غزل

صفی حیدر

محفلین
شب کی بے خوابی مجھ میں باقی ہے
دن کی بے تابی مجھ میں باقی ہے
بجھ گئے ہیں چراغ تاروں کے
شمع یہ کیسی مجھ میں باقی ہے
گو میں سورج کے سنگ چلتا ہوں
رات اک گہری مجھ میں باقی ہے
سب ہی گم ہو گئی ہیں آوازیں
اک صدا روتی مجھ میں باقی ہے
سانس گنتے ہو یہ سوچ کر میری
زندگی کتنی مجھ میں باقی ہے
میرے سب خواب مر گئے لیکن
آس کیوں تیری مجھ میں باقی ہے
تم ہی سوچوں میں بس گئے ہو صفی
بس یہ آزادی مجھ میں باقی ہے
 

صفی حیدر

محفلین
خیالات اچھے معلوم ہوتے ہیں بھیا۔۔۔
لیکن قافیے انکو نہیں کہتے شاید۔۔۔۔۔
خیالات کو پسند کرنے کا شکریہ ۔ اپنی فہم کے مطابق لکھا ہے۔آپ اگر راہنمائی کریں تو آپ کا مشکور ہوں گا ۔:embarrassed1:
https://www.facebook.com/HasilIshaqLahasil/
یہ میرا شاعری کا پیج ہے ۔آپ اگر اس پر موجود میری کاوشوں کو دیکھ کر اپنے اپنی قیمتی رائے سے نوازیں تو آپ کا مشکور ہوں گا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہے۔ یعنی یہ کہ مطلع میں بے خوابی اور بے تابی قافیہ سے لگتا ہے کہ شاعر نے قافیہ "آبی" باندھا ہے یعنی بی اور اُس سے پہلے الف۔ لیکن دیگر اشعار میں قافیہ صرف "ای" ہو گیا ہے جیسے کیسی، گہری، کتنی، تیری وغیرہ۔

اگر تو مطلع کے قافیے تبدیل نہیں کرنے تو پھر ان کے ساتھ صحابی، عنابی، آبی،وہابی، شتابی، شرابی، کبابی، جوابی، قافیے لائیے نہیں تو مطلع کا قافیہ بدل دیں باقی قوافی درست ہو جائیں گے۔
 
میں بذاتِ خود ادنٰی طالبہ ہوں۔۔۔۔
میرا اشارہ اس طرف ہے کہ آپ دیکھئیے ردیف سے پہلے والے حروف ہم آواز نہیں ہیں سوائے خوابی اور تابی کے۔۔۔
کیسی ، گہری، روتی، کتنی ، تیری۔۔۔۔۔۔
یہ قافیے نہیں ہیں۔۔۔
اور قافیے ہی تو چاہیئیں غزل میں
 

صفی حیدر

محفلین
مطلع میں ایطا ہے۔ یعنی یہ کہ مطلع میں بے خوابی اور بے تابی قافیہ سے لگتا ہے کہ شاعر نے قافیہ "آبی" باندھا ہے یعنی بی اور اُس سے پہلے الف۔ لیکن دیگر اشعار میں قافیہ صرف "ای" ہو گیا ہے جیسے کیسی، گہری، کتنی، تیری وغیرہ۔

اگر تو مطلع کے قافیے تبدیل نہیں کرنے تو پھر ان کے ساتھ صحابی، عنابی، آبی،وہابی، شتابی، شرابی، کبابی، جوابی، قافیے لائیے نہیں تو مطلع کا قافیہ بدل دیں باقی قوافی درست ہو جائیں گے۔
بہت بہت شکریہ آپ نے راہنمائی کی ۔یہ میری کم علمی کی وجہ سے ہوا ۔میں آپ کی دی ہوئی راہنمائی کی روشنی میں مطلع کے قافیہ کو بدل دوں گا ۔ آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ بھی میری راہنمائی کرتے رہیے گا ۔آپ کی ہوئی اصلاح اور دی ہوئی راہنمائی میرے لیے بہت قیمتی ہے ۔:bashful:
 

صفی حیدر

محفلین
میں بذاتِ خود ادنٰی طالبہ ہوں۔۔۔۔
میرا اشارہ اس طرف ہے کہ آپ دیکھئیے ردیف سے پہلے والے حروف ہم آواز نہیں ہیں سوائے خوابی اور تابی کے۔۔۔
کیسی ، گہری، روتی، کتنی ، تیری۔۔۔۔۔۔
یہ قافیے نہیں ہیں۔۔۔
اور قافیے ہی تو چاہیئیں غزل میں
آپ نے درست نشاندہی کی ہے ۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی ۔آپ کی رائے کر مطابق درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔امید ہے آپ آئندہ بھی راہنمائی کرتی رہیں گی ۔:bashful:
 

ابن رضا

لائبریرین
جیسا کہ محترم محمد وارث صاحب نے بتایا مطلع کا قافیہ اگر دیکھیں تو بے خوابی اور بے تابی میں اصل لفظ بے خواب اور بے تاب ہیں اس حساب سے ب کو قافیے کا حرفِ روی مانا جائے گا اس لحاظ سے اگلے ابیات کے ہر قافیے میں ب کی تکرار لازم ہے اگر آپ کا مقصد ی کو حرفِ روی بنانا ہے تو مطلع کے ایک مصرع میں قافیہ ایسا لائیں جس کا آخری اصلی حرف ی ہو
 

