غزل-یہ ھم جو اپنے ھی مدھم دل کی صدا سے آگے نکل گئے ھیں(احمد فرید)

یہ ھم جو اپنے ھی مدھم دل کی صدا سے آگے نکل گئے ھیں
سماعتیں کھو گئیں ھیں یا پھر ھوا سے آگے نکل گئے ھیں
جلی ھوئی سرد انگلیوں سے صنم کدے کر دئیے ھیں روشن
خدا کے کچھ باکمال بندے خدا سے آگے نکل گئے ھیں
ہم اب کسی کی عظیم چا ہت کے سرخ رستے پر گامزن ھیں
مقام اجر و ثواب گزرا سزا سے آگے نکل گئے ھیں
میرے لیے اب یہ تیرے سجدے یہ تیرے آنسو فضول شے ھیں
مری تباھی کے سلسلے اب دعا سے آگے نکل گئے ھیں
 
Top