انور شعور غزل ۔ مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک ۔ انور شعور

محمداحمد

لائبریرین

غزل

مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک
مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک

دُکانِ دل میں نوادر سجے ہوئے ہیں مگر
یہ وہ جگہ ہے کہ آتے نہیں لُٹیرے تک

مجھے قبول ہیں یہ گردشیں تہہِ دل سے
رہیں جو صرف تیرے بازوؤں کے گھیرے تک

سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو
وہ خواب میں تو پہنچ جائے گا بسیرے تک

چمک دمک میں دکھائی نہیں دیے آنسو
اگرچہ میں نے یہ نگ راہ میں بکھیرے تک

کہاں ہیں اب وہ مسافر نواز بُہتیرے
اُٹھا کے لے گئے خانہ بدوش ڈیرے تک

تھکا ہوا ہوں مگر اس قدر نہیں کہ شعورؔ
لگا سکوں نہ اب اُس کی گلی کے پھیرے تک

انور شعورؔ
 
Top