غزل: ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھنا ہے سمندر نے ۔ از: نویدظفرکیانی

ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھنا ہے سمندر نے
سفر کا استعارہ بن کے رہنا ہے سمندر نے
مری خوشیوں کے مول اُس نے خریدا ہے نشہ اپنا
مرے ہر چاند کو خود میں ڈبویا ہے سمندر نے
عجب طوفانِ غراں ہے بپا ہرفردِ خانہ میں
اِسی دالان سے جیسے گزرنا ہے سمندر نے
یہ مشتِ خاک نے پوچھا ہے اکثر موج میں آ کر
کوئی طوفان مجھ جیسا بھی دیکھا ہے سمندر نے
میں اپنے آپ سے بچ کر کہیں بھی جا نہیں سکتا
مجھے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے سمندر نے
کوئی باہر نکلتا ہی نہیں اپنے جزیرے سے
اِسی باعث تو اِتنا سر اٹھایا ہے سمندر نے
کسی کا نام چھیدے جا رہا ہوں کس بھروسے پر
مرا ریگِ بدن جب نوچ لینا ہے سمندر نے
اِدھر ہم ہیں گریزاں اپنے موجہء لہو سے بھی
اُدھر گرداب کو سینے پہ لادا ہے سمندر نے
××××××××
نویدظفرکیانی
××××××××
 

فاتح

لائبریرین
غزل کے خیالات اور الفاظ کا استعمال عمدہ ہے لیکن۔۔۔ قوافی اول تا آخر تمام ہی غلط ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صرف مطلع کا قافیہ تبدیل کر کے کوئی ایسا قافیہ لے آئیں جس میں نون کی قید نہ ہو تو ایطائے جلی کا عیب ختم ہو جائے گا۔ جیسے دوسرے شعر میں ڈبویا یا دیگر ہیں ان میں سے کسی کو مطلع میں لے آئیں۔
 
صرف مطلع کا قافیہ تبدیل کر کے کوئی ایسا قافیہ لے آئیں جس میں نون کی قید نہ ہو تو ایطائے جلی کا عیب ختم ہو جائے گا۔ جیسے دوسرے شعر میں ڈبویا یا دیگر ہیں ان میں سے کسی کو مطلع میں لے آئیں۔

لیکن وارث بھائی کیا حقیقت میں یہ صحیح ہوگا؟ میرے علم کے مطابق زوائد کو نکال کر اگر روی میں تغیر آئے تو قافیہ دردست نہ ہوگا۔
یہی ایطائے جلی ہے۔
مثلاً رکھنا کا قافیہ رہنا بھی درست نہیں ہے۔
رہنا اور کہنا تو درست ہوسکتا ہے لیکن رہنا کے ساتھ لینا پینا سونا رکھنا وغیرہ میں کوئی قافیہ بھی ہو ایطا ہوگا۔
رہنا کا کہنا یا سہنا، لینا کا دینا، پینا کا سینا، سونا کا بونا، رکھنا کا ڈھکنا درست ہوگا کے روی میں زائد حروف کو نکال کر بھی نقصان نہ ہوگا۔ یعنی ”نا“ کوو نکال دیا جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑےگا۔
 
صرف مطلع کا قافیہ تبدیل کر کے کوئی ایسا قافیہ لے آئیں جس میں نون کی قید نہ ہو تو ایطائے جلی کا عیب ختم ہو جائے گا۔ جیسے دوسرے شعر میں ڈبویا یا دیگر ہیں ان میں سے کسی کو مطلع میں لے آئیں۔

ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھا ہے سمندر نے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن وارث بھائی کیا حقیقت میں یہ صحیح ہوگا؟ میرے علم کے مطابق زوائد کو نکال کر اگر روی میں تغیر آئے تو قافیہ دردست نہ ہوگا۔
یہی ایطائے جلی ہے۔
مثلاً رکھنا کا قافیہ رہنا بھی درست نہیں ہے۔
رہنا اور کہنا تو درست ہوسکتا ہے لیکن رہنا کے ساتھ لینا پینا سونا رکھنا وغیرہ میں کوئی قافیہ بھی ہو ایطا ہوگا۔
رہنا کا کہنا یا سہنا، لینا کا دینا، پینا کا سینا، سونا کا بونا، رکھنا کا ڈھکنا درست ہوگا کے روی میں زائد حروف کو نکال کر بھی نقصان نہ ہوگا۔ یعنی ”نا“ کوو نکال دیا جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑےگا۔