ابن رضا

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہے۔ یعنی یہ کہ مطلع میں بے خوابی اور بے تابی قافیہ سے لگتا ہے کہ شاعر نے قافیہ "آبی" باندھا ہے یعنی بی اور اُس سے پہلے الف۔ لیکن دیگر اشعار میں قافیہ صرف "ای" ہو گیا ہے جیسے کیسی، گہری، کتنی، تیری وغیرہ۔

اگر تو مطلع کے قافیے تبدیل نہیں کرنے تو پھر ان کے ساتھ صحابی، عنابی، آبی،وہابی، شتابی، شرابی، کبابی، جوابی، قافیے لائیے نہیں تو مطلع کا قافیہ بدل دیں باقی قوافی درست ہو جائیں گے۔
سر ایطا کے حوالے سے تھوڑا اشکال دور فرما دیجیے۔ مطلع میں اعلاِن روی کے بعد اگلے ابیات کے قوافی میں مطابقت نہ ہونا تو اپنی جگہ موجو د ہے ہی مگر میرا اشکال مطلع کے قوافی میں ایطا کے حوالے سے ہے۔

قوافی
بے خوابی بروزن لابی
بے تابی

لفظ کی اصل حالت
خواب (خاب)
تاب

روی ب

ساکن الف ماقبل روی اسے ردف کہا جائے گا کہ حروف علت میں سے ہے

حرکت ماقبل الف فتحہ ہے جو کہ دونوں قوافی میں موجود ہے

ایطا کیوں کر ہے ان قوافی میں؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
سر ایطا کے حوالے سے تھوڑا اشکال دور فرما دیجیے۔ مطلع میں اعلاِن روی کے بعد اگلے ابیات کے قوافی میں مطابقت نہ ہونا تو اپنی جگہ موجو د ہے ہی مگر میرا اشکال مطلع کے قوافی میں ایطا کے حوالے سے ہے۔

قوافی
بے خوابی بروزن لابی
بے تابی

لفظ کی اصل حالت
خواب (خاب)
تاب

روی ب

ساکن الف ماقبل روی الف ہےاسے ردف کہا جائے گا کہ حروف علت میں سے ہے

حرکت ماقبل الف فتحہ جو کہ دونوں موجود ہے

ایطا کیوں کر ہے ان قوافی میں؟
آپ نے درست فرمایا قوافی کا حرف روی بدلا ہے بجائے ایطا کے۔ مجھ سے ہی لکھنے میں غلطی ہو گئی۔
 

صفی حیدر

محفلین
بہت شکریہ سر ۔آپ نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا ۔
جیسا کہ محترم محمد وارث صاحب نے بتایا مطلع کا قافیہ اگر دیکھیں تو بے خوابی اور بے تابی میں اصل لفظ بے خواب اور بے تاب ہیں اس حساب سے ب کو قافیے کا حرفِ روی مانا جائے گا اس لحاظ سے اگلے ابیات کے ہر قافیے میں ب کی تکرار لازم ہے اگر آپ کا مقصد ی کو حرفِ روی بنانا ہے تو مطلع کے ایک مصرع میں قافیہ ایسا لائیں جس کا آخری اصلی حرف ی ہو
بہت شکریہ سر ۔آپ نے پہلے بھی میری راہنمائی کی تھی اور اب بھی میری معلومات میں اضافعہ کیا ۔مجھے قافیہ میں میں حرفِ روی کا کچھ اندازہ تو ہے لیکن اس غزل میں اسے برتنے میں چوک ہو گئی ۔آئندہ اس کا خیال رکھوں گا اور مطلع بھی آپ کی رائے کی روشنی میں تبدیل کر دوں گا ۔سر میرے ساتھ المیہ یہ ہی ہے کہ مجھے اساتذہ سخن کی صحبت نصیب نہیں ہو سکی اس لیے اصلاح کی برکتوں سے محروم ہوں ۔لیکن اب امید ہو چلی ہے کہ اس فورم پر آپ کی راہنمائی سے بہت کچھ سیکھنے اور اپنے فن کو نکھارنے میں مدد ملے گی ۔اپنی آئندہ کی کاوشوں پر آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔ :cute:
 

صفی حیدر

محفلین
سر ایطا کے حوالے سے تھوڑا اشکال دور فرما دیجیے۔ مطلع میں اعلاِن روی کے بعد اگلے ابیات کے قوافی میں مطابقت نہ ہونا تو اپنی جگہ موجو د ہے ہی مگر میرا اشکال مطلع کے قوافی میں ایطا کے حوالے سے ہے۔

قوافی
بے خوابی بروزن لابی
بے تابی

لفظ کی اصل حالت
خواب (خاب)
تاب

روی ب

ساکن الف ماقبل روی اسے ردف کہا جائے گا کہ حروف علت میں سے ہے

حرکت ماقبل الف فتحہ ہے جو کہ دونوں قوافی میں موجود ہے

ایطا کیوں کر ہے ان قوافی میں؟
محترم سر ، حرف روی کا کچھ فہم تو ہے ۔آپ ایطا کے تصور کی کچھ وضاحت کر دیں ۔ ؟ ؟ ۔میرے علم میں اضافعہ ہو گا اور آپ کا شکر گزار ہوں گا ۔:cute:
 
Top