگ آکر سڑکوں پر لاشیں رکھ کرسڑک بلاک کردیتا ہے، کوئی دوسالہ بچی کے گٹر میں گرنے پر احتجاج کررہا ہے، کوئی سوات معاملہ پر احتجاج کررہا ہے، کہیں‌ لودشیڈنگ پر احتجاج ہورہا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سب احتجاج مل کر ایک بڑے احتجاج کی صورت اختیار کرلیں اور حکومت کے لئے صورت حال سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
 
Top