اس غزل میں اگر مطلع میں نون کی قید اڑا کر کوئی ایسا قافیہ لایا جائے کہ دونوں قافیوں میں حرفِ آخری روی الف ہو جائے تو قافیے درست ہو جائیں گے۔

مثلاً ناصر کاظمی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے

پنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں

تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں

مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں

میرا دیا جلائے کون
میں تیرا خالی کمرہ ہوں

تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں

اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں

آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں

اب رہتا اور آئینہ اور رستہ اور پیاسا اور جھونکا وغیرہ وغیرہ صرف اور صرف ایک اصول پر قوافی ہوئے ہیں کہ ان میں حرفِ روی الف ہے اور قافیہ آ ہے یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز۔ جیسے رہتا میں تا، کمرہ میں را، جھونکا میں کا وغیرہ۔

بعینہ یہی صورت اس غزل میں ہو سکتی ہے۔
 
اس غزل میں اگر مطلع میں نون کی قید اڑا کر کوئی ایسا قافیہ لایا جائے کہ دونوں قافیوں میں حرفِ آخری روی الف ہو جائے تو قافیے درست ہو جائیں گے۔

مثلاً ناصر کاظمی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے

پنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں

تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں

مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں

میرا دیا جلائے کون
میں تیرا خالی کمرہ ہوں

تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں

اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں

آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں

اب رہتا اور آئینہ اور رستہ اور پیاسا اور جھونکا وغیرہ وغیرہ صرف اور صرف ایک اصول پر قوافی ہوئے ہیں کہ ان میں حرفِ روی الف ہے اور قافیہ آ ہے یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز۔ جیسے رہتا میں تا، کمرہ میں را، جھونکا میں کا وغیرہ۔

بعینہ یہی صورت اس غزل میں ہو سکتی ہے۔


بہت درست وارث بھائی۔ مثال سے مجھے کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ اگر ایک قافیہ اصلی حروف پر ہو تو ایک بیت میں دوسرا حروفِ زائد کے ساتھ ہم قافیہ آسکتا ہے۔ مثال میں کے طور پر لفظ ”جیسا“ میں کوئی حرف زائد نہیں ہے کیوں کہ اگر اس میں کچھ بھی حذف کیا جائے تو لفظ بے معنی ہو جائےگا۔ اور ”رہتا“ میں زائد حروف موجود ہیں۔ لیکن اس میں زائد حروف کی تکرار نہیں سو قافیہ درست ہوا۔
اسی طرح حسرت کی ایک غزل کا مطلع:

اربابِ اشتیاق سے پردا نہ چاہئے
اے حسنِ خود نما تجھے ایسا نہ چاہئے

اس کا قافیہ یوں بھی باندھا ہے جس میں حروف زائد موجود ہیں:
دل لے کے ہم سے آنکھ چرانا نہ چاہئے

اور مقطع میں:
اس حسنِ بے مثال کو چھپنا نہ چاہئے۔

آپ کی دی گئی مثال میں بھی حرفِ زائد والے قافیے ایسے قافیہ پر باندھے ہیں جس میں خود کوئی حرفِ زائد نہیں ہے۔ اور ایسی مثالیں تقریباً سبھی اساتذہ کے کلام میں مل جائینگی۔
لیکن میرے خیال میں ”رکھ“ کا قافیہ ”رہ“ کرنا شاید درست نہیں اور میرے علم میں اساتذہ کا کوئی کلام ایسا اب تک نہیں۔ اور بہر حال ایطائے جلی جو ہے وہ زائد حروف کی تکرار کا نام ہی ہے۔
ہاں اگر مطلع میں اصلی لفظ کوئی لے آیا جائے تو غزل درست ہو جائے۔ جیسے
برپا، شکوہ، دریا، تمنا وغیرہ۔

تصدیق یا تردید کا منتظر۔
 
Top