غزل

آئے تھے کہنے حالِ دل بیٹھے ہیں لب سئے ہوئے
نیچی نظر کئے ہوئے اپنا سا منہ لئے ہوئے

چھیڑو نہ ہم کو زاہدو بیٹھے ہیں ہم پئے ہوئے

چاہتے ہو جو لَوٹنا زہد کو تم لئے ہوئے

کیسے گئے تھے شوق سے لینے اس آشنا کو ہم

ویسے کے ویسے آگئے اپنا سا منہ لئے ہوئے

جان سے عزیز کیوں مجھ کو نہ ہوں یہ داغِ دل

ہائے کسی کو کیا خبر کس کے ہیں یہ دئے ہوئے

کہنے کو ہجر ہے مگر دل کی کسی کو کیا خبر

پھرتے ہیں اُس نگار کو پہلو میں ہم لئے ہوئے

ہوگئے زندہ مردہ دل جب یہ سنا کہ وہ آئیں گے

جب یہ سنا نہ آئیں گے مر گئے پھر جئے ہوئے

چاہتے ہیں نہ فاش ہو اُن کو جو مجھ سے ربط ہے

رہتے ہیں سب کے سامنے خود کو جو وہ لئے ہوئے
 
Top