انور شعور غزل ۔ کیا چاہیے نہ تھا یہ کبھی پوچھنا تمھیں ۔ انور شعور

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کیا چاہیے نہ تھا یہ کبھی پوچھنا تمھیں
کیسے ہو تم شعورؔ یہ کیا ہوگیا تمھیں

ماتھا جلا ہوا ہے کڑی دھوپ سے اور آنکھ
کہتی ہے رات رات کا جاگا ہوا تمھیں

کیا اضطراب تھا کہ سکوں چھین لے گیا
کیا انقلاب تھا جو نہ راس آسکا تمھیں

کس سمت سے چلی تھی، کس آنگن سے آئی تھی
بادِ سموم، جس نے پریشاں کیا تمھیں

کیوں گرد گرد ہے یہ قبا جس کے باب میں
تھا ناگوار لمسِ لطیفِ صبا تمھیں

عرصے سے کیوں غزل کوئی شائع نہیں ہوئی
کیوں نشرگاہ سے نہ کسی نے سنا تمھیں

وہ جمگھٹا، وہ بھیڑ، وہ جلسے کہاں گئے
چھوڑا تمھاے چاہنے والوں نے کیا تمھیں

رہتے ہو کیوں اکیلے اکیلے اُداس اُداس
کیا دوستوں سے آنے لگی ہے حیا تمھیں

میں نے تو کوئی دکھ تمھیں ہرگز نہیں دیا
پھر دو جہاں کا کون سا غم کھا گیا تمھیں

میں سامنے ہوں جان ذرا آنکھ اُٹھاؤ
مدت ہوئی ہے دیکھے ہوئے آئنہ تمھیں

انور شعورؔ
 

ظفری

لائبریرین
کیا اضطراب تھا کہ سکوں چھین لے گیا
کیا انقلاب تھا جو نہ راس آسکا تمھیں
بہت خوب ۔۔۔۔ اعلیٰ انتخاب
 

محمداحمد

لائبریرین
Top